سزا

آج را ت شبِ برات تھی سعد یہ نے عصر کی نماز پڑ ھی اور اسکے بعد قرآ ن پاک لیکر بیٹھ گئی آ دھا گھنٹہ تلا وتِ قرآ نِ پاک کے بعد اپنے مرحوم وا لد ۔ دا دا ۔ دا دی اور تمام مسلما نوں کے لئے ایصالِ ثوا ب کی دعا کر نے لگی ۔ اتنے میں اسکا چھو ٹا بیٹا با ہر سے کھیل کر آ یا تو اسے رو ک کر اس نے یہ ضرو ری سمجھا کہ اپنے بیٹے کو آ ج کے دن کی اہمیت کے با رے میں بتا ئے ۔ لہٰذا بیٹے کو پا س بلا کر پو چھا کہ بیٹے شب برات کیا ہے ۔ تو وہ بہت خو ش ہو کر بتا نے لگا "ہاں جی مجھے پتہ ہے کہ آ ج سب بچے اپنے گھروں پر لا ئیٹس اور موم بتیاں لگا ئیں گے اور شا م کو سب دو ست مل کر خو ب پٹا خے بجا ئیں گے ۔ بڑا مز ہ آ ئے گا " یہ کہہ کر بیٹے نے پٹا خے اور مو م بتیاں خر ید نے کے لئے پیسے ما نگنے شرو ع کر دئیے ۔

سعد یہ کو بچے کی معصوم مگر گمرا ہ کن معلومات پر افسو س ہو نے لگا اور اس نے اسے پاس بٹھا کر پیا ر سے بتا یا کہ “ بیٹا شب برا ت پٹاخے بجا نے اور مو م بتیاں لگانے کی را ت نہیں بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی عبا دت کی را ت ہے ۔ اس میں مسلمان زیا دہ سے زیا دہ عبا دت کر کے اپنے گنا ہوں کی معا فی ما نگتے ہیں ۔ اسکے علا وہ اپنے پیا رے اور فوت شد ہ رشتہ دا روں کی قبر پر جا کر انکے لئے قرآ ن پاک پڑھتے ہیں اور انکی بخشش کی دعا ما نگتے ہیں ۔ قبروں کےاو پر ی حصے کی صفا ئی کر تے ہیں اور پھول وغیر ہ ڈالتے ہیں۔ بیٹے نے اسکی بات میں کو ئی خا ص دلچسپی ظا ہر نہ کی اور پیسوں کا تقا ضا کر تے ہو ئے پھر با ہر کھیلنے چلا گیا ۔

بیٹا تو با ہر چلا گیا مگر سعد یہ یادوں کے سمندر میں اُ تر گئی اور بچپن کی خوبصورت یا دیں آ نکھوں کے آ گے پھر نے لگیں جس میں ابو تھے دا دا اور دا دی اماں تھیں۔ اسے جلد ہی یا د آ نے لگا کہ دا دی اماں نما ز کی پا بند ی کتنی زیا دہ کر تی تھیں۔ ایک نماز کے ختم ہو نے کے بعد دو سر ی نما ز پڑ ھنے کے لئے اذا ن کی آ وا ز کا دیر تک انتظار کر تی تھیں پھر اُ سے یاد آ یا کہ دا دی اماں اسے ہمیشہ پا نی کو ضا ئع کر نے سے منع کر تی تھیں۔ گھر میں نلکا لگا ہوا تھا جس میں سے سا را دن ٹھنڈا میٹھا پا نی بے حسا ب نکا لا جا سکتا تھا۔ اسے یا د تھا کہ گاؤں کے کافی

غر یب لوگ بھی انکے گھر پا نی بھر نے آ تے تھے ۔عو رتیں اور بچے گھڑے اور با لٹیاں بھر بھر لے کر جا تے تھے ۔ مگر کبھی زند گی میں پا نی ختم نہ ہوا۔ اپنے بچپن میں اسے دا دی اماں کی یہ نصیحت بہت عجیب لگتی اور اُسے کبھی یہ سمجھ نہ آ ئی کے نلکے کے ذر یعے جو پا نی زمین سے آ رہا ہے وہ کیسے ختم ہو سکتا ہے اور کب ختم ہو گا ۔ دا دی اماں گاؤں میں رہتی تھیں اور یہ گاؤں دریا ئے چناب کے کنا رے پر تھا جس میں پا نی ہیں پا نی تھا ۔ ہرگھر میں پا نی سے بھر ے ہو ئے نلکے تھے ۔ پا نی کیسے ختم ہو سکتا تھا۔ خیر دا دی اماں کی نصیحت کی اہمیت اسے کئی سا لوں کے گز نے کے بعد سمجھ میں آ ئی ۔

