انگریزی زبان وادب اور اس کا حصول

حرف آغاز:
موجودہ دور میں انگریزی زبان و ادب کی اہمیت و افادیت دن بدن بڑھتی جارہی ہی؛ کیوں کہ جہاں یہ دنیا کی Super Power Countryکی زبان سے جانی پہچانی جاتی ہے۔ ہر طرح کی ایجادات واختراعات(Inventions) کے علوم سے مالا مال ہے اور Modern Technologies & Science کے بیش بہا ذخیروں سے بھر پور ہے، جس کا حصول اس زبان کے بغیر مشکل اور دشوار ہے، وہیں اس زبان کے ذریعے اسلامی قلعے کی بیخ کنی کے لیے ہزاروں حکمت عملی تیار کی جاتی ہیں، اسلام کی صورت مسخ کرنے کی کوشش اور جدو جہد کی جاتی ہی، اسی زبان میں اسلام مخالف موٹی موٹی کتابیں لکھی جا رہی ہیں اور دین حق کو بدنام کرنے کے لیے جرائد و رسائل اور پمفلٹس شائع کیے جارہے ہیں۔ ایسے وقت میں علماء کرام کے لیے انگلش زبان کا سیکھنا ضروری اور ناگزیر ہو گیا ہے۔ الحمد للہ! کچھ علماء کرام اس زبان کو سیکھنے اورسکھا نے میں اپنا قیمتی وقت صرف کر رہے ہیں، تاکہ اسلام مخالف پروپیگنڈے (Propagandas) کا مناسب جواب دے سکیں؛ مگر بدقسمتی سے علماء جماعت کے ہی کچھ لوگ اس زبان کے منفی پہلو کو پیش نظر رکھ کر، اس زبان کے سیکھنے سے منع کر رہے ہیں اور اس کی افادیت کے منکر ہیں۔ احقر نے اس مقالہ میں "انگریزی زبان و ادب اور اس کے حصول" کے عنوان پر اپنے مطالعہ کی روشنی میں کچھ لکھنے کی جرأت کی ہے جو ہدیئہ قارئین ہے۔

اسلام ایک عالم گیر مذہب ہے:
دنیا کے تمام مذاہب و ادیان جو اب تک وجود میں آئے ہیں، ان میں صرف اسلام وہ واحد مذہب ہے جو پورے کائنات عالم کے لیے دائمی اور ابدی مذہب بن کر آیا ہے، قیامت تک اپنی اس خصوصیت اور امتیاز کے ساتھ باقی رہے گا، اس میں کسی قسم کا کوئی تغیر و تبدیلی کا کوئی امکان نہیں؛ بل کہ محال اور ناممکن ہے؛ کیوں کہ اس مذہب کا جس نبی و رسول اور کتاب سے تعلق ہے، وہ آخری نبی و رسول کی آخری کتاب ہے جو تمام ادیان ومذاہب کے برخلاف پورے عالم انسانی کے لیے جلوہ افروز ہوئے؛ چنان چہ حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحبؒ رقم طراز ہیں: "اسلام عالمی دین ہے، وہ قومی یا مقامی نہیں؛ بل کہ بین الاقوامی مذہب ہے جو دنیا کی تمام اقوام کےلیے تا قیام قیامت پیغام اور مدار نجات ہی۔" (عالمی مذہب، ص: ۹۷)

انبیا ء -علیہم السلام- اور دعوت و تبلیغ:
اللہ تعالی نے حضرات انسان کو اس روئے زمین پر پیدا کرکے یوں ہی بے کار نہیں چھوڑا؛ بل کہ ان کی ہدایت و رہنمائی کے لیے وقفے وقفے سے ہر زمانہ میں، ہر جگہ اور ہر خطئہ ارضی پر انبیا ء و رسل کو صحف و کتب کے ساتھ مبعوث فرماتا رہا۔ قرآن کریم کہتا ہے: "وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ۔" (سورہ رعد، آیت: 7) ترجمہ: "ہر قوم کے لیے ہادی ہے۔" اور دوسری جگہ ارشاد خداوندی ہے: "وَلِكُلِّ أُمَّةٍ رَسُولٌ۔" (سورہ یونس، آیت: 47) ترجمہ: "ہر امت کے لیے رسول ہے۔" چنا ن چہ ان انبیا ء و رسل –علیہم الصلاۃ و التسلیم- نے اپنی اپنی قوم میں، اللہ کی وحدانیت کی دعوت دی، اللہ کے احکام کو پہنچایا، ان کو برائیوں سے روکا اور اچھے کاموں کے کرنے کا حکم دیا۔

