ویڈیو سکینڈل: جج ارشد ملک نے اپنے حلفیہ بیان میں کیا کہا؟

پاکستان مسلم لیگ کی نائب صدر اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے چند روز قبل ایک پریس کانفرنس میں ایک ویڈیو جاری کی جس میں مبینہ طور پر احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کو دکھایا گیا تھا۔
 

image


ارشد ملک وہی جج ہیں جنھوں نے گذشتہ سال نواز شریف کے خلاف ہل میٹل اور فلیگشپ ریفرنسز میں فیصلہ سنایا تھا۔

مریم نواز نے اپنے الزامات میں کہا کہ پاناما مقدمے میں نواز شریف کو جیل بھیجنے والے جج ارشد ملک پر 'نامعلوم افراد' کی طرف سے دباؤ تھا۔

اس کے جواب میں پہلے ارشد ملک نے پہلے ایک پریس ریلیز جاری کی جس میں انھوں نے مریم نواز کی جانب سے لگائے گئے الزامات کی تردید کی اور اس کے بعد انھوں نے چار صفحات پر مبنی ایک حلفیہ بیان پیش کیا۔

بی بی سی نے انگریزی میں لکھے گئے اس بیان کا ترجمہ یہاں شائع کیا ہے۔

میں، محمد ارشد ملک، بالغ مسلمان، حلفیہ اقرار کرتا ہوں کہ:

نمبر1:

فروری سنہ 2018 میں میری احتساب عدالت نمبر 2 کے جج کی حیثیت سے تعیناتی کے کچھ ہی عرصہ بعد میرے دو جاننے والوں ، مہر جیلانی اور ناصر جنجوعہ، نے مجھ سے رابطہ کیا جس کے بعد ہماری ملاقات ہوئی۔

اس ملاقات کے دوران ناصر جنجوعہ نے دعویٰ کیا کہ میری احتساب عدالت نمبر 2 میں بطور جج تعیناتی ناصر جنجوعہ کی اس وقت کی حکومتی جماعت، مسلم لیگ نواز کی ایک سرکردہ شخصیت کو ذاتی سفارش کی بنیاد پر کی گئی۔ اپنے اس دعویٰ کی تائید میں نے ناصر جنجوعہ نے اپنے ساتھ آئے ہوئے ایک فرد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ 'کیا میں نے چند ہفتے پہلے ہی نہیں بتا دیا تھا کہ محمد ارشد ملک کو احتساب عدالت کا جج تعینات کیا جائے گا۔'

بہرحال، میں نے اُس وقت ناصر جنجوعہ کی اس بات کو زیادہ اہمیت نہیں دی، لیکن میں نے انھیں اتنا ضرور کہا کہ میرا نام تجویز کرنے سے پہلے آپ کو مجھ سے پوچھ لینا چاہیے تھا اور یہ کہ اس عہدے میں میری کوئی زیادہ دلچسی نہیں اور میں اصل میں سیشن جج بننا چاہتا تھا۔
 

image


نمبر 2:

فلیگ شِپ اور ہِل میٹل کے ریفرنسز کو میری عدالت (احتساب عدالت نمبر2) میں اگست سنہ 2018 میں منتقل کیا گیا اور جب ان دونوں ریفرنسز کی سماعت جاری تھی تو نواز شریف کے رفقاء اور ان کے حامیوں نے کئی مرتبہ مجھ سے رابطہ کیا اور مطالبات، لالچ اور دھمکیوں کے ذریعے مذکورہ دو ریفرنسز میں میاں نواز شریف اور دیگر ملزمان کو بری کرنے کو کہا گیا۔

ایک تقریب میں میری ملاقات ناصر جنجوعہ اور مہر جیلانی سے ہوئی تو ناصر جنجوعہ مجھے ایک طرف لے گئے اور میری منت سماجت کرنے لگے کہ میں دونوں ریفرنسز میں ملزمان کو بری کر دوں۔ انھوں نے مجھے یہ بھی بتایا کہ یہ نواز شریف ہی تھے جن کو میرا نام انھوں (ناصر جنجوعہ) نے تجویز کیا تھا۔ ناصر جنجوعہ نے کہا کہ موجودہ حالات میں اگر میاں نواز شریف کے حق میں فیصلہ نہیں آتا تو یہ بات میری لیے ذاتی طور پر بہت نقصان دہ ہو سکتی ہے۔ اس پر میں نے انھیں کہا کہ 'اللہ بہتر کرے گا، انصاف اللہ کا منصب ہے اور اللہ نا انصافی نہیں کرتا۔'

