تحریر: سارہ عمر
’’تم جاب کیوں نہیں کرتی؟ گھر کیوں بیٹھی ہو؟ جب پتا بھی ہے کہ گھر کے
حالات اچھے نہیں ہیں‘‘، بڑی بی نے اسے نصیحت کرتے ہوئے کہا۔ ’’آنٹی حالات
تو ایسے ہی ہیں ہمیشہ سے‘‘، سادگی سے جواب آیا تھا۔ ’’پھر بھی گھر کے حالات
کی بہتری کے لیے ہی کر لو جاب‘‘، دوبارہ سے مشورہ آیا تھا۔’’ان شاء اﷲ ہو
ہی جائیں گے حالات بھی ٹھیک۔ دعا تو کرتے ہیں‘‘، اس نے متانت سے جواب دیا۔
’’دعا کے ساتھ دوا بھی تو کرنی پڑتی ہے ناں!‘‘ بڑی بی جوش سے بولیں۔ آج وہ
بہت موڈ میں تھیں۔ ’’جی بالکل! امید تو کبھی نہیں چھوڑی‘‘، وہ اب بھی دھیما
سا بولی۔ ’’جب پتا ہے میاں بے روزگار ہے تو کم از کم بیوی ہی ہاتھ بٹا دے۔
کیا حرج ہے بھلا؟‘‘ نصیحت کی پٹاری میں سے ایک کے بعد ایک نصیحت حاضر
تھی۔’’اگر میاں بے روزگار ہے تو یہ مطلب تو نہیں کہ عورت اپنے گھر اپنی
چادر چار دیواری کو چھوڑ دے‘‘، اس نے کچھ سمجھانے کی کوشش کی تھی۔
’’دیکھو!تمھارے بھلے کی بات ہے ایسے تو گزارا نہیں ہوتا ناں!‘‘۔ ’’آنٹی
عورت کے گھر سے نکلے بغیر بھی گزارا ہو سکتا ہے‘‘، اس نے پھر سے ان کا
مشورہ ماننے سے انکار کیا تھا۔ ’’تمھیں بھلا اتنا پڑھنے کا کیا فائدہ
ہوا؟جب گھر میں بیٹھ کے چولہا ہانڈی ہی کرنی تھی؟‘‘ بڑی بی جلال میں آ گئیں
تھیں۔’’آنٹی یہ چولہا ہانڈی تو عورت کا مقدر ہے بھلا جو گھر سے باہر نکلتی
ہے سارا دن کھپ کے آتی ہے کیا وہ چولہا ہانڈی نہیں کرتی؟‘‘ وہ لاجواب ہوئیں
تھیں۔ ’’بھئی تمھیں تو سمجھانے کا کوئی فائدہ ہی نہیں ہے۔ بس آج کل تو نیکی
کا زمانہ ہی نہیں۔ بچے یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں عقل ہی نہیں۔ دھوپ میں بال
سفید کیے ہیں‘‘، بڑی بی نے اپنا شٹل کاک برقع سر پہ رکھ کر باہر نکلنے میں
ہی عافیت جانی تھی۔
’’آنٹی!‘‘، اس نے پکارا تو اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ ’’میری امی کی جاب
نے ہم سے ماں کی ممتا چھین لی اور میری جاب نے مجھ سے والدین کی خدمت کا
وقت چھین لیا‘‘۔ ’’کیا مطلب‘‘، وہ نا سمجھی سے اسے دیکھنے لگیں۔’’جی جب میں
چھوٹی تھی تب سے بڑے ہونے تک میری امی گورنمنٹ جاب کرتیں رہیں۔ ساری زندگی
دوسروں کے بچوں کو پڑھا پڑھا کے ڈاکٹر انجینئر بنواتی رہیں مگر اپنے بچوں
کے لیے ان کے پاس وقت نہ تھا۔ اسکول میں بچوں کے ساتھ دماغ کھپا کر آتیں تو
گھر آ کر ہانڈی روٹی میاں، بچوں، ساس، سسر کے کام۔ ایک چھٹی لوگوں کے آنے
جانے ملنے ملانے یا کپڑے دھونے میں نکل جاتی۔ جب میں بڑی ہوئی تو پاس کے
پرائیویٹ اسکول میں نوکری مل گئی۔
جو وقت میں نے اپنے بوڑھے والدین کی خدمت کرنی تھی وہ سارا وقت میں نے جاب
کو دے دیا۔ بچوں کو پڑھا پڑھا کے گھر آو تب بھی آدھا کام گھر لاؤ۔ کبھی
کوئی چارٹ بنانا ہے، کبھی کاپیاں چیک کرنی ہیں، کبھی رجسٹر مکمل کرنے ہیں
تو کبھی کچھ اور کام۔ آج شادی ہو کر سسرال آئی ہوں تب بھی میاں اور ساس سسر
کو چھوڑ کے کام پہ نکل جاوں؟ تاکہ میرے سر پہ گھر اور باہر کی دھری ذمہ
داری پڑ جائے۔ بتائیے کے کیا میرا رویہ غلط ہے کہ صحیح ہے؟‘‘اس نے آنسوؤں
کی جھڑی میں بات مکمل کی اور بڑی بی کو دیکھا۔ انہوں نے خاموشی سے اس کے سر
پہ ہاتھ رکھا اور اسے اپنے گلے سے لگا لیا۔ ’’ہاں بیٹی تو سچ کہتی ہے اصل
نوکری تو یہی ہے، اپنا گھر اور بچے‘‘۔
|