مدینے سے رہیں خود دور اس کو روکنے والے
مدینے میں خود اخترؔ ہے، مدینہ چشم اخترؔ میں
ماہِ رمضان کی بہاریں تھیں۔ سن ۱۴۳۷ھ/۲۰۱۶ء ۔اﷲ نے فضل فرمایا۔ آقاصلی اﷲ
علیہ وسلم نے کرم فرمایا۔ مکۃ المکرمہ کی فضاؤں میں جا پہنچے۔ وادی مکۃ
المکرمہ جہاں جلوؤں کا سماں ہے۔ ہر شے منور۔ذرہ روشن۔ ہر شب تاباں۔صبح
درخشاں۔ جلال کا پہرہ ہے۔ کعبۂ مقدسہ کی بہاریں- دل و جاں وجد کناں جھک گئے
بہر تعظیم- عمرہ کا شرف حاصل ہوا۔ یادوں کے نقوش تازہ ہوئے۔ وفا کی قندیلیں
طاقِ دل پر روشن ہو گئیں۔ وفا شعاری نے اس وادی میں عقیدتوں کی فصلیں بوئی
ہیں۔ شجر بھی وفادار، حجر بھی وفادار۔ پہاڑ بھی فرماں بردار۔ خلیل اﷲ علیہ
السلام و ذبیح اﷲ علیہ السلام سے رشتۂ غلامی نبھانے والوں کی نسبتیں تازہ
ہیں۔ حج و عمرہ کے ارکان کا حصہ بن گئیں۔صفا و مروہ، مقام ابراہیم و حجر
اسود۔منیٰ و مزدلفہ و عرفات۔ سبھی محبتوں کی علامتیں ہیں۔ سبھی وفا کے نشاں
ہیں۔تسلیم کی خاموش زباں ہیں۔
ماہِ صیام کا پہلا عشرہ تھا۔ مناسکِ عمرہ سے فراغ پایا۔ اطلاع ملی کہ طیبہ
کی بہاروں میں قاضی القضاۃ فی الہند تاج الشریعہ علامہ اختررضا خاں قادری
ازہری تشریف فرما ہیں۔ طیبہ کی یادیں ذہن و دماغ میں نقش تھیں۔ درِ محبوب
صلی اﷲ علیہ وسلم کا خیال بے چین کیے دیتا تھا۔ حضور تاج الشریعہ کا یہ شعر
بار بارزباں پر مچل رہا تھا۔ لفظ لفظ کی لذت سرشار کیے دیتی تھی۔ قبولیت کے
لمحے جواں تھے
وہ بُلاتے ہیں کوئی یہ آواز دے
دم میں جا پہنچوں میں حاضری کے لیے
حرم کی فضاؤں میں افطار کی سعادت حاصل کی۔ ہم گردِ کعبہ پھرتے تھے-کا لطف
لیا۔ تراویح ہوٹل پر ادا کی۔ شب کا کچھ لمحہ آرام کیا۔ سحری کی۔ فجر ادا
کی۔ سلام پڑھا۔ تصور کی بزم میں سبز گنبد کا نور دلوں کے زنگ دور کر
رہاتھا۔ آرزو ئیں مچل رہی تھیں۔ محبوب کے درِ پاک کی حاضری۔ یومِ جمعہ۔ پھر
مرشدِ گرامی کا دیدار۔ جن کی نعتوں نے محبوب پاک صلی اﷲ علیہ وسلم سے محبت
کے دیے فروزاں کیے۔ انھیں پانے کی دُھن؛ وہ بھی طیبہ کی بہاروں میں۔فجر سے
فارغ ہوئے۔ عزمِ طیبہ لیے بس میں سوار ہوئے۔ بس سوئے طیبہ چل دی۔ حرمین کے
مناظر اور وادیاں۔ آرزوؤں کا سفر جاری تھا۔ ابھی حرم مکی سے کچھ مسافت طے
ہوئی تھی۔ دل کی دھڑکنیں تیز ہوتی گئیں
تم چلو ہم چلیں سب مدینے چلیں
جانبِ طیبہ سب کے سفینے چلیں
[تاج الشریعہ]
صبح کی تازہ ہوائیں جب سوئے طیبہ سے چلتیں تو صحرا میں عجب خوش بو پھیل
جاتی۔ ابھی آفتاب کی تمازت شروع نہیں ہوئی تھی کہ صحرا میں کھجوروں کے
باغات کا کیف زا نظارہ دکھائی دیا۔ ان راہوں نے کئی ادوار دیکھے۔ انھیں رہ
