دنیا بھر کی پارلیمنٹ میں بجٹ پیش ہوتا ہے ۔اراکین
پارلیمنٹ کی تمام تر توجہ بجٹ کی نوک پلک سنوارنے پر مرکوز ہوتی ہے ۔کیونکہ
قومی خزانے کو عوام کی فلاح و بہبود پر مؤثر انداز میں خرچ کرنے کی منصوبہ
بندی کی جاتی ہے ۔ایک ایک شک کو ہر پہلو سے ناپ تول کر دیکھا جاتا ہے ۔پھر
بجٹ پاس کیا جاتا ہے اور اسی منصوبہ بندی کے تحت پورے سال میں منتخب اہداف
پورے کئے جاتے ہیں،مگر پاکستان میں اس کے برعکس ہو رہا ہے ۔پہلے تو حزب
اختلاف اپنے اسیر اراکین کو ایوان میں لانے کے لئے پروڈکشن آرڈر جاری کرانے
پر دو روز ضائع کر دیتی ہے ،تیسرے دن اپوزیشن لیڈر نے لمبی تقریر کی، اس
میں بھی سپیکر سے پروڈکشن آرڈر کا سوال ہوتا رہا۔اپنی حکومت کی تعریفیں اور
موجودہ دس ماہ پی ٹی آئی حکومت کی ناکامیوں اور نا اہلیوں کا پلندہ کھول کر
رکھا گیا۔کوئی ٹھوس دلیل پیش نہیں کی گئی کہ کیوں یہ بجٹ عوام دشمن ہے ؟
اسمبلیوں میں بیٹھے تمام معزز اراکین چاہے وہ حکمران یا حزب اختلاف بینچوں
پر بیٹھے ہوں ،اپنے آپ کو محبّ الوطن اور عوام کی خدمت کو عبادت کا درجہ
دیتے ہیں ۔لیکن حقیقت میں انہیں پاکستان سے اور نہ ہی یہاں بسنے والی غیور
عوام سے کسی قسم کی ہمدردی ہے ۔خطے میں سنجیدہ نوعیت کے مسائل جنم لے رہے
ہیں ۔افغانستان میں داعش اور طالبان خانہ جنگی کی تیاریوں میں مصروف ہیں
۔امریکہ افغانستان سے واپسی پر اپنے مفادات کا تحفظ چاہتا ہے ۔یہی وجہ ہے
کہ امریکی بحری بیڑا خلیجی پانیوں میں موجود ہے ۔امریکہ ایک جانب شام پر
بمباری کر رہا ہے ،دوسری جانب ایران کو دھمکیاں دے رہا ہے ۔امریکہ نے ترکی
سے بھی چھیڑ چھاڑ نہیں چھوڑی ۔کچھ عرصہ قبل امریکہ نے ہی ترک فوجیوں کے
ذریعہ سے بغاوت کروائی تھی،جسے ترک بہادر قوم نے نا کام بنا دیا تھا ۔ایک
جانب خطے میں ایسے مسائل جنم لے رہے ہیں ،مگر ہمارے اراکین پارلیمنٹ کی غیر
سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ بجٹ کے معاملے کو مذاق بنا کر رکھ دیا ہے ۔خود
حکومتی عہدیداروں نے ہی بجٹ سیشن کو خراب کر کے رکھ دیا ۔وزیر اعظم کہتے
ہیں کہ حزب اختلاف کو بولنے کا موقع نہ دیا جائے،انہیں اینٹ کا جواب پتھر
سے دیا جائے ۔حکومت سیاسی انتشار کے اسباب پیدا کر رہی ہے ۔ان کی کم فہمی
کی انتہا یہ ہے کہ اپوزیشن تو خود یہی چاہتی ہے کہ شورشرابا ،انتشارکی فضا
اور بجٹ کو متنازعہ بنایا جائے ۔حکومت ان کی بھر پور مدد کرنے پر باضد ہے
۔حکمرانوں کی نااہلیت کھل کر سامنے آ چکی ہے ۔کیونکہ ان میں حکمت و فراست
کا وجود نہیں ،اس لئے حکومت کو نتائج و عواقب کی پروا نہیں ۔بظاہر حکومت
اور عسکری ادارے ایک پیج پر ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ حزب اختلاف کو خاطر میں
نہیں لایا جا رہا ۔لیکن یہ سیاسی انتشار بڑھے گا،جو ملک اور معیشت کے لئے
کسی صورت خیر کی خبر نہیں ہے ۔
یوں تو حزب اختلاف کا کام ہوتا ہے کہ حکومت پر دباؤ ڈال کر بجٹ میں ترمیم
کروائے،جو عوام مخالف ٹیکس ہیں ،انہیں ختم کروائے۔پارلیمنٹ میں حکومت اور
اپوزیشن کا طرز عمل بچگانہ یا قیادت کی نا اہلی کہنا درست ہو گا۔کیونکہ
پنجاب اسمبلی میں بجٹ کی کارروائی پارلیمانی طریقے سے چل رہی ہے ۔بجٹ کی
