پاکستانی آسٹریلین نوجوانوں کا کثیرالثقافتی معاشرے میں کردار

اس میں کوئی شک نہیں کہ آسٹریلیا ایک برِ اعظم ہونے کے ساتھ ساتھ ایک کثیرالثقافتی ملک ہے جہا ں دنیا بھر سے ہر طبقہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ ہجرت کرکے آئے ہیں اور زندگی کی دوڑ میں اپنی اپنی تگ و د جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس مضمون میں ہمارا مرکز اور محور صرف اور صرف پاکستانی پسِ منظر سے تعلق رکھنے والے آسٹریلینز ہوں گے اور ہم اس بات کا تفصیل کے ساتھ جائزہ لیں گے کہ پاکستان سے ہجرت کرکے آسٹریلیا منتقل ہونے والے پاکستانی اس معاشرے میں بسنے کے بعد کن کن شعبہ ہائے زندگی میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔ علاوہ ازیں ہماری اس بحث میں کثیر الثقافتی آسٹریلیا کی ایک جامع تعریف بھی حوالہ جات کے ساتھ شامل کی جائے گی۔ہم کوشش کریں گے کہ ایسے تمام حقائق کو منظر عام پر لائیں جو پاکستانیوں کو اس معاشرے میں در پیش ہیں اور گیارہ ستمبر کے بعد پاکستانیوں نے بحیثیت پاکستانی مسلمان جن دشورایوں کا سامنا کیا انہیں بھی اجاگر کیا جائے۔

اس حقیقت سے تو انکار ممکن نہیں کہ ہم پاکستانی تھے، ہیں اور رہیں گے لیکن ہمیں یہ بات بھی نظر انداز نہیں کرنی چاہیے کہ اب ہم اس اس ملک کے باسی ہیں اور اکثریت شہریت رکھتی ہے۔ شہریت کسی بھی ملک کی ہو وہ شہری سے کچھ تقاضے کرتی ہے۔ مثلاََ: یہ کہ بحیثیت آسٹریلوی شہری ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں؟ کیا ہم اس ملک کے قوانین کو کم حقہُّ‘ سمجھتے ہیں؟ کیا ہم انہیں دل سے بھی تسلیم کرتے ہیں؟مزید یہ کہ اس ملک کی ترقی میں ہمارا کردار کیا ہے؟اور کیا ہونا چاہیے؟ نیز اگر ہمیں اس ملک میں نسلی اور طبقاتی تفریق کا سامنا ہے تو اس سے ہم کیسے نبرد آزما ہو سکتے ہیں؟ اور یہ کہ ہم اپنی ثقافتی اقدار کو برقرار رکھتے ہوئے اس کثیرالثقافتی معاشرے میں کس طرح گھل مل سکتے ہیں؟

