تیزآندھی اور مسلسل ایک گھنٹہ بارش کے بعد گردو غبار بیٹھ
چکا تھا بارش میں وقفہ آگیا تھا لیکن آسمان ابھی بھی سر مئی سیاہ بادلوں سے
ڈھکا ہوا تھا ساون بھادوں کی بارشوں کا سلسلہ کچھ دن پہلے سٹارٹ ہو گیا تھا
‘ تیز ہوا اور مو سلا دھار بارش کے بعد اب مو سم بہت خو شگوار اور ٹھنڈا ہو
گیا تھا ‘ ہوا کی خو شگواریت میں اب مدہو شی بھی شامل ہو گئی تھی ‘ پچھلے
ایک گھنٹہ سے ہم لو نگ ڈرائیو کا لطف لے رہے تھے ہم لاہور سے تقریبا ستر
کلو میڑ دور جی ٹی روڈ سے اتر کر اب سرسبز و شاداب لہلاتے کھیتوں کے درمیان
آرام دہ پر سکون کار میں اپنی منزل کی طرف بڑھ رہے تھے تیز بارش کے بعداب
فصلوں اور درختوں میں زندگی رقص کر تی نظر آرہی تھی درختوں فصلوں کی پیاس
بجھ چکی تھی اب وہ تیز ہواؤں کے دوش پر دیوانہ وار رقص کر تے نظر آرہے تھے
ہم نے گاڑی کے اے سی کو بند کیا اور شیشے کھول دئیے اب مٹی پر بارش کے ملاپ
کی خوشبو درختوں فصلوں جڑی بو ٹیوں کی خو شبو ہواکے مست جھونکے ہمارے چہروں
کو مستی سرور بخشنے لگے صاف شفاف تازہ ہوا کو میں لمبے لمبے سانسوں سے اپنے
پھیپھڑوں میں بھرنے لگا ساتھ ساتھ میں جوانی کے ان ایام کو یاد کر نے لگا
جب نوجوانی کا تازہ پر جوش خون رگوں میں دوڑتا تھا بارش میں ہم لوگ ٹیوب
ویل زمینوں پر جا کر خوب بارش میں نہاتے پھر چھت پر کبھی دیو قامت درخت پر
چڑھ کر ہوا کے جھونکوں کو انجوائے کر تے یا پھر شیشم کے درخت کے مضبوط تنے
سے لٹکی پینگ کے جھولے کو جھولتے ‘ تیز ہواؤں کے دوش پر ہوا میں جھولتا کیف
و سرور کا آخری درجہ ہو تا تھا فطرت زمین درخت اورفصلیں شروع سے ہی مجھے
متاثر کرتی تھیں ‘بارش کے بعد تو ان کا حسن اور خوشبو سحر میں مبتلا کر
دیتی ہے میں اپنی سحر انگیز یادوں میں غرق تھا کہ میرے میزبان ستر سالا
چوہدری صاحب نے میرے کندھے پر ہا تھ رکھا اور بولے پروفیسر صاحب یہاں سے
میری زمینیں شروع ہو گئیں ہیں چوہدری صاحب کے متوجہ کر نے پر میں اپنے
جوانی کے دنوں برگد کے دیو قامت درخت پیپل جامن بانس کے درختوں کی ٹھنڈی
چاؤں ٹیوب ویل کا ٹھنڈا ٹھار آبشار کی طرح ابلتا پانی خربوزے تربوز کی دنیا
سے نکل آیا ہمارے چاروں طرف دور تک سر سبز و شاداب فصلیں تھیں فصلو ں کی
شادابی میں زمین کی زرخیزی کاپتہ چل رہا تھا پنجاب کے زرخیز ترین علاقے میں
بارش کے بعد گیلی مٹی کی خوشبو چاروں طرف پھیلی ہو ئی تھی چوہدری صاحب اپنے
والد صاحب کو یاد کر رہے تھے جن کی وجہ سے وہ ان زمینوں کے مالک بنے تھے ‘