تقریر پر حزب اختلاف کا رویہ نا مناسب رہا ،مگر سپیکر پنجاب اسمبلی پرویز
الٰہی نے صورتحال کو سنبھالا دیا اور معاملات درست راستے پر چل پڑے اور
پنجاب اسمبلی میں بجٹ سیشن کامیابی سے جاری ہے۔یہی مدبر قیادت کی نشانی
ہوتی ہے ۔حالانکہ 2019-20کا بجٹ عوام دشمن ہے ۔جس میں عام آدمی سب سے زیادہ
متاثر ہوا ہے ۔لیکن بدقسمتی سے بہت بڑی حزب اختلاف کی قیادت کو کرپٹ مافیا
کے طور پر پیش کیا گیا ہے ۔لیکن حیرت یہ ہے کہ ان پر لگائے گئے الزامات
عدالتوں میں ثابت نہیں کئے جا سکے ۔یہ نظام کا قصور ہے یا حکومت کی نا اہلی
،اتنی تگودو کے باوجود ملکی خزانے میں ان سے ایک روپیہ بھی حاصل نہیں کیا
جاسکا ہے ۔لیکن ان پر الزامات اربوں ڈالرز کی کرپشن کے ہیں ۔یہ کیسی کرپشن
اور کیسے الزامات ہیں جن کو عرصے بعد بھی عدالت میں ثابت نہیں کیا جا سکا۔
میاں محمد شہباز شریف نے پارلیمنٹ میں طویل دورانیے کی تقریر کی ۔اپنی پانچ
سالہ حکومت کے کارنامے سنائے ،پی ٹی آ ئی کی حکومت کی دس ماہ میں ناقص
کارکردگی پر نشتر برسائے ۔خیبر پختونخوا کی سابقہ حکومت کی کرپشن کی
داستانیں بھی بیان کی گئیں ۔ملکی معیشت تباہ وبرباد کر دینے کا الزام بھی
لگا دیا۔روپے کی قدر گرنے اور ڈالر کی اُڑان آسمان کو چھونے کا کہا۔اسٹاک
ایکسچینج کی ابتر حالت کی بھی وضاحت کر ڈالی ۔ اپوزیشن لیڈر نے حکومت کو
میثاق معیشت سائن کرنے کی آ فر بھی کر دی ۔اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ
ملکی مسائل گھمبیر ہو چکے ہیں ،مگر ان مسائل سے نمردآزما ہونے پر کسی جانب
سے سنجیدگی دور دور تک نظر نہیں آتی ۔
پنجاب اسمبلی میں بھی بجٹ بحث کا آغاز ہے ۔معزز ممبران اپنی مختصر تقاریر
میں زیادہ وقت اپنی قیادت کی تعریف کرنے کے بعد اپنے علاقے کے مسائل کا ذکر
کرتے ہیں ۔حکومت جماعت ہو یا حزب اختلاف ایک ہی نقطہ نظر ہے کہ عوام بہت
بری حالت میں ہے ۔خدارا ان کا خیال کیا جائے ۔عوام صاف پانی سے محروم
ہے،تعلیم کا حصول ممکن نہیں رہا،ہسپتالوں کی خستہ حالی کا رونا ،چھوٹے بڑے
مسائل کی بھر مار ہے،یہ مسائل وقت گزرنے کے ساتھ ڈراؤنا اژدھا بن کر نمودار
ہو چکے ہیں ۔لیکن ان کے حل کی طرف برس ہا برس سے کچھ نہیں ہو رہا اور
موجودہ حکومت کی توجہ بھی صرف ریوینیو اکٹھا کرنے پر مرکوز ہے ۔چاہے وہ کسی
غریب کے آخری خون کے قطرے سے ہی کیوں نہ حاصل ہو۔
عوام کواب اس خواب سے نکل آنا چاہیے کہ عمران خان ،میاں نواز شریف یا آصف
علی زرداری ہمیں مسائل سے نکالیں گے ۔یہاں نہ نیا پاکستان بننا ہے ،نہ ہی
مدینہ کی ریاست بننی ہے ۔یہ سب جھوٹ اور فراڈ ہے ۔یہ سب ایک ہی سکے کے دو
رخ ہیں ۔عوام کو ان جھوٹے خواب دکھانے والوں اور مفاد پرست ٹولے کو پہچانتے
ہوئے ایک قوم بننے کی طرف قدم بڑھانا چاہیے ۔کیونکہ فرد ہی معاشرے کی اکائی
ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ سب اپنی اپنی معاشرتی ذمہ داریاں صحیح طریقے سے
نبھائیں ۔ملک میں جان بوجھ کر غیر یقینی کیفیت طاری کی جا رہی ہے ۔لیکن اگر
ہم نے اپنی مدد آپ کے تحت عملی کام نہیں کیا تو وہ دن دور نہیں کہ غیر
یقینی کی دلدل میں دھنستے ہوئے تاریخ کی تاریکی میں ہمیشہ کے لئے گم ہو
جائیں گے ۔ہمیں روشنی کی تلاش میں اندھیروں سے خود ہی نکلنا ہو گا۔
|