اللہ نے سب سے اخیر میں جناب محمد عربی –صلی اللہ علیہ وسلم- کو آخری نبی و رسول بنا کر بھیجا اور ان کی ہی ذات اقدس پر نبوت و رسالت کا یہ مبارک سلسلہ ختم ہو گیا، ان کے بعد اب تک نہ کوئی نبی و رسول آیا ہے اور نہ آئے گا۔ ارشاد ربانی ہے: "مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ۔" (سورہ احزاب، آیت: 40) ترجمہ: "محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں؛ لیکن وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبيین ہیں۔" جناب نبی کریمؐ کو اللہ نے کسی ایک قوم یا ملک کا نبی و رسول بنا کر نہیں بھیجا؛ بل کہ ساری دنیا میں اللہ کے دین کی دعوت و تبلیغ اور اسلام کے پیغام رسانی کے لیے بھیجا؛ قرآن کریم نے صاف صاف لفظوں میں اعلان کردیا: "قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا۔" (سورہ اعراف، آیت: 158) "کہہ دیجئے! کہ اے انسانوں! میں تم سب کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں۔" آپؐ نے فرمایا: "إِنَّ العُلَمَاءَ وَرَثَةُ الأَنْبِيَاءِ، إِنَّ الأَنْبِيَاءَ لَمْ يُوَرِّثُوا دِينَارًا وَلَا دِرْهَمًا إِنَّمَا وَرَّثُوا العِلْمَ، فَمَنْ أَخَذَ بِهِ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِر ۔" (مشکاۃ: کتاب العلم: ص: 34) ترجمہ: "یقینا علماء انبیاء کے وارث ہیں، اور انبیا درہم و دینار کا وارث نہیں بناتے؛ بل کہ وہ علم کا ہی وارث بناتے ہیں، جس شخص نے اسے حاصل کر لیا، اس نے ایک بڑا حصہ حاصل کر لیا۔" اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ علماء انبیاء کے علمی وارث ہیں۔ جب علماء انبیاء کے علمی وارث ہیں؛ تو دین اسلام کی نشر و اشاعت، افراد امت کو اچھے کاموں کی رہنمائی اور برے کاموں سے روکنا اور اللہ کے احکام کی اطاعت اور اس پر عمل پیرا ہونے کی تبلیغ کرنا: یہ تمام چیزیں علماء کی ذمہ داریوں میں شامل ہیں۔ حقیقت بھی یہی ہے کے قرآن و حدیث کی روشنی میں تاقیام قیامت علماء کی یہ ذمہ داری ہے کہ "امت محمدیہ" خواہ وہ امت دعوت ہوں یا اجابت ان کو اسلام سے روشناس کرائیں اور جو لوگ پیغام اسلام کے حوالے سے تشنہ لب ہیں، ان کی تشنگی بجھائیں۔

دعوت کے اصول و ضوابط:
اب ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ علماء کرام جب دعوت و تبلیغ کے لیے نکلیں؛ تو ان کا طریق کار کیا ہو؟ اصول و ضوابط کیا ہوں؟ اور کس طریقے سے اسلام کی دعوت دیں؟ اس حوالے سے اللہ تعالی نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے: "ادْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ۔" (سورہ نحل، آیت: 125) ترجمہ: "بلا اپنے رب کی راہ پر پکی باتیں سمجھا کر اور نصیحت سنا کر بھلی طرح اور الزام دے ان کو جس طرح بہتر ہو۔" حضرت مفتی محمد شفیعؒ صاحب آیت کریمہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں: "آیت مذکورہ میں دعوت کے لیے تین چیزوں کا ذکر ہے: اول: حکمت، دوسری: موعظۃ حسنہ، تیسری: مجادلہ بالتی ھی احسن۔ بعض حضرات مفسرین نے فرمایا کہ یہ تین چیزیں مخاطبین کی تین قسموں کی بناء پر ہیں۔ دعوت بالحکمۃ، اہل علم و فہم کے لیے، دعوت بالموعظۃ عوام کے لیے، مجادلہ ان لوگوں کے لیے جن کے دلوں میں شکوک و شبہات ہوں، یا جو عناد اور ہٹ دھرمی کے سبب بات ماننے سے منکر ہوں۔" کچھ آگے رقم طراز ہیں: "دعوت الی اللہ در اصل انبیاء علیہم السلام کا منصب ہے۔ امت کے علماء اس منصب کو ان کے نائب ہونے کی حیثیت سے استعمال کرتے ہیں۔ تو لازم یہ ہے کہ اس کے آداب اور طریقے بھی انہیں سے سیکھیں، جو دعوت ان طریقوں پر نہ رہے وہ دعوت کے بجائے عداوت اور جنگ و جدال کا موجب بن جاتی ہی۔" (معارف القرآن: 5/409-410) اس کا حاصل یہ نکلا کہ دعوت مخاطب کے اعتبار سے دی جائے گی اور انبیاء علیہم السلام کے طریقے کو پیش نظر رکھ کر دعوت دی جائے گی۔