جب دونوں مذکورہ ریفرنسز کی سماعت جرح کے مرحلے میں تھی، ناصر جنجوعہ اور مہر جیلانی نے ایک مرتبہ پھر مجھ سے رابطہ کیا۔ اس مرتبہ ناصر جنجوعہ میاں نواز شریف کا نام لے کر مالی پیشکش کے ساتھ آئے۔ مجھے بتایا گیا کہ اگر دونوں ریفرنسز میں میاں صاحب کو بری کر دیا جاتا ہے تو مجھے منہ مانگی قیمت دی جائے گی۔ انھوں نے مجھ سے کہا کہ میں دنیا کے جس ملک میں چاہوں وہاں رقم پہنچائی جا سکتی ہے۔
 

image


جب میں نے جواب میں یہ کہا کہ میں نے اپنی زندگی کے 56 سال سکون سے ایک چھ مرلے کے مکان میں گزار دیے ہیں اور میں ریفرنسز کا فیصلہ میرٹ کی بنیاد پر کروں گا اور مجھے کچھ نہیں چاہیے۔ تو ناصر جنجوعہ نے کہا کہ مجھے یوروز میں دس کروڑ روپے کے برابر کی رقم فوری طور پر دی جا سکتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ان کی کار باہر کھڑی ہے اور اِس وقت بھی اس میں دو کروڑ روپے کے برابر کیش یورو کی شکل میں پڑا ہوا ہے جو مجھے فوراً دیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے مجھے مزید لالچ دینے کے لیے یہ بھی کہا کہ آپ سرکاری ملازم ہیں، آپ کی مالی مشکلات بہت زیادہ ہیں اور اپنے مستقبل کو محفوظ کرنے کایہ ایک سنہری موقع ہے۔ تاہم میں نے رشوت کی یہ پیشکش مسترد کر دی اور اس بات پر قائم رہا کہ میں مقدموں کا فیصلہ میرٹ پر کروں گا۔

جب میں نے رشوت کی یہ پیشکش مسترد کر دی تو ناصر بٹ نے مجھے ڈھکے چھپے انداز میں دھمکیاں دینا شروع کردیں، جس کا ذکر میں نے اپنی سات جولائی کی پریس ریلیز میں بھی کیا تھا۔

یہ دھمکیاں مجھ تک ناصر بٹ کے ذریعے پہنچیں جس میں انھوں نے دھمکی آمیز انداز میں کہا کہ ان پر نواز شریف کے بہت احسانات ہیں کیونکہ نواز شریف نے اپنا بے پناہ سیاسی اثر رسوخ استعمال کرتے ہوئے انھیں قتل کے چار پانچ مقدموں میں سزا سے بچایا تھا۔ ناصر بٹ نے کہا کہ وہ نواز شریف کو مقدمات سے بچانے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔

نمبر 3:

مذکورہ بالا مطالبات، لالچ کی ترغیب اور دھمکیوں کے باجود، میرا ذہن صاف تھا کہ ریفسنرسز کا فیصلہ میرٹ اور ثبوت کی بنیاد پر کروں گا اور پھر میں نے9 دسمبر 2018 کے آخری ہفتے میں ریفرنسز پر فیصلہ دے دیا جس میں ہِل میٹل کیس میں نواز شریف کو بری کیا گیا جبکہ فلیگ شِپ ریفرنس میں انھیں سزا سنائی گئی۔ اس کے بعد یہ معاملہ کچھ عرصے کے لیے ٹھنڈا پڑ گیا، تاہم اب دھمکیوں اور رشوت کی پیشکش کی جگہ بلیک میلنگ نے لے لی۔

نمبر 4:

یہ فروری 2019 کے وسط کی بات ہے کہ میں خرم یوسف اور ناصر بٹ سے ملا۔ بات چیت کے دوران، ناصر بٹ نے مجھ سے پوچھا کہ کیا ناصر جنجوعہ نے مجھے ملتان کی ویڈیو دکھائی تھی۔ میں فوراً اس کا تعلق اس بیان سے نہیں جوڑ سکا اور میں نے کہا کہ مجھ سمجھ نہیں آ رہا کہ تم کیا بات کر رہے ہو۔ناصر بٹ نے پھر سازشی انداز میں کہا کہ آپ کو کچھ دنوں میں ایک وڈیو دکھائی جائے گی۔

