کالج میں بریک ٹائم شروع ہو چکا تھا اور ہم دو تین
سہیلیاں کنٹین والی آنٹی سے سموسے اور نان خرید کر گراؤنڈ کے لان میں بیٹھ
کر کھانے لگیں ، ہماری 2اور کلاس فیلوز بھی ہمیں دیکھ کر وہاں ہمارے پاس
آکر بیٹھ گئیں غالباً ان دونوں میں سے ایک لڑکی کے لئے کسی آرمی آفیسر
کا رشتہ آیا تھا اور وہ بہت خوش ہو کر اپنی دوست کو اس رشتے کے بارے میں
بتا رہی تھی اور یہ کہہ رہی تھی کہ یار دعا کر و امی ابو مان جائیں کیونکہ
مجھے تو آرمی آفیسر بہت پسند ہیں اگر آرمی آفیسر سے شادی ہو گئی تو مزہ
آجائے گا وہ خیالوں میں ڈوبی ہو ئی بولی ۔
سعدیہ کے خاندان میں دور دو ر تک کوئی شخص آرمی میں نہ تھا لہذا وہ اس
لڑکی کی بات سن کر متجسس ہو گئی اور پوچھنے لگی "کیوں آرمی آفیسر میں
ایسی کیا خاص بات ہوتی ہے جو تمہیں مزہ آجائے گا "
"یا ر فوجیوں کی بیویاں تو ہر وقت گھومتی پھرتی رہتی ہیں سیریں ہی سیریں
کرتی ہیں پتہ ہے میری کزن فوجی کی بیوی ہے وہ تو کبھی پنڈی ، کبھی لاہور
اور کبھی ملتان ہوتی ہے میں بھی خوب گھوموں گی کتنا مزہ آئے گا واہ بھئی
ہر وقت گھومنا پھرنا کوئی اچھی بات ہے آوارہ لوگوں کی طرح" اسے فوجی
آفسروں کی اس خوبی نے ہر گز متاثر نہ کیا کچھ دیر کے بعد یہ محفل ختم ہو
گئی ۔
سعدیہ ایک خوبصورت اور اسمارٹ لڑکی تھی اسکے لمبے اور گھنے بال بہت خوبصورت
تھے اس کے گروپ کی باقی لڑکیاں اکثر اسکی لمبی اور خوبصورت چٹیا کے ساتھ
کھیلتی اور خوش ہوتیں اسکے بالوں کی خوبصورتی کی تعریف کرتیں تو اسے بہت
اچھا لگتا اور اُسےاپنے بال پہلے سے زیادہ اچھے لگنے لگتے ۔
بی اے کے پیپرز ختم ہونے سے پہلے ہی اسکے لئے رشتے آنا شروع ہو گئے ان میں
سے ایک رشتہ آیک فوجی آفسر کا بھی تھا سعدیہ کو جب پتہ چلا تو اسے اپنے
کالج کی گروپ فیلولڑکی کی بات یاد آگئی اور اسے یہ سوچ کر باتوں میں بھی
اچھا نہ لگا کہ فوجی تو ہر وقت اپنے بیوی کو ساتھ لے کر گھومتے پھرتے رہتے
ہیں یعنی اسے اپنے لئے کسی فوجی آفسر کا رشتہ بالکل پسند نہ آیا ۔
سعدیہ کی امی باقی سب رشتوں میں سے یہ رشتہ پسند کر چکی تھیں اپنے علاقے کے
بہت سیدھے سادے شریف لوگ تھے امی ، ابو ، چچا سب ان لوگوں کو جانتے تھے
لہذا کافی سوچ بچار کے بعد یہ رشتہ طے پا گیا۔
اللہ کے فضل سے خیر خریت کے ساتھ یہ شادی انجام پا گئی اور دلہا اور دلہن
شادی کے تیسرے دن ،دلہا کے بڑے بھائی جو کہ خود بھی ایک فوجی آفسر اور
میجر تھے کہ گھر ایبٹ آباد ہنی مون منانے کے لئے پہنچ گئے ۔
دلہا ، دلہن پہلی ہی رات میں ایک دوسرے کو دل دے چکے تھے محبت کا آغاز ہو
چکا تھا- دو دلوں کا یہ بندھن چہروں پر خوشی بن کر چمک رہا تھا دلہا اور
دلہن بے حد شرمیلی مسکراہٹ لئے ایبٹ آباد کے ملٹری کالج کی حدود میں داخل
