بھکآری مافیہ کا راج

گداگری ایک ایسی برائے ہے جسے ہر مذہب اور معاشرے میں لعنت قرار دیا گیا ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے شہر میں گداگروں کا راج ہےگلی کوچے ہوں یا بازار سگنلز ہو یا پارک ہر جگہ گداگروں کی بھرمار ہے شہر کے چپے چپے میں دن رات بھیک مانگتے یہ افراد ایک منظم گروہ کی شکل اختیار کر چکا ہے اور گروہ لوگوں کو جذباتی طور پر بلیک میل کر کے ان کی جیبوں میں ڈاکہ ڈالتے ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ان گداگروں میں سب سے بڑی تعداد بچوں کی ہے۔

اس صورت حال کو کنٹرول کرنے کے لیے سندھ حکومت نے بچوں کو بھیک مانگنے پر پابندی لگائی ہے لیکن اس کا اثر ہوتا دکھائی نہیں دے رہا گداگری صدیوں پرانا پیشہ ہے اور ہر دور میں لوگوں کو بھیک مانگتے دیکھا گیا ہے لیکن بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ جہاں ہر چیز کا انداز بدل گیا ہے وہیں گداگروں نے بھی اپنے روپ بدل لیے ہیں۔کسی بھی قسم کی فنکاری کا مظاہرہ دیکھنا ہو تو آپ کو فلم یا ڈرامہ دیکھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ آپ کو کراچی کے ہر چوراہے اور سگنلز پر ایسے بہت سے بہروپیے اور ڈونگی مل جائے گے جنھیں حرف عام میں گداگر بھیکاری یا منگتے کہا جاتا ہے لوگوں کے جزبات سے اس مہارت سے کھیلتے کہ لوگ انھیں کچھ نہ کچھ دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور بظاہر روتا گاتا گداگر لوگوں کی معصومیت پر دل میں خوب ہنستا ہے ۔ڈرگ مافیا کی طرح گداگر مافیا نے بھی کراچی شہر میں قبضہ جما کر رکھا ہے ایک سروے کے مطابق شہر کے ۹۰۴ سگنلز اور چوراہوپر اوسطاً ۸سے۱۰ گداگر پائے جاتے ہیں جن میں مردبھی ہوتے ہیں اور خواتین بھی اور بڑی تعداد میں بچے بھی یہ سب کے سب مافیہ کا حصہ ہیں جو ان سے بھیک منگواتا ہے انھیں چند سکوں پر ٹرخا کر سارا پیسہ خود ہڑپ کر جاتا ہے دھوکہ دہی کا یہ دھندا دن بہ دن ترقی پا رہا ہے ۔افسوس کی بات یہ ہے کہ اس مافیہ کی وجہ سے ان مجبور افراد کا حق مارا جا رہا ہے جو واقعی مالی مدد کے مستحق ہیں۔

گداگری ایک منافع بخش کاروبار بن چکا ہے جس میں نا سرمایہ درکار ہے اور نہ ہی نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے اس پورے معاشرے میں اس مافیہ نے اپنے ڈیرے جما رکھے ہیں۔

کراچی میں زیادہ تعداد شہر کے باہر سے آنے والوں کی ہے بھیکاری بچوں میں بہت سے بچے ایسے ہیں جنھیں ٹھیک طرح سے اردو بولنا بھی نہیں آتا یہ صورت حال بہت خطرناک ہے ان میں بڑی تعداد افغانی بچوں کی ہے ۔ان بچوں کی کوئی رجسٹریشن نہیں ہوتی جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یہ لوگ اگر کسی غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہوں تو ان کو پکڑنا بہت مشکل ہوتا ہے۔

شہر بھر میں گداگروں نے الگ سے اپنی ریاست بنائی ہوئی ہے اور اس مافیہ کا سوفٹ ٹارگٹ بچے اور معذور افراد ہیں اور تو اور خواجہ سرا نے بھی بڑی تعداد میں اس پیشے کو اپنا کر اس مافیہ کے ہاتھوں کو مظبوط کر رکھا ہے ۔گداگری کے بدلتے انداز نے گاڑی صاف کرنے سے لے کر چھوٹے چھوٹے ایشیاء کو فروخت کرنے کی اڑ میں بھیک مانگنے تک سب ہی اس گداگر مافیہ کا حصہ ہیں۔

اس مسلئے کا ممکنہ حل یہ ہے کہ حکومت نہ صرف صوبائی بلکہ وفاقی سطح پر بھی قانون سازی کرے اور ایکشن پلان بنائے جسکے تحت ان گداگروں کو معاشرے کا کارآمد شہری بنایا جائے لیکن اس سے پہلے اس مافیہ کے خلاف ایسا آپریشن ہونا چاہیے جیسا کہ دہشت گردی کے خلاف ہوا یہ کسی قاتل سے کم نہیں کیونکہ نہ صرف یہ درد دل رکھنے والے افراد کے جذبات کا خون کرتے ہیں بلکہ مستحق افراد کا حق بھی مارتے ہیں۔


 

WAQAR
About the Author: WAQAR Read More Articles by WAQAR: 3 Articles with 211072 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.