یہ اُن دنوں کی بات ہے جب ہم مرورایام کے ہاتھوں ہارے
ہوئے سیاستدان کی طرح بے کار پڑے تھے ، کہ اندھیرے میں ایک روشنی کی کرن
نظر آئی۔۔اور وہ تھی علم کی کرن۔۔خیر وقت گزارنے کے لیے تعلیم سے زیادہ
میٹھا اور ذائقے دارمشغلہ کوئی نہیں۔۔۔حالتِ واقع کچھ یوں ہے ۔کہ ایک
فاصلاتی تعلیم والی یونیورسٹی کو کچھ ،ایم۔فل پرگرامز میں داخلے درکار
تھے۔۔۔۔اس یونیورسٹی کے ،سی۔ٹی ، پی۔ٹی۔سی اور باقی چھوٹے پروگرامز اور اُن
کے امتحانی ہال دیکھ کر کچھ شوخ و گستاخ احباب کہتے ہیں کہ اس یونیورسٹی کا
موٹو ہے ۔۔۔تعلیم سے فاصلہ ضروری ہے!۔۔۔ شاید وہ لوگ ڈسٹینس ایجوکیشن کا
رواں ترجمہ ایسے ہی کرتے ہوں،کیونکہ انگریزوں اور انگریزی کو سمجھنا ہر ایک
کےبس کا روگ نہیں۔!۔۔ پھر کیا تھا ڈگریوں سے گرد جھاڑی اوریونیورسٹی کی طرف
روانہ کر دیں، وہ بھی کورئیر سروس کے ذریعے ۔۔۔ کیونکہ اپنے پاکستان پوسٹ
کے ہاتھوں ساری زندگی ہماری جو درگت بنی ہے اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔اکثر
انٹرویو کے کال لیٹرز، انٹرویو کے پانچ دس دن بعد ہی ملے ہیں۔۔۔ایک دفعہ
توڈاکیا امتحانی رولنمبر پڑوسیوں کے پانچ سالہ لاڈلے کے ہاتھوں میں تھماگیا
جو میرے گھر تک آتےآتےآخری تین پرچے چوس چکا تھا اور ہم کبھی اُس رولنمبر
سلپ اور کبھی رولنمبر سلپ کو بطورِ چوسنی استعمال کرنے والےکا منہ تکتے رہ
گئے۔۔۔لیکن خوفِ فسادِ خلق سے چُپ رہے کچھ نہ کہا۔۔!۔
پھر اس یونیورسٹی نے انتہائی مشکل ٹیسٹ لیے جس میں ایک جمِ غفیر نے شرکت کی
مگرپاس چند مخصوص طلباء نے کیے۔۔ہم بھی اُردو اور ایجوکیشن میں غلطی یا غلط
فہمی کی وجہ سے پاس قرار دیے گئے۔ ۔ہم نے اُردو پر ایجوکیشن کو ترجیح دی
۔۔۔اور اُردو کے ساتھ اپنے سگے رشتے داروں کاسا سلوک کیا۔۔۔یوسفی صاحب
نےلکھا ہے کہ دشمنوں کے حسبِ عداوت تین درجے ہوتے ہیں ،دشمن ، جانی دشمن
اور رشتہ دار۔۔اور ہم نے اُردو کورشتے دار سے بڑھ کر سگے رشتے دارکا درجہ
دیایعنی اگنور کر دیا۔۔۔لیکن اس منعقد ہونے والے ٹیسٹ کے سٹینڈرڈ سے زیادہ
اُس کا چیکنگ سٹینڈرڈمشکوک لگا ۔۔۔کیونکہ سینکڑوں ہزاروں خواہش مندطلباء
میں سے ہمیں چُن لیاگیا۔۔۔ ٹیسٹ میں کیا تھا انگریزی فقروں کے درمیان فل
سٹاپ ، کوما،اور سیمی کولن لگانے تھے ۔۔۔جو میرا ربّ بہتر جانتا ہے کہ اگر
کسی کو لگانے کا الف ب بھی پتہ ہوں۔۔۔بس فقرہ پڑھتا اور جہاں سانس رُکنے
لگتی سیمی کولن ڈالتا، جہاں تھوڑی زیادہ رُکتی کوما ،لگا دیتا اور ہوا
پھیپھڑوں میں ختم ہونے لگتی تو فل سٹاپ لگا لیتا۔۔۔ ان ہی سانس کی مشقوں سے
یونیورسٹی کا ٹیسٹ پاس ہوگیا۔۔۔۔اور انٹرویو کی کال موصول ہوئی۔
بیگم کے سامنے اللہ تعالیٰ نے ہماری لاج رکھ لی، ورنہ پھر نالائقی کے طعنے
مہینوں سننے پڑتے۔۔۔۔انٹرویو والے دن ہم غلط گیٹ سے یونیورسٹی میں داخل
ہوئے اور پورے پینتالیس منٹ تک مختلف ڈیپارٹمنٹس میں خوار ہونے کے بعد اپنے
اکیڈیمکس بلاک پہنچ گئے۔۔۔یہ عالیشان عمارت تھی سیلفی اور تصاویر کے لیے ،
کیونکہ ہم جس علاقے میں رہتے ہیں وہاں اتنی اونچی عمارت جھوٹ ہی ہوسکتی
ہے۔۔۔ ہم نے بار ہا اپنی پشاوری واسکٹ کی جیب سے اپنا ٹچ موبائل نکالا جسے
کچھ ذہین اور انگریزی دان اینڈرائیڈ فون بھی کہتے ہیں اور کسی کو تھمانے کے
چکر میں تھا، کہ چند ایک تصاویر کھینچ لے۔۔ لیکن ہر ایک چہرے پر ڈونٹ ڈسٹرب
کا بورڈ لگائے ادھر اُدھر پھر رہا تھا۔۔۔میرے اردگرد کافی رش تھا لیکن سب
لوگ اکیلےہی لگ رہے تھے۔۔۔ ہمارے گاؤں میں تو کوئی مہمان نظر آجائے تو گاؤں
والے باتیں پوچھ پوچھ کر پاگل کر دیتے ہیں، لیکن شہروں میں ہر ایک بندہ
اپنے آپ سے ناراض اور منہ لٹکا کر روبوٹس کی طرح آس پاس سے انجان حرکت کرتا
ہے۔۔۔ نہ کوئی مونس نہ غم خوار۔۔۔البتہ ہمارے پاس سیلفی کا آپشن موجودتھا
لیکن اتنے قریب سے لی ہوئی دستی سیلفی میں ایک تو یہ قباحت ہے کہ صرف صاحبِ
تصویرکے منہ کے سوا تصویر میں کچھ نہیں ہوتا اور جس لمبی چھڑی پر موبائل
فون اٹکا کرلوگ منہ گول کرکے منظراور بیک گراؤنڈ قید کرتے ہیں وہ آج تک ہم
نے خریدنے کی زحمت نہیں کی ۔۔ میں ویسے بھی سلفی کےسخت خلاف ہوں، شاید
حسینوں کی اچھی آتی ہو لیکن ہماری سیلفی پر ہمیں ہر مرتبہ خود ہی شرمندہ
ہونا پڑتا ہے۔۔۔ اس دن مجھے سب سے زیادہ دُکھ اس عمارت کے ساتھ تصویر نہ
لینے کا تھا۔۔۔ کیونکہ مجھے پتہ تھا کہ اب یونیورسٹی والے اتنے بھی پاگل