ہوئے تو جیٹھ اور جیٹھائی نے بہت خوشی کے ساتھ استقبال کیا اور ڈھیر ساری
دعائیں دیں ۔سعدیہ کی اپنے جیٹھ اور جیٹھانی سے پہلی ملاقات تھی کھانا
کھانے کے بعد کچھ رسمی گفتگو کے بعد جیٹھ نے یہ حکم دیا کہ آج کے بعد آپ
مجھے اپنا بڑا بھائی سمجھیں گی اور مجھے بھائی جان کہہ کر بلائیں گی اور یہ
آپکی باجی ہیں ، آج سعدیہ کو پہلی بار یہ احساس ہوا کہ اسکی نئی زندگی
شروع ہو چکی ہے اور بہت سے نئے رشتے اب اسکے ساتھ اپنا تعلق بنا چکے ہیں اب
سے پہلے تک تو اسکے صرف ایک ہی بڑے بھائی تھے جنکو وہ بچپن ہی سے بھائی جان
کہتی تھی اور جن سے وہ بہت محبت کرتی تھیں -ایک اجنبی شخص کو بھائی جان کی
جگہ دینا اور بھائی جان کہہ کر بلانا اسے بہت عجیب سا لگا۔ مگر علی کی وہ
محبت جو ایک ہی رات میں اسکے دل ، دماغ اور روح میں سما چکی تھی اور وہ
اپنا آپ بھول سی گئی تھی اسکے ساتھ منسوب یہ سارے رشتے اسے بہت اچھے لگے
-علی کی محبت نے ان اجنبی لوگوں کے ساتھ مضبوط رشتے میں اس طرح باندھا کہ
بہت جلد اسکی زبان اپنے سسرالی رشتوں کو بھی ابا جی ، اماں جی اور بھائی
جان پکارنے لگی ۔
خیر تو ذکر ہو رہا تھا شادی کے بعد اس پہلی دعوت کا جو اس کے جیٹھ نے کی
تھی کھانے کے بعد جب چائے کا دور چل رہا تھا تو اسکے جیٹھ نے اس نئے نویلے
جوڑے کو ایک بڑی خوبصورت اور محبت بھری غزل سنائی جس میں ایک لڑکی اور لڑکے
کو محبت بھری نئی زندگی شروع کرنے پر ڈھیر ساری دعائیں ایک دوسرے کو اشعار
کی صورت میں دے رہے ہیں یہ خوبصورت غزل سنتے سنتے وہ اس قدر محو ہو گئی کہ
جیسے ہی اس کے جیٹھ نے غزل ختم کی بے اختیار اس کے منہ سے ’’ آمین ثمہ
آمین ‘‘ نکل گیا ۔
اسکے ساتھ ہی باقی سب لوگ اسکی طرف دیکھ کر شرارت سے ہنسنے لگے اس کی بے
خودی کو سب نے انجوائے کیا اور وہ اپنی بے خودی ہر شرمندہ سی ہو گئی اور
ساتھ ہی شرما کر وہاں سے اٹھ گئی اب انہیں کیڈٹ کالج میں بنے ہوئے ایک گیسٹ
روم میں پہنچا دیا گیا جہاں انکے ہنی مون کی پہلی رات شروع ہو رہی تھی
-باتیں شروع ہوئیں اور پھر باتیں کرتے کرتے پتہ ہی نہ چلاکب رات ختم ہوگئی۔
دن نکل آیا دونوں نے غسل کیا اور نماز فجر ادا کی ، دعا مانگی اور دیر تک
اللہ کا شکر ادا کیا ایک دوسرے کو پاکر دونوں بہت خوش تھے دن کی روشنی میں
چہروں پر حُسن چمک رہا تھا وہ سردیوں کے دن تھے سعدیہ نے سرخ رنگ کا گرم
اونی سوٹ پہنا جس پر کالے دھاگے کی کڑھائی تھی اور ناشتے کے بعد اپنے کھلے
ہوئے گیلے لمبے اور خوبصورت بال سکھانے کے لئے گیسٹ روم سے باہر بنے ہوئے
لان میں دھوپ میں نکل آئی لان میں پڑی ہوئی سرکاری کرسی پر بیٹھ گئی -پہلی
بار لان کے چاروں طرف نظر دوڑائی تو سامنے ایک کونے میں سفید ےکا ایک