ساتھ میں چوہدری صاحب اپنے بیتے دنوں کی یادوں کو بھی تازہ کر رہے تھے کہ
اُن کے والد صاحب کے دو بھائی تھے دادا جان کی بہت بڑی جاگیرکے دونوں بھائی
مالک تھے میں والد صاحب کا اکلوتا بیٹا تھا چچا جان کی اکلوتی بیٹی تھی
زمینیں خاندان میں ہی رہیں اِس لیے دونوں بھائیوں نے آپس میں رشتہ داری
کرلی ‘ میری شادی چچا کی بیٹی سے ہو گئی اِس طرح میں خاندان کی سینکڑوں
ایکڑ زمین کا اکلوتا وارث بن گیا میں جوانی کے نشے میں مست زندگی کو بھر
پور طریقے سے انجوائے کر رہا تھا کہ اچانک میری زندگی میں غم کے سیاہ بادل
چھا گئے میرے والد صاحب کو گردن پر کینسر کا پھوڑا نکل آیا جواُن دنوں لا
علا ج تھا بہت علا ج کروائے لیکن زخم خراب ہو تا گیاانہی دنوں ایک دن ایک
سنیاسی بابا ڈیرے پر آکر رات ٹھہرا تو میں نے اُس بابے کو والد کی بیماری
کا بتا یا تو سنیاسی بابا بو لا پریشان نہ ہوں میں تمہارے والد کاصبح علا ج
کروں گا اگلے دن ہی سنیاسی نے میرے والد صاحب کے زخم پر مرہم لگا نی شروع
کی حیران کن طور پر پندرہ دن کے اندر زخم ٹھیک ہونا شروع ہو گیا ایک ماہ تک
نہ زخم تھا نہ ہی پھوڑا مجھے اپنے باپ سے عشق تھا باپ کو صحت کیا ملی کہ
میں پہلی بار روحانیت بابوں درویشوں فقیروں کا قائل ہوا پھر اس سنیاسی بابے
کوہم نے مستقل اپنے پاس رکھ لیا وہ کبھی کبھا ر جاتا لیکن چند مہینوں کے
بعد پھر ہمارے پاس آجاتا باباہمارا مسیحا تھا اب میں اُس کے ساتھ رہنے لگا
چند سال ہمارے پاس رہنے کے بعد بابا گیا پھر واپس نہیں آیا چند سال گزرنے
کے بعد کسی نے آکر بتا یا کہ بابا اب اِس جہان میں نہیں رہا ‘ بابا چلا گیا
پھر میرا والد اور چچا بھی مجھے تنہاچھوڑ گئے لیکن سنیاسی بابا مجھے بابوں
اور فقیروں کا عشق دے گیا اب میں مختلف بابوں فقیروں کے پاس جانا شروع ہو
گیا اب یہ میر ا مشغلہ یاٹھرک ہے کہ میں پاکستان ہندوستان کے تمام درباروں
پر جاچکا ہوں مجھے جہاں بھی پتہ چلتا ہے کسی بزرگ کا میں اُس سے ملنے ضرور
جاتا ہوں مجھے درویشوں فقیروں سے مل کر حقیقی خو شی ملتی ہے اِسی تلاش میں
پروفیسر صاحب میں آپ کے پاس بھی آتا ہوں اب میری زندگی کا آخری دور ہے قبر
میرا انتظار کر رہی ہے میرے تین بیٹے ہیں ایک تو یورپ گیا تو واپس نہیں آیا
یہاں پر اب دو بیٹے ہیں جو امیر زادوں کی خرابیوں برائیوں میں غرق ہیں
دونوں شہر میں رہتے ہیں ٹھیکے کے پیسے اتنے زیادہ ہو تے ہیں کہ دونوں کا
