تحریر: عظمیٰ ظفر
رشتے والی خالہ کو دیکھ کر یونیورسٹی سے واپس گھر آنے والی زینب کا منہ بن
گیا۔ ایک تو پوائنٹ کا رش کافی تھا دماغ گرم کرنے کے لیے اور اب یہ شروع ہو
جائیں گیں کہ آج کل کیسی لڑکیاں پسند کرتے ہیں لڑکے والے۔ نہ چاہتے ہوئے
بھی خوش مزاج سی زینب نے سرد مہری سے انھیں سلام کیا اور کمرے کی جانب بڑھ
گئی۔
زینب کے اس طریقے پر بیگم ناہید شرمندہ سی ہو کر پہلو بدل گئیں اور خالہ
زبیدہ سے معذرت کرتے ہوئے زینب کی طرف داری کرنے لگیں۔ ارے بھئی کوئی بات
نہیں! دھوپ سے آئی ہے تھک گئی ہوگی۔ رشتے والی خالہ نے زینب کی اس بات کو
نظر انداز کیا تم اسے اب گھر بٹھا دو۔ ویسے ہی رنگ کم ہے دھوپ میں اور جل
رہا ہے زینب کو ان کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی۔ اسے اندازہ تھا کہ امی کو
دْکھی کر دینے کے لیے زینب کے رنگ کا کم ہونا ہی کافی تھا مزید اس پہ معقول
شکل۔ اس لیے وہ جلدی سے شربت کے تین گلاس بنا کر لے آئی۔ ’’اے جیتی رہو
بٹیا!‘‘ ’’اور سنائیں خالہ! کون سے سیارے کی لڑکیوں کے رشتے کروا رہی ہیں
آج کل؟‘‘ زینب نے مسکراتے ہوئے گلاس بڑھایا اس کے اس چٹکلے پہ دونوں خواتین
کے چہرے پر ہنسی آ گئی۔لو اور کر لو بات! زمین کی تو بیاہ جائیں پہلے،
انوکھے سیارے سے تو تم آئی ہو بٹیا۔ آج کل کی بچیوں کی طرح کوئی شو شا ہی
نہیں ایسی لڑکیوں کو کون پسند کرتا ہے؟ آج کل کے لڑکے بھی کہتے ہیں مینی
کیور، پیڈی کیور والی لڑکی چاہیے۔
پچھلے مہینے ایسی گوری، چندے آفتاب، چندے مہتاب لڑکی ڈھونڈ کر دی میں نے
بیگم شہناز کے بڑے بیٹے کے لیے تم لوگ شادی میں کیوں نہیں آئے پوچھ رہی
تھیں وہ تمھارا کے ناہید کیوں نہیں آئی؟ ’’دراصل ہم لوگ خود نند کے بیٹے کی
شادی میں مصروف تھے ان دنوں اس لیے شرکت نہ کر سکے‘‘، بیگم ناہید نے
کہا۔’’لو تمھاری نند تو بڑی تعریف کرتی تھی زینب کی کسی اور سے کردی اپنے
بیٹے کی شادی اپنے نہیں پوچھیں گے تو کون پوچھے گا؟‘‘ ’’اب ایسا بھی نہیں،
میری بیٹی بہت سلیقے والی ہے جب اﷲ کا حکم ہوگا، ہو جائے گی بس تم اچھا
لڑکا دیکھنا جو دین دار ہو‘‘۔
’’امی! میں بھائی کے ساتھ شہناز آنٹی کے گھر چلی جاؤں؟ مجھے کروشیے کے کچھ
ڈیزائن پوچھنے تھے‘‘، زینب نے ان سے پوچھا۔ ’’چلو میں بھی چلتی ہوں کافی
عرصے سے ملاقات نہیں ہوئی‘‘۔ ’’امی! دروازہ تو کھلا ہوا ہے‘‘، زینب نے
دروازے پر ہاتھ رکھا تو وہ کھلتا چلا گیا۔ ’’چلو اندر چل کر دیکھتے ہیں،
سناٹا بھی لگ رہا ہے‘‘، لاؤنج میں پہنچے تو شہناز بیگم کافی غمزدہ لگ رہی
تھیں۔ ’’آنٹی خیریت تو ہے، باہر کا دروازہ کیوں کھلا ہے‘‘۔ ’’کیا ہوا
شہناز؟‘‘ بیگم ناہید کا پوچھنا تھا کہ وہ زار و قطار رونے لگیں۔ ’’ارے ارے،
شہناز! کیا ہوا؟ تم رونا بند کرو اور کچھ بتاو بھی‘‘۔
’’میں آپ کے لیے پانی لاتی ہوں‘‘، کچن کی حالت دیکھ کر زینب کو لگا کے یہاں
کوئی طوفان آیا تھا۔ گلاس دھو کر پانی لے آئی۔ پانی پینے کے بعد وہ گویا
ہوئیں، ’’کیا کیا بتاؤں بہن، بہت چاہ سے بہو لے کر آئی تھی مگر وہ تو مومی
مجسمہ نکلیں۔ گھر کے ہر کام کے لیے تو ملازمہ موجود ہے۔ آج اس نے چھٹی کرلی
کل رات سے میری طبعیت خراب ہے موشن نے آدھی جان نکال دی ہے، صبح سے بخار سے
نڈھال اٹھنے کی ہمت نہیں ہے۔ فہد بھی بنا ناشتے کے چلا گیا۔ بہو سے اتنا
کہہ دیا کہ دوپہر میں تھوڑی سی کھچڑی بنا دینا۔ غصے سے بھری کچن میں جو
اٹھا پٹخ مچائی وہ الگ، فہد کو فون کرکے بلایا اور چلتی بنیں۔ دیکھو تو
دروازہ بھی کھلا چھوڑ گئی۔ بول کر گئیں ہیں نازک پری جب ملازمہ آجائے گی تب
آؤں گی۔ میں گھر کے کام نہیں کروں گی، میری اسکن خراب ہوتی ہے۔ فہد سے کچھ
کہو تو کہتا ہے میں کیا کروں؟ اسے میرے کاموں سے بھی کوئی دلچسپی نہیں‘‘۔
زینب ایک، ڈیڑھ گھنٹے کے عرصے میں کچن سمیٹ کر ان کے لیے کچھڑی چڑھا چکی
تھی۔ پھر ان کے لیے قہوہ بنا کر لائی۔ ’’آنٹی پہلے یہ بسکٹ کھا کر دوا لیں
پھر آپ اور امی باتیں کریں جب تک کچھڑی تیار ہو جائے گی‘‘۔’’تم نے اتنا کچھ
کیوں کیا بیٹا! میں کر لیتی بہت شکریہ اﷲ تمہیں خوش رکھے‘‘، آج معمولی صورت
والی زینب اْن کو بہت پیاری لگ رہی تھی۔ کچھ ہی دنوں بعد ایک مہکتی شام میں
زینب کا سانولا رنگ خوشی سے چمک رہا تھا اور شہناز بیگم اپنے دوسرے بیٹے کی
خوشیوں کا ہار زینب کے گلے میں ڈال کر یہی سوچ رہی تھیں کہ!
حْسنِ صورت عارضی ہے
حْسنِ سیرت مستقل
اْس سے خوش ہوتی ہیں آنکھیں
اِس سے خوش ہوتا ہے دل |