خوبصورت درخت نظر آیا۔ اتنے میں دُلہا یعنی علی بھی ہاتھ میں کیمرہ لئے
اسکے پاس آکر بیٹھ گیا آج پہلی بار اس نے دن کی روشنی میں اپنی دلہن پر
ایک بھر پور نظر ڈالی اور پھر کتنی ہی دیر محو ہوکر اسے دیکھتا ہی رہ گیا
۔اسے گوری رنگت ،خوبصورت نقوش اور لمبے خوبصورت بالوں والی یہ لڑکی بے حد
اچھی لگی اور اسکا دل تیز تیز دھڑکنے لگا۔
"سعدیہ آؤ تمہاری کھلے بالوں کے ساتھ ایک تصویر بنا دوں وہ سامنے سفیدے کے
درخت کے ساتھ کھڑی ہو جاؤ "وہ اسکے منہ سے اپنا نام سن کر اٹھی اور درخت کے
ساتھ جا کر کھڑی ہو گئی علی نے کیمرہ فوکس کیا مگر پھر تصویر کھینچے بغیر
ہی نیچے کر لیا اور گم سم سا ہو کر اپنی سعدیہ کو دیکھنے لگ گیا دلہن شرما
کر ہنس دی علی کو متوجہ کر کے پھر سے تصویر بنانے کو کہا اور علی نے فرمائش
پوری کرتے ہوئے ایک بڑی خوبصورت اور یاد گار تصویر کھینچ دی ۔
اس طرح دو خوبصورت دن کھاتے پیتے اور جیٹھ جیٹھانی کے ساتھ تعارفی باتیں
کرتے ہوئے گذ ر گئے ۔ ان دو دنوں میں اپنے بارے میں اور اپنی فیملی کے بارے
میں ایک دوسرے کے ساتھ بہت کچھ شیئر کر چکے تھے ایک دوسرے کے بارے میں وہ
کافی جان گئے تھے مگر بہت سی باتیں ابھی جاننا باقی تھیں
آج شام کو انہوں نے کالج کی حدود سے باہر جا کر ایبٹ آباد گھومنے کا
پروگرام بنایا ۔ سعدیہ پہلی با ر ایبٹ آباد آئی ہوئی تھی علی نے اپنے بڑے
بھائی کا موٹر سائیکل لیا اور وہ دونوں کالج کی حدود سے باہر آگئے کافی
دیر سڑکوں پر یونہی گھومتے رہے موٹر سائیکل پر آج دونوں پہلی بار اکھٹے
بیٹھے تھے سعدیہ نے جب پیچھے بیٹھے ہوئے خود کو سنبھالنے کے لئے اپنا ہاتھ
علی کی بغل میں سے گذارتے ہوئے اسکے سینے پر رکھا تو علی کا دل زور زور سے
دھڑکنے لگا آج وہ دونوں خو د کو ہواؤں میں اڑتا ہوا محسوس کر رہے تھے ۔سیر
سے واپسی پر کالج کی حدود کے قریب ہی باہر سڑک پر ایک چکن کارن سوپ بنانے
والے کا ٹھیلہ نظر آیا ۔ دونوں سوپ پینے کے لئے وہاں رک گئے ۔سوپ والا
فوراً انکی طرف متوجہ ہوا اور ایک نئے شادی شدہ جوڑے کو فوراً پہچان گیا
۔ایک شرارتی مسکراہٹ ان دونوں کو دیکھ کر اسکے چہرے پر آگئی اور بڑے پروٹو
کول کے ساتھ ان دونوں کے بیٹھے کی دعوت دی اور فوراً انکے لئے سوپ تیار
کرنے لگا ۔ٹھیلے کے آس پاس بیٹھے ہوئے باقی لوگ بھی انکی طرف متوجہ ہو چکے
تھے اور بڑے شوق سے اس شرمیلے جوڑے کو دیکھنے لگے ۔
دونوں نے کرسیوں پر آمنے سامنے بیٹھے ہوئے مسکراکر ایک دوسرے تو دیکھا اور
پھر شرما کر نظریں نیچی کر کے بیٹھ گئے او ر سوپ پینے لگے ۔اردگرد بیٹھے
ہوئے لوگ انکی حالت اور شرمیلی حرکات کو انجوائے کر رہے تھے جلد ہی ان
دونوں نے سوپ ختم کیا اور پیسے سوپ والےکی طرف بڑھائے مگر اس نے نہایت محبت
