اﷲ تعالیٰ نے دین اسلام کی بعثت کے آغاز میں ہی اس بات
کو بیان کردیا کہ یہ دین برحق قوم عرب کی زبان میں اس لئے نازل کیا گیا
تاکہ اﷲ تعالیٰ کی منشاء کو بخوبی پہچانتے ہوئے اس پر عمل پیرا ہوجائیں۔
گویا ہمیں یہ معلوم ہوتاہے کہ انسانی زندگی میں زبان کی اہمیت و ضرورت مسلم
ہے۔جو قوم خود اپنی زبان کو اختیار کرتی ہے تو وہ دنیامیں ہمہ جہتی میادین
میں تعمیروترقی کی اقبال مندی بھی حاصل کرتی ہے۔یونانی و رومی اور فارسی و
ہندی تہذیبوں سمیت موجودہ زمانے کی متطور تہذیبوں نے بھی زندگی کے تمام
امور اپنی زبان میں انجام دیتے ہیں۔اس کی بدولت وہ دنیا میں ترقی یافتہ یا
ترقی پذیرملک و قوم شمار کیے جاتے ہیں۔
قومی زبان کی اہمیت و ضررورت بیان کرنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں لیا جانا
چاہیے کہ ہم انگریزی و عربی،فارسی و ترکی اور دیگر زبانوں کے سیکھنے کیے
مخالف ہیں نہیں ہرگز ایسا نہیں ہم تو یہ عرض کرتے ہیں کہ تمام اقوام و ملل
کی خداد صلاحیتوں سے استفادہ کرنا لازمی و ضروری ہے ۔جس کے لئے ناصرف جدید
و قدیم زبانوں کو سیکھنا چاہیے بلکہ ہمیں ان اقوام کے علوم و فنون کے میدان
میں پیش قدمیوں سے بھی مستفید ہونا چاہیے تاہم ایک امر ضرور ملحوظ خاطر رہے
کہ بحیثیت مسلمان اور بالحاظ پاکستانی ہمیں اپنی تہذیب و ثقافت کو پس پشت
ڈالنے کی قطعاً ضرورت نہیں۔اسلامی و ملی معاشرت پر فخر کرنا اور اعتماد
کرنا لازمی ہے۔احساس محرومی کی چادر کو تار تار کرنے کی ضرورت ہے۔
برصغیر میں 1868سے اردو زبان کو مسلمانوں کی زبان قراردیکر انتہاپسندہندوؤں
نے اردو کے خلاف تحریک چلائی جس کی وجہ سے سرسید احمد خان نے مسلمانوں کے
لیے الگ تشخص حاصل کرنے کی اہمیت پر زور دیا کہ ہندو مسلمانوں کے ساتھ کسی
بھی طرح رواداری کا مظاہرہ نہیں کرسکتے اور نہ یہ دونوں قومیں ایک دوسرے کے
ساتھ ایک مقام پر رہ سکتی ہے اسی بدولت برصغیر کے مسلمانوں کے لییے الگ وطن
حاصل کیا گیا جس کو پاکستان کے نام سے موسوم کیا گیا اور قیام کے فوراً بعد
1948ء میں قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے کابینہ کے اتفاق رائے سے اردو زبان
کو پاکستان کی سرکاری زبان قراردیا۔
بدقسمتی کی بات ہے کہ اردوجو قومی زبان قرار توپائی لیکن گذشتہ ستربرسوں
میں قومی زبان کو عزت نہیں دی جاسکی۔پاکستان کے تینوں دساتیر میں قومی زبان
ناصرف اردوکو قراردیا گیا بلکہ یہ بھی کہا گیا کہ پندرہ سالوں کے اندر ملک
کے تمام امور اسی اردو زبان میں چلائے جائیں گے۔اسی طرح ملک کی ممعزز ترین
عدالت سپریم کورٹ نے بھی ملک میں قومی زبان کو تعلیمی،قانونی اور دفتری
زبان بنانے کا حکم جاری کردیا۔سوء اتفاق کہیے یا کچھ اور کہ آج تک جتنے بھی
حکمران آئے انہوں نے قومی فریضہ کی ادائیگی میں پہلو تہی سے کام لیا۔ جس کی
وجہ سے ملک معاشی اور معاشرتی اور سائنسی و فنی لحاظ سے پسماندگی کی حالت
سے دوچار رہاہے۔اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ قومی زبان اردو کو ملک میں
بالادستی نہ دینا ہے۔اردو زبان کو اگر تعلیمی و تحقیقی میدان میں کام کرنے
کا ذریعہ بنالیا جائے تو کوئی بعید نہیں کہ ملک میں چہار سو تعمیر و ترقی
کا دوردورہ ہوجائے۔ترنول پریس کلب اسلام آباد رجسٹرڈ میں نفاذ اردو کی
اہمیت و ضرورت پر منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے تحریک نفاذ اردو
پاکستان کے مرکزی صدر عطاء الرحمن چوہان نے کہا ہے کہ انگریزی ہم پر جبراً
مسلط کی گئی ہے ۔اردو زبان کے نفاذ کے لئے کسی قانون سازی کی ضرورت نہیں
بلکہ قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے خود 1948ء میں ملک کی تمام قیادت سے دو
روز کی طویل مشاورت کے بعد اردو کو قومی زبان قراردیا تھا۔دنیا بھر کے جن
ممالک نے بھی ترقی کی منازل طے کی ہیں انہوں نے اپنی قومی زبان کو زندگی کے
تمام شعبہ جات میں اختیار کیا۔ گذشتہ ستر برسوں کی قیادت قومی مجرم ہے کہ
انہوں نے ملک کی قومی زبان اردو کو ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعہ نافذ العمل نہیں
کیا۔جامعہ عثمانیہ نے اردو زبان کی بنیاد رکھی اور یہاں سے لوگ متعدد ڈاکٹر
بنے اور سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ جواد ایس خواجہ نے کہا ہے کہ ملک کا
اشرافیہ اہم فیصلہ جات سے ناواقف رکھنے کے لیے استعماری زبان کا سہارالیتی
ہے۔تحریک نفاذ اردو پاکستان وزیر اعظم پاکستان عمران خان سے مطالبہ کرتی ہے
کہ قومی زبان کو ملک میں تعلیمی ،دفتری اور قانونی زبان کے طورپر نافذ کیا
جائے۔ تقریب میں تحریک نفاذ اردو پاکستان کے نائب معتمد ساجد الرحمن ،
مرکزی ناظم اطلاعات و نشریات عتیق الرحمن،ترنول پریس کلب کے صدر اظہر حسین
قاضی، چیئرمین گورننگ باڈی ترنول پریس کلب محمد اسحاق عباسی، کالم نگار
خالد منصور ایرانی،لیڈی کونسلر میڈم گلناز ،امتیاز علی، مولانا نوراﷲ رشدی،
جنرل سیکرٹری ترنول پریس کلب بدرمنیر،لیبر کونسلر اعجاز عباسی،سیاسی کارکن
کرم خان، چیف ایڈیٹر جہان سچ سردار شکیل خان اور راجہ نورمحمد صاحب و دیگر
نے بھی اظہار خیال کیا۔ |