یہاں ہم نے کئی سوالات اٹھائے ہیں لیکن اب یہ ہمارا فرض بنتا ہے کہ ان سوالات کے جوابات میں بھی کچھ کہیں۔ دیکھیے! سب سے پہلے تو شہریت کی تعریف کر لیتے ہیں۔’کسی ملک کا باضابطہ شہری ہونا، شہریت کہلاتا ہے‘۔شہریت فارسی سے ماخوذ اسم ظرف مکاں ہے۔شہر کے ساتھ ’یت‘ کا لاحقہ لگا نے سے ’شہریت‘ بنا اور اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔تو گویا شہریت کا مطلب ہوا کہ ایسا انسان جو کسی ملک کا باضابطہ شہری ہو اور اس حیثیت سے تمام حقوق رکھتا ہو۔جب کسی کے پاس حقوق ہوں گے تو لامحالہ اس کے کچھ فرائض بھی ہو ں گے پس انہی فرائض کی ادائیگی کا نام کردار ہے اور چونکہ آسٹریلیا ایک کثیر الثقافتی ملک ہے اس لیے اس سے پہلے کہ ہم کثیرالثقافتی آسٹریلیا میں پاکستانی آسٹریلین نوجوانوں کے کردارکو موضوع بنائیں بہتر یہ معلوم ہوتا ہے کہ لفظِ ”کثیرالثقافتی“ کی وضاحت کر لی جائے۔ کثیرالثقافتی انگریزی ملٹی کلچرل کااردو ترجمہ ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ ’ایک ایسا معاشرہ جہاں ایک سے زیادہ ثقافتوں کا ملاپ ہو اور نہ صرف ملاپ ہوبلکہ ہر ثقافت اپنی انفرادی حیثیت بھی برقرار رکھے‘۔۱ ہجرت پرآسٹریلیا کی پارلیمنٹ کی مشترکہ سٹینڈنگ کمیٹی کی رائے بھی ملاحظہ کیجیے۔
"The doctrine that several different cultures (rather than one national culture) can coexist peacefully and equitably in a single country"
ہمارا استدلال ہمیں آگے بڑھنے سے روکتا ہے اور مجبور کرتا ہے کہ کثیرالثقافتی کی تعریف کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ بتایا جا ئے کہ آخر یہ ثقافت یا کلچر چیز کیا ہے؟ ثقافت کا لفظ بہت پرا نا نہیں ہے ماضی بعید میں اس کی جگہ لفظ تہذیب استعمال ہوتا تھا اور ثقافت کا لفظ پچھلی دو چار دہائیوں ہی سے وجود میں آیا ہے۔ اصلاََ عربی ہے اور بعینہ اردو زبان میں مستعمل ہے۔ اس کے معنی ’کسی قوم یا گروہ انسانی کی تہذیب کے اعلیٰ مظاہر جو اس کے اخلاق، علم و ادب اور فنون میں نظر آتے ہیں۔
انسان کی شہری اور اجتماعی زندگی کے لیے ثقافت ایک فطری چیز ہے۔اسے اس مثال سے واضح کیا جا سکتا ہے کہ جب کو ئی بچہ اس دنیا میں آتا ہے تو اس کے لیے ماں کی گود اشد ضروری ہوتی ہے اسی طرح اس کی نشو ونما اور اسے پروان چڑھانے کے لیے خاندان، معاشرہ اور تعلیم گاہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ پس شہریت انسان کی فطرت اور ثقافت اس کی بنیاد ہے۔ثقافت یا تہذیب کو تاریخ کے آئینے میں دیکھیے یا سماجی حیثیت میں اس کا مطالعہ کیجیے ہر دوصورتوں میں یہ بات اظہر من الشمس ہو جاتی ہے کہ اس کا تعلق سماج اور تاریخ سے نہایت گہرا ہے۔

اب لفظِ ثقافت(تہذیب) پر غور کر لیتے ہیں۔ثقافت ایک ایسی آماجگاہ ہے جہاں انسانیت پروان چڑھتی اور نشو و نما کے ساتھ ساتھ پھلتی پھولتی ہے۔انسان کا تشخص بنتا اور ابھرتا ہے نیز اس کے لیے ترقی کے باب کھلنا شروع ہو جاتے ہیں اور انسان کا میاب و کامران زندگی بسر کرتا ہے۔ثقافت اور تہذیب کی اصطلاحیں عمرانیات، تاریخ، فلسفہ اور سیاسیات کی مباحث میں ملتی ہیں۔تاہم اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس کی تعریف میں شدید اختلاف پایا جاتا ہے اور اکثر اوقات انہیں ایک دوسرے کا مترادف سمجھا جاتا ہے۔

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ عقیدے، اقداراور اصول ِ حیات کی بنیادی قدریں، جو کسی انسانی گروہ کی مشترک اساس ہوں اور جن کی بنیاد پر کسی قوم یا جماعت کو معاشرے میں ایک متمیزتشخص اور شناخت حاصل ہو، ثقافت کہلاتی ہے، لیکن یہ واضح کرنا بھی ضروری ہے کہ ثقافت محض عقیدہ، فکر، عادات اور اخلاق و اطوارکا نام نہیں بلکہ ان کے ساتھ ساتھ سیاسی، اجتماعی اور معاشرتی ادارے جن کے نتیجے کے طور پر مختلف علوم و فنون وجود میں آتے ہیں، معاشی ادارے بنتے ہیں اور سیاسی نظام تشکیل پاتے ہیں، بھی ثقافت ہے۔