سعد یہ بچپن ہی میں اپنے وا لد ین کے سا تھ شہر میں شفٹ ہو گئی تھی ۔ جہاں پر اسکے وا لد ایک سر کا ری ملا زم تھے۔ جس علا قے اور محلے میں انہوں نے گھر خر یدا وہ علا قہ لو ئر مڈ ل کلا س سے تعلق رکھتنے وا لے افرا د کا رہا ئشی علا قہ تھا ۔ جہاں تک اُ سے یاد تھا اُ سکے بچپن میں تو اس علا قے میں پا نی کا اتنا مسئلہ نہیں تھا مگر وقت گزر نے کے سا تھ سا تھ آ نے وا لے سا لوں میں یہ مسئلہ بڑ ھتا چلا گیا اور ایک ایسے مسئلے کی شکل اختیار کر لی جسکا ذکر اکثرلو گوں کی زبان پر رہنے لگا ۔ ہفتے میں ایک دو دن ایسے ہی ہو تے کہ لو گ بالٹیاں لے کر ایک دو سر ے کے گھر سے پا نی ما نگ کر گزار ہ کر تے ۔ پھر آ ہستہ آ ہستہ محلے والوں کو یہ بات پتہ چلی کہ ایک پا نی کھینچنے وا لی مو ٹر بھی ہو تی ہے اگر وہ پا نی کے پا ئپ کے او پر لگوا لی جا ئے تو مو ٹر سا را پا نی کھینچ لیتی ہے اور آ پکے پا نی کی ٹینکی پا نی سے بھر ی رہتی ہے ۔ پھر

آ ہستہ آ ہستہ امی کی زبا نی سعد یہ کو پتہ چلا کہ فلاں گھر میں مو ٹر لگ گئی ہے ۔ اور اب لو گ ان کے گھر سے پا نی لیکر آ تے ہیں ۔ انکی گلی میں دو تین پانی کھینچنے وا لی مو ٹر یں اور لگ چکی تھیں ۔ مو ٹر یں لگنے سے کچھ لو گوں کو بھلا ہو گیا مگر زیا دہ تر لو گوں کا پا نی کا مسئلہ اس قدر شد ید ہو گیا کہ وہ بو ند بو ند کو تر سنے لگے ہفتوں تک انکے گھروں کی ٹینکیوں میں پا نی نہ آ تا ۔ وہ با لٹیاں پکڑ پکڑ کر لو گوں سے پا نی کی بھیک ما نگنے لگے ۔

پیسے وا لے امیر لو گوں نے اپنی دو لت کے بل پر غر یبوں کے حصے کا پا نی ان سے چھین لیا ۔ امیروں کے صحن اور گا ڑیاں اور سا ئیکلیں ہر رو ز دُھلنے لگیں گر می کی شدت سے گھبرا ئے ہوئے امیروں کے بچے پر زور کھلے پا نی سے نہا دھو کر دُھلے ہو ئے اِستری شد ہ کپڑ ے پہن کر شام کو پارک میں کھیلنے کے لئے آ تے تو اسی گلی میں رہنے وا لے غر یبوں کے بچوں کے پا س سے آ نے وا لی پسینے کی بد بو اور زیا دہ بڑ ھ گئی ۔ کئی کئی دن پا نی کی کمی کی وجہ سے انکے کپڑے نہ دھل پا تے اور انکے جسموں کی طر ح انکے کپڑ ے بھی اتنے گند ے اور بد بو دا ر رہنے لگے کہ اب کو ئی امیر بچہ ان سے کھیلنا پسند نہ کر تا تھا۔

امیر عورتوں کے گھروں کی ٹینکیوں میں آ نے وا لا غر یبوں کے حصے کے پا نی نے امیر عو رتوں کے غرو رو تکبر کو اور زیا دہ بڑ ھا دیا تھا ۔ اب کچھ دنوں سے یہ صورتحا ل سا منے آ رہی تھی کہ یہ امیر عو رتیں غریب محلے داروں کو پا نی دے دے کر تنگ آ چکی تھیں اور اب بڑ ی ڈھٹا ئی اور بد تمیزی سے پا نی دینے سے انکا ر کر نے لگیں ۔ پا نی وا لی امیر عو رتوں اور پا نی ما نگنے وا لی غر یب عورتوں میں اب اکثر ہی چھو ٹی چھو ٹی لڑا ئیاں ہو نے لگیں۔ اور اکثر لڑا ئی جھگڑ ے کا یہ شو ر اس قدر بڑ ھ جا تا کہ محلے والے بھی اکٹھے ہو کر تما شا دیکھنے لگتے ۔

