تیرے نیناں نے کیتا ایسا جادو میرے تے

دور ِجدیدمیں نت نئی ایجادات کی بدولت انسان جہاں ہزاروں ایجادات سے مستفیدہورہا ہے ۔وہیں ان میں سے کئی ایجادات بے جا استعمال کی وجہ سے سہولت کی بجائے مصیبت ،معاشرتی اقدار کے خاتمے کے ساتھ ساتھ انسان کے لئے بے پناہ جانی ومالی نقصان اورتباہی کاموجب بنتی جارہی ہیں۔ان ایجادات میں سے ایک ایجاد موبائل ہے،مگرہم نے اسے سہولت کی بجائے مصیبت اورضرورت کی بجائے مجبوری بنا لیاہے۔حالانکہ موبائل ایسی سہولت ہے کہ ضرورت کی حدتک استعمال کیا جائے۔مگرکیا کریں کہ موبائل کمپنیوں نے بھی دن میں کاروبار اورکام کے وقت کال کے نرخ مہنگے اوررات کے وقت فری پیکج دے رکھے ہیں۔جس کے منفی اثرات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں، برائی اوربے حیائی کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔معاشرے کی حالت اوراخلاقی گرواٹ ہمارے سامنے ہے۔معاشرے میں تہذیب سے زندہ رہنے کے ڈھنگ سے ہم اس قدر نا آشنا ہوچکے ہیں کہ ساری اقدار پس پشت ڈال دی گئی ہیں۔شرم وحیاء توبالکل ناپیدہوکررہ گئی ہے۔

انسان کے اندرپوشیدہ ایک ایسا وصف جواُسے برے کاموں سے روکے اوربھلائی کی رغبت پیداکرے حیاکہلاتاہے،یعنی اﷲ تعالیٰ کے انسان پرانعامات واحسانات اورانسان کے اندراپنی خامیوں ، کوتاہیوں کو دیکھ کرشرمساری کی جوکیفیت پیدا ہوتی ہے حیاء کہلاتی ہے۔ حضورنبی کریم ﷺ کے ارشادِمبارک کامفہوم ہے :ـ" جب تم میں حیانہ رہے توپھرجوچاہوکرو(صحیح بخاری(6120 ـ" یعنی یہ صفت ہر برائی کے سامنے ایک باطنی رکاوٹ تھی،جب یہ بھی نہ رہی توبرائیوں کے آگے اب کوئی رکاوٹ باقی نہ رہی۔پس جوچاہوکرو۔

کالجوں کے طلباء تعلیم حاصل کرنے کی بجائے درس گاہوں میں سارادن موبائل پرگیمز کھیلنے میں اپنا وقت بربادکردیتے ہیں۔ہرشخص موبائل پرمصروف ہے،پہلے تویہ ہوتا تھا کہ دوست احباب ایک دوسرسے سے ملتے توآپس میں بیٹھ کرباتیں کرتے جبکہ آج کل اگردوچار دوست اکٹھے ہوبھی جائیں تواپنے اپنے موبائل پرگیمزکھیلنے اورمیسجنگ میں مصروف نظرآئیں گے۔کم وبیش یہی حال ایک ہی گھرکی چھت کے نیچے بسنے والے خاندانوں کاہوچکاہے کہ آپس میں دُکھ سکھ اورپریشانی شیئرکرنے کی بجائے موبائل پرلطیفے اورویلنٹاین ڈے کی مبارک اوردیگرپیغامات کاتبادلہ ہورہا ہوتا ہے اوربوڑھے والدین انتظارمیں ہی رہتے ہیں کہ ان میں سے کوئی فارغ ہوتوہم بھی کسی سے بات کریں۔

موبائل کاسب سے خطرناک استعمال ڈرائیورحضرات کرتے ہیں جوکئی بے قصورومعصوم جانوں کے ضیاع کا سبب بنتا ہے۔یہ لوگ چاہے اپنی ذاتی گاڑی چلارہے ہوں یامسافروں سے بھری بس،یہ سارے سفر کے دوران ایک ہاتھ سے گاڑی چلاتے ہیں اور دوسرے ہاتھ میں موبائل پرکسی سے بات یا پیغام لکھ رہے ہوتے ہیں۔اس دوران مکمل توجہ نہ ہونے کی وجہ سے آئے روزحادثات پیش آرہے ہیں جن کے باعث قیمتی جانیں ضائع ہورہی ہیں۔یہاں تک کہ کئی من چلے موٹرچلاتے ہوئے ایک ہاتھ سے میسج ٹائپ کرتے اور گردن لُڑکائے فون پربات کرتے دکھائی دیں گے۔ حالانکہ حکومت کی جانب سے عوام کی حفاظت اورجانی ومالی نقصان سے بچاؤکے لئے موٹرسائیکل اورہرقسم کی گاڑی چلانے کے دوران موبائل کے استعمال پر سخت پابندی عائدکی گئی ہیں۔جس کی خلاف ورزی پرجرمانہ اورسزامقررکی گئی ہے۔مگرہمیں نہ توکسی پابندی و قانون کی پرواہ ہے اورنہ ہی انسانی جانوں کے ضیاع کی فکرہے۔

