بچپن سے کانوں میں گونجنے والا ایک جملہ جیسی کرنی ویسی
بھرنی سُنتے آرہے ہیں….مگر یہ بھی حیرت کا مقام ہے کہ کبھی اس جملے میں
پوشیدہ بات کو گہرائ سے سوچنے کی زحمت نہیں کی کیونکہ ہمارے لیے یہ محض ایک
جملہ ہے…….
ہم بھی عجیب لوگ ہیں جو کہتے کُچھ اور کرتے کُچھ ہیں….علم ہر بات کا رکھتے
ہیں کہ کیا سہی ہے کیا غلط ہے.مگر کرتے وہ ہی ہے جو ہمیں اچھا لگتا ہے….جس
دور میں ہم رہ رہے ہیں وہاں اب مکافاتِ عمل کا لوگوں نے تصور چھوڑ دیا ہے
تبھی تو اتنی دیدہ دلیری کہ ساتھ ہر بُرے سے بُرا فعل اتنی آسانی سے کر
جاتے ہیں کہ بس کیا ہی کہنے…..اللہ ہم سب کو معاف فرماۓ مگر مجھے یہی کہنا
پڑ رہا ہے کہ واقعی ہم نے اپنے دلوں سے خوفِ خُدا ختم کردیا ہے…...افسوس صد
افسوس!
اکثر و بیشتر دفعہ ٹی چینلز پر اولڈ ایج ہوم اور دارلاماں جیسے انسانی
فلاحی اداروں کہ بارے میں ' میں نے پروگرامز اور ڈاکیومینٹریز دیکھی ہیں
یقیناً آپ سب نے بھی دیکھی ہوں گی کیونکہ اب یہ سب تو عام سی باتیں ہو گئ
ہیں…..! ایک دن یونہی ایک پروگرام دیکھتے ہوۓ میری آنکھیں نم ہو گئ…...جب
ایک بے حد عمر رسیدہ بوڑھی عورت سے پروگرام ہوسٹر نے سوال کیا کہ اماں کیا
وجہ ہے جو آپ آج یہاں اولڈ ایج ہوم میں موجود ہیں؟ تو اُس بوڑھی عورت نے جس
کی آنکھیں ایک دم لبالب پانیوں سے بڑھ گئ اور اُس نے کپکپاتی آواز میں یہ
کہا کہ میرے چار بیٹے ہیں اور چاروں شادی شُدہ ہیں شوہر وفات پا چُکا ہے
اور بیٹے سارے بال بچوں والے ہیں جائیداد تقسیم کہ بعد سب اپنا اپنا حصہ لے
کر علیحدہ ہو چُکے ہیں اور کسی کہ گھر میں بھی میرے لیے جب جگہ موجود نہیں
رہی تو وہ مجھے یہاں لے آۓ اور اب عید شب رات میں یہاں ایک آدھ گھنٹے کہ
لیے چکر لگا لیتے ہیں…….! واہ کیا احسانِ عظیم ہے…..میری نظریں اُس بوڑھی
عورت کا طواف کر رہی تھیں…….جس کہ ہاتھ اب اور چہرے پر اب جُھڑیاں آچُکی
تھی جس کہ تقریباً دانت اب ٹوٹ چُکے تھے جس کہ بال سفیدی کہ ساتھ اب چند ہی
رہ گۓ تھے اور اُس کہ چہرے اور ہاتھوں کو دیکھتے ہوۓ یوں لگتا تھا جیسے اب
اس پر گوشت نہیں صرف ہڈیاں اور اُبھری ہوئ نسیں ہی باقی رہ گئ ہوں…...میرا
دل ایک دم سے اُچاٹ ہو گیا…...یوں لگا جیسے دل پر کوئ بھاری سلیب سی آپڑی
ہو…….!