جیسا کہ ابتدا میں عرض کیا گیا تھا کہ اس مضمون میں ثقافت اور کثیرالثقافتی کی وضاحت کی جائی گی جو کہ کر دی گئی ہے تو اب ہم پاکستان اور پاکستانی ثقافت کی بات کرکے ذرا اور آگے بڑھتے ہیں۔ جناب پاکستان ایک اسلامی جمہوری ملک ہے اس لیے وہاں کے باشندوں کی اکثریت بھی اسلام سے تعلق رکھتی ہے گویا ان کی ثقافت ایک اسلامی ثقافت ہے لیکن اسلامی ہونے کے ساتھ ساتھ اس میں کئی علاقائی ثقافتوں کا امتزاج بھی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب کو ئی پاکستانی آسٹریلیا میں آتا ہے تو وہ اپنے ساتھ نہ صرف اسلامی اقدارلاتا ہے بلکہ پاکستان کے علاقائی رسم و رواج بھی اس کے ساتھ ہجرت کرتے ہیں۔ اکثر پاکستانی پہلے ہی سے ایک سے زیادہ زبانوں کے سمجھنے اور بولنے والے ہوتے ہیں چنانچہ جب وہ یہاں آتے ہیں تو انگلش کلچر کے زیرِ اثر ان میں بسا اوقات بہت بڑی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوتی ہو ئی نظر آتی ہیں۔ لیکن اس وقت ہمارا موضوع یہ نہیں بلکہ اس کثیر الثقافتی معاشرے میں کردارہے۔لہٰذا ہمارا مرکز و محور یہی موضوع رہے گا۔

اس کثیرالثقافتی معاشرے میں پاکستانی تقریباََ ہر شعبے میں اپنااپنا کردار نہایت بھرپور انداز میں نبھا رہے ہیں۔ ہم یہاں کچھ شعبہ ہائے زندگی کا تذکرہ کرنا بہت ہی ضروری سمجھتے ہیں تو سب سے پہلے صحت اور پھر تعلیم اور بعد ازاں دیگر شعبہ جات کابھی ذکر کیا جائے گا۔ یہ بات ہر ذی شعور جانتا ہے کہ صحت اور اس کے متعلقات کا ایک انسان کی زندگی میں نہایت اہم کردار ہے۔ ہمیں یہ الفاظ لکھتے ہوئے انتہائی خوشی کے ساتھ ساتھ فخر بھی ہے کہ پاکستانی آسٹریلینز اپنے آسٹریلوی ہم وطنوں کی اس شعبے میں بھرپور خدمت کررہے ہیں۔ بہت سے نوجوان ڈاکٹرز نہ صرف شہری علاقوں بلکہ دہہی علاقوں میں بھی اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ صحت کے ساتھ ساتھ تعلیم کے انتہائی اہم شعبے میں اساتذہ نسلِ نو کی تعلیم و تربیت میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔ان دونوں کلیدی شعبوں کے علاوہ انجنئرنگ، سیکیورٹی، تعمیرات اور پرنٹ اور الیکٹریکل میڈیا میں اپنا کردار احسن طریق سے انجام دے رہے ہیں۔

ہمیں یہ کہنے میں ذرا تامل نہیں کہ پاکستانی نوجوان جس طرح وطنِ عزیز پاکستان سے اپنی محبت کا اظہار کرتے رہتے ہیں اسی طرح وہ اس ملک سے بھی اپنی دلی وابستگی کا بر ملا اظہار کرتے ہیں۔آسٹریلیا کی آئینی آزادی کا دن ہو یا کوئی کثیرالثقافتی میلہ ہو پاکستانی آسٹریلین نوجوان پیش پیش نظر آتے ہیں۔
پاکستانی آسٹریلین نوجوان اس ملک کی ترقی و تعمیر میں اپنا بھرپور کردار ادا کررہے ہیں اور جہاں تک رہا یہ سوا ل کہ بحیثیت شہری ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں؟ تو ہمارا پختہ یقین ہے کہ اس ملک میں بسنے والا ہر پاکستانی آسٹریلین اپنی ذمہ داریوں سے نہ صرف کما حقہ آگاہ ہے بلکہ یہاں کے قوانین کو بخوبی سمجھتا ہے اور انہیں دل سے تسلیم کرتے ہوئے ان پر بطریقِ احسن عمل کرتا ہے۔ جہاں تک رہا یہ سوال کہ اس ملک میں نسلی امتیاز سے کس طرح نبرد آزما ہوا جائے تو اس کا جواب نہایت آسان ہے اور پاکستانی آسٹریلینز کی اکثریت اسی نسخے پر عمل پیرا نظر آتی ہے کہ اپنی بات چھوڑو نہیں اور دوسرے کی بات چھیڑونہیں۔