اس ملاقات کے تھوڑے عرصے بعد میاں طارق اپنے بیٹے کے ساتھ مجھ سے ملنے آیا جو میرے اس وقت سے پرانے جاننے والے ہیں جب میں ملتان میں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز جج کے طور پر سنہ 2000 سے 2003 تک کام کر رہا تھا۔ میاں طارق نے مجھ ایک خفیہ طور پر توڑ مروڑ کر ریکارڈ کی گئی غیر اخلاقی نامناسب حالت میں ویڈیو دکھائی اور کہا یہ آپ کر رہے ہیں جب آپ ملتان میں تھے۔
 

image


میرے لیے یہ ایک شدید دھچکا تھا۔ جب مجھے یہ ویڈیو دکھائی گئی اس کے بعد ناصر جنجوعہ اور ناصر بٹ نے مجھ پر دباؤ ڈالنا اور بلیک میل کرنا شروع کر دیا کہ میں نواز شریف کی مدد کرنے کے لیے کچھ کروں۔ ناصر جنجوعہ نے مجھے مشورہ دیا کہ ہل میٹل انجینئرنگ میں کیونکہ فیصلہ سنایا جا چکا ہے لہذا میں نواز شریف کو خوش کرنے کے لیے میں ایک ویڈیو پیغام ریکارڈ کروں جس میں میں یہ کہوں کہ میں نے ہل میٹل انجینئرنگ میں انھیں اس لیے سزا دی کیونکہ مجھ پر بااثر حلقوں کی طرف سے شدید دباؤ تھا، باوجود اس کے کہ ان کے خلاف کوئی ثبوت موجود نہیں تھا۔ناصر جنجوعہ نے مجھ مزید یہ یقین دلایا کہ یہ آڈیو پیغام صرف نواز شریف کو ہی سنایا جائے گا اور وہ اس بات کو ذاتی طور پر یقینی بنائیں گے کہ نواز شریف کو سنانے کے بعد یہ ویڈیو پیغام تلف کر دیا جائے۔

میرے مسلسل انکار کے باوجود انھوں نے مجھے یہ بات دہرانے کو کہا۔ ناصر بٹ پھر مجھ سے ملا اور مجھے بتایا کہ میرے تعاون نہ کرنے کے باوجود ناصر جنجوعہ نے میری آواز ریکارڈ کر لی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ میاں صاحب نے میرے آڈیو پیغام سن لیا ہے لیکن کیونکہ وہ مطمئن نہیں ہوئے ہیں اس لیے اس نے کہا کہ مجھے اس کے ساتھ جاتی امراء جانا پڑے گا اور ان کے سامنے اپنے بیان کو دھرانا ہو گا۔ اس نے پھر ملتان کی ویڈیو کی دھمکی دی۔ میں ناصر بٹ کے ساتھ جاتی امراء گیا، غالباً چھ اپریل 2019 کو، جہاں نواز شریف نے ذاتی طور پر ہمارا استقبال کیا۔

اس ملاقات میں ناصر بٹ نے بات شروع کرتے ہوئے نواز شریف کے سامنے یہ دعوی کیا کہ میں نے ناصر بٹ کو بتایا ہے کہ انھیں فوج اور عدلیہ کے دباؤ کے تحت سزا سنائی گئی۔ لیکن جب میں نے بات کی تو میں نے بڑے احترام سے نواز شریف کو سمجھانے کی کوشش کی ہل میٹل انجیئرنگ ریفرنس میں سزا بالکل میرٹ پر سنائی گئی اور استغاثہ کی طرف سے جو ثبوت پیش کیے گئے تھے ان کو وکیل صفائی غلط ثابت نہیں کر سکے جبکہ فلیگ شپ ریفرنس میں انھیں اس لیے بری کر دیا گیا کیونکہ اس سطح کے ثبوت پیش نہیں کیے گئے۔

نواز شریف ظاہر ہے میرے جواب سے مطمئن نہیں ہوئے اور یہ ملاقات ختم ہو گئی اور ہم دونوں نواز شریف سے مل کر وہاں سے چلے آئے۔ واپسی کے سفر کے دوران ناصر بٹ واضح طور پر پریشان اور ناخوش نظر آ رہا تھا۔ اس نے بڑے غصے سے مجھ سے کہا کہ میں اپنی زبان پر پورا نہیں اترا۔

اس نے کہا اس ملاقات کا ازالہ کرنے کے لیے وہ ہل میٹل اسٹیل ریفرنس میں فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے میں میری مدد چاہتا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ وکیلوں کی ایک ٹیم نے پہلے ہی اپیل کا مسودہ تیار کر لیا ہے اور وہ چاہتا تھا کہ میں اس کو دیکھ لوں اور اس بارے میں اپنا مشورہ دوں تاکہ نواز شریف کے سامنے اس کی پوزیشن بحال ہو سکے۔ جس بلیک میل کا مجھے نشانہ بنایا جا رہا تھا اس کے پس منظر میں میں اس پر تیار ہو گیا۔ جاتی امراء سے واپس آنے کے چند دن بعد ناصر بٹ دوبارہ مجھ سے ملا اور مجھے اپیل کا مسودہ دکھایا جو میں نے ناچاہتے ہوئے بھی دیکھا اور کچھ مشورے دیے۔