گزر سے صدیوں سے عشاق کے قافلے گزرتے آئے ہیں۔ جن کی منزل طیبہ رہی ہے۔ یہ
راہیں بڑی عظیم ہیں۔ ان کی مسافرت کی منزل طیبہ ہے۔ راہ بھر اعلیٰ حضرت کے
اشعار ذوقِ محبت کو بڑھاتے رہے۔ طیبہ کی منزل قریں ہے۔ لمحوں کی بھی معراج
ہو رہی ہے۔ ہر ساعت تجسس بڑھاتی ہے۔ سورج کی تمازت بڑھی تو صحرائے طیبہ کی
گرم فضائیں ان قافلوں کی یاد دلانے لگیں جو ان وادیوں سے گزرے تھے۔ جن کی
تلواریں کفر پر پڑی تھیں اور نفاق کی گردنیں جن سے کٹی تھیں۔ جن کے نغموں
نے افریقہ کی وادیوں میں نغماتِ توحید و رسالت سے اندھیرے دور کیے تھے۔ جن
کی تکبیروں نے وادیِ مغرب میں تمدنِ نصاریٰ کو سرنگوں کیا تھا۔ جن کے علم و
فضل نے اندلس و طلیطلہ کی دانش گاہوں میں انسان بنائے تھے۔ ان عاشقانِ رسول
نے طیبہ سے فیض پا کر جہان میں دین کا رُخ اجلا کیا تھا۔ ابھی تصورات کی
بزم ختم نہ ہوئی تھی کہ طیبہ کی خوشبوئیں دلوں کو گدگدانے لگیں۔
خلد زار طیبہ کا اس طرح سفر ہوتا
پیچھے پیچھے سر جاتا آگے آگے دل جاتا
[تاج الشریعہ]
دوپہر کا وقت تھا۔ طیبہ امینہ کی بہاروں میں جا پہنچے۔ ہاں! طیبہ ٹوٹے دلوں
کا سہارا ہے۔ جہاں سے الفت- مومن کی معراج ہے- ہاں! طیبہ زنگِ خیال دھو
دیتا ہے اور مصفیٰ کر دیتاہے۔ ہاں! یہاں کی خاک کو سرمہ بنانے والوں کی
نگاہیں دانشِ فرنگ سے مرعوب نہیں ہوتیں۔ خاکِ حجاز نے شوکتِ دارا و سکندر
کو دھندلا دیا۔ وہ جو یہاں کے اسیر ہوئے تاج و تخت ان کے قدموں میں پڑے
دیکھے۔ فضائے طیبہ سے اٹھنے والے غبار دلوں کی کلیاں کھلاتے ہیں۔
ابھی دل کو سنبھالنا تھا۔ یہ روشنی سی کیا ہے خوشبو کہاں سے آئی۔ گلیاں مہک
رہی تھیں۔ سامنے بہاروں کا سماں تھا۔ وہ بہاریں جو خزاں سے دور ہیں۔ ہر طرف
نور ہی نور تھا۔ نور کی خیرات بٹ رہی تھی۔آفتاب کی تمازت بھی رحمت کی شبنم
محسوس ہورہی تھی۔ وارفتگی شوق میں سوئے گنبد خضرا چل دیے۔ ابھی دوپہر کے
ٹھیک دو بجے تھے۔ مسجد نبوی میں ظہر ادا کی۔ گناہوں سے آلود جسم، عصیاں سے
بوجھل نگاہیں اور درِ محبوبِ پاک صلی اﷲ علیہ وسلم! ہماری بساط کیا ہے۔ یہ
تو آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کا کرم ہے۔ فضل و احسان ہے کہ طیبہ بلا لیا۔ باب
السلام کے روبرو تھے۔ تشکرکے موتی رخسار پرڈھلک پڑے۔ زباں گنگ ہوگئی۔ مواجہ
شریف روبرو۔ یہاں صرف اشعارِ اعلیٰ حضرت جذبات کی ترجمانی کر رہے تھے۔
آنکھ عطا کیجیے اس میں ضیا دیجیے
جلوہ قریب آگیا تم پہ کروڑوں درود
[اعلیٰ حضرت]
سنہری جالیاں ہیں۔ آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کے کرم کی حد نہیں۔ درودوں کے نغمے