خداکی پناہ اب تومسجدتک فتنہ موبائل سے محفوظ نہیں۔آج سے پہلے جب تک موبائل کی بیماری نہیں پھیلی تھی، اُس وقت بھی سڑک کے کنارے واقع مسجد کے ساتھ ایک بورڈ لگا ہوتا ،جس پرــ ـ"ہارن نہ بجائیں ـ" لکھا ہوتاتھا۔ تاکہ دوران نمازخلل نہ ہو۔اب اگرچہ ہرمسجدمیں داخل ہوتے ساتھ ہی وضوکی جگہ اورمسجدکے صحن میں ہرجگہ مختلف سٹکراورتحریرلکھی ہوتی ہے کہ اپنا موبائل بندکردیں۔مگرپھر بھی ہمیں کسی چیزکالحاظ اور پاس نہیں۔جامع مسجد چوک سیٹلائٹ ٹاوٗن سرگودہا ،جس سے ملحقہ مدرسہ میں سینکڑوں کی تعداد میں طلباء حفظ اور دینی تعلیم حاصل کررہے ہیں،ہرنمازمیں شریک ہوتے ہیں،اس کے علاوہ بھی اس مسجد میں نمازیوں کی تعداد عام مسجدوں سے زیادہ ہوتی ہے۔نمازیوں کی بہت زیادہ تعداد کی وجہ سے یہاں اندرون ِ مسجد لگے سپیکرپرجماعت کروائی جاتی ہے تاکہ تمام نمازیوں تک امام صاحب کی آواز پہنچ سکے۔نمازِعصرکی جماعت کے لئے تکبیر کہی گئی۔ نماز شروع ہوئے کچھ ہی دیر کے بعد ایک مقتدی کے موبائل پرآواز گونجی" تیرے نیناں نے کیتا ایسا جادومیرے تے۔وے سوہنے نیناں والیا میں رہ گئی تیرے تے"۔شاید کوئی موبائل سیٹ کے برانڈ کا کمال تھا یا پھرمسجدکے حال میں مکمل سکوت کی وجہ سے آواز زیادہ گونجدار تھی اوراتفاق سے یہ مقتدی امام صاحب کے قریب ہی کھڑے تھے ،جس وجہ سے آواز سپیکر تک پہنچی اور مسجد کے حال میں گانے کی آواز گونجنے لگی۔یقینا تمام نمازی خفت کا شکار تھے ۔نہ تو ان صاحب نے آنے والی کال بند کی اور نہ ہی کال کرنے والے صاحب نے کچھ احساس کیا کہ اگرکال اٹینڈ نہیں ہورہی توتھوڑے وقفہ کے بعددوبارہ کوشش کرے ۔لیکن ایک بار رنگ ختم ہوتی تو فوراََ ہی دوبارہ بل کی آواز آنا شروع ہوجاتی ۔یہاں تک کہ چار رکعت نماز یعنی قیام،رکوع وسجوداورتمام ارکان کے دوران مسلسل اوربلاتعطل" تیرے نیناں نے کیتا ایسا جادومیرے تے۔وے سوہنے نیناں والیا میں رہ گئی تیرے تے" کی صدا گونجتی رہی ۔مجھ جیسا دُنیادار توعام طورپرویسے ہی نماز کے دوران،جس رب کے لئے نمازادا کی جارہی ہے کی طرف کم ہی متوجہ ہوتا ہے،بلکہ دھیان نہ معلوم کہاں سے کہاں چلا جاتا ہے۔