کے ساتھ پیسے واپس کرتے ہوئے کہا کہ میں پر دیسیوں سے سے پیسے نہیں لوں گا
علی نے سوپ کی خوب تعریف کی اور اسے سوپ کی قیمت رکھنے کو کہا اب اس نے
پیسے رکھ لئے مگر اس وعدے کے ساتھ کہ جب تک وہ دونوں یہاں ہیں ہر روز اسکا
سو پ پینے کے لئے آئیں گے ۔وہ دونوں ہنس پڑے اور بہت خوشی کے ساتھ وعدہ کر
لیا۔
آج علی نے بلیک کلر کی نئی لیدر جیکٹ پہنی ہوئی تھی سیر پر جانے سے پہلے
اس نے گیسٹ روم کے کمرے کو لاک کیا اور چابی جیکٹ کے اندر والی جیب میں ڈال
لی تھی جب دونوں گیسٹ روم کے دروازے کے باہر پہنچے تو علی کو شرارت سوجھی
اس نے اپنی سعدیہ سے کہا کہ دروازہ تم کھولو سعدیہ نے چابی کا پوچھا تو
شرارت سے ہنستے ہوئے بولا "میری جیکٹ کی اندر والی جیب میں ہے زپ کھول کر
نکال لو "۔ سعدیہ نے فوراً زپ تھوڑی نیچے کی اور فوراً ہاتھ جیکٹ کی اند ر
والی جیپ میں ڈال دیا سعدیہ کا ہاتھ علی کے سینے کو چھو رہا تھا دونوں اس
طرح ایک دوسرے کے اتنے قریب پہلی بار کھڑے ہوئے تھے دونوں نے ایک دوسرے کو
دیکھا اور ان کے دل زور زور سے دھڑک رہے تھے وہ ایک دوسرے کے دل کی دھڑکن
کو محسوس کر رہےتھے وہ کچھ دیر ایسے ہی ساکت ہو کر ایک دوسرے کو دیکھتے رہے
پھر سعدیہ نے چابی اسکی جیب سے نکالی اور گیسٹ روم کا دروازہ کھول کر ہنستی
ہوئی اندر داخل ہو گئی دونوں نے نماز ادا کی چائے منگوائی اور ایک دوسرے کے
سامنے بیٹھ کر خاموشی سے ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے چائے پینے لگے ۔کچھ دیر
اسکے خوبصورت شرمیلے چہرے کو دیکھتے ہوئے علی نے شرارت سے سوال کیا "یا ر
سعدی کیسے سب لوگوں کو پتہ چل جاتا ہے کہ ہم دونوں کی نئی نئی شادی ہوئی ہے
"پھر خود ہی اپنے سوال پر ہنسنے لگا اور سعدیہ نے بری طرح شرمانے ہوئے اپنا
چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپا لیا و ہ اسکے سوال کا کوئی جواب نہ دے سکی اور
بس شرما کر رہ گئی ۔
یہ ایبٹ آباد کی شدید سردیوں کا موسم تھا اگلے دن وہ پھر تیار ہو کر حسب
وعدہ سوپ والے کے پاس پہنچ گئے اسکا لذیز سوپ بہت مزے لے لے کر پیا اور پھر
وہاں سے ایبٹ آباد کی مشہور الیاسی مسجد دیکھنے کے لئے چلے گئے موٹر
سائیکل پر علی کے ساتھ پیچھے بیٹھے ہوئے اسے شدید سردی لگنا شروع ہو گئی
اور وہ سردی سے کپکپاتے ہوئے علی کے ساتھ چمٹنے لگی ۔ علی اسکے کپکپاتے
ہوئے جسم کو محسوس کر رہا تھا مسجد پہنچنے کے فوراً بعد اس نے اپنی بلیک
لیدر جیکٹ اتاری اور ٹھٹھرتی ہوئی سعدی کو بڑی محبت سے پہنا دی ۔سعدی نے
جلدی سے جیکٹ پہنی اور محبت بھری شکر گزار نظروں سے اسے دیکھنے لگی ۔مسجد
دیکھنے کے بعد واپسی پر اس نے علی کو جیکٹ واپسی کرنے چاہی تو اس نے یہ کہہ
کر جیکٹ واپس پہننے سے انکار کر دیا کہ شدید سردی میں یہاں ننگے جسم کے