ہیں۔ ادب کی ساعتیں ہیں۔ یہاں دل کا حال بھی کھلا ہے۔ جذبات بھی عیاں۔ سلام
پیش کیا۔ یارانِ پاک کی بارگاہ میں بھی توشہ دل نذر کیا۔ صدیق و عمر کی شان
پر سلام۔ ان کی جاں نثاری پر سلام۔ ان کی قسمت پر سلام۔باب البقیع سے باہر
آئے۔ زیر لب -مصطفی جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام-کی ڈالیاں پیش کیں۔ ایک ایک
لفظ معنویت بکھیر رہا تھا۔ مفہوم دل پر کھل رہا تھا۔
درِ محبوب صلی اﷲ علیہ وسلم سے باہر آئے۔ عصر کی گھڑیاں قریب تھیں۔خلیفۂ
تاج الشریعہ مولانا عاقب فرید قادری[وصال۱۹؍جولائی ۲۰۱۸ء-مترجم کنزالایمان
انگلش] سے محبی شہباز رضوی نے رابطہ کیا۔حضور تاج الشریعہ کی مدنی قیام گاہ
کا پتہ معلوم کیا۔ پھر ہوٹل ایلافِ طیبہ چل دیے؛ جہاں اخترؔ سنیت پوری تب و
تاب سے جلوہ گر تھا۔ چند ساعتوں میں قیام گاہ پہنچ گئے۔ہم ہال میں رک گئے۔
برابر کے کمرے میں حضور تاج الشریعہ جلوہ بار تھے۔ ہال میں مولانا عاقب
فریدی محبت سے ملے۔ طیبہ کی بہاروں کا تذکرہ ہوا۔ کنزالایمان انگلش کی
توسیع سے متعلق کچھ منصوبہ بندی رہی۔ علمی گفتگو جاری تھی۔ افریقہ و دیگر
بلاد سے علما کی آمد کا سلسلہ جاری تھا۔ نمازِ عصر مولانا عاقب کی اقتدا
میں اداکی۔ سامنے کھڑکی سے سبزگنبد کا جلوہ نگاہوں کی تازگی بڑھاتا تھا۔
نماز سے فارغ ہوئے۔ علماے کرام سے ملاقاتیں رہیں۔ افطار کا وقت قریب ہوا۔
محفل سج گئی۔ ہال پُر ہوگیا۔ نعت و مناقب کے نذرانے۔ ہندوپاک کے نعت خواں
سوز بڑھا رہے تھی۔ اکابر کے کلام کی بات ہی نرالی ہے۔ ابھی بزم سجی تھی کہ
روشنی بڑھی۔ حضور تاج الشریعہ بزم میں تشریف لے آئے۔ سب نگاہیں ادھر ہی
تھیں جدھر شمعِ طیبہ سے نور پانے والا اخترؔ جلوے بکھیر رہا تھا۔ ان کی
توجہ خاص ہم غلاموں کی جانب مبذول تھی۔ سبحان اﷲ! کیسا نورافزا سماں!ایمان
کی فصل ہری بھری ہو گئی۔ طیبہ کی بہاروں میں نورانی وجود حرارتِ ایمانی
بڑھا رہا تھا۔ بہت اطمینان سے آپ تشریف فرما تھے۔
اس درمیان ثنا خوانی جاری تھی۔ کلام الامام امام الکلام سے محبتوں کی سوغات
بٹ رہی تھی۔ واقعی امام اہل سنت اعلیٰ حضرت کے اشعار کی معنویت اور روح-
درِ طیبہ پر کھلتی ہے۔ ہر ہر شعر اپنے باطن کی خوش بو سے آشنائی بخشتا ہے۔
پھر حضور تاج الشریعہ نے سبز گنبد کی ان بہاروں میں داخلِ سلسلہ فرمایااور
افطار کو تشریف لے گئے۔ ہم نے موجود علما و خواص کے ساتھ افطار کیا۔ حضور
تاج الشریعہ کے دستر خوان پر قسم قسم کی نعمتیں تھیں۔نمازِ مغرب باجماعت
ادا کی۔ نمازکے بعد نیاز کا اہتمام تھا۔ استفادہ کیا۔ پھر مرشد کی بارگاہ