وطن سے محبت ایک فطری بات ہے اور ہم چونکہ دو ملکوں کے شہری ہیں اس لیے ہماری دونوں ہی ملکو ں سے محبت لازوال ہے۔ پاکستان ہمارے آباواجداد کا وطن ہے اور آسٹریلیا ہمارا بعض صورتوں میں پیدائشی اور بعض صورتوں میں اختیار کیا ہو ا ملک ہے بہر حال ہر دو صورتوں میں اب یہ بھی ہمارا ملک ہے اس لیے جب ہم پاک سر زمیں۔۔۔گاتے ہیں تو ساتھ ہی ساتھ ایڈوانس آسٹریلیا فیئر بھی ہمارے لبوں پر آجاتا ہے اور گذشتہ دنوں پاکستان۔آسٹریلیا لٹریری فورم کی افتتاحی تقریب میں تو اس کا عملی مظاہر ہ دیکھنے میں آیا۔ جہاں ہم نے یہ ثابت کیا کہ ہم صرف زبانی جمع خرچ ہی نہیں کرتے بلکہ عملی طور بھی اس کا مظاہر ہ کرتے ہیں۔

اب جہاں تک کسی ملک کو مضبوط اور مستحکم بنانے کی بات ہے تو اس میں فرد کا کردار ضرور ہوتا ہے لیکن اسے ترقی کی منازل کی طرف افراد بحیثیت قوم ہی کے لے جاسکتے ہیں۔علامہؒ نے کیا خوب فرمایا:
ع افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ

ایک بات جس کا تذکرہ کرنا نہایت ضروری ہے وہ یہ کہ اگرچہ ہم پاکستانی آسٹریلینز اس معاشرے میں رہتے ہوئے اپنا مثبت کردار ادا کررہے ہیں لیکن ۱۱ ستمبر ۱۰۰۲؁ء کا دن دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے مشکلات لے کر آیا اور آسٹریلیا اس سے مبر ا نہ رہ سکا۔ چنانچہ یہاں کے مسلمانوں کو بھی یہاں کے سخت گیر اور انتہا پسند لوگوں کے ناروارویوں کو برداشت کر نا پڑا۔لیکن باوجود اس کے کہ اب بھی کبھی کبھی ایسے ہی حالات پیدا ہو جاتے ہیں مگر پاکستانی آسٹریلینز کے دل اتنے کشادہ ہیں کہ وہ اس کے باوجود ان کے سخت اور بعض اوقات ناقابل برادشت رویوں پر بھی قانون ہاتھ میں لینے کی بجائے قانون نافذ کرنے والے اداروں سے مدد لیتے ہیں اور یوں اچھے اور ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت فراہم کرتے ہیں جس کی حکمران بھی بھی ستائش کیے بغیر نہیں رہ سکتے۔گذشتہ دنوں آسٹریلیا کے وزیرِ اعظم میلکم ٹمبل نے ایک تقریب میں مسلمانوں کی خدمات کو سراہتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں نے اس ملک کی ترقی میں نہایت اہم کردار ادا کیا ہے اور کر رہے ہیں۔
بس اس شعر کے ساتھ اپنی بات ختم کرتا ہوں کہ:
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے

 

Afzal Razvi
About the Author: Afzal Razvi Read More Articles by Afzal Razvi: 118 Articles with 198717 views Educationist-Works in the Department for Education South AUSTRALIA and lives in Adelaide.
Author of Dar Barg e Lala o Gul (a research work on Allama
.. View More