دیگرسالوں کی نسبت امسال آزادکشمیربھرمیں پھل فروٹ کی
وافرمقدارمیں پیدوارہوئی ہے ۔موسمی اثرات کے باعث جوپھلداردرخت دس سال سے
پھل نہیں دے رہاتھاامسال اس پربھی پھل لگے ہوئے ہیں۔آج سے تقریباًبیس پچیس
سال قبل ایسے ہی پھل فروٹ کی پیدوارہواکرتی تھی۔47ء سے لے کرآج تک کسی بھی
حکومت نے آزادکشمیرمیں پیداہونے والے پھل فروٹس کومحفوظ بنانے کے لئے کوئی
کردارادانہ کیاجس وجہ سے ہرسال کروڑوں روپے کے پھل فروٹس گندگی کی
نظرہوجاتے ہیں۔زراعت ایک وسیع میدان ہے ،پاکستان کی بیشترمعیشت
کادارومدارزراعت پرہے ۔اسی طرح آزادکشمیرکی خوراک کادارومدارمال مویشیوں
پرہے ۔زراعت کے شعبہ میں کافی حدتک آزادکشمیرمیں کمی ہے ،آزادکشمیرکے کل
رقبے میں سے 13فیصدرقبہ پرزرعی پیدوارکویقینی بنایاجارہے جس کے لیے بالائی
علاقے،زیریں بالائی علاقے اورمیدانی علاقے مختص کیے گئے ہیں۔اسی طرح
آزادکشمیرکے کل بجٹ کا0.3فیصدحصہ ہرسال زراعت کے شعبہ جات کوفراہم
کیاجاتاہے۔اس کے برعکس مقبوضہ کشمیرمیں زراعت کوکل بجٹ میں سے 8فیصدفراہم
کیاجارہاہے۔یہ بات حقیقت ہے کہ ہندوستان پاکستان کی نسبت بڑاملک ہے
توظاہرسی بات ہے کہ بجٹ میں سے زراعت کوزیادہ بجٹ ہی فراہم کیاجائے گالیکن
زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں جوبجٹ زراعت کے لیے مختص کیاجاتاہے اس سے
زراعت میں کتنی ترقی ہورہی ہے ۔؟؟؟؟۔۔۔۔۔13فیصدرقبہ اور0.3فیصدبجٹ سے
آزادکشمیرمیں محکمہ زراعت جوپیدوارکی توسیع کرتی ہے وہ ہمارے سامنے ہے
،محکمہ زراعت کے مطابق آزادکشمیربھرمیں عموماًاورضلع پونچھ میں
خصوصاًجوفصلات ،یاپیدوارہوتی ہے ان میں مکئی،موٹھی،مونگ،ماش،سویابین،اس کے
علاوہ گرم علاقوں میں چنا،مسور،پھلوں میں کیلا،مالٹا،سیب ناشپاتی
،آڑو،اخروٹ وغیرہ ہیں۔یہ پیدواری سلسلہ ایک عرصہ سے رواں دواں ہے اس کے لیے
آزادکشمیرکے مختلف علاقہ جات میں کام کیاجارہاہے جن میں بالائی علاقے،زیریں
بالائی علاقے اورمیدانی علاقے شامل ہیں ۔محکمہ زراعت کے مطابق اس وقت محکمہ
کودرپیش مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ مشینی کاشت ہے جس کے لیے محکمہ زراعت
کے پاس جدیدمشینری نہ ہے ۔درکارکاشتکاری مشینوں میں تھریشر،کلٹیویٹر،مثلاً
روٹاوئٹرز،ڈسک پلوں،بارپیرووغیرہ ،ہینڈڈرل مشین چزل پلووغیرہ ہیں۔محکمہ
زراعت توسیع کاکرداراب تک سبزبات ،بے موسمی سبزیات ،فصلات ،پھل اورٹنل
فارمنگ کے حوالے سے کسانوں کی معاونت وتکینکی مشاورت کی جارہی ہے۔محکمہ
مناسب قیمتوں پربروقت بیج ،کھاد،ادویات ،پھلوں کے پودے وغیرہ فراہم
کرتاہے۔اس کے علاوہ محکمہ زراعت توسیع فنڈزجس کانام ریوالونگ فنڈہے کے
ذریعے بروقت بیج کھادکسانوں کوفراہم کررہاہے ۔محکمہ زراعت نجی سطح پرکسانوں
کوبھی تربیت دے رہی ہے کاشتکاری کے حوالہ سے لوگوں میں شعورپیداکرنے کی
کوششیں جاری ہیں ان کوششوں کے ذرائع پمفلٹ،چارٹ،تصاویر،کتب،میگزین،کسان
فصلات گائیڈبکس اورنشرواشاعت کے مختلف ذرائع بھی استعمال میں لائے جارہے
ہیں،اسی طرح الیکٹرانک میڈیاریڈیو پروگرامات کے ذریعے بھی کسانوں کی تربیت
کی جارہی ہے۔لیکن یہ تمام کام آپ کوآن گراؤنڈشایددکھائی نہ دے رہے ہوں اس
کی مرکزی وجہ یہ ہے کہ ہمارے اس تمام کام کومنظم اندازسے پھیلایانہیں
جارہاہے جس کی وجہ سے ہماری زراعت اپنے کام میں خاطرخواہ رزلٹ سامنے نہیں
لارہی۔آزادکشمیربھرمیں سیب کی اعلی کوالٹی پیداہوتی ہے،محض معمولی سی
غیرذمہ داری سے کثیرتعدادمیں سیب داغ لگنے کے باعث ضائع کردیاجاتاہے ،نجی
