عالمی سطح پر جنگوں، بدامنی ، نسلی تعصب،مذہبی
کشیدگی ،سیاسی تناؤ اور امتیازی سلوک کے باعث کروڑ وں افراد پناہ گزینوں کی
حیثیت سے دوسرے ممالک کے رحم و کرم پر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، ایسے
افراد انتہائی غربت کے ساتھ ساتھ بنیادی حقوق سے بھی محروم ہیں۔ گزشتہ
چالیس سال سے افغانستان میں امن و امان کی مخدوش حالت کے پیش نظر لاکھوں کی
تعدا د میں افغان پاکستان میں بطور مہاجر پناہ گزین ہیں۔ پاکستان جو کہ خود
اس وقت معاشی و انرجی بحران سمیت مختلف بحرانوں کا شکار ہے ، ایسے حالات
میں پناہ گزینوں کی بڑی تعداد پاکستان کے لیے معاشی طور پر مزید مسائل کا
باعث بن رہی ہے، جبکہ افغانستان کی صورت حال اب بہتری کی جانب گامزن ہے،
ایسے میں حکومت پاکستان افغان پناہ گزینوں کو واپس اپنے ملک بھیجنے کے لئے
اقدامات کررہی ہے۔ اسی طرح شام میں مسلمانوں پر جاری بد ترین مظالم ،
بیرونی مداخلت اور اندرونی انتشار کے باعث 20 لاکھ سے زائد افراد کو دوسرے
ممالک میں ہجرت کرنا پڑی اور ایسے افراد اردن، لبنان، ترکی اور عراق میں
پناہ گزینوں کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ جبکہ اسرائیلی جارحیت کے باعث
فلسطینی مسلمان اپنا وطن چھوڑ کر دوسرے ممالک کے رحم و کرم پر ہیں اور پناہ
گزینوں کے کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔2001 ء میں اقوام متحدہ کی جنرل
اسمبلی نے ایک قرار داد کے تحت فیصلہ کیا تھا کہ ہر سال 20 جون کا دن پناہ
گزینوں کے عالمی دن کے طور پر منایا جائیگا۔ اس دن کو منانے کا مقصد عوام
کی توجہ ان لاکھوں مفلوک الحال پناہ گزینوں کی طرف دلوانا ہے کہ جو جنگ ،
نقص امن یا مختلف وجوہات کی بناہ پر اپنا گھر بار چھوڑ کردوسرے ملکوں میں
پناہ گزینی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے ہیں، اس دن لوگوں میں سوچ بیدار
کی جاتی ہے کہ وہ ان پناہ گزین بھائیوں کی ضرورتوں اور ان کے حقوق کا خیال
رکھیں۔
موجودہ صورتحال یہ ہے کہ جنگوں، تشدد اور دہشتگردی کے باعث بے گھر اور ہجرت
پر مجبور افراد کی تعداد میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے اور ان کی تعداد جنگ عظیم
دوم کے دوران بے گھر افراد سے بھی زیادہ ہوچکی ہے۔ اقوام متحدہ کے ذیلی
ادارہ برائے مہاجرین کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق جنگ اور دہشت گردی
کے باعث اندرون ملک اور دیگر ممالک میں ہجرت کرنے والے افراد کی تعدادتین
کروڑ تک پہنچ چکی ہے جو کہ اب تک کے ریکارڈ کے مطابق سب سے زیادہ ہے۔ اعداد
وشمار کے مطابق ترکی میں پناہ لینے والے شامی مہاجرین کی تعداد ر 20 لاکھ
تک پہنچ چکی ہے اور یوں ترکی اس وقت پاکستان کو پیچھے چھوڑ کر مہاجرین کو
پناہ دینے والا سب سے بڑا ملک بن چکا ہے جبکہ پاکستان میں پناہ گزینوں کی
تعداد قریباً 14 لاکھ بتائی جاتی ہے جن میں اکثریت افغانیوں کی ہے۔ شام کے
مظلوم شہری اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ بے گھر اور پناہ گزین ہیں۔ اس کے
بعد صومالیہ کا نمبر آتا ہے جبکہ میانمار سے ہزاروں کی تعداد میں روہنگیا
مسلمان نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔ بلاشبہ اپنا گھر اپنی سرزمین چھوڑنے
کا دکھ پناہ گزین ہی جان سکتا ہے کہ اس پر غیر ملک میں کسمپرسی کی زندگی
بسر کرنا انسانیت کی تضحیک کے مترادف ہے۔ میزبان ملک پناہ گزینوں کو جگہ دے
کر انسانیت کا حق ادا کرنے کی کوشش تو کرتے ہیں لیکن امر واقعہ یہی ہے کہ
پناہ گزینوں کو کبھی بھی برابر کے شہری حقوق میسر نہیں ہوپاتے۔ پناہ گزینوں
کے عالمی دن کا پیغام ہے کہ اقوام متحدہ کے کردا رکو اس قدر مضبوط بنایا
جائے کہ وہ ملکوں، قوموں کے درمیان تنازعات، شورشوں اور نقص امن کی صورتحال
پر اپنا موثر کردار ادا کرسکے ، تاکہ دنیا بھر کے ممالک میں امن و امان کی
صورتحال بہتر ہواور کسی بھی شخص کو حالات سے مجبور ہوکر کسی دوسرے ملک میں
پناہ گزینی کی زندگی بسر نہ کرنی پڑے۔ |