دوہٹ نے دور بین آنکھوں سے لگائی اور برف میں دھنسے
ہوئے پتھر کی اوٹ سے سرنکال کر اپنے سامنے کی طرف دیکھ رہا تھا۔ ہر طرف برف
کی چادر میں لپٹے ہوئے سربفلک پہاڑ دکھائی دے رہے تھے۔ سردی نقطہ انجماد سے
65ڈگر ی کم تھی ۔ٹائیگر ہلز پر بظاہر زندگی جامد دکھائی دے رہی تھی لیکن
برف کی تہوں میں چھپے ہوئے کنکریٹ کے مورچوں میں بہت سے آہن پوش موجود
تھے۔دوہٹ اپنی عقابی نظروں سے انہی مورچوں میں زندگی کے آثار تلاش کررہا
تھا۔ لالک جان .....او لالک جان ۔دوہٹ نے دور بین آنکھوں سے ہٹا کر اپنے
عقب میں دیکھا تو ایک ساتھی کہہ رہا تھا۔ صوبیدار صاحب کہہ رہے ہیں اب تم
آرام کرلو ۔لالک جان جو گزشتہ دو راتوں سے دشمن سے چومکھی لڑائی لڑرہا تھا
خلاف توقع مسکرا کربولا تم نہیں جانتے میں ارادے کا کتنا پکا ہوں ۔میں نے
صوبیدار کو کہہ دیا کہ میں دشمن کا راستہ اس وقت تک دیکھتا رہوں گا جب تک
مجھے یقین نہ ہوجائے کہ ادھر آنے قابل نہیں رہا۔چاہے اس کے لیے مجھے کتنی
ہی اور راتیں کیوں نہ جاگ کر گزارنی پڑیں ۔جیسے تیری مرضی ۔ یہ کہہ کرسپاہی
واپس لوٹ گیا۔لالک جان نے اپنی مشین گن کو پتھر کیساتھ مضبوطی سے لگا دیا
اور ایک بارپھر دشمن کی نقل و حرکت ڈھونڈنے لگا۔ جون کامہینہ برف پوش
وادیوں میں برسات اور سیلابوں کی نوید لے کر آتا ہے۔ سطح سمندر سے ہزاروں
فٹ بلند مقامات پر سردی اس قدر بد لحاظی دکھاتی ہے کہ اس کے سامنے گرم موسم
بھی ٹھٹھر جاتاہے ۔ٹائیگر ہلزپر پاک فوج قابض ہوچکی تھی بھارت کی کتنی ہی
بٹالین یہاں دوبارہ قبضہ کرنے کی جستجو میں تباہ ہوچکی تھیں۔کشمیر کے اس
حساس اور سیاچن کے پہلو میں واقع ٹائیگر ہلز کا یہ علاقہ پاکستان اور بھارت
دونوں کے لیے بہت اہم تھابلکہ بھارتی فوج انہی راستوں سے پاکستان کی دفاعی
لائن پر حملے کرتا رہا تھا۔ کارگل کی جنگ شروع ہوتے ہی یہ پہاڑی سلسلے پاک
فوج کے قبضے میں آچکے تھے۔صوبیدار سکندر کی کمان میں یہ گیارہ سرفروش دشمن
کو بار بار پسپا ہونے پر مجبور کررہے تھے ۔ یہ یکم جولائی 1999ء کی ایک سرد
ترین رات تھی دشمن نے ایک بار پھر پوری طاقت سے حملہ کردیاجسے پسپاکرنے کے
بعد صوبیدار سکندر نے اپنے گیارہ ساتھیوں سے مخاطب ہوکر کہا کہ اگر صبح کا
سورج طلوع ہونے سے پہلے بھارتی مورچوں کے درمیان بارودی سرنگیں بچھا دی
جائیں تو دشمن پیش قدمی کے قابل نہیں رہے گا ۔لالک جان نے کہا سر میرے نانا
نے میرا نام دوہٹ اسی لئے رکھاہے کہ طوفان میں جنم لینے والا یہ بچہ
طوفانوں سے ٹکرائے گا۔آپ نے جو ذمہ داری مجھے سونپی ہے ان شاء اﷲ میں پوری
کرکے ہی لوٹوں گا۔بارودی سرنگوں کا تھیلا اٹھائے اور اپنی مشین گن کو بوسہ
دے کر لالک جان چھلاوے کی مانند برف پوش پہاڑوں میں گم ہوگیاپھر ٹائیگر ملز
کے مقابل اس پہاڑی سلسلے کی جانب بڑھنے لگا جہاں دشمن نے مورچے سنبھال رکھے
