فوزیہ اپنے بستر پر لیٹی تو کچھ دیر کے بعد اسکا تیرہ سال
بیٹا مرتضیٰ بھی اسکے ساتھ آکر لیٹ گیا وہ عام طور پر علیحدہ بستر پر سوتا
تھا اور کبھی کبھار بیڈ پر ماں کے ساتھ ۔ آج بہت دونوں کے بعد وہ لیٹا اور
تکیہ اپنے سر کے نیچے سے نکال کر اپنی ٹانگوں اور بازؤں کے درمیان اس طرح
رکھ لیا جیسے مائیں اپنے بچوں کو اپنے باؤوں کے حصار میں لیکر سوتی ہیں اس
نے کچھ دیر ماں کی آنکھوں میں دیکھا اور پھر آنکھیں بند کر کے لیٹ گیا
جیسے سونے کی ایکٹنگ کر رہا ہو آخر فوزیہ بھی اس کی ماں تھی اپنے بیٹے کی
نظروں کو فوراً سمجھ گئی اور یہ جان گئی کہ بچہ اب اپنی ماں کی توجہ اور
محبت اور اسکی گود کی گرمی کا طلب گار ہے اس نے مرتضیٰ کو آواز دی اور
اسکا بازو پکڑ کر اپنی طرف گھسیٹتے ہوئے بولی "شہزادے کیا ہوا نیند نہیں
آرہی آجاؤ میرا بیٹا اپنی ماما کے ساتھ لگ کر سو جاؤ جیسے چھوٹے ہوتے
ہوئے سوتے تھے" بیٹا خوشی سے ماں کے قریب ہو گیا اور فوزیہ نے اسے تحفظ کا
احساس دلانے کے لئے اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور اس کا ہاتھ دبانے
لگی جیسے اسے اپنی محبت کا احساس دلانا چاہ رہی ہو ماں اور بیٹے دونوں کی
ہتھلیاں آپس میں ملی ہوئی تھیں اور انگلیاں بھی ایک دوسرے کے ساتھ پیوست
تھیں وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھنے لگے جیسے ایک دوسرے کے دل کی دھڑکن کو
محسوس کر رہے ہوں ۔
ایک دم فوزیہ کے دماغ میں ایک جھماکا سا ہوا اور اسے 9سال پہلے کا وہ منظر
یاد آگیا جب اس طرح اس نے اپنے والد کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا جو اس
وقت بستر مرگ پر تھے اور وہ اس وقت اپنے بابا کے دل کی دھڑکن کو محسوس کر
رہی تھی ۔
آنسوؤں کی لڑیاں اسکی آنکھوں سے بہنے لگیں اور قطرے اسکے بیٹے کے سر کو
بھگونے لگے مرتضی ٰ نے فوراً حیران ہو کر ماں کی طرف دیکھا اور پوچھا "ماما
آپ رو کیوں رہی ہیں "۔
فوزیہ بولی کچھ نہیں بیٹاآپکے نانا ابو یاد آگئے ۔پتہ ہے آپکےنانا ابو کی
ڈیتھ سے دو دن پہلے میں نے بھی انکا ہاتھ مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا ہماری
ہتھیلیاں اور انگلیاں اس طرح ملی ہوئی تھیں اور میں انکے دل کی دھڑکن کو
محسوس کر رہی تھی تب انکا ہاتھ پکڑ کر مجھے یہ احساس ہوا کہ وہ اس وقت بے
حد تکلیف میں ہیں اور شائد اس دنیا سے جاتے ہوئے انکو بہت ڈر لگ رہا ہے ۔
تب ہی تو انہوں نے میرا ہاتھ بہت زور سے پکڑ لیا تھا۔
"ماما نانا ابو کیسے فوت ہوئے تھے "بچے نے سوال کیا ماں نے اسکی بات کا
کوئی جواب نہ دیا آنسو اسکی آنکھوں سے اور زیادہ بہنے لگے اور وہ نو سال
پہلے کے منظر میں واپس پہنچ گئی ۔
فوزیہ کے والد پچھلے آٹھ سال سے ہیپا ٹیٹس سی جیسے موزی مرض کا شکار تھے
اور بہت اچھا اور مہنگا علاج کروانے کے باوجود ٹھیک نہیں ہو پارہے تھے یہ
مرض بگڑتے بگڑتے اپنی آخری حد تک پہنچ چکا تھا اور فوزیہ اسکی امی ، بہن
