ہمہ جہت شخصیت ناظمہ اطہر صاحبہ ۔

میری تحریر کردہ کتابوں کے ساتھ انہیں پڑھانے کے لیئے اساتذہ کی رہنمائی بھی موجود ہے۔ مجھے ان کی لکھنے کی ضرورت یوں بھی محسوس ہوئی کہ میں بچوں کے ہاتھوں میں انگریزی کی نئی نئی رنگ برنگی کتابیں دیکھتی تھی جب کہ اس کے برعکس بچوں کے پاس اردو کی کوئی ڈھنگ کی کتاب موجود نہیں ہوتی تھی اور یہی وجہ تھی کہ بچے اردو کی جانب مائل ہی نہیں ہوتے تھے۔تو اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے بچوں کے لیئے اردو کی نصابی کتابیں کاشف اردو کے نام سے سیریز تحریر کرکے بچوں کی اردو تدریس میں ایک انقلاب برپا کیا۔ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بالکل یہ خیال مجھے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں پڑھائی جانے والی انگریزی کی نصابی کتابوں سے ہی آیا جسے میں نے اردو کی کتابوں میں اپنایا اور یہ میری توقع سے کہیں زیادہ کامیاب تجربہ رہا اور بلاشبہ مجھے دنیا بھر میں بہت پذیرائی ملی اور خوشی کی بات یہ ہے کہ اس کے بہترین ثمر دیکھنے میں آئے کہ بچوں کی رغبت اردو کی جانب ہوئی اور انہوں نے اردو سیکھ کر دکھائی۔

ناظمہ اطہر صاحبہ نہ صرف ایک بہترین معلمہ ہیں بلکہ ایک شفیق اور نفیس شخصیت کی حامل خاتون ہیں ۔سول ایوی ایشن ماڈل اسکول کراچی کی سربراہ ناظمہ اطہر صاحبہ اب تک بچوں کے اردو نصاب کی 21 کتابیں تحریر کر چکی ہیں۔ اساتذہ کی حیثیت روحانی ماں باپ سی ہوتی ہے انسان کو تمام عمر اساتذہ کی باتیں یاد رہتی ہیں وہ کامیابی کے جس بھی زینے پر قدم رکھتا ہے اسے کے ذہن میں اپنے اساتذہ کی باتیں ان کی خوبصورت یادیں گردش کرنے لگتی ہیں ۔ایسے ہی اساتذہ میں شامل ناظمہ اطہر صاحبہ بھی ہیں ۔

گوکہ ناظمہ اطہر صاحبہ میری استانی کبھی نہیں رہیں لیکن میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا ، کیونکہ یوں کہنا غلط نہ ہوگا کہ وہ ہماری خاندانی معلمہ ہیں ۔ میرے بچوں سمیت ہمارے خاندان کے کئی بچوں کی تعلیم و تربیت کا سہرا ان کے ہی سر جاتا ہے ۔جب تک ہمارے بچے ان کے اسکول میں زیر تعلیم رہے ان سے کئی ملاقاتیں رہیں ان کی سب سے خوبصورت بات جو مجھے ہمیشہ پسند رہی والدین سے اساتذہ کی میٹنگ کا انعقاد جس میں اساتذہ اسکول میں بچے کی تعلیمی سرگرمیوں کے حوالے سےوالدین کو آگاہ کرتے ہیں اور والدین گھر میں بچے کی تعلیمی سرگرمیوں کے حوالے سے اساتذہ کو آگاہ کرتے ہیں تاکہ بچے کی معیار تعلیم کو خوب سے خوب تر بنایا جاسکے دوسری بات کہ اسکول میں سخت نظم و ضبط کی پابندی ۔ وہ بچوں کے حوالے سے کئی بار ان کے والدین سے شکوہ کرتی نظر آتی تھیں کہ بچے کو وقت پر کیوں نہیں سلایا جاتا آپ اس کی گھر پر کس طرح تربیت کرتے ہیں، گھر پر موبائیل اور وڈیو گیم کا زیادہ استعمال وغیرہ ، یوں کہیں بہت اصول پسند اور صاف گو خاتون سچ پوچھیں تو ان کے سامنے میٹنگ میں بیٹھتے ہم اپنے بچوں سے کہیں زیادہ خوف زدہ ہوتے تھے کیوں کہ ہم اپنے بچوں کی تربیت میں کئی جگہوں پر کوتاہی کرجاتے تھے ۔

شفیق اتنی کہ کئی بار اسکول میں یہ نظارہ بھی دیکھا کہ بچوں کے بال سنوار رہی ہیں ، ان کے ناخن تراش رہی ہیں تو کہیں بچیوں کے پونی باندھ رہی ہیں ۔ کسی پروجیکٹ کو کراتے ہوئے بچوں میں اس طرح گھل مل کر نظر آئیں جیسے کوئی سگی ماں اپنے بچوں کو کچھ سکھارہی ہو۔ جب کسی ادارے کا سربراہ اتنا اصول پسند اور شفیق ہو تو ظاہر ہے اس کے اثرات پورے ادارے میں ہی مثبت نظر آتے ہیں ۔