نہیں کہ غلطی سے ٹیسٹ میں بھی پاس کردیا اور اب انٹر ویو بھی کلیر
کروادیں۔۔۔۔کیونکہ باپ دادا بلکہ سات پشتوں تک خاندان میں نہ کوئی پروفیسر
رہا اور نہ ، وی۔سی۔۔۔
انٹرویوکیوں اور کیسے پاس ہو تا۔۔؟۔۔ اور ہمیں تصویرکھینچنے کا پھر کہاں
موقع ملتا؟۔۔۔ کیونکہ ہم انٹرویو والے روز اتنے نروس ہوتے ہیں ،جتنی متوقع
مائیں لیبر روم جاتے ہوئے بھی نہیں ہوتیں ۔۔۔شعراء کو وحشت میں ہر اِک نقشہ
اُلٹا نظر آتا ہےاور ہمیں انٹرویو میں! ۔۔۔ہاں مجنون اور لیلٰی کا فرق
کرسکتےہیں،اگر لیلیٰ نے ہیوی میک اپ کیا ہو۔۔۔ انٹرویو والے دن ہمیں ایک
ہجوم کی صورت میں ایک اعلٰی سجے سجائےاے سی لگے کمرے میں بٹھایا گیا
۔۔۔جہاں خواتین و حضرات چپڑچپڑانگریزی بول رہے تھے۔۔۔چند ایک خواتین تو
امریکی اور برطانوی ایکسینٹ کے لیے مُنہ پولو کی ہول والی گولی کی طرح بنا
کر الفاظ پھینک رہیں تھیں۔۔۔جن میں کثرت ،نو،یس،واؤ اور گریٹ الفاظ کی
تھی۔۔۔مجھے آج تک یہ سمجھ نہیں آیا کہ جب سامنے والا بھی اُردو سمجھ رہا ہے
اور بولنے والا بھی بول سکتا ہے تو کمیونیکیشن کے لیے انگریزی الفاظ کی کیا
ضرورت رہتی ہے؟۔۔۔ کیا پاکستان میں خود کو تعلیم یافتہ ظاہر کرنے کے لیے
چند فقروں کے بعد انگریزی کے الفاظ کا استعمال لازمی ہے۔۔۔؟ ورنہ سامنے
والا بہت ہلکے میں بات کو لیتا ہے؟۔۔۔۔خیر کچھ حضرات نےاس کمرے میں اتنی
ٹائیٹ پینٹ اور اتنی چھوٹی شرٹ پہنی تھیں کہ ،صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے
بھی نہیں والی سیچوئیشن بن گئی تھی،جبکہ چند ایک میری طرح شلوار قمیص میں
تھے۔۔۔ پھر انٹر ویو شروع ہوا اورہم ہرانٹر ویو دیکر، واپس آنے والے پر پل
پڑتے، اور پوچھے گئے سوالات کی بابت دریافت کرتے ۔ پھر جلدی جلدی اپنے
استادِ محترم گوگل رحمتہ اللہ علیہ سے پوچھتے۔سوالات کچھ یوں تھے۔۔۔
difference between syllabus and curriculum, formal, informal non formal,
teacher and trainer,taxonomy etc
خیر استادِ محترم حضرتِ گوگل نے تشفی کردی اور ہم علم سے بھرے بیٹھ
گئے۔۔۔۔لیکن جوں جوں رول نمبر نزدیک آتے گئے علم کا دریا پھر سےسوکھتا گیا
۔ اور بار بار اُستادِ محترم گوگل ؒ کو زحمت دینی پڑی ،حتٰی کہ ہمارا نام
پکارا گیا۔۔۔کمرے کےاندر ڈرتے جھجھکتے داخل ہوئے تو پینل گزشتہ محترمہ پر
تبصرہ کر رہا تھا کہ موصوفہ، ہو بہوبینظیر بھٹو مرحومہ کی کاربن کاپی لگ
رہی تھی۔۔۔ اُس کی تصویربمعہ فارم کے پینل میں ایک دوسرے کو دکھائی جانے
لگی۔۔اور مسکراہٹیں ایک دوسرے تک پاس ہونے لگیں۔ ہم تو کھڑے کھڑے ہی
مُسکرادیے،کیونکہ ایک خیر خواہ نے بتایا تھا کہ انٹرویو میں ہلکی مسکراہٹ
ہونٹوں پہ ہونا لازمی ہے، حالانکہ بینظربھٹو پارٹ ٹوکی تصویر اور فارم کی
ہماری جانب بیک سائیڈ تھی، لیکن دیکھنے کا کافی اشتیاق ہوا،مگر بے سود۔
انٹرویو کےاس پینل میں ایک بڑی مس( عہدے کے لحاظ سے) ،تین عدد اُس سے چھوٹی
مسیں اور ایک عدد پروفیسر صاحب ہمارے منتظر تھے۔۔پروفیسر صاحب عمر میں سب
سے بڑے لگے کیونکہ عورتوں کی عمر کے متعلق میری تمام پیشن گوئیاں رد کردی
جاتی ہیں، خواہ اپنی طرف سے پانچ سال کم ہی بتا دوں کیونکہ عمر بھر زن
شناسی سے محروم رہا۔۔۔۔۔خیر ایک خالی کرسی یا فرشی صوفہ (جس پر بیٹھنے کے
بعد اپنا آپ بہت چھوٹا لگنے لگا) پر بیٹھنے کادو چشمی اشارہ بڑی مِس کی طرف
سے کیا گیا۔۔ حالانکہ ہم شریف ہیں (جس میں حالات اور علاقے کا زیادہ عمل
دخل ہے)، لیکن یک چشمی اور دو چشمی اشارے سمجھ لیتے ہیں ،اس لیےعین اپنے
لیے مخصوص جگہ پر بیٹھ گئے۔۔۔۔۔پروفیسر صاحب نے میرے تعلیمی اخراجات کی
رسیدوں میں ہاتھ مارنے شروع کردے جسے بانٹنے والے ادارے ڈگریاں کہتے ہیں
اور اُس پر نمبر بھی درج ہوتے ہیں۔۔۔یہ ڈگریاں جعلی بھی ملتی ہیں لیکن صرف
مخصوص لوگوں کو۔۔۔۔اُسی پینل میں بیٹھی ایک میڈم نے (جو بعد میں مس ۔س۔)کے
نام سے شناخت کی گئی نے فوراََ انگریزی میں سوال داغا۔۔۔۔ریسرچ کی
ہے؟(حالانکہ اُس وقت ہماری پوزیشن انگریزی تو چھوڑیں اپنی مادری پشتو میں
بھی بات کرنے جوگے نہیں تھی)۔۔۔ہم نے جی!۔۔۔کا لفظ بمشکل منہ سے نہایت پتلی
سُر میں نکلا، کیونکہ گلاسوکھ گیا تھا اورحلق میں کانٹے سے چُبھ رہے
تھے۔۔۔۔کس ٹاپک پر ریسرچ کی ہے؟۔۔۔۔اب ہم کیا کہتے کہ میرے علاقے میں ریسرچ
کی نہیں جاتی کروائی جاتی ہے۔۔۔دوتین ہزار خرچ کرو لکھا لکھایا مل جاتا
ہے۔۔۔ہمیں تو ٹاپک بھی نہیں تھا پتہ ۔۔۔اس لیے پروفیسر صاحب کے ہاتھ سے