زبان و بیان کی اہمیت:
راقم نے اوپر یہ بات رقم کی ہے کہ دین اسلام ایک عالم گیر مذہب (Universal Religion) ہے۔ یہ کسی قوم و ملت، ملک و وطن اور علاقے کے لیے نہیں؛ اس لیے علماء امت کی ذمہ داری ہے کہ ہر علاقہ، ہر ملک اور ہر خطے میں جاجاکر دعوت دین عام کرے اور مذکورہ بالا اوصاف داعی بھی ملحوظ رہے؛ مگر ان تمام باتوں کے باوجود اگر داعی اسی زبان و ادب میں دعوت کا کام کرتا ہے، جو مدعو کی زبان ہے؛ تو دعوت بہت ہی مؤثر اور کارگر ثابت ہوتی ہے؛ کیوں کہ زبان و ادب کی قوت، اظہار خیال کی قدرت اور انداز بیان کی شگفتگی اور شیرینی وہ مؤثر ہتھیار ہے کہ افہام و تفہیم میں سہولت پیدا کرتی ہے، اچھے اچھے قابل لوگوں کو سر نگوں ہونے پر مجبور کر دیتی ہے اور سامعین مسحور ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ عزو جل نے انبیاء و رسل –علیہم الصلاۃ والتسلیم- کو اسی قوم و خطہ کی زبان کے ساتھ مبعوث فرمایا جہاں سے ان کا تعلق تھا۔ ارشاد خداوندی ہی: "وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهِ لِيُبَيِّنَ لَهُمْ۔" (سورہ ابراہیم، آیت: 4) ترجمہ: "اور کوئی رسول نہیں بھیجا ہم نے مگر بولی بولنے والا اپنی قوم کی تاکہ ان کو سمجھائے۔" مفتی محمد شفیع صاحبؒ اس آیت کریمہ کے تحت لکھتے ہیں: "آیت میں اللہ تعالی کی اس نعمت اور سہولت کا ذکر کیا گیا ہے کہ اللہ تعالی نے جب بھی کوئی رسول کسی قوم کی طرف بھیجا تو اس قوم کا ہم زبان بھیجا، تاکہ وہ احکام الہیہ انہیں کی زبان اور انہیں کے محاورات میں بتلائی۔ اور ان کواس کا سمجھانا آسان ہو، اگر رسول کی زبان امت کی زبان سے مختلف ہوتی تو ظاہر ہے کہ اس کے احکام سمجھنے میں امت کو ترجمہ کرنے کرانے کی مشقت بھی اٹھانی پڑتی اور پھر بھی احکام کو صحیح سمجھنا مشکوک رہتا..." (معارف القرآن: 5/212)

کسی زبان کا دینی ضرورت کے لیے سیکھنا:
اب اگر کوئی آدمی ایک زبان اس غرض سے سیکھتا ہے کہ ہم اس زبان کے ذریعے اسلام کی اشاعت کریں، دین محمدی کی صحیح ترجمانی کریں، دشمنان اسلام کی طرف سے اسلام مخالف کیے گئے اعتراضوں کا مناسب و مسکت جواب دیں، تصنیف و تالیف کے ذریعے اسلام کی حقانیت کو پیش کریں؛ تو اس ہدف کے ساتھ کسی بھی زبان کا سیکھنا غلط نہیں ہے خواہ وہ زبان دشمنان اسلام اور معاندین شریعت محمدیہ ہی کی طرف کیوں نہ منسوب ہو۔

حضرت زید بن ثابت -رضی اللہ عنہ- کے بارے میں ایک روایت میں ہے کہ حضور –صلی اللہ علیہ وسلم- نے انہیں عبرانی یا سریانی زبان سیکھنے کا حکم دیا جو اس وقت یہود کی زبان سمجھی جاتی تھی۔ حدیث یہ ہے: عن زید بن ثابت –رضی الله عنه- قال: أوتی بي النبي صلی الله علیه وسلم مقدمه المدینة فقالوا: یا رسول الله! هذا غلام من بني النجار و قد قرء مما أنزل علیک سبع عشرة سورة فقرأت علی رسول الله صلی الله علیه وسلم فأعجبه ذالک فقال: یا زید تعلم لی کتاب یهود فاني والله ما أمن یهود علی کتابی فتعلمته فما مضی لی نصف شهر حتی حذقته فکنت أکتب لرسول الله إذا کتب إلیهم وأقرأ کتابهم إذا کتبوا إلیه۔ و عندهما أیضا و ابن أبی داؤد عن زید قال: قال لي رسول الله: أتحسن السریانیة فانها تاتینی کتب؛ قلت لا۔ قال: فتعلمها! فتعلمتها فی سبعة عشر یوما و عند ابن أبی داؤد و ابن عساکر أیضا عن زید قال: قال لی رسول الله إنها تاتینی کتب لا أحب أن یقرئها کل أحد فهل تستطیع أن تتعلم کتاب العبرانیة - أو قال السریانیة - فقلت نعم۔ فتعلمتها فی سبع عشرة لیلة۔" (حیاۃ الصحابۃ: 3/686)