تھے ایک گھنٹے ہی میں اس نے بارودی سرنگوں کا ایسا جال بچھا دیا جو بعد میں
دشمن کی تباہی کا باعث بنا۔ دو گھنٹے بعد ٹائیگر ہلز پر قبضے کے لیے جب
دشمن آگے بڑھا تو نشیب سے لگاتاردھماکوں کی آوازیں آنا شروع ہوئیں جس سے
دشمن کی توپیں اور بندوقیں خاموش ہوگئیں ۔6جولائی 1999ء کی ایک کہر آلود
رات دشمن ایک ڈویژن فوج سے ٹائیگر ہلز پر قبضے کے لیے آگے بڑھا ۔دشمن
کیمیکل ہتھیار بھی استعمال کررہا تھا اس معرکے میں صوبیدار سکندر اور سات
ساتھی بھی شہید ہوگئے ۔اب لالک جان اور تین ساتھی ہی بھارتی فوج کے سامنے
سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنے ہوئے تھے۔7جولائی 1999ء کو بھی ٹائیگرہلز پر
بارود کی بارش ہوتی رہی جس سے باقی تین ساتھی بھی شہید ہوگئے جبکہ لالک جان
کا ایک بازو شدید زخمی حالت میں کاندھے سے لٹک رہا تھا اس نے دشمن کو اس
وقت تک الجھائے رکھاجب تک کیپٹن عامر اپنے ساتھیوں سمیت ٹائیگر ہلز پر پہنچ
گئے۔شام کے سائے بڑھ رہے تھے برف پوش پہازوں پر دھند کی چادر پھیل رہی تھی
۔کیپٹن عامرنے بھارتی فوج کے ایک ایسے مورچے کا سراغ لگالیا جہاں سے مسلسل
گولہ باری ہورہی تھی ۔لالک جان نے کیپٹن عامر کی پریشانی کو بھانپتے ہوئے
کہا سر اس کاایک ہی حل ہے کہ دشمن کو اس مورچے سمیت اڑادیاجائے ۔کیپٹن عامر
نے کہاوہاں تک پہنچنے کے لیے انتہائی دشوار گزار راستے سے گزرنا ہوگا۔
ہمارے پاس نفر ی بھی محدودہے ۔لالک جان نے اپنے زخمی بازو کو دیکھتے ہوئے
کہاسر یہ کارنامہ میں ہی انجام دوں گا۔لالک جان نے کیپٹن عامر کو قائل کرکے
بارود کا تھیلاچھاتی کے ساتھ باندھ لیا اور پہاڑی گھاٹیوں میں اس طرح اتر
گئے جیسے وہ زخمی نہ ہوں۔آدھے گھنٹے بعددشمن کا وہ مورچہ دھماکوں سے گونج
اٹھا۔ کلاشنکوف کی دھاڑ سنائی دی پھر فضا ساکت ہوگئی۔کیپٹن عامر نے عقاب
اور ابابیل کے نام سے کمانڈوز کو لالک جان کی تلاش میں آگے بھیجا ۔ابابیل
نے دشمن کو الجھائے رکھااور عقاب دشمن کے تباہ شدہ مورچے سے لالک جان کی
گولیوں سے چھلنی نعش اٹھالایا ۔ جہاں دشمنوں کی کٹی پھنی لاشیں ‘ تباہ شدہ
توپیں اور اسلحہ بکھرا پڑا تھا۔ اس بہادری کے صلے میں لالک جان کو بعداز
شہادت فوج کا سب سے بڑا اعزاز "نشان حیدر" دیا گیا ۔ 15فروری 1967ء کا دن
ہندور کے رہنے والوں کے لیے خطرناک طوفان کے ساتھ طلوع ہوا ۔مقامی زبان میں
یہ طوفان دوہٹ کہلاتا ہے۔اسی طوفان میں ہندور سے کچھ فاصلے پر مورنگ گاؤں
ہے یہاں ایک کسان نیت جان کے گھر بیٹا پیدا ہوا جس کانام باپ نے لالک جان
اورنانا نے طوفان کی مناسبت سے دوہٹ رکھا ۔یہی دوہٹ لالک جان کے نام سے جب
سن بلوغت کو پہنچا تو این ایل ائی میں بھرتی ہوکر ٹائیگرہلزپر وطن عزیز کا
دفاع کرتے ہوئے جام شہادت نوش کرگیا ۔ |