سے رخصت ہوئے۔ سبز گنبد کے جلوے نظارہ کیے۔ میقاتِ مدینہ ذوالحلیفہ پہنچے۔
احرام باندھا۔ عازم حرم ہوئے۔ راہ میں سحری کی۔ حرم پہنچ کر فجر و مناسکِ
عمرہ ادا کیے۔
ابھی رمضان المبارک کے سترہ روزے ہوئے تھے کہ دوبارہ طیبہ کا عزم ہوا۔
سترہویں کی دوپہر عازم مدینہ ہوئے۔ طیبہ کی راہیں اشعارِ رضا کے نغموں سے
گُل زار بنی ہوئی تھیں۔ شام ہوئی کہ زندگی کی صبح نمودار ہو گئی۔ جانبِ
بطحا سے ہوائیں چلنے لگیں۔ گرمی کی حدت کا احساس رُخصت ہوا۔ دارالشفاء سے
پیامِ تازہ آنے لگے۔ جذبات مچلنے لگے۔ ارمان جوش پانے لگے۔ خیالات کی
وادیاں بہار بہار ہو گئیں۔داخلِ شہر مقدس ہوئے۔ دور سے ہی مسجد نبوی کے
مینار نظر آنے لگے۔ ہم قیام گاہ پہنچے؛ معلوم کیا کہ حضور تاج الشریعہ طیبہ
میں موجود ہیں یا ہند رُخصت ہوئے۔ اِس اطلاع نے غنچۂ دل کھلا دیا کہ حضور
تاج الشریعہ نے قیامِ طیبہ کی مدت طویل کی۔ قافلے نے اقامت برھا دی۔ تشنہ
لبی تھی۔ بلادِ محبوب صلی اﷲ علیہ وسلم سے رُخصت گوارہ نہ تھی۔ ہوتی بھی
کیسے۔
یَا قَافِلَتِیْ زِیْدِیْ اَجَلَکْ رحمے بر حسرتِ تشنہ لبک
مورا جیرا لرجے درک درک طیبہ سے ابھی نہ سنا جانا
[اعلیٰ حضرت]
ہوٹل میں اسباب رکھے۔ پھر حضور تاج الشریعہ کے کاشانہ کو چل دیے۔ ابھی
افطار کو کچھ وقت باقی تھا۔ ثنا خواں نغمے الاپ رہے تھے۔ ہوائیں چل رہی
تھیں۔ سبز گنبد روبرو تھا۔ مسجد نبوی کی بہاریں۔ذکرِ مصطفی صلی اﷲ علیہ
وسلم سے تر زبانیں۔ ایسا لگ رہا تھاجیسے پھوٗہار پڑ رہی ہو۔ جیسے بادل گھر
رہے ہوں ۔ جیسے بارانِ رحمت برس رہی ہو۔ جیسے کلیاں چٹک رہی ہوں۔ جیسے پھول
کھل رہے ہوں۔ جیسے گلشن مہک رہے ہوں
انھیں کی بو مایۂ سمن ہے، انھیں کا جلوہ چمن چمن ہے
انھیں سے گلشن مہک رہے ہیں، انھیں کی رنگت گلاب میں ہے
[اعلیٰ حضرت]
حضور تاج الشریعہ کی زیارت نصیب ہوئی۔ دست بوسی کا موقع ملا۔ جوق در جوق
زائرین آتے رہے۔ دیدار کی لذت پاتے رہے۔ آج بوقت افطار حضور تاج الشریعہ نے
شرکا کے لیے دعا کی۔ دَم فرمایا۔ چہرے پر نور کا پہرا تھا۔ نعت خوانی ہوئی۔
کلام الامام کی سوغاتیں، کلامِ مفتی اعظم کی عطر بیزی، کلامِ اخترؔ کی
نواسنجی۔ سماں بندھ گیا۔ یوں لگا جیسے توشے بٹ رہے ہوں۔ جیسے مُرادوں سے
دامن بھرے جا رہے ہوں۔ جیسے سبز گنبد سے مدد مل رہی ہو۔ جیسے فریاد رَسی ہو
رہی ہو۔جیسے حسرتیں پوری ہو رہی ہوں۔جیسے جھولیاں بھری جا رہی ہوں۔ جیسے
منھ مانگی مرادیں مل رہی ہوں
ان کے در پہ اخترؔ کی حسرتیں ہوئیں پوری
سائل در اقدس کیسے منفعل جاتا
[تاج الشریعہ]
افطار کیا۔ نماز پڑھی۔ سوئے حرم نبوی چل دیے۔ اب روزانہ کا معمول بن گیا کہ