ترجمہ: حضرت زید بن ثابتؓ فرماتے ہیں کہ میں نبی پاکؐ کے پاس لایا گیا جب کہ آپؐ مدینہ منورہ میں تشریف فرما تھے۔ صحابہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! یہ لڑکا بنی نجار کا ہے اور آ پ پرجتنا نازل ہوچکا ہے اس میں سے سترہ سورتیں پڑھ چکا ہے پھر میں نے رسول اللہؐ کو پڑھ کر سنایا تو آپؐ نے اسے بہت پسند فرمایا اور کہا: اے زید! میرے لیے یہود کی لکھائی سیکھو؛ کیوں کہ بخدا مجھے اپنی لکھائی کے حوالے سے یہود پر کوئی اعتماد نہیں ہے؛ تو میں نے اس کو سیکھنا شروع کردیا پھر پندرہ دن بھی نہ گذرے کہ میں اس زبان میں ماہر ہو گیا پھر میں رسول اللہؐ کا خط لکھتا تھا، جب آپؐ ان کو لکھنا چاہتے اور میں ان کا خط پڑھتا جب وہ لوگ آپ کو لکھتے۔ ابن ابو داؤد نیز وہ دونوں حضرت زیدؓ سے تخریج کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا: رسول اللہؐ نے مجھ سے فرمایا کیا تم سریانی زبان میں دسترس رکھتے ہو؛ کیوں کہ اس زبان میں مجھے کچھ تحریریں موصول ہوتی ہیں، میں نے جواب دیا نہیں۔ تو رسول اللہؐ نے فرمایا: اسے سیکھ لو! چنان چہ میں نے اسے سترہ دنوں میں سیکھ لیا۔ نیز ابن ابو داؤد اور ابن عساکر حضرت زیدؓ سے تخریج کرتے ہیں کہ آ پؓ نے کہا کہ: مجھ سے رسول اللہؐ نے فرمایا: میرے پاس کچھ ایسے خطوط آتے ہیں کہ اسے ہر کوئی پڑھے، یہ مجھے پسند نہیں، کیا تم عبرانی - یا آپؐ نے فرمایا سریانی- کی سکھائی سیکھ سکتے ہو؟ میں نے جواب دیا ہاں؛ چناں چہ میں وہ زبان سترہ راتوں میں سیکھ لیا۔

عصر حاضر اور انگریزی زبان کی تعلیم:
اب موجودہ زمانے میں اگر کوئی شخص انگریزی زبان و ادب سیکھتا ہے؛ تو کوئی برا کام نہیں؛ بل کہ وقت کی اہم ضرورت ہے اور فی الحال اس کا سیکھنا عین مصلحت ہے؛ مگر اس زمانے میں کچھ ایسے افراد بھی ہیں، جو اس زبان کو انگریز کی زبان سمجھتے ہیں، اس کے سیکھنے کو خلاف تعلیمات اسلامی تصور کرتے ہیں اور سیکھنے سکھانے والے کو طعن و تشنیع کرتے ہیں؛ جب کہ فرمان خداوندی ہے: "وَمِنْ آيَاتِهِ خَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوَانِكُمْ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآَيَاتٍ لِلْعَالِمِينَ۔" (سورہ روم: 22) ترجمہ: "اور اس کی نشانیوں میں سے آسمان اور زمین کا بنانا اور طرح طرح کی بولیاں تمہاری اور رنگ اس میں بہت سی نشانیاں ہیں سمجھنے والوں کو ۔" آیت کریمہ میں زبانوں کے مختلف ہونے کو بھی قدرت کا کرشمہ بتایا گیا ہے۔ دنیا میں جو بھی زبانیں بولی جاتی ہیں وہ سب اللہ کی قدرت کا ایک عجب کرشمہ ہے، چاہے عربی ہو یا فارسی، ہندی ہو یا اردو، انگریزی ہو یا فرانسیسی: سب اللہ کی نشانیوں میں سے ہے؛ لہذا کسی بھی زبان کا سیکھنا، پڑھنا، لکھنااور بولنا خلاف شرع نہیں؛ بل کہ خدا کی نعمت ہی۔

منطق و فلسفہ کا نصاب میں شمول:
ایک ایسا وقت تھا کہ فکری اور عقلی گمراہیوں کا اصل سر چشمہ منطق و فلسفہ تھا۔ اسلام مخالف قوتیں منطق و فلسفہ کے علوم کی روشنی میں اسلام پر ناروا اعتراضات کرتی تھیں، سرفروشان اسلام کو منطق و فلسفہ کی موشگافیوں اور طریق استدلال سے زیر کرنے کی کوشش کرتے تھے اور ان فنون کے ذریعے اسلام کی مضبوط عمارت کو متزلزل کرنے کی سعی کرتے تھے۔ پھر ہمارے اسلاف و اکابر نے ان فنون کو سیکھا، پڑھا اور سمجھا تب اسلام کی موافقت میں، ایسے ایسے دلائل فراہم کیے کہ معترضین کا ناطقہ بند کر دیا، ہر سوال کا مسکت جواب دیا اور ناکوں چنے چبانے پر مجبور کردیا۔ ہمارے اکابر بہ نفس نفیس ان علوم کو سیکھ کر خاموش نہیں رہے؛ بل کہ ان علوم پر اتنی محنت کی کہ "امام وقت" بن گئے، ان فنون میں تصنیف و تالیف بھی کی، جو آج خوردوں کے لیے ایک قیمتی سرمایہ ہے۔ ان فنون کو درس نظامی کے نصاب کا جزو لا ینفک بنا دیا، جو آج تک پڑھایا جاتاہے اور تشحیذ اذہان کا بہترین ذریعہ سمجھا جاتاہے۔
لہذا موجودہ زمانے کا بھی تقاضہ ہے کہ انگریزی زبان و ادب سیکھا جائے، اس کے لیے جید الاستعداد علماء کو فراغت کے بعد وقت نکالنا چاہیے، اس کی طرف توجہہ دینی چاہیے اور اس زبان کے حوالے سے پھیلی ہوئی غلط فہمیوں (Misunderstandings)کو دور کرنی چاہیے۔ تب جا کر ہم ان لوگوں کے سامنے اسلام کی صحیح نمائندگی اور ترجمانی کر سکتے ہیں، جو انگریزی کے علاوہ دوسری زبان کے سمجھنے سے قاصر و عاجز ہیں اور اسی طرح اسلام مخالف لکھی گئی تحریروں اور کی گئی تقریروں کا بھی مناسب جواب دے سکتے ہیں۔