ساتھ برف پر لیٹنا ہماری سخت تربیت کا حصہ ہے اور میں یہاں کی سردی کا عادی
بھی ہوں تم پہن کر رکھوکہیں بیمار نہ ہو جانا ۔سعدی کا دل اسکی محبت سے بھر
گیا اور وہ موٹر سائیکل پر بیٹھ کر جان بوجھ کر اسکے ساتھ چپک گئی اور اپنا
ہاتھ اسکے تیزی سے دھڑکتے ہوئے دل پر رکھ دیا ۔علی خود کو ہواؤں میں اڑتا
ہو ا محسوس کرنے لگا ۔ میلوں کا فاصلہ لمحوں میں طے ہو گیا اور پتہ نہیں
کیوں وہ اتنی جلدی واپس پہنچ گئے اب وہ کالی لیدر جیکٹ جسکی اندر والی جیب
میں گیسٹ روم کی چابی تھی سعدی نے پہن رکھی تھی اسکو کل والی بات یاد آگئی
اج اس نے شرارت سے ہنستے ہوئے علی سے کہا ا"ٓج دروازہ تم کھولو اورچابی
جیکٹ کی اندر والی جیب میں ہے " دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور بات
سمجھ کر ہنس پڑے ، آج باری علی کی تھی اس نے جیکٹ کی زپ کھولی اور چاپی
نکالنے کے لئے ہاتھ جیکٹ کی پاکٹ میں ڈال دیا پھر دونوں نے قہقہ لگایا اور
علی نے سعدی کی جیب سے چابی نکال کر دروازہ کھول دیا اور اپنی سعدی کا ہاتھ
پکڑ کر اندر داخل ہو گیا۔
آج علی کی کالی لیدر جیکٹ پہن کر جو خوشی اور تحفظ کا احساس اسکو ہوا وہ
اسکی زندگی کا بالکل نیا مگر بڑا ہی یاد گار تجربہ تھا اس کے جسم کا رواں
رواں علی کی محبت میں ڈوب چکا تھا
آج انکے ہنی مون کا پانچواں دن تھا سعدی گیسٹ روم کے باہر لان میں بیٹھی
تھی آج اسکی نگاہوں نے اپنے ارد گرد کے ماحول کا بھر پور جائزہ لیا آج
ایبٹ آباد کے خوبصورت اور سر سبز پہاڑوں نے اسے اپنی طرف متوجہ کر لیا
۔پہاڑوں پر لگے چیڑ اور سفیدے کے درخت دور سے بہت خوبصورت لگ رہے تھے اسکا
دل ان پہاڑوں پر چڑھنے کے لئے مچل گیا سعدی کا تعلق پنچاپ کے میدانی علاقوں
سے تھا اس نے زندگی میں پہلی بار پہاڑی علاقہ دیکھا تھا وہ سامنے نظر آنے
والے پہاڑوں پر چڑھنے کے لئے مچل گئی ۔بلند و بالا پہاڑ بظاہر بہت قریب لگ
رہے تھے وہ فوراً وہاں تک جانے کے لئے تیار ہو گئی اور علی سے اپنی خواہش
کا اظہار کیا علی ایک فوجی آفسر تھا وہ ان پہاڑوں تک پہنچنے کا راستہ اور
فاصلہ اچھی طرح جانتا تھا وہ کئی بار ٹرینگ کے دوران ان بلند و بالا پہاڑوں
کی ریکی کر چکا تھا وہ سعدی کو بتانے لگا کہ یہ پہاڑ جو تمہیں اتنے قریب
نظر آرہے ہیں اصل میں بہت دور ہیں ان تک پہنچنے میں 40سے 50منٹ لگ جائیں
گے اور ویسے بھی وہاں پہنچ کر ان پتھر یلے پہاڑوں پر تم چڑھ نہیں سکو گی ۔
سعدی نے محبت کے جوش میں اکر ایک ذومعنی جملہ کہا۔ "جی جناب سفر تو پہلے ہی
شروع ہو چکا ہے دیکھتے ہیں آپ کے قدم سے قدم ملا کر کہا ں تک جا سکتی ہوں
"۔
علی اس بہادر انہ جواب پر ہنس پڑا اور اپنی پیاری بیگم کی اس پہلی اور
انوکھی فرمائش کو پورا کرنے کے لئے تیار ہو گیا علی نے اس پر خطر پہاڑی سفر
