بطور والدین تعمیر معاشرہ میں ہمارا کردار

بطور والدین ہم اپنے بچوں کو معاشرے کا مفید شہری بنانے کے لئے کیا کر سکتے ہیں۔۔۔؟

آج کل کے نوجوانوں کو پتا نہیں کیا ہو گیا ہے، ہمارے بچے ہماری بات بلکل نہیں سنتے، ہمارے زمانے میں تو ایسا نہیں ہوتا تھا، بڑوں کی باتوں کی تو کوئی اہمیت ہی نہیں رہی۔

نوجوان نسل کے حوالے سے اس قسم کے جملے ہم اکثر سنتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ہماری نوجوان نسل ہماری اقدار اور روایات سے ہٹ چکی ہے؟ کیا واقعی ہمارا معاشرہ زوال پزیر ہو رہا ہے؟
کیا بطور والدین ہم اپنا کردار احسن طریقے سے نبھا رہے ہیں؟

بات یہ ہے کہ ہمیں دوسروں کی غلطیاں اور خامیاں فورا نظر آ جاتی ہیں لیکن ہم اپنی ذات کا محاسبہ نہیں کرتے ہم میں سے ہر کوئی ناقد ہے لیکن خود پر تنقید کوئی برداشت نہیں کرتا، ہم معاشرہ کی اصلاح تو چاہتے ہیں لیکن دوسروں کی اصلاح کر کے، اور چونکہ ہم اپنی ذات میں مکمل ہیں لہذا اپنی اصلاح کی ضرورت ہم قطعی محسوس نہیں کرتے۔

میرے چچا کی مثال ہی لیجیںے۔ چچا صبح دس بجے سو کر اٹھتے ہیں ان کے سو کر اٹھنےسے نہانے تک پانچ منٹ کا وقفہ ہوتا ہے نہانے کے فورا بعد چچا کو تازہ اور گرم ناشتہ چاہئے چچا میاں کا غصہ چونکہ بہت شدید ہے اس لئے کسی قسم کی تاخیر وہ ہرگز برداشت نہیں کرتے، ناشتے کے بعد گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ ٹی-وی دیکھتے ہیں اور پھر دکان پر چلے جاتے ہیں بچے ان کے اٹھنےسے پہلے ہی سکول چلے جاتے ہیں، رات کے گیارہ بجے چچا میاں آتے ہیں بچے سو رہے ہوتے ہیں پھر ٹی-وی دیکھتے ہیں سوشل میڈیا کا استعمال بھی کرتے ہیں پھر آدھی رات کے بعد سوتے ہیں اگلی صبح پھر وہی نیند نہ پوری ہو نے کی شکایت اور پھر وہی ناک پے غصہ۔۔

ہفتہ میں ایک دن گھر ہوتے ہیں سارا دن بستر پر لیٹ کر اور ٹی-وی دیکھ کر گزارتے ہیں بچوں سے بھی صرف چھٹی والے دن ہی ملاقات ہو پاتی ہے بچوں کو بہت سمجھاتے ہیں اچھی اچھی نصیحتیں کرتے ہیں کہ صبح فجر کے وقت اٹھ کر مسجد میں نماز پڑھ کر روزانہ پارک جاو ہلکی پھلکی ورزش کرو لیکن بچوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔

چچا میاں اس صورت حال سے پریشان ہیں انہیں لگتا ہے بچے ان سے کتراتے ہیں، بچوں کو ہر آرام مہیا کر نے کے باوجود بچے ان کے فرماںبردار نہیں ہیں

ایمانداری سے بتائیے کیا چچا میاں اپنی جگہ درست ہیں؟

اگر اس کا جواب نہیں میں ہے تو زرا اپنا محاسبہ کیجیے کہیں آپ چچا میاں تو نہیں بن رہے۔

کیا ہم اپنے بچوں کو وقت دے پاتے ہیں ، کہیں ہم صرف معاشی ضروریات کو پورا کر نا ہی تو اپنا فرض
خیال نہیں کرتے؟ اگر ہمارے بچے کوئی مثالی بچے نہیں ہیں تو کیا ہم مثالی والدین ہیں۔، کیا ہم والدین کا کردار احسن طریقے سے نبھا رہے ہیں؟

اگر ہم واقعی اپنے گھر اور معاشرے کی اصلاح چاہتے ہیں تو ہمیں لفظی نصیحتیں کر نے کی بجائے خود کو عملی طور پر بدلنا ہو گا ہمیں خود کو ایک عمدہ مثال کے طور پر پیش کر نا ہو گا، چونکہ بچے فطری طور پر نقال ہوتے ہیں اس لئے ان کے سامنے خود کو ویسے ہی پیش کیجیے جیسا آپ انہیں دیکھنا چاہتے ہیں
یقین کیجیے آپ اپنے بچوں کو اچھی تر بیت سے بڑھ کر کوئی دولت نہیں دے سکتے، ہمارے بچے ہی ہمارا مستقبل ہیں اگر ہم اپنا مستقبل محفوظ دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں جامع اور عملی خطوط پر اپنی آئندہ نسلوں کی پرورش کر نا ہو گی۔
 

Sobia Zaman
About the Author: Sobia Zaman Read More Articles by Sobia Zaman: 12 Articles with 14290 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.