اکابر علماء اور انگریزی زبان:
کچھ لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ "ہمارے اکابر اس زبان کو پسند نہیں کرتے تھے؛ لہذا ہم بھی پسند نہیں کرتے، ہم بھی اس کی ضرورت کو خاطر میں نہیں لاتے اور ہمارے دل میں اس زبان کے لیے کوئی جگہ نہیں ہی۔" حال آں کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے، حقیقت یہ ہے کہ ہمارے اکابر نے علماء کرام کو اس زبان کے سیکھنے کا مشورہ دیا، علماء کے کالج و یونیورسیٹی میں داخلہ لینے اور پڑھنے کو مفید بتایا اور اس زبان و ادب کے سیکھنے سیکھانے کے لیے ادارہ و معہد کھولنے کا منصوبہ بنایا۔ ہم اس حوالے سے ذیل میں اکابر علماء کے تأثرات نقل کرتے ہیں تاکہ ان کی تحریریں نظروں کے سامنے آجائے:

حجۃ الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتویؒ بانی: دارالعلوم، دیوبند نے مولویوں کی ایک مجلس میں فرمایا: "اس کے بعد ( یعنی دارالعلوم، دیوبند کے تعلیمی نصاب سے فارغ ہونے کے بعد) اگر طلبۂ مدرسہ ہذا، سرکاری مدارس میں جا کر علوم جدیدہ کو حاصل کریں؛ تو ان کے کمال میں بات زیادہ مؤید ثابت ہوگی ۔" (سوانح قاسمی: 2/281)

رئیس التحریر مولانا مناظر احسن گیلانیؒ مذکورہ تحریر کو نقل کرنے کے چند سطور بعد لکھتے ہیں: "لیکن اسی مسموم فضاء اور غلط فہمیوں سے بھرے ہوئے ماحول میں سیدنا الامام الکبیر یہی نہیں کہ انگریزی مدارس میں داخل ہو کر تعلیم پانے کے جواز کا فتوی دے رہے ہیں؛ بل کہ بغیر کسی جھجھک کے مولویوں کی بھری ہوئی مجلس میں اعلان فرمارہے ہیں کہ سرکاری مدارس میں شریک ہو کر علوم جدیدہ کی تعلیم علمی کمالات کے چمکانے اور آگے بڑھانے میں مولویوں کے لیے مفید ثابت ہوگی۔" (سوانح قاسمی: 2/282)

مولانا گیلانیؒ حضرت نانوتویؒ کا سفر حج کاایک واقعہ یوں بیان کرتے ہیں: "حج کے سفر میں سیدنا الامام الکبیرؒ سے جہاز کے کسی یورپین کپتان نے مذہبی سوالات کیے جن کا جواب "ترجمان" کے ذریعے دیا گیا۔ کپتان آ پ کے جواب سے غیر معمولی طور پر متائثر ہوا.. مولانا نانوتویؒ نے اس کے بعد عزم کر لیا تھا کہ حج سے فارغ ہونے کے بعد ہندوستان پہنچ کر میں خود انگریزی زبان سیکھنے کی کوشش کروں گا؛ حضرت نانوتویؒ کواحساس تھا کہ ترجمان کے بغیر براہ راست تقریر سے کپتان زیادہ متاثر ہو سکتا تھا۔" ( سوانح قاسمی: 2/299)

حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ انگریزی زبان کے سیکھنے کے متعلق فرماتے ہیں: "انگریزی زبان سیکھنا درست ہے، بشرطے کہ کوئی معصیت کا مرتکب نہ ہو اور نقصان دین اس سے نہ آئے۔" (فتاوی رشیدیہ 1/64)

انگریزی زبان وادب کے حوالے سے فرنگی محل، لکھنو کے حضرت مولانا عبد الحئی لکھنوی فرماتے: "لغت انگریزی کا پڑھنا یا انگریزی لکھنا سیکھنا اگر بلحاظ تشبّہ کے ہو تو ممنوع ہےاور اگر اس لیے ہو کہ ہم انگریزی میں لکھے ہوئے خطوط پڑھ سکیں اور ان کتابوں کے مضامین سے آگاہ ہوسکیں؛ تو کچھ مضائقہ نہیں۔ مشکاۃ شریف میں ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو یہود کا خط (عبرانی) سیکھنے کے لیے حکم فرمایا اور انھوں نے تھوڑے ہی دنوں میں سیکھ لیا۔" (مجموعہ فتاوی مولانا عبد الحئی 2/20)