معذرت کے ساتھ اپنی ریسرچ لی اور اُس کا ٹائیٹل پیج مس ۔س۔ کو پڑھ کر
سُنایا۔۔۔۔۔دوسری میڈم ۔ت۔ نے سوال جڑدیا۔۔۔اس کی پاپولیشن کیا تھی۔۔۔ ہم
ہکا بکاہی رہ گئے کیونکہ یہ نام پہلی مرتبہ ریسرچ کے ضمن میں سُنا تھا،ورنہ
پاپولیشن تو پاکستان کی آجکل کنٹرول سے باہر بتا رہے ہیں، اور قابل اذہان
اسے تمام پریشانیوں کی جڑبھی سمجھتے ہیں ،لیکن خاندانی منصوبہ بندی والے
خاندانی منصوبہ شکنی والوں کو نصیحت کے سوا اورکتنا روک سکتے ہیں۔۔میں صرف
سوری ہی کہہ سکا جو انگریزی میں ہی کہاتھا(شاید)۔ پھرہنس مُکھ بڑی میڈم
جسکی آنکھیں مسکراتی ہیں میڈم ۔م۔ نے، سوال پوچھا آپ کی لیمیٹیشن اور ڈی
لیمیٹیشن کیا تھیں۔۔۔۔ ہم کوتو صرف اپنی لیمیٹیشن کا پتہ تھا ۔۔۔کہ اپنی حد
میں رہنا چاہیے اور صنفِ نازک سے زیادہ شوخی نہیں کرنی چاہیے ۔۔۔۔لیکن یہ
ڈی لیمیٹیشن کیا تھی اس بَلا کا نام بھی ان ہی کی مُنہ زبانی سُنا۔۔۔پھر
مُسکراتی آنکھوں والی میڈم نے میڈیم بدلا اور اُردو میں اُتر آئی۔انگریزی
میں تو ہم باالکل خشکی پر تھے۔۔یا یوں کہہ لیں کہ صحرائے تھر میں کھڑے تھے
لیکن جب میڈم۔م۔ اُردو میں اُتری تو ہمیں بھی گھٹنے گھٹنے اُردو آنے لگی۔۔۔
اور پھر ہم بھی کُھل گئے۔۔۔۔آخر میں میری تعلیمی رسیدیں چیک کرنے کے بعد
پرفیسر صاحب متوجہ ہوئے ۔۔۔۔آپ کی اس تھیسس کاپی پر نہ سپروائزر کے دستخط
ہیں اور نہ ایگزامینرکے۔۔۔۔مجھے بھی حیرت ہوئی کہ کیوں نہیں ہیں۔۔۔لیکن آج
ہی پتہ چلا تھا کہ کوئی ان پر دستخط بھی کرتاہے۔۔۔اور ہم نے اچھا اس انداز
میں کہا کہ مُنہ ہی سوالیہ نشان بن گیا!۔۔۔اللہ بھلا کرے ہنستی آنکھوں والی
میڈم کا کہ میری گردن اس پینل سے چُڑائی ۔۔۔۔اور باعزت رُخصت کر دیا
۔۔۔۔شاید۔۔۔میرے بعد بھی پینل ہنسا ہوگا ۔۔۔میری شکل پہ یا عقل پہ، لیکن
میں رہا ہوگیا تھا انٹرویو سے اور ہاں انٹرویو دینے کے بعدمیرا کانفیڈینس
لیول کئی ہفتوں تک ساتھویں آسمان پر رہتا ہے!۔۔۔اس لیے مسکراتے چہرےاور
چھاتی چوڑی کرکے کمرے سے نکلا جس سے باہر والوں کو یہی تاثر گیا کہ کوئی
تیر مار لیا ہے۔۔اس کوچے سے نکلنے لگا تو باقی طلباء نے گھیر لیا اور سوال
داغنے لگے۔ ۔۔۔۔ میں نے صرف اتنا کہا سب آوٹ آف کورس تھا۔۔۔اورمسکراتا ہوا
چلتا بنا۔
گھر میں بہت سے بہانے بنائے کہ سب کچھ آؤٹ آف کورس تھا ،شاید مجھے فیل کرنے
کی یونیورسٹی سازش کر رہی تھی۔۔۔۔یونیورسٹی والے کسی اپنے چہیتے کو لیں
گے۔۔۔۔ سفارش کا زمانہ ہے۔۔۔۔نظام ہی کرپٹ ہے۔۔۔ اور بہت سے ایسے بہانے جس
کے بعد گھر والے یقین کر لیتے ہیں کہ ہمارے ارسطو کی اس ملک میں قدر نہیں
۔۔۔اگر امریکہ میں پیدا ہوتا تو جارچ واشنگٹن ہوتا۔۔یا چائنہ میں ماؤزے تنگ
۔۔۔سب گھر والوں نے باجماعت اس نظام کو کوسا اور بُرا بھلا کہا۔۔۔لیکن
شومئی قسمت تین ہفتے بعد میسیج مِلا کہ آپ سلیکٹ ہوگئے ہیں ،جلد از جلد
مطلوبہ رقم جمع کر دیں ورنہ ہم ویٹنگ لسٹ سے کو ئی قابل بندہ اُٹھا لیں
گے۔۔۔۔یہ آخر بات جو درحقیقت دھمکی تھی سائلینٹ تھی جس طرح انگریزی چُھری
میں ۔کے۔ سائلینٹ ہوتا ہے۔۔۔گھر والوں نے اس داخلے کو حق کی فتح اور سر
بلندی قررار دیا، اور معاشرے میں انقلاب کی پہلی سیڑھی گردانا۔کسی نے پی ٹی
آئی حکومت کے پلے باندھا( حالانکہ اُس وقت صرف کے پی کے میں اس پارٹی کی
حکومت تھی،اور موجودہ وزیر اعظم صاحب کافی اچھی اچھی باتیں کرتا تھا) تو
کسی نے اسے غیبی ہاتھ کا کرشمہ کہا۔۔ماں جی نے اسے ہماری قابلیت پر دال
سمجھااور والدِ محترم نے ہماری پرسنلٹی اور ذہانت سے انٹرویو پینل کی
مرعوبیت کا نتیجہ۔۔۔لیکن میرا ذہن چکرا گیا تھا ۔۔۔کہ کیا کوئی ادارہ اتنا
بھی لاپرواہ ہوسکتا ہے۔۔۔کہ بار بار غلطی کرکے بندے سلیکٹ کرے۔۔۔لیکن ،ہم
چُپ رہے کچھ نہ کہا منظور تھا پردہ ترا۔۔۔۔۔۔ہم نے مطلوبہ رقم جلدی جلدی
جمع کر دی اور چند دن بعد ورکشاپ کا بُلاوا آگیا۔۔۔۔
جب ہم رُخصت ہونے لگے ، تو اپنا خیال رکھنے کے علاوہ ، ہماری شریکِ حیات نے
کچھ اس پیرائے اور غیر محسوس طریقے سے بوستانِ سعدی کھولی۔۔۔۔۔ کھانا وقت
پر کھانا۔۔۔اپنی پڑھائی پر توجہ دینا۔۔ بڑے شہروں کے حالات خراب ہیں اور
یونیورسٹیاں تو۔۔۔۔خیرکسی سے دوستی وستی مت کرنا۔۔۔۔صنف نازک سے حد تہذیب
فاصلہ رکھنا۔۔۔۔ہر کسی سے فری ہونا اچھی بات نہیں۔۔۔۔ ہنسی مذاق گھر میں
اچھا ہوتا ہے، اگر کلاس مخلوط ہے تو اللہ سے ڈرنا ۔۔۔۔اور پھر اپنے ایم اے