مریم نواز کی چھ جولائی 2019 کی پریس کانفرنس دیکھنے کے بعد مجھے یہ بات سمجھ میں آئی کہ جس ملاقات میں میں نے اپیل کے مسودے پر بات کی تھی اس کو خفیہ طور پر ریکارڈ کیا گیا اور اس ملاقات کی تحریف شدہ گفتگو کی آڈیو اور ویڈیو کو پریس کانفرنس میں سنوایا گیا۔
 

image


نمبر 5:

کیونکہ اٹھائیس مئی 2019 کو میں اپنی فیملی کے ساتھ عمرا ادا کرنے گیا تھا۔ عشا کی نماز کے بعد یکم جون 2019 کو ناصر بٹ مجھے مسجدِ نبوی کے باہر ملا اور کہا کہ حسین نواز شریف سے ملنے کے لیے اس کے ساتھ چلوں۔ جب میں نے انکار کیا تو پھر مجھے دھمکی دی گئی کہ وہ پاکستان میں میرے لیے پریشانی اور مسائل فون کا صرف ایک بٹن دبا کر پیدا کر سکتا ہے۔

حسین نواز کا لب و لہجہ جارحانہ اور دھونس والا تھا۔ اس نے مجھے پچاس کروڑ روپے رشوت اور اس کے ساتھ ہی میری پوری فیملی کو کینیڈا، برطانیہ یا میرے پسند کہ کسی اور ملک میں میرے بچوں کی نوکریوں یا منافع بخش بزنس کے ساتھ منتقل کرنے کی پیش کش کی۔

اس کے عوض مجھے اپنے عہدے سے یہ کہہ کر استعفیٰ دینا ہو گا کہ دباؤ کے تحت ناکافی ثبوتوں کی بنیاد پر نواز شریف کو سزا سنانے کے احساس ندامت کو اب میں اور برداشت نہیں کر سکتا۔

انھوں نے کہا کہ استعفیٰ دینے کے بعد وہ ہر چیز کا خیال کریں گے اور یہ کہ صرف وہی مجھے بچا سکتے ہیں۔ اس طرح انھوں نے پھر بلیک میلنگ کی۔ انھوں نے فوری جواب کے لیے دباؤ ڈالا۔ میں نے حسین نواز کی پیشکش مسترد کر دی۔

میں آٹھ جون 2019 کو واپس پاکستان آ گیا اور ناصر بٹ نے مجھ کئی مرتبہ فون کیا کہ مدینہ منورہ میں حسین نواز شریف کی طرف کی گئی پیشکش پر غور کروں اور اس کے ساتھ ہی مجھ دھمکیاں بھی دی جاتی رہیں۔ ناصر بٹ نے خرم یوسف کے توسط سے پھر مجھ سے رابطہ کیا لیکن دونوں کے لیے میرا جواب نہ ہی میں تھا۔

اس کے بعد میں نے ناصر بٹ کے فون سننے بند کر دیے۔ ظاہر ہے جواباً اس بات کا احساس ہونے کے بعد کہ میں یہ ناجائز مطالبات پورے نہیں کروں گا چھ جولائی 2019 کی پریس کانفرنس کی گئی جس میں جھوٹے اور بدنیتی پر مبنی الزامات میرے خلاف لگائے گئے اور کئی جھوٹے بیانات مجھ سے منسوب کیے گئے جن کا ذکر میں نے چھ جولائی 2019 کو اپنے پریس ریلیز میں کیا جو میں اختتام ہفتے کو جاری کرنے پر مجبور ہو گیا تھا کیونکہ ذرائع ابلاغ پر جھوٹی اور بدنیتی پر مبنی چھ جولائی 2019 کی پریس کانفرنس کو بار بار چلایا جا رہا تھا۔

نمبر 6:

میں ایک مرتبہ پھر اپنے اس بیان کو دہرانا چاہوں گا کہ ہل میٹل اور فلیگ شِپ کے ریفرنسز میں جو فیصلے سنائے گئے توہ کسی دباؤ کے بغیر صرف میرٹ اور دستیاب ثبوتوں کی بنیاد پردیے گئے ہیں، اس اللہ کے احکامات کی روشنی میں جو انصاف کرنے والا ہے، سب کا حامی و ناصر اور سب کو معاف کرنے والا ہے۔


Partner Content: BBC

YOU MAY ALSO LIKE: