تحریر: ساحر مرزا
احسان بیٹا! میں نے کولر تیار کردیا ہے اور برف بھی ڈال دی ہے۔ کھانا کھالو
اور شاباش شام سے پہلے پہلے قلفیاں بیچ آنا۔ سفینہ آپا نے اپنے بھائی کو
آواز دے کر کہا۔ احسان کی عمر فقط بارہ سال تھی اور گھر کی ذمے داریوں نے
اس سے اس کا بچپن، شرارتیں سب چھین لیا تھا۔ دن بھر موٹر سائیکلوں کی دُکان
پر معمولی مزدوری کے بعد وہ شام ڈھلے کھانا کھاکر پھر سے معاش کی گاڑی
دھکیلنے کو قلفیاں بیچنے نکل جاتا تھا۔ بڑی بہن قلفیاں بنا دیا کرتی تھیں
اور وہ جاکر بیچ آیا کرتا تھا۔ زندگی کی گاڑی رفتہ رفتہ گھِسٹ رہی تھی۔
گرمیوں کے آخری ایام چل رہے تھے، ابھی فضا میں تپش کا احساس باقی تھا۔ مغرب
کی نماز پڑھ کر وہ کولر اُٹھائے گھر سے نکل آیا۔ سبک قدموں سے چلتا وہ بڑی
سڑک کی جانب چل پڑا۔ رنگا رنگ قمقموں سے بھرے بڑے بڑے شادی ہالز کی قطار
جوکہ بڑی سڑک کے ساتھ واقع تھے اس کے ذہن پر سوار تھے۔ ٹھنڈی میٹھی کھوئے
والی قلفی! باریک سی آواز میں صدا لگاتا اب وہ بڑی سڑک پر چلنے لگا۔ رکشے،
کاریں اور گاڑیوں کا جم غفیر تھا جو سڑک پر رواں دواں تھا۔ ٹھنڈی میٹھی
کھوئے والی قلفی!
ایک بڑی شادی ہال کے ایک طرف کھڑا اب وہ صدا لگائے جارہا تھا۔ آنکھوں میں
اُمید لیے وہ مہمانوں کے زرق برق لباس اور چمچماتی گاڑیاں دیکھ رہا تھا۔
مگر بازو میں کولر اسے صدا لگائے رکھنا یاد دِلاتا رہتا۔ کچھ وقت گزرے عشاء
کی اذان سنائی دی۔ اس نے کولر کھول کر دیکھا سب قلفیاں اسی طرح اندر موجود
تھیں۔ آج پھر بہت دیر ہوجائے گی گھر جاتے، اس نے سوچا اور نماز کے لیے قریب
کی مسجد کی جانب چل دیا۔ ماں کہتی تھی، ’’رب کے سامنے سجدے میں سر رکھ دو
تو وہ ہر مشکل میں ہمیں تھام لیتا ہے‘‘۔
کولر مسجد کے ساتھ کریانے کی دکان پر پکڑا کر وہ مسجد میں داخل ہوا۔ دروازہ
کھلتے ہی اے سی کی خنک ہوا نے باہر کے معتدل سے موسم کو بھی بہت گرم محسوس
کروایا۔ مسجد میں ٹائیلوں سے مزین وضو خانے سے وضو کرکے نرم قالین پر سجدہ
ریز اس کے ذہن میں گھر کے آنگن میں اکھڑی ہوئی اینٹوں اور مٹی سے بھرے آنگن
کا تصور اُبھرا۔ نماز پڑھ کر وہ باہر آیا تو لگا جیسے باہر آگ جل رہی ہو
جبکہ درجہ حرارت بالکل اعتدال پر تھا، یہ ستمبر کا آخری ہفتہ ہے۔ ہوا میں
خشکی اور تپش دم توڑ چکی تھی۔ مگر اے سی کی خنکی سے اس کا موازنہ اس کا ذہن
بلاوجہ کررہا تھا۔ ٹھنڈی میٹھی کھوئے والی قلفی!اس نے مسجد کے دائیں جانب
کھڑے بڑے سے شادی ہال کے سامنے رُکتی گاڑیاں دیکھ کر مہمانوں کی آمد پر صدا
کرتا ان کی جانب لپکا۔
مگر ڈھول کے شور اور بھنگڑے ڈالتے نوجوانوں کے غل و غوغا میں اس کی صدا دب
گئی۔ مہمان شادی ہال میں چلے گئے۔ اس کا دل بجھ سا گیا۔ دوسری جانب کے شادی
ہال سے بارات اب واپس جانے کو نکلی۔ وہ تیزی سے سڑک پار کرکے اس طرف لپکا۔
ٹھنڈی، میٹھی کھوئے والی قلفی! سانس پھول جانے سے اس کے الفاظ ٹوٹ ٹوٹ کر