اسلامیات کے زور سے شرعی سزاؤں اور اسلامی حدوداور تعزیرات، فقہ اور اصولِ
فقہ سمیت بیان کرنے کے بعد ڈبڈبائی آنکھوں سے کہا۔۔۔۔۔میری باتوں کو میراشک
نہ سمجھنا ۔۔۔مطلوب اللہ تعالٰی کے احکامات کی یاد دہانی تھی اور کچھ
نہیں۔۔۔۔ اور ہم نے نہ چاہتے ہوئے بھی شریف رہنے کے وعدے کر کےاسلام آبا د
کا رستہ لیا۔۔۔۔۔
اسلام آباد پہنچنے کے بعد ہاسٹل میں ایک عدد بیڈ کی بکنگ کرکے اپنے ایک
دوست کے ساتھ اسلام آباد کی سیر اور اُس کے گھرڈنر کے لیے نکل گیا۔۔۔۔واپسی
پر کچھ پُرانے اور اس چکی کے پسے ہوئے طلباء سے ملاقات ہوئی ،جو فیل در فیل
تھے یا ورکشاپ مِس کرگئے تھے۔۔۔اور کل کے ورکشاپ کی کوارڈینیٹر محترمہ ۔ح۔
صاحبہ کی سخت گیری اور اصول پسندی کے شاکی تھے۔۔۔کوئی اسائمنٹ کی سخت چیکنگ
کا رونا رو رہا تھا اور کوئی سخت اصول پسندی کا۔۔۔۔۔اور واقعی میرے ملک میں
اصول پسندی سخت عیب سمجھی جاتی ہے۔۔۔ہمیں بھی گھبراہٹ ہونے لگی۔۔۔لیکن جب
ظالم صنفِ نازک ہو تو ڈر آدھا رہ جاتا ہے۔۔۔ کیونکہ عورت جتنی بھی سخت گیر
ہو، اُس کے سسٹم پروگرام میں ایک سافٹ وئیرترحم اور نرم دلی کا میرے ربّ نے
رکھا ہوتا ہے۔۔۔۔ اور وہ جتنی بھی سخت گیری کی اداکاری کرلے پوری نہیں
اُترتی۔۔۔کیونکہ اُسے خالقِ کائنات نے ماں بننے کا عظیم کام حوالہ کیا ہوتا
ہے ، جس کے لیے رحم دلی بنیادی عنصر ہے۔۔۔
اگلے روز صبح ۹بجے کے لگ بھک اُسی عالیشان فوٹوجینک عمارت کی طرف روانہ
ہوئے ۔۔۔پہلے روز سب نئے ہوتے ہیں اور شاذ ہی کوئی ایک دوسرے کو پہچانتا
ہے۔۔لیکن اس دن قسمت دوستوں کو کھینچ کھینچ کر ساتھ بٹھا دیتی ہے اور پھر
دوستیاں چل نکلتی ہیں۔۔۔اس لیے ہمارے لیے ہر ایک اجنبی تھا ،علاقائی محبت
سے بھی کام لیا جاسکتا تھا،لیکن میرے ضلع سے بلکہ آس پڑوس کے اضلاع سے بھی
کوئی نہیں تھا۔ اس لیے خود پہ تکیہ کیا اور جا کے کلاس میں پُر اعتماد بیٹھ
گیا ۔۔۔ایسے اوروں کو لگتا ہے ورنہ ہماری جو حالت ہوتی ہے الفاظ میں سمونے
کے قابل نہیں،کیونکہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر رونے کو دل کرتا ہے۔۔۔اپنے گھر
سے نکلتے ہی ہم پہ سفر کے وہ حالات طاری ہو جاتے ہیں جو صرف بیاہی دوشیزاؤں
کا حق ہے،یعنی جی متلانا، سر چکرانا اوربات بے بات نیند آنا اور پھر سفر کے
اختتام کے بعد بھی یہی حالت چند روز برقرار رہتی ہے۔کلاس میں گیا تو سب خوش
و خرم ایک دوسرے سے باتوں میں لگے ہوئے تھے، جیسے برسوں سے شناسائی
ہو۔۔۔اور ایک ہم کہ کُھلتےکُھلتے دوتین سال لے لیتے ہیں ۔۔آج بھی آپ سے تم
پر جانے کے لیے پانچ پانچ سال لیتاہوں ۔۔وہ بھی اگر دوسرے کی مرضی شامل
ہو۔۔۔۔۔شریکِ حیات بھی ابھی تک آپ ہی ہیں ۔۔۔۔۔اور ازدواجی زندگی کو پانچ
سال ہو گئے ۔۔۔۔اس سے اندازہ لگالیں۔۔۔کہ کس قدر نادان ہیں!۔۔۔۔خیر ایک
چپڑاسی صاحب جو موجودہ حالات میں طلباء سے سر کا خطاب پارہے تھے اور اِترا
رہے تھے ۔۔۔ہمارے لیے خضرِ راہ ثابت ہوئے کبھی ایک کمرے میں لیجاتے ہیں اور
پنکھے اور اے۔سی، آن کردیتے ہیں پھر اُس کے پیچھے کوئی تُرش رو صاحب آجاتے
ہیں ۔۔۔جس میں جوش ملیح آبادی کی انا اور جرنیلوں کا سا طنطنہ بھرا ہوا
تھا،اُسے پنجابی میں کچھ سمجھاتے ہیں ہاتھ کے اشارے کرتے ہیں، اور ہم اُس
کوچے سے بے آبرو ہوکر نکالے جاتے اور اس طرح کمرے تبدیل کرتے کرتے ہمارے
خضرِراہ ہمیں ایک گرم خشک کمرے میں لے گئے جو تیسری منزل پر سورج کے عین زد
میں تھا۔۔اور اگست کا مہینہ۔۔ یوں سمجھ لیں کہ پندرہ منٹ پہلے جو ہجوم مری
میں تھا اب چولستان میں پھینک دیا گیا۔۔۔او ر دو رومال فی منٹ کے حساب سے
پسینہ شروع ہوا۔۔حضرات کی پھر بھی خیر تھی خواتین بیچاریوں کے میک اپ میں
بہتے پسینے نے پرنالے سے بنالیے تھے، اور رومال یا ٹیشوپیپر لگانے سے بھی
احتزاز،لگائے توساری فئیر اینڈ لولی کریم رومال پہ منتقل ہوجائے، لیکن ہم
اپنا ماتھا اپنے گیلے رومال سے بے دریغ رگڑرگڑ کر مزید گیلا کرتے رہے۔۔۔اس
کلاس میں ہم حضرات کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی،اور بعد میں پتہ چلا
کہ اہمیت بھی اتنی ہی ملی۔۔جس طرح بلڈپریشر والا نمک سے پرہیز کرتا ہے اسی
طرح ہمیں سُننے سے بھی پرہیز کیا گیا ۔۔۔حالانکہ ایک بہن سے اُسکی پوری
تُزکِ جہانگیری، اور بابری بمعہ ضمنی واقعات سُنی گئی،جس میں اُس کی ساس کی
وفات سے پہلے، ساس کا اُس کے ساتھ سگی بیٹیو ں والا سلوک ، اُسکے بچوں کے