مورخ اسلام مولانا سید محمد میاں دیوبندیؒ نے "علماء ہند کا شاندار ماضی": 5/222 میں، خاتم المحدثین حضرت علامہ انور شاہ کشمیریؒ کا ایک قول نقل کرتے ہیں: "اب علماء کو قدیم فلسفہ و ہیئت کے ساتھ جدید فلسفہ ہیئت کو بھی حاصل کرنا چاہیے۔" ( سوانح قاسمی: 2/300)

علامہ شبلی نعمانی –رحمہ اللہ– لکھتے ہیں: "عالم یا فاضل کے درجے کے بعد ضرور(ت) ہے کہ چند طلبہ کو دو برس تک خالص انگریزی زبان سکھائی جائے؛ تاکہ انگریزی زبان میں تحریر اورتقریر کا ملکہ ہواور ایسے علماء پیدا ہوں کہ یورپ کی علمی تحقیقات کو اسلامی علوم میں اضافہ کرسکیں اور انگریزی داں جماعت کے مجمع میں انھیں کی زبان اور خیالات میں اسلامی عقاید اور مسائل پر تقریر کرسکیں۔" (مقالات شبلی، ج: 3، ص: 161)

شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی -نوراللہ مرقدہ- نے مورخہ: 8-9 جنوری 1955 ء کو بہ مقام: ممبئی بر موقع "مسلم ایجوکیشنل کانفرنس میں" جو صدارتی خطبہ پیش کیا تھا اس میں چند تجاویز بھی تھیں۔ سب سے پہلی تجویز یہ تھی: "کچھ کچھ معتدبہ وظائف ان طلباء کے لیے مقرر کیے جائیں جو عربی سے فراغت حاصل کرنے کے بعد انگریزی پڑھنا چاہیں اور علی ہذالقیاس انگریزی مدارس کے ان فارغ شدہ طلباء کے لیے بھی جو عربی پڑھنا چاہیں۔ ان کے لیے وہ وظائف امدادیہ جاری کیے جائیں۔" (مدارس اسلامیہ کی اہمیت اور برطانیہ کا خطرناک منصوبہ:23)

حضرت شیخ الاسلام کی تحریر سے دو باتیں بدیہی طور پر سمجھ میں آتی ہیں: (1) یہ کہ عربی علوم سے فراغت کے بعد انگریزی پڑھی جائے اور علوم جدیدہ سیکھے جائیں۔ (2) ان کے لیے کچھ وظائف بھی مقرر کیے جائیں تاکہ طلبہ دل جمعی اور سکون و اطمینان سے تعلیم حاصل کر سکیں۔

عالم اسلام کی مایہ ناز شخصیت، حضرت مولانامفتی محمد تقی عثمانی صاحب -دامت برکاتہم العالیہ- نے انگریزی زبان و ادب کی اہمیت و ضرورت پر بہت کچھ لکھا ہے، ایک مضمون میں تحریر فرماتے ہیں: "چوں کہ ان مغربی نظریات پر مؤثر اور بھر پور تنقید کے لیے ان کے اصل ماخذ تک رسائی ضروری ہے؛ اس لیے اب تک یہ کام ان لوگوں نے انجام دیا ہے جو ان ماخذ تک رسائی تو رکھتے تھے؛ لیکن انہوں نے دینی علوم باقاعدہ متوارث طور پر اساتذہ سے نہیں پڑھے تھے، اس کے بجائے ان کی دینی معلومات متفرق مطالعہ پر مبنی تھیں جن سے ظاہر ہے کہ دین کا رسوخ حاصل نہیں ہوتا؛ اس لیے ان لوگوں نے ان مغربی نظریات کے مقابلے میں دین کی جو تشریح و تعبیر کی وہ طرح طرح کے کی غلط فہمیوں پر مبنی تھی اور نئی غلط فہمیاں پیدا ہو گئیں، جن سے خود مسلمانوں کے درمیان افتراق و اانتشار کا دروازہ کھل گیا ہے، ان نئی غلط فہمیوں کا مؤثر سد باب صرف سلبی انداز میں نہیں ہو سکتا؛ بل کہ اس کے لیے ضروری ہے کہ علم دین میں رسوخ رکھنے والے علماء بذات خود ایجابی طور پر وہ کام کریں، جس کی غلط انجام دہی نے ان نئی گمراہیوں اور غلط فہمیوں کو جنم دیا ہے۔"