گذشتہ دنوں انہوں نے ایک بین الاقوامی نشریاتی ادارے سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بچوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے بہت مفید گفتگو کی جسے دنیا بھر میں لاکھوں سامعین نے سنا ، یہاں اپنے قارئین کی خدمت میں اس گفتگو کا اقتباس پیش کر رہا ہوں ۔

ان کے بارے میں ایک سوال جواب دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ انہیں بچوں کی ان 21 اردو نصابی کتابوں کو تحریر کرنے میں خاصہ وقت لگا کیوں کہ چھوٹے بچوں کی کتابیں لکھنا آسان کام نہیں لکھتے وقت بہت سی باتوں کا خیال رکھنا ہوتا ہے تاکہ بچوں کی اسے پڑھتے وقت دلچسپی برقرار رہے۔میری تحریر کردہ کتابوں کے ساتھ انہیں پڑھانے کے لیئے اساتذہ کی رہنمائی بھی موجود ہے۔ مجھے ان کی لکھنے کی ضرورت یوں بھی محسوس ہوئی کہ میں بچوں کے ہاتھوں میں انگریزی کی نئی نئی رنگ برنگی کتابیں دیکھتی تھی جب کہ اس کے برعکس بچوں کے پاس اردو کی کوئی ڈھنگ کی کتاب موجود نہیں ہوتی تھی اور یہی وجہ تھی کہ بچے اردو کی جانب مائل ہی نہیں ہوتے تھے۔تو اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے بچوں کے لیئے اردو کی نصابی کتابیں کاشف اردو کے نام سے سیریز تحریر کرکے بچوں کی اردو تدریس میں ایک انقلاب برپا کیا۔ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بالکل یہ خیال مجھے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں پڑھائی جانے والی انگریزی کی نصابی کتابوں سے ہی آیا جسے میں نے اردو کی کتابوں میں اپنایا اور یہ میری توقع سے کہیں زیادہ کامیاب تجربہ رہا اور بلاشبہ مجھے دنیا بھر میں بہت پذیرائی ملی اور خوشی کی بات یہ ہے کہ اس کے بہترین ثمر دیکھنے میں آئے کہ بچوں کی رغبت اردو کی جانب ہوئی اور انہوں نے اردو سیکھ کر دکھائی۔

انہوں نے مزید کہا کہ میں نے بچوں کی اردو تدریس میں ایک جدت پیدا کی ، روایتی نصابی اسباق جس میں سبق کا نام ہوتا اور بس پھر مضمون شروع ہوجاتا اس کے برعکس میری تحریر کردہ کتابوں میں اسباق کہ عنوان اور تصاویر اس طرح کی شامل ہیں جن میں بچوں کی دلچسپی موجود ہوتی ہے تاکہ بچہ سبق کا عنوان دیکھ کر صفحہ نہ پلٹے بلکہ اس کی دلچسپی اس وقت تک قائم رہے جب تک وہ مکمل مضمون پڑھ نہ لے۔ مثال کے طور پر سگریٹ نوشی کے خلاف میں نے روایتی مضامین سگریٹ نوشی صحت کے لیئے مضر ہے وغیرہ وغیرہ سے ہٹ کر ایک مضمون لکھا جس کا عنوان ہے " زہریلا دوست " ظاہر ہے یہ ایک دلچسپ عنوان ہے بچے کے زہن میں سوال جنم لیتا ہے کہ یہ زہریلا دوست کیا ہوتا ہے اور اسی سوال کے جواب کے لیئے وہ یہ سبق دلچسپی کے ساتھ پڑھتا ہے ۔ ہم بچوں کو صرف اتنا نہیں کرتے کہ سبق پڑھا دیا اور پھر بچوں سے اس کا زبانی املا لے لیا بس کام ختم، نہیں ہمارا طریقہ کار مختلف ہوتا ہے ہم بچوں کو اسباق کی مناسبت سے لیکچر دیتے ہیں ، بچوں سے پراجیکٹ کراتے ہیں ،تخلیقی تحریریں لکھواتے ہیں اور بچوں سے اس کی مناسبت سے وہ سرگرمیاں کرواتے ہیں تا کہ بچے سبق میں تحریر کردہ ایک ایک جملے سے عمدہ طریقہ سے واقف ہوجائیں ۔اسی طرح میں نے ایک مضمون لکھا " میں نا ہوتا تو کیا ہوتا " یہ کاغذ کی کہانی تھی جو کاغذ پر کاغذ کی ہی زبانی تھی اس کی ضرورت یوں محسوس ہوئی کہ میں نے دیکھا بچے کاپیوں میں کچھ لکھتے ہیں اور پھر اس کاغذ کو پھاڑ کر دوسرا کاغذ استمعال کرنے لگتے ہیں کاغذ کی اہمیت کو اجاگر کرنے اور بچوں میں اسے سنبھال کر استمعال کرنے کے شعور کو بیدار کرنے کی خاطر یہ مضمون لکھا جس میں مفصل انداز سے بچوں کو بتایا ہے کہ کاغذ کس طرح تیار کیا جاتا ہے اور اس کی دنیا میں کس قدر اہمیت ہے۔