پر جانے سے پہلے اپنے بڑے بھائی کو بتانا ضروری سمجھا۔ وہ بالکل اکیلی لڑکی
کے ساتھ اس طرح پہاڑوں پر جانے کے حق میں بالکل نہیں تھے مگر نئی دلہن کی
پہلی فرمائش کو وہ بھی نہیں ٹال سکے مگر عقلمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی
پستول اور اس کا کور علی کے حوالے کر دی اور اسے قیمض کے نیچے پہننے کو کہا
علی نے بھی فوراً تاکید کی اور پستول پہن لیا اور سعدی کو بتانا ضروری نہ
سمجھا، کچھ دیر کے بعد وہ اس ہائیکنگ پر روانہ ہوگئے۔
آج علی کے ساتھ پہلی بار و ہ پیدل کسی سفر پر جا رہی تھی اور وہ بھی
ہائیکنگ کے ایڈ ونچر پر پہلی بار وہ حسب عادت تیار ہو کر یعنی نئے کپڑے ،
میک آپ اور زیور پہن کر باہر آگئی ۔علی اسے دیکھ کر حیران ہو گیا اسے ہر
گز یہ توقع نہیں تھی کہ ایک لڑکی اتنی سج سنور کر میک آپ اور جیولری سے
لیس ہو کر ہائیکنگ پر جائے گی ۔وہ اسے میک اپ اور زیور اتارنے کا کہنا
چاہتا تھامگر کہہ نہ سکا البتہ یہ ضرور کہا "سعدی سر پر چادر اوڑھ لو اور
اپنے زیور کو چادر سے چھپا لو "سعدی کچھ سمجھی تو نہیں مگر چادر اوڑھ لی ۔
شروع میں دونوں کچھ دیر خاموشی سے چلتے رہےاور اپنے ارد گرد کے خوبصورت اور
سادہ ماحول کا جائزہ لے رہے تھے ۔سعدی کو ارد گرد کا ماحول بہت اچھا لگ رہا
تھا کچھ ہی دیر ساتھ چلنے کے بعد سعدی کو یہ احساس ہوا کہ اسکا فوجی جوا ن
تو بہت تیز چلتا ہے ۔اکڑ کر چلتے ہوئے لمبے لمبے قدم اٹھاتا ہوا فوجی جوان
جلد ہی اس سے دس قدم آگے چلا گیا پیچھے مڑکر دیکھنے کی شائد اسے عادت نہیں
تھی یا پھر ابھی کسی کو ساتھ لیکر چلنے کی عادت نہیں تھی ۔اس لئے ایک نے
ایک بار بھی پیچھے مڑکر نہ دیکھا کہ اس پتہ چلتا کہ سعدی تو پیچھے رہ گئی
ہے جب فاصلہ زیادہ بڑھنے لگا تو سعدی کو اسے آواز دیکر متوجہ کرنا پڑا
آواز سن کر وہ ایک دم چونک گیا اور پیچھے مڑکر دیکھا پھر رک گیا اور مسکرا
کر اسے دیکھنے لگا ۔کچھ قدم چلنے کے بعد سعدی اسکے پاس پہنچ گئی اور پھر وہ
چلنے لگے پتہ نہیں علی بہت تیز چلتا تھا یا سعدی بہت آہستہ چلتی تھی کچھ
ہی قدم ساتھ چلنے کے بعد دونوں کا فاصلہ پھر سے بڑھنے لگا ۔کچھ ہی دیر بعد
اسے احساس ہوا کہ وہ تو پھر پیچھے رہ گئی ہے اس نے پھر علی کو آواز دیکر
اپنی طرف متوجہ کیا وہ پھر رک گیا تو یہ چلتے چلتے اس کے پاس آگئی ان
دونوں کو سفر شروع کیے ہوئے آدھے گھنٹے سے زیادہ ہو چکا تھا تیسری بار پھر
وہی سین تھا علی آگے اور سعدی پیچھے پیچھے مگر اب کی بار اس غصہ آگیا اور
اسے لگا کہ شائد علی جان بوجھ کر اسے بار بار پیچھے چھوڑ جاتا ہے اور اسکے
ساتھ ساتھ چلنے سے شائد اسکو شرم آرہی ہے ۔
"بد تمیز ،جاہل " اسکے منہ سے نکل گیا وہ فوراً اپنے الفاظ پر شرمندہ ہو