مولانا آگے لکھتے ہیں: "اس وقت مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد یورپ، امریکہ، افریقہ، آسٹریلیا اور مشرق بعید کے ممالک میں آباد ہے، ان لوگوں کو، بالخصوص ان کی نئی نسلوں کو اسلام پہنچانے کا کوئی راستہ انگریزی زبان کے بغیر ممکن نہیں۔ ان خطوں کے مسلمانوں کو اب اپنی نئی نسلوں کے د ین کی حفاظت کا مسئلہ درپیش ہے اور وہ اس غرض کے لیے کافی جد و جہد کے بعد مساجد اور دینی مراکز میں ایسے علماء کی ضرورت روز افزوں ہے جو علوم دین میں مہارت کے ساتھ ساتھ انگریزی بھی جانتے ہوں؛ تاکہ وہ وہاں کے مسلمانوں کی دینی ضرورت پوری کر سکیں۔ راقم الحروف کو ایسے متعدد ممالک میں جانے کا بھی اتفاق ہوا، اور یہاں رہتے ہوئے بھی شاید ہی کوئی مہینہ خالی گزرتا ہو جس میں وہاں سے انگریزی جاننے والے علماء کی طلب نہ آتی ہو۔" (ہمارا تعلیمی نظام: 101)

حضرت مولانا عبداللہ صاحب کاپودروی گجرات کی عظیم علمی شخصیتوں میں شمار ہوتے ہیں، حضرت اکثر و بیشتر ملک و بیرون ملک کے سفر کے لیے پا بہ رکاب رہتے ہیں، جہاں کہیں بھی جاتے ہیں قوم و ملت کی اصلاح کے لیے اپنے علمی خطبات پیش کرتے ہیں اور سامعین آپ کے خطبات دل جمعی سے سنتے بھی ہیں۔ مولانا بھی انگریزی زبان و ادب کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "ہمارے علماء جو یہاں سے فارغ ہو کر جا رہے ہیں وہ انگریزی سے نا بلد ہیں، میں اردو میں تقریر کرتا ہوں تو جوان کہتے ہیں کہ : "مولانا نہ جانے کیا کہہ رہے ہیں؟" لیکن نوجوان نسل جن پر امت کا دار و مدار ہے، ان کو سمجھانے کے لیے ان کی زبان سیکھنی ہو گی؛ کم سے کم ہمارے پاس کچھ بچے ایسے ضرور ہوں جو بہترین انگریزی جانتے ہوں، خصوصا وہ لوگ جن کو باہر میں کام کرنا ہے۔" (صداء دل: 156)


لیکن داخل نصاب نہ کیا جائی:
لیکن جن علوم عصریہ کی ضرورت و اہمیت برائے دعوت و تبلیغ محسوس کی جارہی ہے، انھیں عربی نصاب کے ساتھ ضم نہ کیا جائے؛ کیوں کہ فضیلت تک کا نصاب پورا کرنے کے لیے یہ آٹھ سال کا عرصہ ناکافی ہے۔ اگر طلبہ دیانت داری سے اپنے پورے اوقات کو مسلسل محنت کے ساتھ، اس کے حصول میں صرف کریں، تب امید کی جا سکتی ہے کہ نصاب کا حق ادا ہوا، ورنہ تو آج کے دور میں جہاں قوی ضعیف ہوتے جارہے ہیں، اکثر کتابیں ناتمام رہ جاتیں ہیں اور کچھ کتابیں عبارت خوانی پر اکتفاء کی جاتی ہیں؛ ایسے میں انگریزی اور دیگر ضروری علوم بھی ساتھ پڑھائے جانے لگیں؛ تو طلبہ کی توجہہ تقسیم ہو جائے گی اور ایک مقصود نتیجہ موہوم امید بن کر رہ جائے گا۔ تجربہ شاہد ہے کہ جن مدارس میں علوم عربیہ کے ساتھ علوم عصریہ بھی پڑھائے جاتے ہیں، وہاں کے طلبہ کسی ایک میں بھی خاطر خواہ صلاحیت پیدا نہیں کر پاتی الا ما شاء اللہ اور اکثر مدارس میں تو انگریزی کا گھنٹہ تفریحی وقفہ (Entertainment Recess) سے زیادہ اہمیت کا حامل نہیں ہوتا۔ ایسی صورت میں ہماری مطلوبہ صلاحیت کے علماء کیسے تیار ہو سکتے ہیں؟ حضرت نانوتویؒ فرماتے ہیں: "زمانہ واحد میں علوم کثیرہ کی تحصیل سب علوم کے حق میں باعث نقصان استعداد رہتی ہے۔" (سوانح قاسمی : 2/283)

طریقہ تعلیم کیا ہو؟:
اب یہ مسئلہ سامنے آتا ہے کہ طریقہ تعلیم کیا ہو؟ اس حوالے سے یہ بہتر ہو گا کہ جن مدارس و جامعات میں "دورہ حدیث شریف" تک کی تعلیم دی جاتی ہے، وہاں کے ذمے داران حضرات اپنے اپنے ادارے میں، اس خدمت کے لیے ایک "دو سالہ کورس" شروع کریں اور فارغ ا لتحصیل، ذی استعداد فضلاء کرام، جنھیں دعوت و تبلیغ سے دل چسپی ہو اور تقریر و تحریر کی صلاحیت بھی رکھتے ہوں، منتخب کریں اور اس شعبہ میں داخل کر کے مدرسہ کی فضا میں ہی، عصری علوم سے آراستہ کیا جائے۔ اگر کوئی شخص اسی مقصد سے، اس طرح کا ادارہ الگ کھول کر بھی چلانا چاہیں تو مناسب ہے؛ لیکن ان طلبہ پر کڑی نگاہ رکھی جائی، سستی و کوتاہی پر فورا زجر و توبیخ کی جائے تاکہ وہ اپنی شناخت برقرار رکھ سکیں اور جس مقصد کے لیے انھیں داخلہ دیا گیا ہے، اس مقصد میں پورا پورا اتر سکیں۔ یہ دو سالہ کورس کا ادارہ ان شاء اللہ کام یاب رہے گا جیسا کہ اس کا تجربہ ہو چکا ہے اور ہو رہا ہے۔ اس طرح کے کچھ ادارے چل بھی رہے ہیں۔