اسی طرح میرا ایک مضمون ہے جو تتلی کے حوالے سے ہے " میری کہانی میری زبانی " جس میں تتلی خود بتاتی ہے کہ میری پیدائش کس طرح ہوتی ہے اور اسے لکھتے ہوئے میں نے سائنس، فزکس اور دوسرے مضامین کا بھی اس سبق میں احاطہ کیا۔سبق میں نہ صرف خوبصورت تصاویر سے بچوں کو تتلی کی پیدائش کے مراحل کو سمجھایا گیا ہے بلکہ اسکولوں میں بچوں سے اس کے پروجیکٹ کروائے گئے ہم نے جوتوں کے خالی ڈبوں میں لاروا رکھ کر بچوں کو تتلی بنتے دکھایا ہے ۔

انہوں نے کہا میری لکھی کتابوں میں آپ کو بچوں کی سطح کے ڈرامے بھی ملیں گے اور مختلف موضوعات پر چھوٹے چھوٹے معاشرتی تربیت کے حوالے سے اشتہارات بھی نظر آئیں گےہم نے جب دورانِ مشق بچوں سے اپنے اپنے اشتہار بنانے کا کہا تو ہمیں فائدہ یہ حاصل ہوا کہ ہمیں وہ بچے بھی نظر آئے جن کا اردو ادب اور شاعری کی جانب رجحان نظر آیا اور ان بچوں نے بڑی جماعتوں میں جا کر ہمارے اسکول میگزین کے لیئے بہترین نظمیں بھی لکھیں ۔

انہوں نے کہا میری تحریر کردہ تمام نصابی کتب آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے شائع کی ہیں اور یہ نہ صرف پاکستان کے تمام بڑے نجی اسکولوں میں پڑھائی جاتی ہیں بلکہ دنیا کے کئی ممالک میں بھی اردو کے نصاب میں شامل ہیں جن میں مانچسٹر، جاپان کے کئی اسکول اور جدہ ایمبیسی اسکول سرِ فہرست ہیں ۔

ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سرکاری اسکولوں میں بھی ان کتابوں کو نصاب میں شامل کرکے پڑھانے کے حوالے سے بارہا کوشش کی گئیں لیکن اس کے خاطر خواہ نتائج نہیں ملے کیوں کہ ان کا سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ ہے وہ انہیں کی لکھی ہوئی کتابیں نصاب میں شامل کرتے ہیں۔ کتابوں میں بچوں کی دلچسپی کے لیئے کتاب کی عمدہ چھپائی اور خوبصورت جلد اور تصاویر بھی بہت اہمیت رکھتی ہے ۔ان تمام کتابوں کو تین چار سال میں ایک بار وقت کی مناسبت سے اپڈیٹ کرنا پڑتا ہے اس حوالے سے آکسفورڈ یونیورسٹی کے تعاون سے پاکستان بھر میں کئی ورکشاپ کا انعقاد بھی کیا جاتا ہے۔

انہوں نے شاعری کے حوالے سے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا نہیں میں باقاعدہ شاعری تو نہیں کرتی لیکن بچوں کے لیئے تک بندی ضرور کرتی ہوں اور اس کا مقصد بھی بچوں کی اصلاح اور تربیت ہوتا ہے جیسا کہ بچوں کو ٹریفک قوانین سمجھانے کے لیے میری ایک نظم کچھ یوں ہے ۔

اب تمہارا چالان ہوگا
تمہارا اپنا ہی نقصان ہوگا
منوں سگنل کیوں توڑا
لال ہے بتی رکنے کو
پیلی ہے تیار رہنے کو
ہری ہے کہتی چلنے کو
منوں سگنل کیوں توڑا
جو تم چاہو نہ ہو ٹکر
تھانے کا بھی لگے نہ چکر
سگنل پر تم رکھو نظر
منوں سگنل کیوں توڑا

کچھ بچوں کا رجحان نظموں کی طرف زیادہ ہوتا ہے اس لیئے وہ بہت جلد سیکھ جاتے ہیں وہ نہ صرف ان نظموں کو گنگناتے ہیں بلکہ عمر بھر کے لیئے اس میں جو سبق دیا گیا ہے اسے یاد رکھتے ہیں ۔ انہوں نے کہا لکھنے لکھانے کا کام جاری و ساری ہے اور رہے گا ۔ جہاں تک مجھ سے بن پڑا میں بچوں کی تعلیم و تربیت کی حوالے سے کام کرتی رہوں گی۔
 

 Arshad Qureshi
About the Author: Arshad Qureshi Read More Articles by Arshad Qureshi: 142 Articles with 167572 views My name is Muhammad Arshad Qureshi (Arshi) belong to Karachi Pakistan I am
Freelance Journalist, Columnist, Blogger and Poet, CEO/ Editor Hum Samaj
.. View More