سطح پرسیب کو کسان وکاشتکارفروخت کرنے سے گریزاں ہیں،محکمہ زراعت کے ہاں
جدیدمشینری نہ ہونے کی وجہ سے زراعت کاشعبہ ملکی پیدوارکوہرسال ضائع کردینے
پرمجبورہے۔آزادکشمیرمیں پیداہونے والے پھل فروٹ کولڈسٹورزنہ ہونے کے باعث
نالیوں کی نظرہورہے ہیں یاپھرجن کے ہاں وافرمقدارمیں پھلوں کی پیداوارہوتی
ہے محفوظ نہ کرسکنے کی وجہ سے اپنے جانوروں کوکھلادیتے ہیں ،ضلع پونچھ
اوردیگراضلاع میں سیب اعلیٰ کوالٹی کاپایاجاتاہے جس کوپاکستانی منڈی میں
بڑے پیمانے پرفروخت کیاجاسکتاہے،ہمارے ہاں منڈیوں کانہ ہونا،کسانوں ،تاجروں
کوسہولیات سے محروم رکھنا،حکومتی اداروں کی طرف سے سول سوسائٹی میں ایسے
کاموں کومحکمہ زراعت کے ذریعے فروغ نہ دینایہ بڑے عوامل ہیں جس سے سالانہ
کروڑوں روپے کانقصان کیاجارہاہے ۔ضلع پونچھ میں خصوصاًاورآزادکشمیرمیں
عموماًمختلف اقسام کے پھل فروٹس سالانہ بڑی تعدادمیں پیداہوتے ہیں ان پھلوں
کومنظم اندازسے فروخت کیاجائے تواس کے لیے ہرضلع میں نہ سہی لیکن چنداضلاع
میں مشروبات اورجام کی فیکٹریاں لگاکرپھلوں کوفروخت کرنے کاذریعہ
بنایاجاسکتاہے ۔جس سے خالص مشروبات عوام کومیسرہونے کے ساتھ ساتھ روزگارکے
مواقع بھی فراہم کیے جاسکتے ہیں ۔عوامی سطح پربڑے سرمایہ دارتاجران بھی
گورنمنٹ سے منظورشدہ مشروبات فیکٹریاں چلاسکتے ہیں ،حکومتی سطح پرپھلوں
اورسبزیوں کومحفوظ بنانے اوراس سے زرمبادلہ کمانے کے لیے محکمہ زراعت
کوفعال بنایاجائے جس سے بہترپیدوارہوسکے ۔کسانوں اورتاجرو ں سے رابطے کرکے
مختلف شہروں میں منڈیاں قائم کی جائیں جس سے خریدوفروخت کویقینی بنایاجاسکے
۔زرعی یونیورسٹی کے طلباء وطالبات کومزیدفعال بنایاجائے تاکہ زراعت کے شعبہ
میں جوبھی نئی تحقیق سامنے آتی ہے اس کوزراعت کے محکمہ کے ذریعے مختلف
سبزیات ،پھل فروٹ،گندم کوفروغ دیاجاسکے۔ہمارے ہاں گندم کی پیدوارمعیاری
ہے،کشمیرگولڈ،نیلم اکبروغیرجیسی گندم کومزیدبہتربنایاجاسکتاہے ، ایک کنال
میں کم وبیش 10سے پندرہ من گندم پیداکی جاتی ہے جوہرسال گھروں میں ہی ضائع
کردی جاتی ہے یاپھراگلے سال کے لیے بیج رکھ دیاجاہے اگرگندم کی پیدوارمیں
توجہ دی جائے تواس میں بھی فروانی آسکتی ہے، مختلف اضلاع میں چاول کی کاشت
بھی کی جاتی ہے جونجی سطح پرکی جارہی ہے ،آزادکشمیرکے مختلف زرخیزاورگرم
علاقوں میں معیاری چاول کی کاشت کاسلسلہ جاری وساری ہے تاہم کشمیری چاول
ہماری مارکیٹوں میں دستیاب نہ ہے اورنہ ہی اس طرف توجہ دی جارہی ہے ۔اپنی
ضرورت کوپوراکرنے ساتھ ساتھ پاکستان کی مختلف منڈیوں میں بھی ’’کشمیری
فروٹ،کشمیر چاول ،کشمیرگندم کے نام سے بے شمارغذائی اجناس کی
ورائٹیزکوفروخت کرنے کویقینی بنایاجاسکتاہے جس سے ملکی معیشت مضبوط
ہوگی۔ہمارے ہاں اس وقت محکمہ زراعت صرف نام تک محدودہے جتنامحکمہ زراعت کے
پاس بیج یادیگرسہولیات موجودہیں وہ کسانوں کوبروقت اورمیرٹ پرفراہم کرئے
توکسان ملکی پیدوارمیں اہم رول اداکرسکتے ہیں۔کسی حدتک جن اشیاء کی
پیدوارکی جارہی ہے ان میں گلیڈ،سیب،شہد،آلو،مکئی وغیرہ شامل ہیں۔اس کے
علاوہ فروٹ ،سبزیات دیگراجناس کوکاٹیج انڈسٹری کے ذریعے سامنے لائے جانے کی
حکمت عملی بھی کافی حدتک کارآمدثابت ہوسکتی ہے جس کے ذریعے جام جلی ،ڈرائی
فروٹس وغیرہ جیسی اشیاء مارکیٹ میں فروخت کے لیے لائی جاسکتی ہیں۔ریاست کے
اندرحکومتی سطح پراپنے تحقیقی اداروں کوقائم کیاجائے مختلف لیباریڑیزکاقیام
اہم ہے،ان تمام عوام کوعملی جامہ پہنانے سے ہی زراعت کوفروغ دیاجاسکتاہے۔
|