للن ترنگی نے کلن بجرنگی سے پوچھا یار یہ تمہارے مٹی کے
مادھو کو کیا ہوگا؟
کلن بدک کر بولا کون ‘مٹی کا مادھو’ ؟ میں تو اس نام کے کسی شخص کو نہیں
جانتا۔
ارے کیا تم سنگھ کے عظیم دانشور رام مادھو کو بھول گئے ؟
ہاں تو ایسے بولو! تم نے تو انہیں مٹی کا مادھو بنا دیا۔
ارے بھائی میں نے نہیں ۔ انہوں نے خود اپنے آپ کو مٹی کا مادھو ثابت کردیا۔
لیکن یہ مٹی کا مادھو کیا ہوتاہے؟
یہ ایک محاورہ ہے جس کے معنی ٰ عقل سے عاری ’مہابیوقوف‘ کے ہوتے ہیں ۔ یعنی
جس کے ہر کام سے حماقت ٹپکے ۔
کلن ہنس کر بولا یہ تو مجھے پتہ ہے لیکن انہوں کوئی تازہ حماقت کردی کیا؟
جی ہاں ، انہوں نے یہ انکشاف کیا کہ مودی جی کی قیادت میں ہندوستان اپنا ۷۵
واں اور ۱۰۰واں یوم آزادی منائے گا ۔
اس میں کیا شک ہے ؟ میں تو کہتا ہوں کہ ۱۰۰۰واں یوم آزادی بھی مودی کی
قیادت میں ہی منایا جائے گا ۔
بہت خوب توگویا اب قیامت تک انہیں کا اقتدار رہے گا!
بے شک! اب ان کے سامنے کوئی رہنما ہی نہیں بچا ہے ۔ اس لیے انہیں کی حکومت
رہے گی۔
لیکن اس وقت کیا وہ حیات رہیں گے؟ ۲۰۴۷ میں ان کی عمر ۹۷ سال کی ہوجائے گی
۔تو کیا وہ تب تک کرسی سے چپکے رہیں گے؟
اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ مہاتیرمحمد کی عمر بھی تو ۹۰ سال سے زیادہ ہے ۔
جی ہاں لیکن مہاتیر محمد نے اپنے سینئر رہنماوں کا کانٹا نکالنے کے لیے ۷۵
کی قید لگا کر مارگ درشک منڈل نہیں بنایا ۔
کلن پھنس گیا تو پینترا بدل کربولا چھوڑوبھائی تم تو رام مادھو کو چھوڑ
مودی کے پیچھے پڑ گئے ۔
للن نے کہا ارے بھائی رام مادھو کا بیان چونکہ مودی سے متعلق ہے اس لیے ان
کا ذکر تو آئے گاہی۔
ہاں ٹھیک ہے لیکن اس بیچارے رام مادھو کو نظر انداز کردو وہ وزارت سے
محرومی کے غم میں اول فول بک رہا ہے ۔
ہوسکتا ہے! لیکن سمجھ میں نہیں آتا کہ اس پڑھے لکھے آدمی کو مودی جی نے
کوئی وزارت کیوں نہیں تھمائی۔
کلن بولا اس کی دو بنیادی وجوہات ہیں ۔
للن نے حیرت پوچھا ۔ اچھا وہ کیا؟
پہلی وجہ تو یہ کہ رام مادھو کے صوبے آندھرا پردیش میں بی جے پی کے ووٹ
کاتناسب ۷ سے گھٹ کر ایک فیصد پر آگیا۔
اچھا واقعی! لیکن یہ تو ذرائع ابلاغ میں آیا ہی نہیں۔ ہرکوئی یہ بتاتا رہا
کہ بنگال میں بی جے پی کے ووٹ کا تناسب کتنا بڑھ کر ۴۰ ہوگیا۔
جی ہاں وہ تو میڈیا کی مجبوری ہے۔ وہ بیچارے جس کا کھا تے ہیں اس کی گاتے
ہیں ۔
للن نے پوچھا لیکن رام مادھو کی دوسری غلطی کیا تھی ؟
وہ غلطی تو نہیں بلکہ بہت بڑی حماقت تھی ۔ رام مادھو نے پچھلے مہینے ایک
نہایت احمقانہ انٹرویودے دیا تھا ۔
اچھا اس میں بھی کوئی پیش گوئی کی گئی تھی کیا؟
جی ہاں انہوں نے کہا تھا اگر بی جے پی ۲۷۱ نسشتوں پر کامیاب ہوجائے تو
غنیمت ہے۔ہمیں سیاسی جماعت کے طور یاد رکھنا چاہیے کہ ہر حکومت کے خلاف
ناراضگی کا اظہار ووٹ میں کمی کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے لیکن این ڈی اے
حکومت بنا لے گی ۔
اچھا تو پھر کیا ہوا؟ اس سے تو بی جے پی میں بہت بڑا زلزلہ آگیا ہوگا ؟
جی ہاں نتن گڈکری سمیت بی جے پی رہنماوں نے رام مادھو پر تنقید کی لیکن
ہماری کالی بھیڑ شیوسینا نے تائید کردی۔
اچھا وہ کیسے؟ للن نے سوال کیا
ارے بھائی وہ سینا کے راجیہ سبھا رکن ہیں نا سنجئے راوت انہوں نے کہا کہ
آئندہ بی جے پی حکومت کا حلیف جماعتوں پر انحصار بڑھ جائے گا ۔
اوہو لیکن انتخابی نتائج نے تو ان سارے سپنوں کو چکنا چور کردیا ۔
ارے بھائی کے بعد تو ممتا سے مایا تک اور کے سی آر سے نتیش تک سارے لوگ
وزیراعظم بننے کا کواب دیکھنے لگے ۔
تب تو ماننا پڑے گا کہ انتخابی مہم کے دوران سرزد ہونے والی اس حماقت سے بی
جے پی کا فائدہ ہوگیا ۔
لیکن مودی اور شاہ ایسی غلطی کو معاف نہیں کرتے۔ اس کا کفارہ ادا کرنے کے
لیے رام مادھو کو اس سے بڑااحمقانہ دعویٰ کرنا پڑا ۔
لیکن کلن ایک حماقت کے جواب میں اس سے بڑی بیوقوفی ؟ بات سمجھ میں نہیں
آئی ؟
کیا تم نے نہیں سنا جس طرح لوہا لوہے کو کاٹتاہے اسی طرح حماقت بیوقوفی کو
کاٹتی ہے ۔
للن سر ہلا کر بولا پہلے تو نہیں سنا تھا لیکن اب سنا اور سمجھ بھی گیا۔
کیا سمجھے ہمیں بھی تو پتہ چلے۔ کلن نے ہنس کر سوال کیا۔
یہی کہ میرا دوست کلن مٹی کے نہیں سونے کے مادھو ہے ۔ جس کی باتیں خالص
سونے کی طرح درست ہوتی ہیں ۔
|