دیکھنے میں توپاکستانی ٹیم مضبوط دکھائی دیتی ہے لیکن
ورلڈکپ کے پہلے تین میچوں میں جس طرح صابن کے جھاگ کی طرح بیٹھی ‘اس کی
جتنی مذمت کیجائے کم ہے۔ ورلڈ کپ کا سب کم سکور کا ریکارڈہمارے ماتھے
پرسجابلکہ افغانستان جیسی تھرڈ کلاس ٹیم نے ہمیں جس طرح تگنی کا ناچ نچایا
اس سے رہی سہی کسر بھی نکل چکی ۔ بھارت کے ساتھ میچ میں بھی ہمارے
بیٹسمینوں نے آوٹ ہونے کے لیے جتنی جلدی دکھائی‘ اسے دیکھ کر ہر پاکستانی
کی آنکھوں کے ساتھ ساتھ دل بھی رو ر ہا تھا ۔ شعیب ملک اور محمد حفیظ دونوں
آنکھ مچولی کھیلنے کے لیے میدان میں اترتے اور جلد آؤٹ ہوکر پویلین لوٹ
جاتے ۔ فخر زمان بھی اپنا اعتماد کھو چکا ہے اس کے جلد آؤٹ ہوتے ہی ٹیم
دباؤ میں آجاتی ہے ۔ اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہو گا کہ حارث سہیل اور بابر
اعظم کے علاوہ کوئی کھلاڑی جسمانی طور پرمضبوط نظر نہیں آتا۔ انگلینڈ کے
دونوں اوپنر جیسن رائے اور جونی بریسٹو کو میں دنیا کے بہترین بلے باز قرار
دیتا ہوں جو جسمانی طور پر اس قدر مضبوط ہیں کہ ان کی شارٹ کو روکنا مشکل
اورکیچ کرنا بھی محال ہوجاتاہے۔ وہ ہر بال کو اتنی طاقت سے ہٹ مارتے ہیں کہ
گیند باؤنڈری سے باہر جاگرتی ہے ۔ انڈیا اور انگلینڈ کے میچ میں ان دونوں
کی شراکت 162رہی ۔ پہلے سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ ٹیم کے ہاتھوں بھارتی
ٹیم کی جو درگت بنی اسے دیکھ کر سینے میں ٹھنڈ سی پڑ گئی ہے ۔ بہرکیف تھکے
ماندے اور ہارے ہوئے کھلاڑیوں کی ناکامیوں کو فراموش کرکے ہمیں اگلے ورلڈ
کپ کے لیے ابھی سے مضبوط اور نئی ٹیم کی تشکیل کے لیے تیاری شروع کردینی
چاہیئے ۔تاکہ جیسن رائے ‘ جونی بریسٹو اور روہت شرما جیسے مضبوط جسمانی
ساخت کے جارحانہ بلے بازوں اور بہترین سپین اور فاسٹ باؤلرزکو تلاش
کیاجاسکے ۔ اس مقصد کے لیے کرکٹ بورڈ چاروں صوبوں کے محکمہ ایجوکیشن کے
اشتراک سے ایک نوٹیفیکشن جاری کروائے جس میں تمام سرکاری اور پرائیویٹ
سکولوں اور کالجز میں بالخصوص کرکٹ ٹیموں کی فوری تشکیل کا حکم شامل ہو۔
پہلے سکول اور کالج سطح پر کرکٹ بورڈ کے زیر اہتمام مقابلے کروائے جائیں
پھر ان میں سے جو تکنیک اور جسماعت کے اعتبار سے اچھے بلے باز ‘ فاسٹ
باؤلر‘سپین باولر اور فیلڈر نظر آئیں انہیں لاہور کی کرکٹ اکیڈیمی میں مزید
تربیت اور مہارت کے لیے مدعو کرلیا جائے ۔ سو یا دو تین سو جتنے بھی اچھے
کھلاڑی پورے ملک سے میسر آئیں ان کی ٹیمیں تشکیل دے کر قذافی سٹیڈیم میں
باؤلنگ ‘ بیٹنگ ‘ فیلڈنگ اور ہیڈکوچ کی نگرانی میں تربیتی مراحل سے گزارا
جائے ۔ محدود اوورز کے میچز کے لیے ایک معیار مقرر کرلیا جائے کہ ہر
بیٹسمین ایک اوور میں کم ازکم دس سکور بنائے اور جو بلے بازایسا نہ کرسکے
اسے آؤٹ تصور کیاجائے ۔اسی طرح باؤلر اور فیلڈر کے لیے بھی ایک کسوٹی طے
کرلی جائے ۔ ٹک ٹک کرنے والوں کوتربیتی مراحل سے پہلے ہی فارغ کردیا جائے ۔
