اخلاقی اقدار (Moralities)

جیساکہ میں اپنے سابقہ کالموں میں تذکرہ کر چکا ہوں کہ مجھے کچھ عرصہ دبئی اور خلیجی ممالک میں رہنے کا موقع ملا۔ اس دوران میرا واسطہ تقریبا دوسو کے قریب مختلف ممالک کے باشندوں سے رہا۔ جہاں میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا وہاں ایک اہم چیز جو مجھے ان سب میں نظر آئی وہ تھی اخلاقی اقدار۔یہ اخلاقی اقدار پاکستانیوں میں ناپید ہو چکی ہیں۔چاہے وہ پاکستانی پاکستان میں ہوں یا بیرون ملک ۔ ان میں اخلاقیات دور دور تک نظر نہیں آتی۔اگرچہ ہم سمجھتے ہیں کہ غیرمسلموں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا لیکن ان کے اندرموجود اخلاقی اقدار اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ اگرچہ ان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا لیکن ان کے اندر انسان اور انسانیت کی قدر ہم سے کہیں ذیادہ ہے۔ وہ اپنا مالی نقصان تو برداشت کر لیں گے لیکن لیکن کسی انسان کے ساتھ ذیادتی نہیں کریں گے۔ملکی قوانین کی پاسداری کریں گے چاہے جتنا بھی نقصان ہو جائے۔ اپنی بات سے پیچھے نہیں ہٹیں گے چاہے جو بھی ہو جائے۔ اپنا وعدہ پورا کریں گے-

میں اپنے مسلمان گھرانوں میں قرآن مجید کو دیکھتا ہوں لیکن اس پر عمل کوئی نہیں کرتا۔ میں نے غیر مسلوں کو اسلام اور قرآن کی تعلیمات پر عمل کرتے دیکھا ہے۔اور ان کو ہم سے ذیادہ قرآنی تعلیمات اور نبی کریم کی احادیث کا علم ہوتا ہے۔ہمارے ہاں انگریزوں کے معاشرے کو مادر پدر آذاد کہا جاتا ہے۔ لیکن ان ضمن میں تمام یورپی لوگ نہیں آتے۔ مجھے بہت سے ایسے گوروں سے ملنے اور ان کے ساتھ کام کرنے کا اتفاق ہوا جو اپنی معاشرتی اقدار کو اولین ترجیع دیتے ہیں۔گورے کا اصل چہرہ بہت مختلف ہے۔ باقی اقوام عالم کو بہتر کہنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ وہ ہم سے ایک بہتر انسان ہیں۔وہ اگرچہ اپنے بہن بھائیوں پر جان نچھاور نہیں کرتے لیکن ان کو کوئی نقصان بھی نہیں پہنچاتے۔

ہماری سوچ صرف پردے اور داڑھی کے اردگرد گھومتی ہے۔ کہ یہ دو چیزیں نہ ہوئیں تو بس جناب دین غائب۔لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ٍاسلام صرف ان دو چیزوں پر منحصر نہیں ہے۔ بلکہ یہ دونوں چیزیں اسلام کا ایک جزو ہیں۔میں نے بہت سے غیر مسلوں کو داڑھی رکھے ہوئے دیکھا ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ وہ مسلمان ہوگئے ہیں۔اور چند غیرمسلم عورتوں کو پردہ کرتے ہوئے بھی دیکھا چاہے وہ مجبوری میں ہی کیوں نہ ہو۔لیکن جب تک کوئی بھی مرد اور عورت اﷲ کی وحدانیت اور نبی کریم کے آخری نبی ہونے پر ایمان نہیں لاتے تب تک وہ مسلما ن نہیں ہیں۔ بالکل اسی طرح جو مسلمان اﷲ پر کامل ایمان لا کر اس کی تما م حدود و قیود کا خیال رکھتے ہیں۔ سچ بولتے ہیں ۔ وعدہ پورا کرتے ہیں ۔ ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں۔دھوکہ نہیں دیتے۔دوسروں کی مدد کرتے ہیں۔ عورتوں کا احترام کرتے ہیں۔ بچوں سے شفقت کرتے ہیں۔دراصل وہی کامل مومن ہیں جو آج کے پرآشوب دور میں تقریبا ناپید ہو چکے ہیں۔

اگر ہمیں کوئی ایمانداری کی مثال دینا ہو تو یا تو ہم دین اسلام کے ابتدائی دور سے دے سکتے ہیں یا پھر انگریزوں کے معاشرے سے دے سکتے ہیں۔ اگر ہمیں کوئی ایسا شخص تلاش کرنا پڑے جو کبھی جھوٹ نہیں بولتا تو اس کے لئیے بھی ہمیں پاکستا ن سے باہر جانا پڑے گا۔ وعدہ خلافی تو ہمارے اوپر ختم ہے۔ جھوٹی گواہیوں سے عدالتیں بھری پڑی ہیں۔ جب بھی کسی کا دل کرتا ہے قرآن مجید کی قسم اٹھا لیتا ہے۔ یہ تما م برائیاں میں نے ان لوگوں میں سب سے ذیادہ دیکھی ہیں جنہوں نے داڑھیاں رکھی ہوئی ہیں اور اسلا م کے ٹھیکیدا ر بنے ہوئے ہیں۔خدا ارااپنی آخرت کو سنوارلیں۔ حرام اور حلا ل کا فرق ختم ہو چکا ہے۔ حرام کھانے والے بچے ہی سب سے ذیادہ بد تمیز اور دوسروں کا ادب نہ کرنے والے ہیں۔گالم گلوچ عام ہو چکا ہے۔ عورتوں کی عزت پردے کے اندر بھی محفوظ نہیں ہے۔ ہمارا معاشرہ اس قدر بے حس ہو چکا ہے کہ اگر کسی سے کوئی ایمانداری کی بات کرے تو اسے یا تو پاگل قرار دے دیا جاتاہے یا پھر اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ آج ہمیں اپنی اخلاقی اقدار کو اجاگر کرنے کے لیے اپنا اپنا کردار ادا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
 

Tanveer Ahmed
About the Author: Tanveer Ahmed Read More Articles by Tanveer Ahmed: 71 Articles with 88942 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.