ابراہیم حسین عابدی
بجاکہ ہر ذی روح کی روح اس کے مقررہ دن اس جہان فانی سے فنا ہوگی۔ سوائے رب
ذو الجلال کے کسی کو بقا نہیں۔ ہم مہمان ہیں۔ بلکہ مسافر۔۔۔۔۔راہ میں پڑاؤ
ڈالے مسافر۔ اس سب کے باوجود کسی قریبی اور قلبی تعلق والے کے جانے پر دل
کویقین دلانا بہت مشکل ہوتا ہے۔
شیخ الحدیث مولانانور الھدیٰ ؒ سے ہمارا تعلق بھی کچھ اسی نوعیت کا تھا۔
عید الفطر سے دو دن قبل ان سے ملاقات ہوئی۔ ہمیشہ کی طرح ہشاش بشاش ،تروتازہ
اوربذلہ سنج تھے۔ شیخ صاحب نے اپنے رسالہ ’’صدائے ربانیہ‘‘کے لیے
تحریرلکھنے کا کہا تھا، وہ ان کو دکھائی تو انہوں نے کہا میں صاحبِ تحریر
کی تحریر خود ان سے سننا پسند کرتا ہوں۔ تین چار صفحات پر مشتمل پوری
تحریران کو سنائی ۔ سن کر بہت خوش ہوئے۔ مستقل لکھنے کی خواہش ظاہر کی۔
شیخ صاحب نے 1965 ء جامعہ اشرفیہ لاہور سے درس نظامی کی تکمیل کی ، 1969 ء
میں جامعہ ربانیہ کے نام سے ناظم آباد اور 1981 ء میں قصبہ کالونی میں دینی
درس گاہ کی بنیاد رکھی۔ تقریباًپچیس سال شیخ الحدیث کے منصب پہ فائز رہے۔
اپنے مدرسہ کے علاہ ندوۃ العلم میں کچھ عرصہ مسند حدیث کو رونق بخشی۔
اندرون وبیرون ملک ہزاروں شاگردوں میں مفتی نظام الدین شامزئیؒ، مولانا
عنایت اﷲ شہیدؒ، مولانا اقبال اﷲ، جمعیت علماء اسلام بلوچستان کے امیر
مولانا فیض محمد سمیت ہزاروں علماء شامل ہیں۔ جہاد افغانستان میں حصہ لیا،
بنفس نفیس اگلے مورچوں پہ داد شجاعت دی۔پندرہ کے قریب اردو اور عربی کتابوں
کے مصنف تھے۔ بیس سال تک جمعیت علماء اسلام کراچی کے امیر کی حیثیت سے ملکی
سیاست میں بھرپور حصہ لیا۔ تحریک نظام مصطفی اور ایم آرڈی کے پلیٹ فارم سے
قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ تحریک ختم نبوت کے لیے بھی پس دیوار زنداں
رہے۔
شیخ صاحب اپنے محسنین کی قدر کرنے والے تھے۔ طالب علمی میں ہمارے دادا شیخ
الحدیث مولانا زین العابدینؒ سے ملنے جایا کرتے تھے۔ گاہے قیام وطعام بھی
ان کے ہاں کرتے۔ شیخ صاحب نے اس یاد کو کبھی فراموش نہیں ہونے دیا۔ جب بھی
ملاقات ہوتی اس کا تذکرہ چھیڑتے۔ ہمارے بزرگوں کی وجہ سے ہمیں اپنی شفقتوں،
عنایتوں اور توجہات سے نوازتے۔ مجھ کم علم کی اتنی عزت افزئی کرتے کہ میں
شرمسار رہ جاتا۔ مجھے معلوم تھا یہ سب عنایات ہمارے بڑوں کی محبت میں ہم سے
کی جارہی ہیں۔
شیخ صاحب وسیع المشرب تھے۔ ہر ایک کے لیے ان کے در واہوتا۔یہی وجہ تھی کہ
ہر ایک انھیں اپنا سرپرست سمجھتا۔ ان کی وفات حسرت آیات پر ہر ایک کو یہ
کہتے ہوئے سنا کہ ہم اپنے سرپرست سے محروم ہوگئے۔ مولانا منظور احمد مینگل
صاحب نے کیا خوب کہا کہ وہ تو نور الھدیٰ تھے، ہر مسلک ومشرب کو ان کے
انوارات یکساں منور رکھتے تھے۔ نور الھدیٰ کے نور کو محصور نہیں کیا
جاسکتا۔
شیخ صاحب میر محفل تھے،کسی بھی مجلس میں ہوتے پوری محفل ان کی طرف متوجہ
ہوتی، ان کی گفتگو بڑی دل چسپ ہوتی، بلا کا حافظہ پایاتھا، جو بات اورواقعہ
بیان کرتے پوری جزئیات سے کرتے، اپنے اساتذہ اور اکابرین کا خاکہ ان کے ذہن
میں خوب نقش تھا، جیسے کل ہی کی بات ہو،انداز اتنا دل نشین ہوتا کہ بس وہ
کہیں اور سنا کرے کوئی۔
شیخ الحدیث مولانا نور الھدیٰؒ نے بھرپور زندگی گزاری۔ دین کے ہر شعبہ سے
سیراب ہوئے۔ خطاب کرتے تو دل ودماغ روشن کرتے، جہادایسا کیا کہ اگلے مورچوں
پہ دشمن کو ناکوں چنے چبوائے، سیاست ایسی کی کہ مفتی محمودؒ کے دور میں
جمعیت علماء اسلام کراچی کے امیر مقرر ہوئے اورمولانا فضل الرحمٰن صاحب کو
امارت پہ متمکن کرنے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ ختم نبوت کے پروانوں میں
نام لکھوایا۔درس وتدریس کے تو وہ تھے ہی بے تاج بادشاہ۔
عید الفطر سے ایک دن پہلے وہ علیل ہوئے۔ چار دن ICU میں رہے۔چھ شوال بروز
پیربمطابق دس جون تہجد کے وقت خالق حقیقی سے جاملے۔شام چار بچے نماز جنازہ
ان کے بیٹے مولانا شمس الھدیٰ صاحب نے پڑھائی۔ پاپوش نگر قبرستان میں شیخ
الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی کے بھائی اور تحریک پاکستان کے رہنما
علامہ ظفر احمد عثمانی، حکیم الامت مولانا شرف علی تھانویؒ کے اجل خلیفہ
مولانا شاہ عبد الغنی پھولپوریؒ اور حضرت اقدس مفتی رشید احمد لدھیانویؒ
جیسی علمی شخصیات کے پہلو میں تدفین عمل میں آئی۔ لواحقین میں دو بیوائیں،
نو بیٹوں اور نو بیٹیوں سمیت ہزاروں شاگردوں کو سوگوار چھوڑا۔
ہم سب اس جہاں میں مہمان ہیں۔ بلکہ مسافر۔۔۔۔۔راہ میں پڑاؤ ڈالے مسافرمگر
اس سب کے باوجود کسی قریبی اور قلبی تعلق والے کے ناگہاں جانے پر دل کویقین
دلانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ بزبان شورش کاشمیری:
عجب قیامت کاحادثہ ہے کہ اشک ہے آستیں نہیں ہے
زمیں کی رونق چلی گئی ہے افق پہ مہرمبیں نہیں ہیں
تیری جدائی میں مرنے والے وہ کون ہے جو حزیں نہیں ہے
مگر تری مرگ ناگہاں کا مجھے ابھی تک یقیں نہیں ہے |