مرکز المعارف ممبئی:
حضرت مولانا بدرالدین اجمل صاحب قاسمی (رکن شوری دارالعلوم، دیوبند) کو اللہ تعالی نے دولت و ثروت سے خوب نوازا ہے۔ حضرت نے اس ضرورت کو بہت پہلے محسوس کیا، پھر "مرکز المعارف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر" کے نام سے ایک ادارہ، اپنی زیر سرپرستی قائم کیا جو تقریبا سن 1992ء سے یہ خدمت انجام دے رہا ہے۔ الحمد للہ! یہ ادارہ اپنے مقصد میں کا م یاب بھی ہے۔ مرکز المعارف نے علماء کی ایک ایسی کھیپ تیار کردی ہے، جو انگریری زبان و ادب کے حوالے سے ملک اور ملک سے باہرخدمت دین انجام دے رہے ہیں۔ ایشیاء کی عظیم الشان اسلامی درس گاہ دارالعلوم، دیوبند نے بھی انگریزی زبان و ادب کا شعبہ شروع کیاہے، جہاں علماء کرام کی ایک جماعت انگریزی کی تعلیم حاصل کر رہی ہے۔

سر زمین گجرات پر مرکز اسلامی:
اللہ نے صوبہ گجرات کو مال و دولت کی نعمت سے مالا مال کر رکھا ہے؛ لہذا اہل گجرات ہر قومی و ملی کام اور خدمت دین میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اور ہندوستان کے بہت سے مدارس یہاں کے روپے پیسے سے چلتے ہیں؛ مگر اس سر زمین پر اس طرح کا کوئی ادارہ نہیں تھا۔ خدا جزاء خیر دے ہمارے مؤقر و محترم سرپرست حضرت مولانا موسی صاحب ماکروڈ دامت برکاتہم کو کہ انھوں نے دوررس نگاہ رکھنے والے علماء کرام کے مشورے سے؛ جناب محمد عمر گوتم صاحب، دہلی کی زیر نگرانی اور مولانا اسماعیل صاحب ماکروڈ ـحفظہ اللہ ـ کے زیر انتظام اس طرح کا ایک شعبہ بہ نام "مرکز اسلامی ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر" کھولا۔ اس کا افتتاح تقریبا چار سال قبل ہوا (جو سر زمین گجرات پر اس قسم کا پہلا ادراہ ہے)۔ یہ ادارہ کام یابی کی راہ پر گامزن ہے اور یہاں کے فارغ التحصیل طلبہ اندرون و بیرون ملک دینی خدمات انجام دے رہے ہیں، جو اس ادارہ کے لیے ایک نیک فال ہے۔ فللہ الحمد والشکر!

کچھ مشورے:
اس دو سالہ کورس میں تعطیلات کی مدت کم سے کم رکھی جائے اور وقفے وقفے سے عصر حاضر کے اہم مسائل مثلا: دعوت و تبلیغ، معاشیات، سماجیات، سیاسیات اور صحافت کے موضوع پر ماہرین فن سے رابطہ قائم کر کے، انھیں محاضرات پیش کرنے کو مدعو کیا جائے، اور ہر مسئلے میں اسلام کا نقطۂ نظر اور اس کی برتری کو واضح اور اجاگر کیا جائے۔ اس طرح محاضرہ پیش کیے جانے سے، طلبہ کرام مختلف عنوان پر قلیل مدت میں اچھے خاصے مواد تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں جو اس طرح کے میدان میں کام کرنے والے علماء کے لیے معاون ثابت ہوگا۔

حرف آخر: اب تک میں نے جوکچھ تحریر کیا اس سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو گئی کہ عصر حاضر میں انگریزی زبان و ادب کی اہمیت بڑھتی جارہی ہے اور اس کا سیکھنا کوئی ناجائز و حرام کام نہیں؛ بل کہ وقت کا تقاضہ ہے۔ انھیں باتوں پر میں حضرت مولانا موسی صاحب ماکروڈدامت برکاتہم (مہتمم دارالعلوم مرکز اسلامی، انکلیشور) اور رفیق محترم مولانا محمد ابراہیم صاحب قاسمی شولاپوری کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اس مقالہ کو مکمل کررہا ہوں کہ اول الذکرکا حکم اور ثانی الذکر کا مشورہ ہی اس مقالہ کا محرک بنا۔ الحمدللہ علی ذالک۔
 

Khursheed Alam Dawood Qasmi
About the Author: Khursheed Alam Dawood Qasmi Read More Articles by Khursheed Alam Dawood Qasmi: 162 Articles with 182341 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.