بھائیوں کے ساتھ ساتھ شائد اسکے والد بھی جان چکے تھے کہ اب وہ صرف چند
دونوں کے مہمان ہیں وہ نہیں بچنے والے ۔تمام مسلمان ہر قسم کی مصیبت اور
پریشانی میں اپنے اللہ کو یاد کرتے ہیں، نفل حاجت پڑھتے ہیں، قرآن پاک کی
تلاوت کی جاتی ہے کچھ ایسا ہی منظر اب ہر روز انکے گھر میں بھی دیکھنے کو
ملتا ،جیسے جیسے اس کے ابو کی طعبیت بگڑ رہی تھی سب گھر والے اتنی ہی شدت
کے ساتھ نفل اور نمازیں پڑھ پڑھ کر انکی صحت یابی کی دعائیں مانگ رہے تھے
اُن کی وفات کےآخری دونوں میں تمام رشتے دار بھی سارا دن انکے گھر رہتےاور
بار بار قرآن مجید کا ختم پڑھایا جاتا اور اُن کی صحت کے لئے رو رو کر
دعائیں مانگی جاتِیں ۔ابو کی وفات سے دو دن پہلے سب بہن بھائی انکی چارپائی
کے قریب کرسیوں پر بیٹھ کر سورۃ یسیٰن کی تلاوت کر رہے تھے کہ ایک دم سے
ابوکی طعبیت زیادہ خراب ہو گئی اور انکا سانس اکھڑنے لگ گیا ۔ایسے لگ رہا
تھا جیسے وہ بہت تکلیف میں ہیں اور منہ سے کچھ کہنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر
تکلیف کی شدت سے کچھ کہہ نہیں پا رہے فوزیہ ایک دم سے بہت بے چین ہو کر
اٹھی اور غیر ارادی طور پر اپنے والد کے ہاتھ کو مضبوطی سے پکڑ لیا جیسے
ایک ماں اپنے بچے کو تحفظ کا احساس دلانے کے لئے اسکا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ
لیتی ہے جیسے وہ اپنے والد کو یہ احساس دلا رہی تھی کہ ابو آ پ کو کچھ
نہیں ہوگا ابو آپ ٹھیک ہو جائیں گے ۔
اس نے گھبرا کر تیز تیز اور اونچی آواز میں کہنا شروع کر دیا یا اللہ میرے
ابو ٹھیک ہو جائیں یا اللہ میرے ابو ٹھیک ہو جائیں یا اللہ میرے ابو کو کچھ
نہ ہو ۔ یا اللہ میرے ابو کو زندگی دے دے ۔
امی اور سب بہن بھائی تلاوت قرآن پاک چھوڑ کر ابو کی چار پائی کے قریب
آچکے تھے سب رو رہے تھے اور سب انکے لئے اللہ تعالیٰ سے انکی زندگی کی
بھیک مانگ رہے تھے مگرفوزیہ کے ابو اسکے بعد نہ تو آنکھیں کھول سکے اور نہ
ہی منہ سے کچھ بول سکے ۔مگر انکا ہاتھ اب بھی اپنی بیٹی کے ہاتھ میں تھا
اور انکی بند آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑیاں بہہ گئیں ڈاکٹر آچکا تھا اس نے
کچھ دیر والد صاحب کا معائنہ کیا اور کہنے لگا کہ میرے تو خیال میں انکو
شدید ہارٹ اٹیک ہو چکا ہے آپ فوراً انکو ہسپتال ایمرجنسی میں لے کر جائیں
۔
گاڑی گھر میں موجو دتھی لہٰذا کوئی وقت ضائع کئے بغیر انکو ہسپتال پہنچا
دیا گیا ایمر جنسی میں انکو اکسیجن لگا دی گئی جہاں دو دن کے بعد انکی وفات
ہو گئی( اناللہ وانا الیہ راجعو ن )پڑھتے ہوئے ایک دم سے فوزیہ کی آنکھ
کھل گئی اس نے بے یقینی سے اپنے ساتھ سوئے ہوئے اپنے بچے کو دیکھا پھر
آنسوؤں سے بھرے ہوئے سر ہانے کو دیکھا پھر سیدھی ہو کر لیٹ گئی اس کی نیند
اب ختم ہو چکی تھی والد کی وفات کے یاد آجانے والے مناظر نے اسکو دکھی کر
دیا اب وہ پھر سے اپنی گزشتہ زندگی کو یاد کرنے لگی جو اس نے اپنے ابو کے
ساتھ گزاری تھی۔
|