گئی پھر فوراً اسے دل میں یہ خیال آیا یار کچھ نہیں ہوتا کالج میں بھی ہر
روز ایک دوسرے کو کتنی دفعہ بد تمیز ، جاہل کہہ کر بلاتے ہیں اس نے اپنے
اور اپنی سہلیوں کے بارے میں سوچا ۔ کافی دیر گزر گئی اور علی نے پیچے مڑکر
نہ دیکھا تو اسے پھر غصہ آنے لگا ۔
"یار اس بندے کو تواتنا ہی نہیں پتہ کہ خوبصورت لڑکیوں کے ساتھ قدم سے قدم
ملا کر چلتے ہیں اور انکو پیچھے نہیں چھوڑتے میں کیسے اسکے ساتھ ساری زندگی
قدم سے قدم ملا کر چل پاؤں گی "
انکو چلتے چلتے 40سے50منٹ ہو چکے تھے سعدی اب چلتے چلتے تھک چکی تھی اس طرح
کے کچے پتھریلے اور دشوار اونچ نیچے راستہ پر وہ پہلی بار چڑھ رہی تھی لہذا
جلد ہی تھک گئی ۔ پہاڑ کے دامن میں ایک گاؤں تھا انکو اس گاؤں سے گزر کر
پہاڑ پر چڑھنا تھا گاؤں سے گزرتے ہوئے اس نے نوٹ کیا کہ راستے سے گزرنے
والے مرد اوربچے ان دونوں کو بہت غور سے دیکھ رہے تھے جیسے پہچان رہے ہوں
کہ یہ تو اپنے علاقے کے نہیں لگ رہے پر دیسی ہیں مگر کہاں اور کیوں جا رہے
ہیں۔
کوئی دس منٹ پہاڑ چڑھنے کے بعد انکو دور اوپر کافی بلندی پر ایک لکڑی اور
پتھروں سے بنا گھر نظر آیا تو دل کو تسلی ہوئی کہ اوپر آبادی بھی ہے "چلو
شکر ہے اوپر جا کر پانی تو مل جائے گا سعدی کواب پیاس ستانے لگی تھی گھر
دیکھ کر خو ش ہو گئی ۔جہاں یہ دونوں کھڑے تھے وہاں سے اس گھر تک کا فاصلہ
شائد 15سے 20منٹ اوپر کی طرف چڑھائی والا تھا اور اس فاصلہ کے درمیان ایک
بہت بڑی پتھریلی چٹان نظر آری تھی ان دونوں نے وہاں جا کر ٹھہرنے کا فیصلہ
کیا انہوں نے دوبارہ چلنا شروع کیا کچھ دیر کے بعد سعدی کو سیٹی کی آواز
سنائی دی وہ دونوں چونگ گئے مگر چلتے رہے سعدی نے اسے اپنا وہم سمجھا۔ مگر
پھر سیٹی کی آواز سنائی دی اب یہ دوسری سمت سے آرہی تھی علی چوکنا ہو گیا
اور سعدی کو تیزی سے اوپر چڑھنے کی ہدایت کی کچھ دیر کے بعد پھر ایک سمت سے
سیٹی کی آواز آئی اور پھر فوراً دوسری سمت سے جیسے کسی نے جواباً سیٹی
بجائی ہو ۔سعدی کو تو کچھ سمجھ میں نہ آیا مگر علی کی چھٹی حِس خطرے کو
اچھی طرح بھانپ چکی تھی وہ جلد ہی سمجھ گیا کہ وہ کسی خطرے میں پھنسنے والے
ہیں اتنی دیر میں وہ پتھر کی اس بڑی چٹان پر پہنچ چکے تھے سعدی کو بری طرح
بھوک اور پیاس لگنے لگی پینے کو تو کچھ نہیں تھا مگر بسکٹ کے چند پیکٹ انکے
پاس تھے سعدی پتھر پر بیٹھ گئی اور بسکٹ کھول کر کھانے لگی ۔ایک بسکٹ علی
کے حوالے کیا جو ابھی تک بہت چوکنا کھڑا تھا دیکھتے ہی دیکھتے تین مختلف
سمتوں سے کچھ مرد انکے پاس پہاڑ پر نمودار ہونے لگے جنکے ہاتھ میں ڈنڈے
تھےوہ پانچ سے چھ پہاڑ ی مرد تھے جو ان سے دور فاصلے پر آپس میں اکھٹے ہو