سعد یہ کی ہمسا ئی آ نٹی کسٹم وا لی بھی اپنے گھر کی ٹینکی پر مو ٹر لگوا چکی تھی۔ شام کے وقت جب پا نی آ نے کا ٹا ئم ہو تا تو وہ بجلی کی مو ٹر آ ن کر دیتی جس سے جلد ہی مو ٹر سا را پا نی پا ئیپوں میں سے کھینچ کر اسکے گھر کی ٹینکی بھر نے لگتی ۔ اسکے بعد دن بھر کی گر می سے ستا ئے ہو ئے اسکے بچے پا ئپ لگا صحن دھو نا شرو ع کر دیتے اسکے بعد ڈھیر سا را پا نی ٹینکی میں سے نکال کر صحن میں پا نی بھر لیتے اور خو ب نہا تے ۔ نہا تے ہو ئے بچوں کے ہنسنےکھیلنے اور مزہ کر نے کی آ وا زیں ہر گزر نے وا لے را ہ گیر کو سنا ئی دیتی اور تھو ڑا تھو ڑا پا نی بھی بہہ بہہ کر با ہر گلی میں بہنے لگتا ۔کسٹم وا لی آ نٹی کے اڑو س پڑو س میں رہنے والی پا نی سے محروم عورتیں جنکے گھروں کی ٹنکیاں کئی دنوں سے خا لی تھیں آ کر آ نٹی کو سمجھا تی کہ خدا کے لئے پا نی ضا ئع نہ کرو ۔ اور مو ٹر نہ چلا ؤ تا کہ ہمارے گھر میں بھی پا نی آ سکے مگر کچھ ہی دیر بعد ان عورتوں اور آ نٹی کی لڑا ئی کی آ وا زیں محلے وا لے سننے لگتے اور یہ عورتیں آ نٹی کو اسکے بچوں کو بد دُعا ئیں دیتی ہو ئی اپنے گھروں کو وا پس آ جا تی اور آ نٹی انکو گا لیاں دیتی ہو ئی زیا دہ زور سے اپنا گیٹ بند کر کے اندر چلی جا تی ۔

مگر شا ید دکھی محروم اور مجبور لو گوں کی دُ عا اور بد دُعا دونوں ہی اثر رکھتی ہیں کسٹم وا لی آ نٹی ایک شام کو اپنی ایک عزیزہ سے ملنے چلی گئی ۔ بچے گھر پر تھے۔ حسبِ معمول بچوں نے ٹینکی کا ڈھکن اٹھا یا اور اس میں سے پا نی کی با لٹیاں بھر بھر کے صحن میں پانی جمع کر نے لگےتا کہ نہا سکیں۔ پا نچ سا لہ حسن بھی اپنے کھلو نے میں پا نی بھر نے کے لئے جھکا تو اپنا توا زن بر قرار نہ رکھ سکا اور بے چا رہ پا نی کی ٹینکی میں گر گیا ۔ گیا رہ سا لہ امبر نے بھا ئی کو پا نی میں گر تے ہو ئے دیکھ لیا تھا۔ وہ فوراً بھا ئی کو بچا نے کے لئے پا نی کی ٹینکی میں جھک گئی مگر ننھا بھا ئی ہا تھ نہ آ یا تو اور زیا دہ جھک کر اسے پکڑ نے کی کو شش میں خو د بھی ٹینکی میں گر گئی ۔

ہا ئے افسو س کچھ ہی دیر پانی میں غو طے کھا نے کے بعد دو نوں بہن بھا ئی پا نی میں ڈوب کر مر چکے تھے ۔ محلے وا لے با قی بچوں کا شور سن کر اکھٹے ہوگئے اور ایک آ دمی نے مر ے ہو ئے دو نوں بچوں کو با ہر نکا لا ۔

آ نٹی کسٹم وا لی گھر وا پس آئیں تو بچوں کی لاشیں دیکھ کر بے ہوش ہوگئیں۔اب وہ خود ایک زندہ لاش بن چکی ہیں خاموشی رہتی ہیں۔غریبوں کے ساتھ ادا رکھے جانے والے سلوک کو یاد کرکےبہت روتی ہیں اور اللہ تعالٰی سے معافی مانگتی رہتی ہیں ۔
 

Fouzia Malik
About the Author: Fouzia Malik Read More Articles by Fouzia Malik: 8 Articles with 14546 views Born in Rawalpindi.Graduated from Waqar un Nisa College Rawalpindi. Hold masters degrees in History and Education.Married and happy to remain at home .. View More