جو ماں ان کو دُنیا میں لے کر آئ جس نے چلنا سکھایا کھانا سکھایا راتوں کو
جاگ جاگ کر تمہارے سرہانے بیٹھی تمہارا خیال رکھتی تھی…..جب اُس کہ آرام کا
وقت آیا تو چار بیٹوں میں سے کسی ایک کہ گھر میں بھی اُس ماں کہ لیے کوئ
جگہ نہیں بچی جس نے اپنی زندگی اپنی اُولاد کہ لیے وقف کردی…….! ہم انسان
بہت خود غرض ہے بہت مطلبی بہت خود پسند….جب آپ اپنے ماں باپ کہ نہیں ہو سکے
تو پھر آپ کسی کہ بھی نہیں ہو سکتے…….! لیکن انتظار کیجیے وہ رب سب کُچھ
دیکھ رہا ہے یہ مت سمجھیے کہ آپ کی پکڑ نہیں ہو گی….ہو گی….ضرور ہو
گی…...وہ آپ کو سب کُچھ دے گا اتنا دے گا اتنا دے گا کہ آپ ایک وقت آۓ اُس
رب کو بھی بھول جاؤ گے در حقیقت وہ آزما رہا ہے وہ دے کر آزما رہا ہے لیکن
یہ ذہن نشین کر لے رسی اُسی کہ ہاتھ ہے ڈھیلی ضرور چھوڑ رکھی ہے مگر اختیار
اُسی کہ پاس ہے اور جس دن اُس نے رسی کھینچ لی نہ تو مُنہ کہ بَل ایسے گرے
گے کہ پھر اُٹھ نہ پاۓ گے…...اس لیے جو آج ماں باپ جو یوں اولڈ ایج ہوم یا
شیلٹر ہوم چھوڑ آتے ہیں تو تیار رہے آپ کی اُولاد بھی یہی کُچھ کرنے والی
ہیں کیونکہ انہوں نے جو آپ کو کرتا دیکھا ہے وہ خود بھی یہی کرے گے……اس لیے
جیسا بو رہے ہیں ویسا کاٹنے کہ لیے بھی تیار رہے…..!
آج نہیں تو کل آپ کا کیا گُھوم پھر کر ہی سہی مگر آۓ گا ضرور…..! اس لیے
کسی کہ ساتھ حق تلفی نہ کرے…...کسی یتیم کی آہ نہ لے…...کسی کو کم تر نہ
جانے…حقدار کہ حق پر قابض نہ ہو….کسی سے چھین کر لیا ہوا پیسہ یا خوشی آپ
کو کبھی راس نہیں آۓ گی…..جو پیسہ ناجائز طریقے سے لیا گیا تو پھر وہ نکلے
گا بھی ایسے جس کا آپ تصور بھی نہیں کر سکتے…...اپنی جنت میں خوش رہے اور
دوسروں کی زندگی کو بھی جہنم مت بناۓ…..کیونکہ نارِ جہنم بھی ایک حقیقت ہے
اُس کو ہی یاد کر کہ رُک جاۓ….وہ اللہ جس کو چاہے عزت دے اور جس کو چاہے
عزت دے…..! اگر وہ عروج عطا کر رہا ہے تو ساتھ بندے کو آزما بھی رہا
ہے…...اُس کی مصلحتوں کو ہم انسان نہیں سمجھ سکتے کیونکہ یہ باتیں ہماری
سمجھ سے بالاتر ہیں….!
ازل سے مکافاتِ عمل کا سلسلہ چلا آ رہا ہے…..اس کہ باوجود بھی ہم اتنے ڈھیٹ
بنے ہوۓ ہیں…..کسی کو اتنی ہی تکلیف دے جتنی پھر کل خود بھی سہہ سکے…..اور
یہ بھی یاد رکھ لے کہ جس کہ آپ کا کیا آپ کی اپنی اُولاد یا آپ کہ پیاروں
کو بھی دیکھنا ہڑ سکتا ہے…….کیونکہ پھر جب اُس کی لاٹھی چلتی ہے نہ تو وار
بھی اُس پہلو سے ہوتا ہے جو آپ کہ لیے ریڑھ کی ہڈی کی سی حیثیت رکھتا ہے……
آپ کی بدولت جس انسان کو تکلیف اُٹھانی پڑ گئ اور پھر اُس نے اُس پر صبر کر
لیا تو بس پھر ڈرے اُس وقت سے جب اُس انسان کا صبر آپ کہ لیے وبالِ جان بن
جاۓ گا…...پھر آپ کا سب کُچھ بھبھری ریت کی طرح آپ کی مٹھی سے پھسلتا چلا
جاۓ گا کُچھ بھی باقی نہیں رہے گا آپ تباہی کہ دہانے پر کھڑے ہو کر خود کو
دلدل میں دھنستا محسوس کرے گے تب کوئ سہارا آپ کو بچانے والا نہیں ہو گا……
کسی کہ اعتبار, احساس, بھروسہ اور محبت کہ ساتھ کھیلو کیونکہ مکافاتِ عمل
کا قانون آج بھی وہی ہے اور دُنیا بھی گول ہے….! کسی پر بنا تصدیق کہ جھوٹی
تہمت نہ لگاؤ کیونکہ جس شہادت کی اُنگلی کہ اشارے سے آپ اُس پر الزام تراشی
کر رہے ہیں وہیں سے تین انگلیاں آپ کی طرف بھی اُٹھ رہی ہیں…….کیونکہ اللہ
رب العزت کی ذات انصاف کرنے والی ہے…..وہ عدل و انصاف کی صفت کا مالک
ہے…...بس وقت معین نہیں ہے جلد بدیر ہو سکتی ہے مگر مکافاتِ عمل تو اٹل رہے
گا…..!
|