اچھی طرح گزارا ہو رہا ہے انہیں روحانیت بابوں سے بلکل بھی محبت و عقیدت
نہیں ہے وہ اپنے بچوں میں مست ہیں ۔ میرے پاس بہت زمینیں تھیں میں نے
سنیاسی بابا کے کہنے پر زمینوں کے تین حصے کیے تھے ایک رشتہ داروں کے لیے ‘
ایک اپنے خاندان کے لیے ایک غریبوں مسکینوں یتیموں کے لیے ‘ میں ساری عمر
اِس دولت کو تین حصوں میں خرچ کر تا آیا ہوں اب میری زندگی کے آخری دن ہیں
میں اپنے بیٹوں کو جانتا ا ہوں وہ میرے بعد اِن تین حصوں کا خیال نہیں
رکھیں گے میں اپنے باپ دادا کی جاگیر کو نیکی کے کاموں میں خرچ کر کے اُن
کی نیکیوں میں اضافہ کر تا آیا ہوں اب مجھے خطرہ ہے کہ ایسا نہیں ہو گا آپ
کو یہاں لا نے کا مقصد یہ تھا کہ زمین کا ایک ٹکڑا آپ لے لیں زمین پر سکول
ادارہ یتیم خانہ لنگر خانہ کو ئی نیکی کا کام کر یں تا کہ میری اور میرے
آباؤ اجداد کی آخرت کی زندگی آسان ہو‘ چوہدری صاحب امید طلب نظروں سے میری
طرف دیکھ رہے تھے میں نے چوہدری صاحب کا ہا تھ پکڑا اور بو لا چوہدری صاحب
میں گنا ہ گار انسان ہوں ہم کسی نیک ادارے یا انسان کو تلاش کریں گے اِسی
دوران ہم چوہدری صاحب کے ڈیرے آگئے چوہدری صاحب نے بتایا یہاں پر ان کی ایک
بیٹی اور داماد ہیں جو زمینوں کے معاملات میں ان کی مدد کر تے ہیں کار سے
اترتے ہی چوہدری صاحب کے نواسے نواسیوں نے اُن کو گھر لیا داماد اور بیٹی
بھی اُن سے لپٹ گئے تھوڑے آرام کے بعد تندوری پراٹھوں دیسی مرغی بھنڈی گو
شت خالص میٹھی کھیر اور دودھ پتی پینے کے بعد چوہدری صاحب آرام کر نے لیٹ
گئے بڑھاپے کی وجہ سے آرام ضروری تھا چوہدری صاحب آنکھیں موندے لیٹے تھے
اُن کی بیٹی اور بچے چوہدری صاحب کی ٹانگیں دبا رہے تھے تو اُن کے داماد نے
سرگوشیوں میں مجھے بتا یا یہ چوہدری صاحب کی سگی بیٹی نہیں ہے لاوارث یتیم
بچی ہے جس کو چوہدری صاحب نے اپنا نام دیا ایسی نو بیٹیاں اور بھی ہیں
چوہدری صاحب کو جس بھی یتیم بیٹی کا پتہ چلتا اُس کو بیٹی بنا لیتے اُس کی
شادی کر تے جائیداد میں حصہ دیتے لوگ اِن کو حقیقی بیٹیاں سمجھتے ہیں جبکہ
یہ تو چوہدری صاحب کی لے پالک بیٹیاں ہیں جن کو وہ حیقیقی بیٹیوں سے زیادہ
پیار کر تے ہیں میں آگے بڑھا چوہدری صاحب کے پاس بیٹھ کر اُن کا ہاتھ پکڑ
لیا چوہدری صاحب نے میری طرف دیکھا تو میں بو لا چوہدری صاحب ساری زندگی
نام کے چوہدریوں کو دیکھا آج ایک حقیقی چوہدری سے ملا ہوں آپ جیسے لوگوں سے
ہی معاشرے زندہ اور قائم ہیں ۔
|