عجب بے بسی لیے ادا ہورہے تھے۔ وہ مہمانوں کا باہر نکلتا دیکھ کر دروازے کی
جانب بے اختیار بڑھنے لگا۔
’’ابے بھکاری کی اولاد، ایک طرف ہوجا۔ کہاں گھس رہا ہے، چل‘‘، پیچھے سے ایک
شخص اس کا بازو پکڑ کر سختی سے اسے فٹ پاتھ کی طرف دھکیلا۔ ٹائی سوٹ پہنے
اس شخص کے ہاتھ میں بڑا سا کیمرہ تھا۔ احسان کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی۔
اس کے لیے صدا لگانا مشکل ہوتا گیا۔ یہ پہلی بار نہ تھا، اکثر ہی وہ اس
رویے کا نشانہ بنتا تھا مگر کبھی کبھار اس کی ہمت جواب دے جاتی تو وہ ایک
طرف بیٹھ کر رونے لگتا۔ وہ سست قدموں سے دل گرفتی سے ایک جانب چل دیا، شادی
ہال سے ایک طرف فٹ پاتھ پر بیٹھ کر وہ آنسو پینے لگا۔ اسے اپنا بستہ،
اسکول، پرانے گھر میں دالان کے پھول، باپ کا شفقت بھرا انداز، سب ماضی کے
مناظر یاد آنے لگے۔
احسان کے والد ایک فیکٹری میں ملازم تھے، معمولی تنخواہ تھی، مگر گھر میں
ضروریات مکمل تھیں۔ زندگی میں چھوٹی چھوٹی خوشیاں دھنک رنگ سی تصویر بناتی
تھیں۔ اب وہ تصویر چار سال میں صدیوں پرانی لگنے لگی تھی، وہ ماضی میں
کھویا فٹ پاتھ پر کولر سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔ ایک ہڑبونگ سی مچ گئی۔ شادی
ہال سے سڑک پر جاتی لمبی چمچماتی گاڑی میں سے کسی امیر زادے نے نوٹوں کی
گڈی کھول کر ہوا میں اُچھال دی، نوٹ ہوا میں تیرتے سڑک پر گاڑیوں کے سیل
رواں میں گرنے لگے۔ بھکاریوں اور دوسرے ارد گرد کھڑے نوجوانوں کا ایک ٹولہ
سڑک کی جانب شور کرتا ایک دوسرے کو کھینچتا نوٹوں پر جھپٹا۔ وہ بے اختیار
کولر کو بازو پر لٹکائے کھڑا ہوا ۔ رفتار سے گزرتی گاڑیوں میں سڑک پر سے
نوٹ اکھٹے کرتے دوسروں کو دیکھ کر اس کا دل مسوس کر رہ گیا۔
’’بیٹا! جو تیرے نصیب کا رزق ہے تجھے ملے گا، کبھی لالچ مت کرنا‘‘، ماں کی
نحیف آواز اس کے لاشعور میں گونجی۔ ’’احسان! کبھی اپنی حفاظت سے غافل مت
ہونا، جان ہے تو جہان ہے۔ بیٹا تم ہمارا واحد سہارا ہو‘‘ سفینہ آپا کی
نصیحت اسے یاد آنے لگی۔ وہ سڑک پر نظریں گاڑے سوچ رہا تھا، اکثر اس کا دل
اور دماغ اس طرح اُلجھ جایا کرتا تھا، مگر جیت ہمیشہ اس کے دماغ سے لپٹی
ذمے داری کی ہوا کرتی تھی۔ آج تو ایک قلفی بھی نہیں بکی، کل دوپہر کے کھانے
کے پیسے کون دے گا۔ اس کے دل میں اِک خیال اُبھرا۔ ماں کا بیمار چہرہ اور
اس کی دواؤں کی پرچی اسے یاد آئی۔
اسی لمحے شادی ہال سے ایک گاڑی نکلی اور اس کے پیچھے چلتے ایک سوٹڈ بوٹڈ
شخص نے نوٹوں کی گڈی گاڑی کی سمت سڑک پر اُچھال دی۔ یک لخت اس کے قدم سڑک
کی جانب لپکے۔ نیچے گرتے ایک نوٹ پر جھپٹتے اس تیز روشنی نظر آئی، ایک زور
دار ضرب نے اسے کولر سمیت دور اُچھال دیا۔ نوٹ اس کی گرفت میں نہ آسکا۔
تاریکی میں ڈوبتی آنکھوں میں سرخی گھلنے لگی۔ سفینہ آپا کا چہرہ اس سرخی
میں آخری جھلک کی طرح اُبھرا اور پھر یک لخت اندھیرا چھاگیا۔ |