کر کھڑے ہو گئے وہ دونوں میاں بیوی اس طرح سے اچانک حملہ آورو ں کو دیکھ
کر ڈر گئے سعدی بھی کھڑی ہو گئی ان میں سے ایک مر د نے بلند آواز میں علی
کو مخاطب کیا اور بولا "اوئے کون ہو تم کدھر جا رہے ہو اور یہ لڑکی کون ہے
تمہارے ساتھ "علی جو اپنے حواس پر قابو پا چکا تھا اس نے فوراً اپنا پستول
نکالا اور ان مردوں کی طرف تان کر بولا "خبر دار جو کسی نے ایک قدم آگے
بڑھایا میں ایک فوجی آفسر ہوں اور یہ لڑکی میری بیوی ہے اور ہم یہاں سیر
کرنے کے لیے آئے ہیں " ۔ پستول انکی طرف تانے رکھی اور غصے سے انکو گھورنے
لگا ساتھ ہی اس نے سعدی کا ہاتھ کھینچ کر اسے بغل میں چھپا لیا کہ جیسے وہ
اس پر کوئی آنچ نہ آنے دے گا اور اس کی مکمل حفاظت کے لئے پوری طرح تیار
ہے علی ہر قسم کے متوقع حملےسے نمنٹے کے لئے مکمل طور پر تیار ہو چکا تھا
وہ ان پہاڑی مردوں کی طرف منہ کر کے کھڑا ہو گیا اور سعدی کو اپنے پیچھے
چھپا لیا سعدی ڈر کے مارے اس کے ساتھ چپک گئی ۔
علی کی خود اعتمادی اور انکی طرف تانی ہوئی پستول نے شائد انکو خوف ذدہ کر
دیا تھا لہذا کسی نے بھی آگے بڑھنے کی جرات نہ کی کچھ دیر بعد ایک مرد
بولا یا رلگتا ہے سچ کہہ رہا ہے وہ دیکھو لڑکی نے دلہنوں والے کپڑے اور
زیور پہن رکھا ہے وہ چند لمحے خاموشی سے ایک دوسرے کو دیکھتے رہے جیسے کوئی
فیصلہ کر رہے ہوں علی نے بد ستور پستول انکی طرف تانی ہوئی تھی کچھ دیر بعد
ان میں سے ایک مرد بولا ٹھیک ہے آج تو تمہیں چھوڑ رہے ہیں مگر خبر دار جو
دوبارہ یہاں کسی لڑکی کو ساتھ لیکر آنے کی جرات کی ۔
علی خود بھی بہت محتاط ہو چکا تھا وہ کسی بھی طرح خود کو اور اپنی بیوی کو
کسی مصیبت میں نہیں ڈال سکتا تھا لہذا بولا ٹھیک ہے ہمارے راستے سے ہٹ جاؤ
اور ہمیں جانے دو ہم آئندہ یہاں نہیں آئیں گے کچھ دیر وہاں کھڑارہنے کے
بعد وہ ایک ایک کر کے واپس چلے گئے علی اور سعدی نے فوراًاللہ کا شکر ادا
کیا اور جلد ی جلدی پہاڑی سے نیچے اترنے لگے گاؤں کی حدود میں جا کر دم
لیا۔ پھر جلدازجلد وہاں سے نکلنے کی کوشش میں تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے گاؤں
سے جلدی باہر نکل آئے سعدی اس ساری غیر متوقع صورتحال سے بہت گھبرا گئی
تھی گاؤں کی حدود سے باہر نکل کر اسے احساس ہوا کہ اب وہ یقیناً خطرے سے
باہر ہیں اور اب 20سے25منٹ تک واپس گیسٹ روم پہنچ جائیں گے اس پتھریلے
راستے پر واپسی جاتے ہوئے علی کے بارے میں اس کے خیالات یکسر تبدیل ہو چکے
تھے جاتے ہوئے بد تمیز جاہل کا خطاب دینے والی اب بڑے فخر اور تحفظ کے
احساس کے ساتھ علی کے قدموں سے قدم ملا کر چل رہی تھی اب اسے اپنے فوجی
جوان کے تیز تیز قدم اٹھانے اور اپنے آہستہ آہستہ قدموں سے چلتے ہوئے
پیچھے رہ جانے پر کوئی شرمندگی یا افسوس نہ تھا۔
|