ایک گمنام ہیرو

تین روز دنیا میں بھر میں والد کاعالمی دن منایا گیا ۔ میری لاعلمی کی انتہا دیکھیے کہ رات گئے سوشل میڈیا استعمال کرنے پر اس بات کا ادراک ہوا کہ والد کو خراج تحسین دینے میں میرے دوست احباب بازی لے گئے ہیں ۔ انہیں سوچوں میں گم خود کو کوس رہا تھا کہ آخر میں اتنا احسان فراموش کیسے ہو گیا کہ اپنے ہیرو کو یاد کرنا بھی بھول گیا۔ اچانک میرے دماغ میں کچھ یادیں فلم بن کر گردش کرنے لگتی ہیں ۔ ایک ہیروجو میری ہر خواہش کو پورا کرنے لیے دن رات زمانے کی تلخیوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑا رہا اور اب بھی میری کامیابیوں کے لیے ہر ممکن کوشش کرنے کی تگ ودو میں رہتا ہے ۔ اس شخص کے پاس کوئی بھی سپر پاور نہیں لیکن نجانے کیسے وہ میری ہر ضرور ت وقت سے پہلے ہی پوری کر دیتا ہے ۔

اس کی محبت میں کبھی بھی کمی نہیں آئی ۔ مجھے کبھی بھی ہالی وڈ کے افسانوی ہیروز اچھے نہیں لگے خواہ وہ کوئی بھی کردار کیوں نہ ہو کیونکہ میرا ہیرو میرے آس پاس ہے جو میرے جذبات کو سمجھتا ہے اور ہر مشکل میں میرے ساتھ ہوتا ہے ۔ شاید وہ میرے لیے کچھ زیادہ ہی جذباتی ہے ۔

رمضان کے روزے، تپتی دوپہر اوراگست کا مہینہ ۔ ۔ ۔ نادرا آفس کے باہر ایک لمبی لائن لگی تھی ۔ اس لائن میں میرا ہیرو بھی پسینے میں شرابوراپنی باری کا انتظار کر رہا تھا ۔ میرے لاکھ کہنے پر بھی وہ ایک ہی بات کہتا کہ جاؤوہاں چھاؤں میں جا کر بیٹھ جائوبس تھوڑی دیر میں کام ہو جائے گا لیکن میں جانتا تھاکہ اس گرمی میں میرے جیسے روزہ خور کا چھاؤں میں بیٹھنا مشکل ہو رہا ہے تو دھوپ میں کھڑے روزہ دار وں پر کیا بیت رہی ہو گی ۔ ایک بار ذہن میں خیال آیا کہ پھر کبھی نادرا آفس کا چکر لگا لیں گےلیکن اسے بہت جلدی تھی اور چہرے پر ایک انجانا خوف کیونکہ یونیورسٹی میں داخلے کی آخری تاریخ نزدیک تھی جس کے لیے ب فارم کا ہونا بہت ضروری تھا ۔ وہ دھوپ اور روزہ بھی ان کے سامنے ٹِک نہ سکالیکن سچ کہوں تو میں ان کے پسینے کی ایک بوند کی قیمت بھی ادا نہیں کر سکتا ۔

انٹر میڈیٹ کے امتحانات کے بعد میرے جیسے دیہاتی کو بھی پینٹ کوٹ(سُوٹ) پہننے کا شوق ستانے لگا ۔ بارہا عرضی پیش کی لیکن ہر دفعہ ایک ہی جواب آتا کہ شہر چکر لگایا تو تمہاری یہ خواہش بھی پوری کر دی جائے گی ۔ میرا ہیرو تھوڑا دیہاتی تھا اس لیے اُسے یہ بات کا ادراک نہیں تھا کہ کہ میری خواہش کتنے دام میں پوری ہو گی ۔آخر ایک دن کسی ضروری کا م سے شہر آنا ہوا تو حسب معمول میں نے سوالیہ انداز میں انہیں دیکھا ۔ انہوں نے میرے اس انداز کو فوراً بھانپ لیا اور معروف برانڈ کی ایک دوکان پرلے گئے۔ پینٹ کوٹ پسند کیا ۔ حسب معمول سیل مین نے شرٹ اور ٹائی بھی نکالی اور سمجھایا کہ یہ جوڑا میرے اوپر خوب جچے گا ۔ سیل مین کی بات انہیں کچھ زیادہ ہی پسند آئی اور تمام چیزیں پیک کروانے کے بعد مطلوبہ رقم ادا کی اور گاؤں روانہ ہو گئے ۔ چند ماہ گزرنے کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ پینٹ کوٹ خریدنے کے بعد پیسے ختم ہو گئے تھے اور وہ کسی عزیز سے رقم ادھار مانگ کر گاؤں گئے تھے ۔ یقین مانیے نجانے کیوں اس دن کے بعد مجھے پینٹ کوٹ سے نفرت سی ہو گئی لیکن مجھے اندازہ ہوا کہ میرا ہیرومیری خواہشات کو پورا کرنے کے لیے کس حد تک جا سکتا ہے ۔

بچپن میں اکثر ایسی فضول چیزوں کی خواہش کرتا جن کی کوئی ضرورت بھی نہ ہوتی لیکن یہ عظیم ہستی پھر بھی اُن فضول اور بے معنی ضرورتوں کو پورا کرنے کی تگ و دو میں رہتی ۔ ایک دفعہ کلاس دوئم میں ہیڈ ماسٹر صاحب گلوب لائے ۔ میں نے گلوب پر کافی غوروفکر کیا اور سوچا کہ کیونکہ نہ اپنا گلوب خریدا جائے ۔ سکول سے واپسی پر ہیرو کے سامنے عرضی رکھی تو وہ گویا ہوئے کہ اُس کی کیا ضرورت ہے ۔ میں نے برجستہ کہا کلاس میں ہر طالب علم کے پاس یہ ہونا ضروری ہے ۔وہ جانتے تھے کہ میری بے معنی اور انتہائی من گھڑت کہانی تھی لیکن میرے چہرے پر خوشی دیکھنے کی خاطر انہوں نے یہ خواہش بھی پوری کردی ۔ جب کبھی تنہائی میں اپنی اِن فضول خواہشات کے بارے میں سوچتا ہوں سوائے ندامت کے میرے پاس کوئی چیز نہیں ہوتی لیکن جب اپنے اس محسن کی عزم و ہمت کا اندازہ لگاتا ہوں میرا سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے ۔ فادر ڈے منانے والوں سے سوال ہے کہ میری چھوٹی چھوٹی خوشیوں کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرنے والے ہیرو کی عزم وہمت کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے کیا ایک دن کافی ہے؟ بس یوں سمجھ لیجئے کہ اگر یہ شخصیت آپ سے خوش ہے تو دنیا میں ہرکامیابی آپ کی منتظر ہے ۔ آخر میں دعا ہے کہ اللہ عزوجل ہم سب کے ہیرو کو زندہ و جاوید رکھے اور اس کا سایہ ہمارے سروں پر سلامت رہے ۔ آمین
 

Muhammad Sajid Ur Rahman
About the Author: Muhammad Sajid Ur Rahman Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.