سونے اور جاگنے کے اوقات ،اُس کے گھر میں آنے والے مہمانوں کی تعداد معہ
عاداتِ خورد و نوش، اُس کے کچن میں پڑے ہر ایک ڈبے کا جغرافیہ بمعہ ڈبے کی
لائف سٹوری۔۔اس کی کلاس میں موجود تمام طلباء کی توتا کہانیاں۔۔حتٰی کہ اُس
کے سونے جاگنے کے اوقات بھی ضمنی واقعات کی چاشنی میں سُنے گئے ۔۔۔جس نے
ہماری ایم۔فل کی ڈگری کو کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں پہنچایا۔۔ہم جب بھی
بولنے لگتے تو ہوں ہاں پر ٹرخا لیے جاتے۔۔اس بہن کی باتیں مولوی نظیرا
حمدکی طرح وعظ سے بھری ہوتیں اور ہر ایک بات کے پیچھے ایک مورل (نتیجہ)ہوتا
جس تک پہنچنے کے لیے آپ کو ایک لمبی کہانی سننی پڑتی۔۔۔یہ بہن حد درجہ
دیندار ثابت ہو رہی تھی اور ہم گنہگار سے محسوس کرتے رہتے ۔۔
یہ کلاس چونکہ ،،تعلیم سب کے لیے ،، کے اصول پر اکھٹی ہوئی تھی اس لیے
چندمائیں بھی ہم کلاس تھیں جس کا زندہ ثبوت دورانِ کلاس وہ بھاگتے دوڑتے
،روتے اور ضد کرتے بچے تھے جو ہمارے کلاس فیلوز ہی بن گئے تھے، اور یہ بچے
بھی ہمیں کلاس فیلوز ہی سمجھتے تھے۔۔۔البتہ ایک محترمہ کے ساتھ اُس کا مجھ
سے بھی زیادہ سدھایا ہوا شوہر تھاجو پورے آٹھ گھنٹے اپنے مشرکہ کرتوت کو
کاندھے پر ڈالے کلاس کے سامنے کوریڈورمیں ٹہلاتا اور شفاف شیشے کے اس
پارکلاس میں بیٹھی اسکی والدہ صاحبہ کابار بار دیدار کراتا۔۔۔۔ پھر ہماری
کوارڈینیٹر صاحبہ کلاس میں پہنچ گئیں اور بڑی خوش اسلوبی سے رسمی تعارف کے
بعد تین فون نمبر تختہ ءِ سفید پر لکھے( کیونکہ وائیٹ بورڈ کے لیے ہمارے
ذہن میں یہی الفاظ آتے ہیں) ،جس سے ہمیں ہمہ وقت رابطہ کرنے اور مدد لینے
کی ہدایات ملیں۔۔مطلب 1122ہی سمجھ لیں ۔۔ایک نمبر اپنااور دوباقی پروفیسر
حضرات کے تھے جو اللہ کے فضل و کرم سے ہمیشہ بند یا مصروف ملے۔۔۔اور ہم نے
ان سے کبھی استفادہ نہیں کیا۔۔۔کوارڈینیٹرمحترمہ۔ح۔ صاحبہ نے دل کی
گہرائیوں سے ہماری قابلیت کی داد دی کیونکہ ہزاروں میں ہم وہ دُرِ نایاب
قسم کے لوگ تھے جو جان گُسل قسم کی کھسوٹیوں سے گزر کر اس کلاس میں بیٹھے
تھے۔۔۔پھر انسانیت اور امن پسندی کی باتیں ہوئیں ،لاحہءِ عمل سمجھایا
گیا۔۔۔اور چائے کے ساتھ سموسوں کے لیے چھوڑدیاگیا۔۔۔ ہم نے کھڑے کھڑے یہ
خورد و نوش کیا حالانکہ ایک دن پہلےہی ایک رپورٹ میں پڑھ چکے تھے، کہ کھڑے
ہوکر کھانا کھانے سے اپینڈکس کا خطرہ کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ پھر ہمیں اُس فی
منٹ دو رومال والے سورج کے قریب ترین کمرے سے نکال کر ایک کانفرنس روم میں
بٹھایا گیاجہاں قومی اسمبلی کی طرح ہر ایک کرسی کے سامنے ایک مائیک بھی لگا
تھا۔۔۔۔لیکن بار بار یہ باور کرایا گیا۔۔ کہ یہ کمرہ آپ لوگوں کے لیے نہیں
ہے میں نے بزورِ زبان کھلوایا ہے، ورنہ کہاں آپ اور کہاں یہ کانفرنس
روم۔۔خیر اس آخری فقرےکا طنز بھی انگریزی چھری کے ۔کے۔کی طرح سائلنٹ
تھا۔۔۔لیکن نادان سمجھ جاتے ہیں۔۔۔۔پھر یہاں ایک لفظ پلیجرازم کا سوانگ
رچایا گیا اور ہمیں اسی ڈنڈے سے ہر سیشن میں زد و کوب کرنے کا ایک لامتناہی
سلسلہ شروع ہوا۔۔۔ہر ایک کاغذ ہر ایک لفافے حتٰی کے سموسوں پر بھی یہ لکھا
مِلا۔۔۔۔جس نے پلیجرازم کی اُس کی مت مار دیں گے۔۔۔اس لفظ کا اُردو مترادف
شاید سُرقہ ہے۔۔یعنی الفاظ اور خیالات کا سُرقہ ۔۔۔اسے دوسرے کی زمین میں
غزل کہنا بھی کہہ سکتے ہیں۔۔۔خیر یہ ایم فل ایجوکیشن کی کلاس تھی اور اس
میں ادبی بے ادبی کی گنجائش بالکل نہیں ۔۔۔ایک دوست بخاری صاحب جو غلطی سے
شاعر بھی واقع ہوئے ہیں ۔۔نے کئی مرتبہ ادبی بے ادبی کی کوشش کی مگر۔۔۔کسی
باذوق نے حسبِ توفیق داد نہ دی۔۔۔۔پھر اس روزجو سیشن ہوئے اُس میں ہمیں
پیراڈائم سمجھائے گئے۔۔۔جس میں کوئی پازیٹیو تھا،کوئی پروگریسیو۔۔۔کسی کے
ہاں حقیقت آبجیکٹیوتھی کسی کے ہاں سبجیکٹیو۔۔۔۔۔کسی نے کہا تھا کہ سُرخ رنگ
کچھ نہیں آپ جیسا دیکھتے ہیں وہی حقیقت ہے کسی نے کہا کہ نہیں ایک سُرخ رنگ
پہلے سے موجود ہے آپ جو دیکھتے ہیں وہ آپ کی پر سیپشن ہے،حقیقت
نہیں۔۔۔۔ہمیں کیا پڑی تھی سمجھنے کی ۔۔۔۔اور کونسا ہماری سمجھ میں آرہا
تھا۔۔۔۔پروفیسروں سے سوال و جواب اس لیے نہیں کر رہے تھے کیونکہ انہوں نے
اتنے گھمبیر چہرے بنائے تھے کہ ہم تو سانس بھی میرؔ کی طرح آہستہ لے رہے
تھے کیونکہ آفاق کی اس شیشہ گری کا کام انتہائی نازک تھا۔۔۔۔۔۔اس کلاس میں
چونکہ فیل شدگان( جس میں ایک محترمہ بھی شامل تھی جو بار بار فیل ہونے کے