ہمیں ایسے مضبوط جسمانی ساخت کے کھلاڑی درکار ہیں جو جیسن رائے اور جونی
بریسٹو کی طرح بال پر ایسے جھپٹیں کہ گیند بلے کو چھوتے ہی باؤنڈی سے باہر
جاگرے ۔کرکٹ کی تکنیک میں انقلابی تبدیلیاں آچکی ہیں اور ہم وہی پرانی ڈگر
پر چل کر میچ جیتنے کی کوشش کرتے ہیں جس کی وجہ سے افغانستان اور ویسٹ
انڈیز جیسی تھرڈ کلاس ٹیمیں بھی ہمارے اعصاب پر سوار ہوجاتی ہیں ۔ٹی وی پر
بیٹھے ہوئے جو ریٹائر کھلاڑی الٹے پلٹے تبصرے کرتے ہیں ان کو دس پندرہ
سکولز کی ٹیمیں تفویض کردی جائیں جہاں وہ براہ راست اور ویڈیو کے ذریعے بھی
کھلاڑیوں کو نئی تکنیک اور جدید مہارت سے آشنا کریں۔کم ازکم ایک سال تک ان
منتخب شدہ کھلاڑیوں کو ملک کے سرد اور گرم علاقوں میں میچز کھلائے جائیں
تاکہ مختلف موسمی حالات سے آشنا ہوسکیں ۔ پھر ان کھلاڑیوں پر مشتمل ایک ٹیم
منتخب کرکے انگلینڈ ‘ آسٹریلیا ‘ نیوزی لینڈمیں میچز کھیلنے کے لیے بھجوایا
جائے تو دوسری ٹیم کو سری لنکا ‘ بھارت ‘ بنگلہ دیش اور دوبئی کے دورے پر
روانہ کیاجائے ۔ان کھلاڑیوں میں سے ایک مضبوط ٹیم تشکیل دے کر اگلے ورلڈ کپ
کے لیے منتخب کرلیا جائے ۔ محمد حفیظ اور شعیب سے اب جان چھڑانے کا وقت
آپہنچا ہے ۔ سرفراز بھی تھک چکا ہے‘ اسے آرام دے کر بابر اعظم یا عماد وسیم
کو کپتان بنالیاجائے۔مزید برآں کنٹریکٹ میں یہ طے کرلیا جائے کہ ہارے ہوئے
میچز کا معاوضہ کھلاڑیوں کو ادا نہ کیاجائے تاکہ وہ دلجمعی سے میچ جیتنے کی
ہر ممکن کوشش کریں۔مزید برآں لاہور ‘ کراچی ‘ حیدرآباد ‘ فیصل آباد ‘کوئٹہ
‘ چمن ‘ گوجرانوالہ ‘ملتان ‘ راولپنڈی ‘ پشاور ‘ بہاولپور جہاں جہاں بھی
کرکٹ سٹیڈیم موجود ہیں ان کو بین الاقوامی کرکٹ کے لیے تیارکرنے کے ساتھ
ساتھ وہاں چھ ایسی وکٹیں تیار کروائی جائیں جن میں سے دو فاسٹ باؤلر کو
سپورٹ کریں ‘ دو وکٹیں بیٹنگ سپورٹ والی ہوں جبکہ دو وکٹیں سپین باؤلنگ کے
سازگار ہوں۔ ڈیڈ وکٹوں کا رواج اب ختم ہوچکا ہے ۔ملک بھر سے منتخب کھلاڑیوں
کی تشکیل کردہ ٹیمیوں کو ان سٹیڈیم میں ضلعی ٹورنامنٹ کی شکل میں میچز
کھلوائے جائیں جن کی پروجیکشن کے لیے پی ٹی وی سپورٹس سے معاہدہ کیا جائے ۔
اس میں شک نہیں کہ کرکٹ ایک جنون اور جنگ کی شکل اختیار کرچکاہے میدان کرکٹ
میں کھلاڑی کی ہر ہر حرکت کو پوری قوم دیکھ کر ردعمل کا اظہار کرتی ہے جب
کوئی کھلاڑی اپنی حماقت کی وجہ سے جلد آؤٹ ہوکر پویلین جاتاہے تو اس کے
بارے میں عوام کا ردعمل انتہائی تکلیف دہ ہوتاہے ۔بظاہر تو کرکٹ میچ گیارہ
کھلاڑی کھیلتے ہیں لیکن پوری قوم کے دل کی دھڑکنیں تیزہوجاتی ہیں اتنا زور
شاید کھلاڑیوں کا نہیں لگتا جتنا میچ دیکھنے والوں کا لگتاہے ۔میں آپ کو یہ
بھی بتاتا چلوں کہ میں پاکستانی ٹیم کا لائیو میچ دیکھنے سے اس لیے اجتناب
کرتا ہوں کہ میرا بلڈپریشر ہائی ہوجاتاہے اور طبیعت سخت ناساز ہوجاتی ہے ۔
|