یہ عام فہم ضرب المثل سب جانتے ہیں مالک سویا ہوتا تھا جس
کی ناک پر مکھی آ بیٹھی تو اس کو اُڑانے کے بجائے پالتو ریچھ نے بڑا پتھر
اُٹھا کر نشانہ بنایا تو مکھی اُڑ گئی اور مالک مارا گیا چیتا جب تک مطلب
ہو زبان تک پیروں پر پھیر کر چاہت کا جادو چلاتا ہے اور دلچسپی ختم ہو جائے
تو پنجے آنکھوں میں گاڑتے ہوئے خون خوار دانتوں سے گردن کا کام تمام کر
دیتا ہے‘ لومڑی کا جہاں بس نہ چلے وہاں جھوٹ مکاری کے فن کو رونا دیکھا کر
بھولی صورت سے اپنے گناہ دوسرے کے کھاتے میں ڈال کر مظلوم بن جاتی ہے‘
کائیں کائیں کووں کو اچھے بُرے سے سروکار نہیں جہاں جس کا کام ختم ہوا وہاں
سے دوسرے کام والی بدبو کی طرف جا بیٹھتا ہے یہ فطرتوں کے نام کام ہیں جو
بظاہر ایک دوسرے سے لاتعلق دور دور ہوتے ہیں مگر عملاً ایک ہی کنویں کے
ٹائیں ٹائیں کرتے مینڈک ہیں جن کی دموں پر پیر آ جائے یا کرتوتوں کا پردہ
چاک ہونے لگے تو یہ اپنے بچے ہوئے چھچھڑوں پر پلتے مچھر مکھی چھچھوندر چھوڑ
دیتے ہیں جن کا نیٹ ورک ہر تقدس‘ مقدس‘ اعلیٰ ارفع ادارے لے کر مذہبی سیاسی
سماجی شعبہ جات تمام مکاتب زندگی پیشہ وارانہ ستونوں میں پھیلا ہوا ہے خود
کو نیک محنتی‘ وفادار‘ فرشتوں سے زیادہ معصوم ثابت کرنے کی ٹیں ٹیں طوطا
کیسٹ سناتے دوسروں کو بدکردار جاہل دشمن قرار دینے کی دیمک چاٹ خصلت سے
اپنی بداعمالی‘کرپشن‘ نااہلی‘ ناکامی کو تحفظ دیتے ہیں جس کا خمیازہ ملک و
ملت دو ٹکڑوں میں بٹنے سے لیکر قرضوں کے بوجھ میں دب کر سود کا جال بچھانے
والوں کی بھینٹ چڑھ کر بھگتتے چلے آ رہے ہیں اس کے ناسور کرپشن کے مگرمچھ
ہیں جن کی سفاکیت لوٹ مار کے عذابی خطرات کیخلاف مظفر آباد آزادی چوک میں
84 دِن سے پرامن مہذب دلیل منطق حقائق کے موقف کو لے کر دھرنا چل رہا تھا
ان میں سے کوئی ایک بھی قومی‘ ملی‘ مفادات کے ضامن منصوبے یا کسی بھی اقدام
کے خلاف تھا نہ ناجائز مطالبہ کر رہا تھا یہ تو کہتے تھے اس سے قبل منصوبے
میں کرپشن کے پہاڑ کھڑے کرنے والے مگر مچھوں کو بے نقاب کرتے ہوئے احتساب
کے کٹہرے میں لاؤ اور ڈیزائن وہ بناؤ جس میں مقصد کرپشن نہ ہو بلکہ بہت کم
خرچ اور مختصر مدت میں منصوبہ ایسا وجود میں آئے خطہ میں اور جہاں جہاں
چلتا زوردار پانی ہے وہاں کے عوام متاثر ہو کر خوشی سے مطالبہ کریں‘ ہمارے
علاقے میں بھی یہ منصوبہ بناؤ ملک و قوم کو ترقی یافتہ خوشحال بناؤ ماحول
خراب ہو نہ سانس لینا دشوار ہو اور اس سے پہلے کرپشن کے ریکارڈ بنانے والوں
کی وجہ سے بداعتمادی کا راستہ ہمیشہ کیلئے ختم ہو جائے مگر اس کے بجائے ان
کو کرپشن میں ڈوبے مگر مچھوں کی طرح اٹھا کر تھانے کی سلاخوں کے پیچھے
پہنچا دیا گیا اسے چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا کے مصداق اقدام ریچھ‘