بعد اس مقام تک پہنچی تھیں کہ کوارڈینیٹر صاحبہ کی چھوٹی بہن بن گئی
تھی۔۔اور مضمون پر پروفیسرانہ کمانڈ حاصل کر لیا تھا)بھی وافر مقدار میں
موجودتھے۔۔ایک منحنی سی شکل اور انتہائی لاغر جسم، جسے بندہ افواہ ہی کہہ
سکتا ہے والے بھائی صاحب ہر ایک ٹاپک پر مختلف زاویوں سے روشنی ڈالتے اور
ہمیں اپنی کم علمی پر رہ رہ کر شرم آتی۔۔۔اساتذہ سارے ورکشاپ میں اسی
سقراطِ ثانی کو مطمئن کرنے میں لگے رہے۔۔۔اور جب پریزنٹیشن جس کا اُردو
مترادف مجھے معلوم نہیں۔۔ کی باری آئی تو تین تین طلباء کو ایک مشترکہ ٹاپک
پر ٹرخایا گیا ۔۔۔حالانکہ اس کا وزن بھی مجھے زائد از برداشت لگا۔۔۔۔میرے
حصے میں منحنی صاحب اور ایک گم سُم ،گم سُم سی دوشیزہ آئی یا میں اُن کے
حصے میں آیا۔۔۔لیکن سب ایک دوسرے سے بڑھ کر آلسی اور کام سے جی چُرانے والے
تھے۔۔۔۔سُقراطِ ثانی پر کچھ تکیہ تھا جو پریزینٹیشن کے دن گھاؤ تکیہ ثابت
ہوا۔۔۔وہ محترمہ اور میں تو لیپ ٹاپ بھی گھر ہی بھول آئے تھے لیکن اس
سُقراطِ ثانی نے باغیچے میں ہمیں اپنے اردگرد بٹھا کر نیٹ سے ایک
پاورپوائنٹ فائل ڈاؤن لوڈ کی اور ہمیں اپنے علم کے دریا میں غوطے دینے لگے
۔۔۔اور ہم دونوں اس قدر قابل بندے پر رشک کرتے شام کے وقت کمروں میں چلے
گئے۔ لیکن جب اگلے دن پریزینٹیشن کی باری آئی ۔۔۔ تو الامان الحفیظ
۔ح۔صاحبہ نے ہماری عزت میں وہ کشیدہ کاری اور وہ پھول پتیاں لگائیں کہ ہم
اُس سُقراطِ ثانی کا منہ دیکھتے رہ گئے۔۔ مکس میتھڈریسرچ۔۔کو پتہ نہیں
ہمارے سقراط صاحب نے کیا بنا دیا تھا،کہ میڈم نے دوسرے ہی روزمُرمت ضروری
سمجھی۔ علم کے اس تکون میں موجود محترمہ بھی میری طرح خاموش ہی رہی
۔۔۔کیونکہ ہمارے پلے تو کچھ نہیں پڑ رہا تھا۔۔۔ ڈانٹ بھی نہیں۔۔
خیراب ہم اختصار کی خاطر اس پہلے سمسٹر کی ورکشاپ کے بیس دنوں کی جھلکیوں
پر اکتفا کرتے ہیں تفصیلات پھر دور تلک چلے جائیں گی۔ہمارے اکثر سیشن
پینڈولیم کی طرح گزرے۔۔ایک پروفیسر الٹرا ماڈرن خیالات،مسلسل ایک گھنٹے تک
ہمارے اذہان میں ٹھونس کر جاتی تو دوسری اسلامی کلچر کے احیاء اور مسلمانوں
کی عظمت کی کہانیوں کا ناسٹلجیاہمیں انجیکٹ کر دیتی۔۔۔اور ہماری غالبؔ مر
حوم کی سی حالت ہو جاتی یعنی : کعبہ میرے پیچھے تو کلیسا میرے آگے۔۔۔اس لیے
گرہ میں لے کے گریباں کا تار تار ہی ،گھر لے گئے۔۔۔اور سب نظریات اُدھر ہی
چھوڑ دیے۔
۔ح۔ صاحبہ نے تو پورا ایک سیشن صرف اس پر لیا کہ امریکہ میں موٹر سائیکل
والے کو سڑک پر وہی حقوق حاصل ہیں جو فراری (ایک گاڑی) والے کو۔۔۔۔ہمارے
ملک میں موٹر سائیکل والے کو وہ حقوق کیوں نہیں ملتے؟ اب اسے کون سمجھائے
کہ حقوق کی بحث کافی طویل ہےکس کس کو دیں گے حقوق؟۔۔وہ اس بات کی بھی شاکی
تھی کہ جب میں گاڑی ڈرائیو کرتی ہوں تو پچھلی گاڑی والا ہارن کیوں بجاتا
ہے(حالانکہ کنواری ہے تا دمِ تحریر)۔۔۔۔محلے والے گلیوں میں قربانی کیوں
کرتے ہیں۔۔۔ امریکہ میں لوگ کتابیں پڑتے ہیں ہمارے ہاں کیوں نہیں
۔۔۔حالانکہ ۔ح۔ صاحبہ کو پتہ بھی تھا کہ امریکیوں کے تو دو ہی شوق ہیں
۔۔۔جس میں دوسرا موٹی کتاب ہے ۔۔۔پہلا نہیں بتا سکتا لیکن اتنی عرض کر سکتا
ہوں کہ اُس کے ساتھ پتلی کا شرط لگا دیتے ہیں۔۔۔ ہمارے ہاں بھی تقریباََ
یہی شوق ہیں البتہ ترتیب اُلٹ جاتی ہے۔۔۔۔خیر ہمیں جو علم منتقل ہوا وہ
امریکہ کے متعلق زیادہ اور علم کے متعلق کم تھا ۔۔۔ حالانکہ ہماری دس پشتوں
تک شجرے میں موجود بزرگ اپنی میونسپلٹی کے حدود سے بھی نہیں نکلے چہ جائیکہ
امریکہ۔۔۔۔اسی طرح ایک اور لیکچرر جس پر محاورتََا نہیں حقیقتاََ غصّہ سوار
رہتا تھا، میڈم ۔س۔ صاحبہ تھیں، جس نے مجھے انٹر ویو میں بھی کافی کھینچا
تھا۔۔۔ اتنی روکھائی سے سوال کا جواب دیتی کہ اگلا سوال حلق میں ہی اپنی
قبر کھود دیتا۔۔۔۔اللہ کا شکر ہے امریکہ نہیں گئی تھی اس لیے مثالیں لوکل
ہی دیتی تھیں۔۔جس میں اپنے سائینوپسز پندرہ مرتبہ مسترد ہونے کا واقعہ سرِ
فہرست ہوتا۔۔اور کئی مرتبہ سُنایا ۔۔۔ہر دفعہ نئے عزم کے ساتھ۔۔۔ اور کہتی
اگر میں ہار مان جاتی تو آج پی ۔ایچ۔ ڈی کی ڈگری نہ ہوتی اور آپ علم کے
خزانے اور لال وجواہرسے محروم رہ جاتے۔۔۔انھیں جیتا جاگتا کنگ بروس کہہ لیں
تو عجب نہ ہوگا۔۔۔۔کیونکہ اُس نے بھی مکڑی سے سبق لیا تھاجو بار بار گرتی
اور چڑھتی ۔۔۔ لیکن ہنستی آنکھوں والی میڈم ۔م۔ صاحبہ کے کیا کہنے ۔۔۔ چہرے
پر جتنا بھی غصّہ سجا لیں آنکھیں ہنستی ہوئی ملیں گی۔۔۔شریر اور ذہانت سے
بھرپور آنکھیں۔۔۔ڈانٹتے ہوئے بھی آنکھیں ہنستی رہتی ہیں۔۔۔کیونکہ ہمیں
دوسرے سمسٹر میں اُس سے ڈانٹ کھانے اور اُس کی ڈانٹ سُننے کا بہ نفسِ نفیس
تجربہ ہے۔۔۔اُس کے شوہر بہت خوش قسمت ہیں کیونکہ اُس کی ڈانٹ خونخوار نہیں
ہوتی ۔۔مس۔س۔ کی طرح۔۔! لیکن پروفیسری کا عہدہ ہی ایسا ہے کہ بندہ دائمی
بخار کا سا منہ نہ بنائے تو سامنے والے پروفیسری مانتے ہی نہیں۔۔لیکن سچ
میں کچھ لوگوں پر غصہ باالکل بھی نہیں جچھتا، میڈم ۔م۔ بھی اُن ہی میں سے
ایک ہیں۔۔میڈم۔م۔ کچھ کورسز کی کواردینیٹررہی جس کے اکثر سیشن خالی ہی
جاتے۔۔۔۔لیکن ہم طلباء ایک دوسرے سے فری ہونا سیکھ لیتے۔۔۔۔ایک پروفیسر
صاحب جو حد سے زیادہ ڈیجیٹل ثابت ہوئے تھے(ڈیجیٹل سے مراد حسابی کتابی ہے)
،مذاق کا رسپانس بھی حسابی،کتابی انداز میں دیتے۔۔ اکثر حد سے زیادہ سیریس
رہتے، اس پر ہمیشہ کُڑتے رہتے کہ قوم حد سے زیادہ مذاحیہ ہوچکی ہے، اب
انھیں کون سمجھاتا کہ جہاں اظہار کے پیمانے تنگ کردیے جائیں وہاں لوگ مذاق
او جُگت بازی کا سہارا لیتے ہیں یا شعر کا۔۔۔ ایک امریکہ سے پی ایچ ڈی
یافتہ پروفیسر صاحب نے جب کلاس میں ڈانس کلاسز کے حق میں کچھ جملے کہے، تو
ایک مجدد الف ثانی قسم کے باریش طالب علم نے اکبر کے لادینی خرافات کے خلاف
علمِ بغاوت بھری کلاس میں بلند کر دیا۔۔اور ایک دوسرے پر احادیث کے وار کیے
گئے۔۔ ہم جیسے عامی علماء کے دمیان چُپ سادھے بیٹھے رہے۔۔ اور پھر دو گھنٹے
اسی نوک جونک میں گزر گئے۔۔۔آخر میں فیصلہ اس بات پرہوا ۔۔ کہ آپ کلاسوں
میں ناچیں لیکن غیر مسلموں کی نقالی نہ کریں ۔۔۔یعنی کترینہ کیف اور انوشکا
شرما والے سٹیپس سے احتزاز برتیں۔۔کیونکہ باریش طالب علم نے اپنے دلائل کو
وزنی بنانے کے لیتے۔۔غیر مسلموں کی پیروی نہ کرو والی حدیث معہ عربی متن
سُنائی تھی۔۔خیر وہ پروفیسر صاحب دوسرے سمسٹر میں کسی اور یونیورسٹی چلے
گئے تھے۔۔۔وہ بھی کے پی کے ،کے رہنے والے تھے۔
ہمیں چونکہ چہرے اور نام مشکل سے یار رہتے ہیں ۔۔۔اس لیے اکثر طلباء کو بہن
بھائی کے الفاظ سے پکار کر کام چلاتے رہے ۔۔۔تین چار بولنے والی خواتین
طلباء کو(جنھیں ان گنہگار آنکھوں نے کلاس میں خاموش نہیں دیکھا تھا)تین
ہفتے مسلسل جنجوعہ کہہ کر پکارتا رہا، یا گفتگو میں لاتا رہا۔۔ وہ تو ایک
کرم فرما نے عقل دلائی کہ یہ چاروں محلِ وقوع کے لحاظ سے الگ الگ خواتین
ہیں۔۔صرف بولنے کی خُو مشترک ہے ، ہم تو چلو بھر پانی میں ہی ڈوب گئے اور
اپنے مشاہدے پر تین نقطے وہیں کھڑے کھڑے بھیج دیے۔۔۔ہم پشتون اس کلاس میں
چھ سات کی تعداد میں تھے ۔۔۔اور ہم پشتونوں کے بارے میں مشہور ہے کہ ہمارا
اُردو تلفظ بہت ہی گیا گزرا اور دور سے قابلِ شناخت ہوتا ہے، اس لیے اُردو
تلفظ بھی پہلے سمسٹر میں زیرِ بحث اور زیرِ عتاب رہا(بعدمیں کلاس والے عادی
ہوگئے ہم تبدیل نہ ہوئے)۔۔۔۔ہم میں اتنی سی تبدیلی آگئی تھی کہ پینٹ
شرٹ(رہائشِ لاہور کے بعد) پھر سے پہننی شروع کر دی تھی۔۔۔جبکہ باقی سچے
پشتونوں نے اس مغربی لباس کو کسرِ شان سمجھا۔۔۔۔
ایک محترمہ نے ان ورکشاپوں میں مجھے رضاکارانہ طور پر ایس پی ایس ایس
سکھانا شروع کر دیا تھا (ڈیٹا سافٹ وئیر)۔۔۔لیکن اپنے لیپ ٹاپ(جو گھر سے
منگوا لیا تھا) میں اُس کا دیا ہوا سافٹ وئیر انسٹال کرنے اور اُس محترمہ
سے چند روز سیکھنے کے بعد پتہ چلا کہ یہ میرے بس کا روگ نہیں۔۔غالبؔ
،اقبالؔ ، فیضؔ ،فرازؔ ، ابنِ انشاؔ ، مفتی،ایلف شفق،رابی
سنکربال،ملٹن،منٹو،بابا اشفاق اور بانو آپا کے الفاظ کے نقشے دماغ کے نہاں
خانوں پر نقش کرنے والے کا ذہن ،نامینل ، آرڈینل ، انٹرول اور ریشو، ڈیٹا
کیسے سمجھ سکتا ہے۔۔۔ہاشم ندیم کے، بچپن کا دسمبر،عبداللہ،پری زاد،خدا اور
محبت،اور صلیبِ محبت کو دل میں جگہ دینے والاکہاں سے چارٹ اور گراف بنا کر
ہندسوں کو شکلوں ،گرافوں اور بارچارٹ میں تبدیل کرتا پھرے ۔پھر اُس محترمہ
کوایک روزمؤدبانہ سمجھایا کہ بہن اپنا قیمتی علم اور وقت مجھ پر ضائع نہ
کرو، اسے کسی اچھے کام میں یوٹیلائز کر لو تو فائدے میں رہو گی۔۔۔۔ سمجھدار
تھی ۔۔۔ سمجھ گئی۔۔۔
ہمارے اس سمسٹر کا آخری کورس کمپیوٹر کا تھا ۔۔۔جو پہلا ہونا چاہیے تھا
کیونکہ ایسے ایسے طلباء بھی موجود تھی جو صرف ایک اُنگلی سے ٹائپنگ سیکھ
رہے تھے۔۔۔۔اور کمپیوٹر بھی ایم فل میں آنے کے بعد، کیونکہ پہلے سے کچھ