اﷲ کے خاص اور مقرب بندوں کی توبات ہی اور ہے ۔حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کے بارے میں آتا ہے کہ ایک بار اُنہیں تیرلگا جونکالنے سے نکل نہیں رہا تھا۔فرمایا ٹہرو میں نماز کی نیت کرتا ہوں اس دوران آپ تیر نکال لینا۔چناچہ ایسے ہی کیا گیا اور با آسانی تیر آپ ؓ کے جسم مبارک سے نکال لیا گیا، گویا آپ کو پتہ ہی نہ چلا۔یہ تواُن حضرات کا خشوع و خضوع تھا کہ جب نماز کی نیت کرتے توپھر اﷲ کے سامنے ایسے حاضری دیتے کہ دُنیا سے بے خبرہوجاتے۔ اسی لئے نمازکومومن کی معراج کہا گیا کہ نماز کے دوران بندہ اپنے رب سے ہمکلام ہوتا ہے۔اسی لئے اس عظیم فریضہ کی ادائیگی کے لئے اہتمام کی ترغیب دی گئی ہے۔ اہتمام کامطلب ہے کے اذان کے ساتھ ہی تمام کاروبار زندگی چھوڑکراورباوضومسجدمیں پہنچ جانا،جماعت سے قبل نوافل اورذکرواذکارمیں مشغول ہونا کہ دھیان دُنیاداری سے ہٹ کراﷲ عزوجل کے حضورپیش ہونے کی طرف مبذول ہو،تاکہ ہماری یہ نماز اﷲ کی رضاکے حصول کا ذریعہ ء بنے۔مگرہم نے نمازجیسے اہم فریضہ کوبھی عبادت کی بجائے عادت بنا لیا ہے۔

رنگ ٹون کامقصد اطلاع ہے کہ کوئی آپ سے بات کرنے کامتمنی ہے۔اس مقصدکے لئے ہرموبائل سیٹ کے اندربیشمار ٹونزموجودہوتی ہیں۔جن میں سے کوئی مناسب اورشائستہ ٹون منتخب کی جاسکتی ہے۔جس سے متوقع کال کے متعلق آگاہی مل جائے۔بات ختم،مگر یہاں توگانوں پرمشتمل رنگ ٹونزکی خریدوفروخت باقاعدہ ایک کاروباربن چکی ہے اوربڑے فخرسے بیہودہ قسم کے گانوں پرمشتمل ٹونزآپس میں شیئرکی جاتی ہیں اورانہیں قابل ِفخرسمجھا جاتاہے۔اس پر تضاد یہ کہ صرف اورصرف ایسے گانوں پرمشتمل ٹونزکی وجہ سے جس موبائل سیٹ کے سپیکرکی آوازسب سے گونجدار ہو،وہ مارکیٹ میں اُتنی زیادہ مقبولیت حاصل کرتاہے۔ہم مسجدمیں نماز کے لئے جاتے ہوئے موبائل اپنے کام کی جگہ یاگھرچھوڑکرنہیں جاسکتے توکم ازکم شائستہ اورمہذہب رنگ ٹونزکاانتخاب کرلیں کہ اگرنمازسے قبل موبائل بندکرنایاسائیلنٹ کرنا بھول جائیں توکم سے کم بیہودہ گانے کی آوازتومسجدمیں نہ گونجے، آخرمسجدکاتقدس بھی توضروری ہے۔ویسے علمائے کرام کی اکثریت اس بات پرمتفق ہے، کہ نمازکے دوران بھی موبائل بندکیا جاسکتاہے۔

گھروں میں والدین بچوں کوسہولت اورضرورت کے تحت فون لے کردیتے وقت انہیں اس کے مثبت استعمال کی ترغیب دیں،سکول وکالجزاورمساجد کے علمائے کرام بھی اس حوالے سے اپناکرداراداکریں، حکومت اورتمام حکومتی ادارے عوام میں آگاہی مہم چلائیں اورمیڈیا جس کاعوام کے رجحانات تبدیل کرنے میں سب سے اہم کردار ہے،کوچاہیے کہ موبائل کے استعمال سے متعلق پروگرام ترتیب دے اور اس کے بے جا استعمال کی وجہ سے معاشرے میں پیداہونے والے برے اثرات اورنقصانات سے عوام کوآگاہ کرے۔تاکہ معاشرے میں اس کے بے دریغ اوربے جااستعمال سے پیدا ہونے والی برائیوں اور نقصانات کاخاتمہ ممکن ہوسکے۔

MUHAMMAD AKRAM AWAN
About the Author: MUHAMMAD AKRAM AWAN Read More Articles by MUHAMMAD AKRAM AWAN: 99 Articles with 92393 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.