سرِ شام حضور تاج الشریعہ کے دولت کدہ پہنچ جاتے۔ زیارت کرتے۔ نعت خوانی سے
کشکولِ مراد بھرتے۔ طیبہ کی بہاروں میں ثنا خوانی کی لذت پاتے۔ تشنہ لبی
دور کرتے۔پھر پیاس بڑھاتے۔ دیدار کی تمنا کو فروزاں کرتے۔ پھر افطار کرتے۔
آتے جاتے۔مراد پاتے۔ تمنا بڑھاتے۔ یوں ہی چار پانچ دن گزر گئے۔ پھر وہ ساعت
آئی کہ قافلے حجاز سے ہند آنے کو تھے۔حضور تاج الشریعہ کی ہند روانگی تھی۔
۲۱؍ رمضان کی سہ پہر تھی۔ ہم کاشانۂ حضور تاج الشریعہ پہنچے۔آج بڑا کیف آور
لمحہ تھا۔ نمازِ عصر حضور تاج الشریعہ نے خود پڑھائی۔ فراغ کے بعد نعت خواں
محمد زبیر مکی و ڈاکٹر نثار احمد معرفانی کو آگے بُلوایا۔ مسند پر بٹھایا۔
حمد باری تعالیٰ پڑھی گئی۔ کلام الامام سے آغاز ہوا۔ آج یوم شہادتِ مولائے
کائنات تھا۔ کئی نسبتیں جمع تھیں۔ صاحبِ نسبت جلوہ گر تھے۔ محفل اشک بار
کیے دیتی تھی
خراب حال کیا دل کو پُر ملال کیا
تمہارے کوچے سے رخصت نے کیا نہال کیا
[اعلیٰ حضرت]
کئی کلام کی حضور تاج الشریعہ نے خود فرمائش کی اور خود بھی پڑھ رہے تھے۔
لبہاے مبارک ہل رہے تھے۔نعت خواں نے یہ کلام بھی پُر سوز پڑھا۔ آنکھیں بھیگ
گئیں
پھر کے گلی گلی تباہ ٹھوکریں سب کی کھائے کیوں
دل کو جو عقل دے خدا تیری گلی سے جائے کیوں
[اعلیٰ حضرت]
ابھی گلشن طیبہ کا ذکر چل رہا تھا۔ دشتِ طیبہ کی یادیں تازہ تھیں۔ محویت کا
عالم طاری تھا۔ نغمۂ دل چھڑ گیا
سیر گلشن کون دیکھے دشتِ طیبہ چھوڑ کر
سوئے جنت کون جائے در تمہارا چھوڑ کر
[علامہ حسنؔ رضا بریلوی]
نعت خواں نے گرہ لگائی۔ ایک ایک مصرعہ جذبات کی نمائندگی کر رہا تھا۔ طیبہ
سے واپسی کا پیام روح کو زخمی کیے دیتا ہے۔ اس در کی حاضری حضوری کی لذت سے
آشنا کرتی ہے۔ جدائی جذبات کو مضمحل کر دیتی ہے۔ درِ محبوب صلی اﷲ علیہ
وسلم سے دوری عاشق کو کیسے گوارا ہو سکتی ہے! ابھی اس کلام کی تکرار جاری
تھی کہ نعت خواں نے دوسرا کلام شروع کیا۔ حضور تاج الشریعہ نے خود مقطع کی
تکرار فرمائی۔ کیف کے عالم میں
مر کے جیتے ہیں جو ان کے در پہ جاتے ہیں حسنؔ
جی کے مرتے ہیں جو آتے ہیں مدینہ چھوڑ کر
محفل اختتام کو تھی۔ قبولیت کی ساعتیں۔ زبانِ اخترؔ سے نغماتِ بخشش امڈ رہے
تھے۔ بخشش کے سفینے ترنے کو تھے۔ سبز گنبد سے قبولیت کی سند گویا عطا ہو
رہی تھی۔ وہ ساعت سعید آئی جب سب حالت قیام میں آگئے۔ بصد ادب کھڑے ہو کر
وہ عمل پیش کیا۔ جو اسلاف سے متوارث چلا آرہا ہے۔ پھر ارض طیبہ۔ سامنے جلوۂ
محبوب۔ قبولیت کے لمحے لفظ لفظ سے وضع ہونے لگے
مصطفی جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام
شمع بزم ہدایت پہ لاکھوں سلام
حضور تاج الشریعہ کی زبان مبارک سے جب سلامِ رضا کے اشعار ادا ہوتے تو تپشِ
محبت بڑھ جاتی۔ آنکھیں فرطِ عقیدت سے چھلک جاتیں۔ سراپائے مصطفی کا بڑا
اچھوتا بیاں بریلی کے تاج دار نے نظم کیا۔حضور تاج الشریعہ نے درجنوں اشعار
زیرِ سایۂ گنبد خضرا پڑھے۔ پڑھوائے۔ سُنے اور سُنوائے۔ پھر دعافرمائی۔
عقیدے کے تصلب کا بیاں۔ مسلکِ اعلیٰ حضرت پر استقامت کی دعا۔ بے شک ایماں
کے جوہر کی حفاظت کی دعا درِ محبوب صلی اﷲ علیہ وسلم پر قبولیت کا تمغہ
وصول کر رہی تھی
انھیں جانا انھیں مانا نہ رکھا غیر سے کام
ﷲ الحمد میں دنیا سے مسلمان گیا
[اعلیٰ حضرت]
بلبل باغ مدینہ کو سُنا دے اخترؔ
آج کی شب ہے فرشتوں سے مباہات کی رات
[حضور تاج الشریعہ]
اسی شب قافلہ سالارِ عشق- سوئے ہند روانہ ہوئے۔ یہ حیاتِ ظاہری کا آخری
سفرِ حرمین تھا۔ پھر حضور تاج الشریعہ کے خلیفہ و عزیز داماد مفتی شعیب رضا
نعیمی اگلے رمضان میں وصال فرما گئے۔ پھر حضور تاج الشریعہ کی علالت ۔ اور
۲۰؍ جولائی ۲۰۱۸ء/۷؍ ذی قعدہ ۱۴۳۹ھ کو علم و فن کا یہ آفتاب و ماہ تاب
متاعِ عشقِ رسول جہان میں تقسیم کر کے عازمِ خلد بریں ہو گیا
اخترؔ خستہ بھی خلد میں چل دیا
جب صدا دی اسے مرشدی نے چلیں
اخترؔ قادری خلد میں چل دیا
خلد وا ہے ہر اک قادری کے لیے
[تاج الشریعہ]
دورانِ قیامِ طیبہ امینہ ہم نے قصد کیا تھا کہ مواجہ شریف میں حضور تاج
الشریعہ کے ہم راہ حاضر ہوں گے۔ ایک شب دیکھا کہ مواجہ شریف میں حضور تاج
الشریعہ حاضر ہیں۔ حاضر در ہوئے۔ آپ کے ہم راہ چند محبین تھے۔ لیکن! ابھی
چند لمحے بھی نہیں گزرے تھے کہ اژدہام جمع ہو گیا۔ ایک عاشق کے دیدار کو دل
کھینچے چلے آئے۔ اپنے در پر آقا صلی اﷲ علیہ وسلم نے وہ عظمت دی کہ جس نے
چہرہ دیکھا؛ فِدا ہو گئے۔ زیارت کی ؛دل بچھ گئے۔ کیا شامی، کیا ترکی، کیا
یمنی، کیا عربی جسے دیکھو محویت سے عاشقِ مصطفی کی زیارت کیے جا رہا ہے۔
ابھی طیبہ کی یادوں کے کئی اوراق تشنہ ہیں۔ پھر دیکھو شہر محبت سے کب بلاوا
آتا ہے۔ مردانِ حق دامن بھر چلے۔ حضور تاج الشریعہ نوازے گئے۔ ایسے کہ
زمانے کو نوازا۔ عطائے طیبہ ہوئی ایسی کہ لاکھوں دلوں میں بس گئے۔ نگاہِ
مفتی اعظم کی کیسی جلوہ گری تھی کہ-چمک رہا ہے اختر ہزار آنکھوں میں- بلکہ
یہ تمثیل ہے۔ بلاشبہ کروڑوں نگاہوں میں چمک گئے۔ کیوں کہ انھیں موت نے حیات
کا پروانہ دیا۔ طیبہ کی بزم سے انھیں نوید کیسی ملی۔ سُنیے دل کے کان سے
سُنیے۔ کیا کہتے ہیں تاج الشریعہ
موت لے کے آجاتی زندگی مدینے میں
موت سے گلے مل کر زندگی میں مل جاتا
٭٭٭
|