چیتے‘ لومڑی کو ے خصلت کا تماشہ بنا دیا گیا ہے تحریر اللہ رسول کی تعلیمات
بین الاقوامی‘ قومی اُصول ضابطوں کا تقاضہ ہے یہ شرکاء دھرنا کرپشن کے مگر
مچھوں کو انجام سے دوچار کرنے اور منصوبے کو کامیاب بناتے ہوئے خلق کے سکون
کو محفوظ رکھنے کی بات کررہے تھے اسلام آباد حکومت بجلی‘ پانی اُمور کشمیر
کے وزراء اور یہ میز پر آمنے سامنے آزاد حکومت کی میزبانی میں بیٹھتے تو ہر
طرف جشن‘ خوشی‘ مسرت کے ترانے گونجتے مگر یہاں وہاں دس سالوں میں کھک سے
لکھ نہیں کروڑ پتی بن جانے والے کرپشن مگر مچھ گٹھ جوڑ کی طاقت ثابت ہو گئی
ہے یہ خود کو بچانے کیلئے سارا ملک اور قوم کا مستقبل داؤ پر لگا دیتا ہے
مگر اپنا تحفظ کرتا ہے‘ ٹیچر‘ کلرک احتجاج کرے تو سبق سکھانے کا پیغام جاری
ہوتا ہے اور جنگل کو آگ لگانے والے حکومتی سیکرٹری خاتون کیخلاف تہذیب کا
جنازہ نکالیں تو رنگ لہجہ آڑے آ جاتا ہے اختیار‘ قوت کے میلے میں ایک بار
مرنا ہے مگر روز روز مر کر جینے کے قہر سے دوچار کر کے اجیرکو آجر کا غلام
بنانے کا لائسنس جاری کرنا لاجواب سروس ہے‘ انگریز اور ڈوگرہ اتنے سفاک
ظالم نہ تھے جتنے ان کے بوٹ زبانوں سے چاٹ کر چمکانے والے میر جعفر میر
صادق اپنے مظلوم لوگوں کو بھوک ننگ کی چکی میں پیس کر زبان کھولنے اور سر
اُٹھانے کے قابل نہ چھوڑنے کے بدلے جا گیر‘ جائیداد‘ آفیسری‘ اختیار‘ منصب
لینے والے تھے‘ آزادکشمیر خصوصاً مظفر آباد میں میڈیا پالیسی نوٹیفکیشنوں
کے نام پر کھیل کھیلنے والے مکافات عمل کی رسوائی سے ایک دِن عبرت کا تماشہ
بنیں گے مگر کم از کم ملک و ملت کے اجتماعی اُمور میں اسلام آباد مظفر آباد
خصوصاً راولپنڈی کے فیصلہ ساز اپنی اپنی انا کو ایک طرف رکھ کر ملک و ملت
کو ایک ساتھ روح جسم کی طرح رکھ کر انصاف کریں اور بداعتمادی کے سبب کرپشن
کے مگر مچھوں کو سلاخوں کے پیچھے لے جائیں تاکہ عوام کے کلیجوں میں ٹھنڈ
پڑے‘ قومی‘ ملی منصوبہ جات اقدامات تیزی سے منزل کا سفر طے کریں نہ کہ
پاکستان میں کرپشن کے پہاڑ کھڑے کرنے پر پکڑے جانے پر جمہور مہنگائی کا
نعرہ لگا کر احتجاج برپا کرنے کی دھمکیوں کو ملت کی طرف سے لفٹ نہ ہونے کی
مایوسی کو آزادکشمیر میں جگہ دیکر مگر مچھوں کے ارمان پورے کریں یہ مظفر
آباد پاک افواج کے سپہ سالار جنرل پرویز مشرف نے زلزلے کے بعد منتقل ہونے
سے بچایا اور سجایا ان کے بعد ان کے فراہم کردہ فنڈز سے 55 ارب لے جانے اور
دینے والے آج تک ہاتھ نہیں آئے تو پھر کرپشن کے ہاتھوں بداعتمادی پھیلانے
والوں جیسا سلوک دوبارہ نہیں ہو گا یہ گارنٹی تو دیں۔
یہ قومی تقاضے معیشت منصوبے دفاع وغیرہ
یہ سب اہم ہیں مگر درد خلق کی دوا جانتے ہو؟
|