نہیں جانتے تھے اور ہاسٹل کے کمروں میں ساری رات اپنے لیپ ٹاپ کے ،۔کی۔بورڈ
۔، کو شہادت کی اُنگلی سے چھیڑتے رہتے تھے۔۔۔۔۔میرے کمرے میں روح اللہ
بھائی اور بخاری صاحب تھے (اِن دونوں کے متعلق یہ بات بالکل بھی نہیں کہہ
رہا)۔۔۔خیر ایسے تمام طلباء جو۔ کی۔بورڈ ۔سے چھیڑچھاڑمیں مصروف ہوتے یہ سب
اسائمنٹ کے نام پرہورہا تھا۔۔۔ جس کی آخری تاریخ کو طلباء کانپتی ہوئی
نظروں اور سوچ کے ساتھ دیکھتے تھے۔۔۔۔ البتہ ہم طلباء نے ایک واٹس ایپ گروپ
بنایا تھا،تاکہ ایک دوسرے کے پروگریس سے باخبر رہ سکیں،لیکن جس کو بھی ایک
دوسرے سے کام پڑتا اِنباکس یعنی پرسنل ہو جاتے (وٹس ایپ پہ)۔۔اس گروپ کے سب
طلباء مشترکہ ایڈمن تھے، اورگروپ کلاس کی مشترکہ ملکیت تھی، لیکن بعد میں
بنانے والے بھائی نے اس گروپ کے جملہ حقوق اپنے حق میں محفوظ کرکے گروپ کو
اپنی سرپرستی میں لے لیا (اس تحریر کی اشاعت کے بعد پھر سے مشرکہ ملکیت کے
حقوق مل گئے)۔۔۔۔شاید باقیوں میں پولیٹیکل اور انٹلیکچول سکلزکی کمی نظر
آئی ہوگی۔۔۔۔۔۔کیونکہ اس دُنیا کا ایک لگا بندھا اصول ہے کہ ہر بندے کو
اپنی عقل اور سوجھ بوجھ ساری دُنیا سے زیادہ اور دولت کم نظر آتی ہے اس لیے
صرف مؤخر الذکر میں ہی اضافہ کرتا رہتا ہے۔۔۔یا کرنا چاہتا۔۔۔۔۔جبکہ ہمارا
حساب اُلٹاہے۔۔۔۔ خیر کمپیوٹر کی کلاس کے لیے اس جمِ غفیر کو چھوٹے چھوٹے
پارٹس میں تبدیل کر دیاگیا۔ کمپیوٹر کے کورس کے لیے ہم صرف سترہ ہی رہ
گئے۔۔ باقیوں کو بھی اُن کی فیکلٹی وائز تقسیم کر دیا گیا،ڈسٹینس
والے،ایلیمنٹری والے ،پلاننگ والے اور ہم سیکنڈری والے۔۔۔۔۔ یہ کورس باالکل
ہندی فلم کے طرز پرپانچ روز چلا۔۔ مطلب پہلے سین میں دو بھائی کسی میلے میں
گم ہو جاتے ہیں اور آخری سین میں مِل جاتے ہیں۔۔۔ہمارے اُستاد بھی پہلے دن
ہم سے ملے ۔۔۔۔اور پھر آخری دن ۔۔۔۔۔باقی دنوں میں ایک دُبلا پتلا سا
اُستاد یا کمپیوٹر لیب کا انچارج ہم سترہ سے ڈونگل چوری کی تفتیش کرتا
رہا۔۔۔۔ ہماری سادگی دیکھے یونیورسٹی جانے تک واٹس ایپ اور ڈونگل کے بارے
میں ہمارا علم صفر ہی تھا ۔۔۔۔یونیورسٹی ہی میں ایک دوست نے واٹس ایپ
انسٹال کرایا اور اس کا استعمال سکھایا۔۔۔۔اور ڈونگل اُس بغیر تار کے یو
ایس بی ڈیوائس کو کہتے ہیں جو تا ر کے جھنجھٹ سے ایکسیسریز کو نجات دلاتی
ہے(کسی نے بعد میں بتایا)۔۔۔۔۔حالانکہ دیکھی کبھی نہیں کیونکہ ہمارے آنے سے
پہلے لیب میں کوئی اپنی ہاتھ کی صفائی دکھا گیا تھا۔۔۔۔۔غالبؔ نے بھی شاید
ایسے ہی موقع پر کہا تھا کہ ۔۔۔پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر نا حق۔۔ان
تفتیشوں کا جب کچھ نتیجہ بر آمد نہ ہوا،اور آخری دن آگیا تو ہم نے اُستاد
صاحب کو اپنے پانچ روزہ علم کا ٹیسٹ دیا۔۔۔ اور اللہ کی مدد اور پرانے علم
کے زور پر سُرخرو ہوئے۔۔۔۔۔ خیر آخری روز ہم نے تصاویر لیں اور ایک دوسرے
کو مسکراتے چہروں کے ساتھ الوداع کہا۔۔۔۔۔۔
انسان آتے ہیں ملتے ہیں اور چلے جاتے ہیں ،اس دُنیا میں ثبات صرف اللہ رب
العزت کی ذات کو حاصل ہے ،ہم اداکاراپنا رول ادا کرتے ہیں اور نئی جگہ
منتقل ہوجاتے ہیں۔۔ ہم لوگوں نے ایک دوسرے کو کیسا پایا یہ بھی سبجیکٹیو
میٹر ہے ۔۔۔۔یعنی ہر ایک نے اپنی عینک سے چیزوں کو دیکھا ۔۔۔۔کسی کو اچھا
لگا، کسی کو بہت اچھا اور کسی کو نارمل اور روا روی کا سا۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن مجھے
چند ایسے دوست ملے جو اگلے دو سمسٹرز میں محفل اور دُنیا ثابت ہوئے ہم
جھگڑتے بھی رہتے روٹھتے بھی رہتے اور پھر بچوں کی طرح مان بھی جاتے۔۔سعادت
حسن منٹو نے لکھا ہے کہ میں نے بازار جاتے ہوئے دو کُتوں کو گوشت کے ٹکرے
کے لیے لڑتے دیکھا اور واپسی پر اُنھیں آپس میں اٹکیلیاں کرتے دیکھا تو
محلے کے وہ دو بھائی یاد آئے جوپانچ سالوں سے کسی معمولی جھگڑے کی وجہ سے
ایک دوسرے سے ناراض تھے۔۔ بخاری صاحب اکثر روح اللہ اور مجھ سے روٹھ جاتے
تھے۔۔اور پھر روٹھے روٹھے ہمیں سدھارنے کے لیے نصیحتیں کرتے(سدھانے کا مطلب
اُس کے سانچے کے مطابق خود کوڈھالنا)۔۔یہ روٹھنا شاید اُسکی تنبیہہ تھی یا
سچ لیکن ،ہمارے حق میں یہ تنبیہ الغافلین ہی ثابت ہوئی ۔۔۔۔کیونکہ اثر ہی
نہیں لیا۔۔۔۔۔
خیر اس بحث کو دوسرے حصّے کے لیے اُٹھا رکھتے ہیں۔۔۔۔۔ابھی اللہ حافظ۔۔۔۔۔
مضمون میں اپنے لیے میں کی جگہ صیغہءِ جمع (ہم) استعمال کرنے کی
معذرت،کیونکہ میں سے مجھے انانیت کی بو آتی ہے-
|