نظام تعلیم میں تبدیلی وقت کی ضرورت

وطن عزیز جو طویل جدوجہد اور لازوال قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا تھا اس وقت نہ صرف بے شمار مسائل میں گھرا ہوا ہے بلکہ چاروں اطراف سے خطرات کی زد میں ہے۔ ایک طرف اگر یہود وہنود کی سازشوں کا سامنا ہے تو دوسری طرف مہنگائی غربت اور بے رزگاری نے ملکی ترقی کا پہیہ جام کر کے رکھ دیا ہے۔ ملک کے 17کروڑ عوام کو مسائل نے اس طرح گھیر رکھا ہے کہ بظاہر مسائل کی اس گرداب سے نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آرہا۔ قیام پاکستان کے وقت غالبا ًوطن عزیز کو اتنے مسائل کا سامنا نہ ہوگا جتنا آج ہے۔ اکثر لوگ ملک کو اس نہج تک پہنچانے کو حکمرانوں کا کرتا دھرتا قرار دے رہے ہیں اور یقیناً ملک کو اس مقام تک پہنچانے میں حکمرانوں کا کردار کسی سے کم نہیں کیونکہ اس بدقسمت ملک میں برسراقتدار آنے والی ہر حکومت نے اس ملک کی تعمیر وترقی بارے کم اور اپنے اہل وعیال بارے زیادہ سوچا۔ اقتدار بچانے کے لیے تو راتوں کی نیندیں حرام اور اپنی تمام تر توانائیاں صرف کیں۔ لیکن مسائل کو جوتے کی نوک پر رکھ کر نظرانداز کرتے رہے۔ مانا کہ ان مسائل اور بحرانوں میں حکمرانوں کا اہم کردار ہے لیکن ہم خود کو بھی ان مسائل اور بحرانوں سے بری الزمہ قرار نہیں دے سکتے ملک کو مسائل کے سمندر تک لانے میں جتنا کردار حکمرانوں کا ہے اتنا ہی ہمارا بھی۔ بحیثیت قوم ہم نے اس ملک کی تعمیر وترقی بارے کبھی سنجیدگی سے نہیں سوچا ۔کہا جاتا ہے کہ کسی بھی ملک وقوم کی تعمیر وترقی کا دارومدار تعلیم پر ہے ۔ مگر ہم نے تو یہاں بھی تعلیم میں تفریق کر کے تباہی کو دعوت دی۔ 63برس گزر گئے مگر ہم نے ان 63سالوں میں بھی نظام تعلیم کا حلیہ ٹھیک نہ کر سکے۔ دینی وعصری تعلیم میں دیوار کھڑی کر کے اپنے پاﺅں پر کلہاڑا تو ہم نے خود مارا۔ مگر آج ہم غیروں کو اس کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں ۔دینی تعلیم کو نظرانداز کرنا کسی مسلمان کے لیے تو ممکن نہیں لیکن اس کے ساتھ عصری تعلیم بھی ہماری بنیادی ضرورت ہے۔ دنیا کے ساتھ چلنے اور یہود و ہنود کی سازشوں اور اسلام کی ترجمانی کے لئے عصری تعلیم کا حصول موجودہ دور میں ہمارے لیے ناگزیر ۔اس لیے اس سے نظریں چرا کر ہم اپنے مقصد میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔ اگر ٹھنڈے دل وماغ سے سوچا جائے تو تعلیم میں تفریق ہی ہمارے مسائل اور ناکامی کی بنیادی وجہ ہے۔ دینی مدارس اور عصری تعلیمی اداروں کو ہم نے آمنے سامنے لا کھڑا کر کے خود مسائل اور ناکامی کو دعوت دی۔ آج اگر قدم بہ قدم مسائل اور بحرانوں کی سازشوں سے ہمارا واسطہ پڑا رہا تو اس کی اہم وجہ وطن عزیز میں لیڈر شپ کا فقدان ہے اس ملک کی بھاگ دوڑ جب تک نیک اور صالح حکمران نہیں سنبھالتے اس وقت تک یہ مسائل وبحران ختم نہیں ہونگے۔ لیڈر شپ کا فقدان تب ختم اور ملکی اقتدار پر اس وقت نیک وصالح لوگوں کی حکمرانی ہوگی جب کالج ویونیورسٹی سے نکلنے والا نوجوان حافظ قرآن اور عالم ہو۔ کالج ویونیورسٹی سے نکلنے والا نوجوان قرآن اور عالم یہ یقیناً ایک خواب ہی لگ رہا ہے لیکن جب اس ملک میں تنویر احمد عالم جیسے درد دل رکھنے والے لوگ موجود ہوں تو اس خواب کے شرمند تعبیر ہونے میں ہرگز دیر نہیں۔ اس ملک میں جامعتہ الرشید اور کچھ ادارے ایسے قائم ہوچکے ہیں جن میں ایک چھت کے سائے تلے دینی وعصری تعلیم ایک ساتھ دی جارہی ہے۔ برادرم تنویر احمد عالم نے ہزارہ کے دل ایبٹ آباد میں انٹرینشل سکول آف ایکسیلنس کے نام سے دینی وعصری تعلیم ایک چھت کے سائے تلے دینے کے لیے ادارہ قائم کر کے نہ صرف اہلیان ہزارہ بلکہ اس ملک کے سترہ کروڑ عوام پراحسان کیا ہے۔ انٹر نیشنل سکول آف ایکسیلنس میں قوم کے نونہالان ایک چھت کے سائے تلے دینی وعصری تعلیم کی پیاس بجھا کر اس دکھی اور زخموں سے چور چور قوم کے لیے نیک وصالح حکمرانوں کی شکل میں رحمت کا باعث بن سکتے ہیں اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو اس ملک وقوم کو ایسے ہی اداروں کی ضرورت ہے کہ جس سے پڑھ کر نکلنے والا مسٹر بھی ہو اور ملا بھی۔ تنویر احمد عالم نے دینی وعصری تعلیم میں کھڑی دیوار کو گرا کر مسٹر وملا میں تفریق ختم کر کے ملک میں تعلیم کے فروغ کے لیے ایک بہت بڑا قدم اٹھایا ہے۔ اللہ کرے کہ تنویر احمد عالم کا یہ قدم ملک وقوم کے لیے ترقی وخوشحالی کا باعث بنے ۔۔آمین۔۔ کالج ویونیورسٹی سے نکلنے والا نوجوان حافظ اور عالم بھی بنے یہ نہ صرف سترہ کروڑ پاکستانی عوام بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کا خواب ہے جس دن یہ خواب پورا ہوا اس دن ہی مسلمانوں کے تمام مسائل حل ہوجائیں گے اور ملک ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوگا مگر اس کے لئے تعلیمی نظام میں تبدیلی ازحد ضروری ہے۔
Umar Khan Jozvi
About the Author: Umar Khan Jozvi Read More Articles by Umar Khan Jozvi: 37 Articles with 41544 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.