سنوکر کا نشہ

کرکٹ, ہاکی, والی بال, ٹیبل ٹینس وغیرہ کی طرح کھیلی جانے والی مقبول ترین ایک گیم سنوکر بھی ہے۔مختصر یہ کہ ایک ٹیبل پر موجود پتھر کی بنی گیندوں کے ساتھ کھیلی جاتی ہے۔یہ دنیا بھر میں کھیلی جانے والی ایسی گیم ہے جو مقبولیت کی انتہا پر ہے۔بڑے سے لے کر بچے تک ہر کوئی واقف ہے اس کھیل سے شاید ہی کوئی ایسا ہو جو نہ جانتا ہو کہ یہ سنوکر کیا چیز ہے۔دوسرے ممالک کی طرح اب پاکستان میں بھی یہ کھیل اپنی انتہا کے درجے کو جا پہنچی ہے۔ہر اک گلی محلے سڑک کے کنارے آپ کو سنوکر کلب نظر آئیں گے یہ ایک بہت ہی اچھا جانا مانا لوگوں کا پسندیدہ کھیل ہے ہر اک اس کو کھیلنا چاہتا ہے ۔قائد اعظم محمد علی جناح بھی اس کھیل سے لطف اندوز ہو چُکے ہیں انھوں نے اس کھیل کو ویسے ہی کھیلا ہے جیسے کھیلنا چاہیے تھایہ ایک ایسا کھیل ہے۔ جس کو نہایت ہی عمدگی اور حاضر دماغی کے ساتھ کھیلا جاتا ہے۔اس کھیل کو لوگ بہت انجوائے کرتے ہیں ہر کوئی اپنا زیادہ وقت یہاں ہی گزارنا چاہتا ہے۔لیکن کہتے ہیں نہ کہ ہر چیز اک حد تک ہی اچھی لگتی ہے۔ہر چیز کا فائدہ بھی ہوتا ہے اور نقصان بھی لیکن کچھ چیزوں کو ہم زبردستی اپنے لیے برا بنا لیتے ہیں اپنے لیے حرام کر لیتے ہیں جیسے کہ یہ سنوکر اب پاکستان میں بچہ بچہ کھیل رہا ہے پہلے تو بڑے بڑے عہدوں پہ فائز لوگ ہی یہ کھیل کھیلا کرتے تھے،لیکن ان خاص طور پر میٹرک لیول کے بچے جو گھروں سے آتے تو سکول جانے کے لیے ہیں یا کام پہ جاتے ہیں روزی کمانے لیکن افسوس بیچ راستے سے ہی اپنا رخ سنوکر کلب کی جانب کر لیتے ہیں جو پاکٹ منی ملتی ہے وہ گیموں میں اڑا دیتے ہیں جو پیسے کسی کام ،ضرورت کے لئے دیے جاتے ہیں وہ گیموں کی نظر ہو جاتے ہیں سکول کا سارا وقت سنوکر میں گزارا جاتا ہے افسوس تو یہ کہ سنوکر کیھلانے والے بھی منع نہیں کرتے کہ'' بچوں آپ سکول چھوڑ کر یہاں مت آیا کرو سکول کے بعد فارغ وقت میں آنا چاہیے آپ کو ''مگر نہیں وہ تو باقاعدہ میٹھے بول، بول کر دعوت دیتے ہیں ان کو ''آؤ یار گیم کھیلو پیسوں کی فکر نہ کرنا بس انجوائے کرؤ ''. صبح سے لے کر رات گئے تک کھیلا جاتا ہے یہ گیم ساری ساری رات ان کلبوں میں گزار دی جاتی ہے ۔اور ماں باپ گھر پریشان ہوتے ہیں کے نہ جانے ہمارا بچہ کہا ہے کہاں وقت گزارتا ہے اپنی ہر ذمہ داری سے بھاگ کیوں رہا ہے سکول میں بھی پچھے سے پچھے جا رہا ہے۔روز پچاس روپے لینے والا بچہ دو دن میں گیموں کا چار سے پانچ ہزار بنا آتا ہے اور پھر فکر کرتا ہے کہ یہ پیسے کیسے ادا کروں گا لیکن اس فکر کے باوجود کھیلتا ہی جاتا ہے اور وہ پانچ ہزار سے دس ہزار تک جا پہنچتا ہے۔اور جب وہ ہی دعوت دینے والے پیسے مانگتے ہیں تو سوچتے ہیں کہ کہاں سے دیں یہ پیسے ؟اور ماں باپ کو بتانے سے ڈرتے ہیں کہ کیا کہے اتنا ادھار کیسے بنا لیا اور اگر سچ بتا دیا تو سارے راز کُھل جائیں گے نئے نئے جھوٹ بولیں جاتے ہیں ایسے میں وہ بچہ چوری کرنے پہ آجاتا ہے پھر وہ چوری چاہے اپنے گھر سے کی گئی ہو یا کہیں باہر سے کوئی فرق نہیں پڑتا ان کو کیوں کے اگر وہ ادھار اتارے گے تو ہی آگے کھیل سکے گے اگر وقتی طور پہ پیسے نہ ادا کر سکے تو پھر اور نئے سنکور کلب ڈھونڈ لیتے ہیں اور کیا پھر وہاں بھی ہزاروں کا ادھار بن جاتا ہے۔ ایسے کرتے کرتے ہی وہ برے راستوں پہ آجاتا ہے سگریٹ نوشی, شیشہ, نشہ ان چیزوں پہ لگ جاتے ہیں بد مزاج اور ماں باپ کے نا فرمان بن جاتے ہے۔اتنی عادت پڑھ چکی ہوتی ہے کہ ان کو روکنا بہت محال ہو جاتا ہے۔یہ ایک کھیل کی طرح نہیں بلکہ اک جوئے اور نشے کی طرح کھیلا جانے لگ چُکا ہے. ہزاروں سے لے کر لاکھوں تک ہار دیے جاتے ہیں یہاں بائک،کار،گھر تک ہار دیے جاتے ہیں،نہ جانے کتنی برائیاں جنم پاہ رہی ہیں کتنے ہی گھر برباد ہو چکے ہیں اور ہو رہے ہیں بچے تو بچے بڑے بھی اس کھیل کی بدولت اپنا سُدبُد کھو بیٹھے ہیں اپنی بیوی بچوں کی ذمہ داریاں بھی بھول بیٹھے ہیں یہ کھیل تو ان کی سوتن بن گئی ہے ہر گھر کا سکون ختم ہو رہا ہے۔

خدارا ان معصوم بچوں کے مستقبل کو تباہ نہ کیا جائے۔اپنی ذمہ داریوں کو اول درجے پہ رکھا جائے اور فارغ اوقات میں صرف انجوائمٹ کے طور پہ کھیلا جائے تا کہ یہ معاشرہ خراب نہ ہو اور نہ ہی یہ روایتی کھیل.اس کھیل کی خوبصورتی کو ختم نہ کیا جائے یہ ایک شوق ہی رہے نشہ نہ بنے لوگوں کو بہتر روز گار ملے تاکہ ہر کوئی یہ کلب نہ کھولے افسوس یہاں تو چھوٹے چھوٹے بچے نوکری پہ لگ جاتے ہیں.ہماری حکومتوں کو چاہیے ان غلط باتوں کی روک تھام کیلئے اقدامات کئے جائے تا کہ ان بچوں کا مستقبل تاریک نہ بنے روشن ہی رہے اور ان کی دنیا و آخرت سنور جائے.

 

Malka Mubeen Khalid
About the Author: Malka Mubeen Khalid Read More Articles by Malka Mubeen Khalid: 2 Articles with 3388 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.