تعلیم کیسی ہو؟ کیسے ہو؟

۶ و ۷ مارچ کو شبلی اکیڈمی ، اعظم گڑھ میں ایک کل ہند تعلیمی کانفرنس کا انعقاد ہوا جس میں ہند و بیرون ہند کے دانشوروں، ممتاز اساتذہ اور منتظمین نے اس سوال پر غور و خوض کیا کہ دور حاضر میں تعلیم کا مقصد کیا ہے اور کس طرح کا علم خصوصاً مسلم اقلیتی طبقہ کی درماندگی اور پسماندگی کے ازالے میں کارگر ہوسکتا ہے؟شبلی اکیڈمی کی پروقار اور پرسکون فضا میں فطری طور سے اس دور کی یاد تازہ ہوگئی جب مادی منفعت یا معاشی ضرورت کے لئے نہیں بلکہ انسان ذہنی آسودگی کےلئے کوچہ قلم و کتاب کا اسیر ہوتا تھا۔ ان کی عظمت کا پیمانہ مال و دولت اور مادی شان و شوکت نہیں بلکہ فکر و اخلاق کی بلندی اور علم کی گیرائی و گہرائی ہوا کرتا تھا۔وہ کم کھانے، کم سونے اور زیادہ کام کرنے کے اصول پرکاربند رہتے اور طمانیت قلب کی دولت سے سرشار رہتے۔ انہوں نے مختلف نقلی و عقلی علوم و فنون میں جو خدمات انجام دی ہیں، ان کی مقدار اور معیار دونوں دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح لکڑی کے قلم اور سرسوں یا زیتوں کے چراغ کی روشنی میں دیدہ ریزی کر کے کارہائے نمایاں انجام دئے ہیں۔ انکے علمی ورثہ میں فقہ و حدیث، سیر وتاریخ اور تفاسیر ہی شامل نہیں بلکہ انجنیرنگ اور آرکیٹکچر کے وہ محیر عقل شاہ کار بھی ہیں جو مسجد قرطبہ، شاہجہانی مسجد دہلی اورتاج محل جیسی عمارتوں کی صورت میں نظروں کے سامنے موجود ہیں اور نہر زبیدہ کی تفصیل کتب تاریخ میں محفوظ ہے۔ ان کی فراست ، ان کاانہماک اور محنت ہمارے لئے مشعل راہ ہیں۔

۸۱ویں اور ۹۱ویں صدی کے صنعتی انقلاب اور اس کے شانہ بشانہ حریت فکر کے غلغلے سے تاریخ انسانی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا جس کو Renaissance یا بیداری کہا جاتا ہے۔دیر سویر اس کے اثرات پوری دنیا پر چھا گئے۔مگر اس سے سب سے پہلے اور سب سے زیادہ یورپی ممالک فیضیاب ہوئے، جس کا ایک منفی پہلو سامراجی استبداد کا پوری دنیا کو اپنی گرفت میں لے لینا بھی ہے ۔بہر حال فکر کی بالیدگی اور ذہنی آسودگی کےلئے علم کے شائقین کی تعداد جو پہلے ہی کم تھی ، اب اور کم ہوگئی، تاہم پڑھنے پڑھانے میں مصروف افراد کی تعداد میں دن دونا رات چوگنا اضافہ ہوتا چلا گیا۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ فن سپہ گری کی جگہ اب دیگر علوم وفنون ہر شخص اور ہر معاشرے کی سماجی، اور معاشی ضرورت بن گئے ۔پہلے جو کام تلوار سے لیا جاتا تھا وہ اب قلم سے لیا جاتا ہے۔ لیکن افسوس کہ عقلی علوم میں دنیا کی پیشوائی کا شرف رکھنے کے باوجود ہم اس تغیر کو دور سے دیکھتے رہے اور اس نئے انقلاب سے خود کو بروقت ہم آہنگ نہیں کر سکے، چنانچہ عالمی اور علاقائی سطح پر امامت و سیادت کے منصب سے پیچھے دھکیل دئے گئے۔ دولت کی فراوانی کے باوجود عالم اسلام غیروں کی بیساکھیوں پر کھڑا ہونے پر مجبور ہوگیا۔ اقتدار و اختیار بظاہر جہاں ہمارے ہاتھوں میں ہے وہاں بھی ہماری قسمت کا فیصلہ غیروں کے ہاتھوں ہوتا ہے، جیسا کہ مصر کے حالیہ واقعات نے صاف کردیا ہے۔ ہم میں سے کچھ طبقے اس انقلاب میں اسطرح بہہ گئے کہ اپنی شناخت سے ہی شرمانے اور اپنی اقدار سے کترانے لگے۔اس کے برخلاف کہیں ہم نے اپنے گرد ایسے حصار کھینچ لئے کہ جدید کی ہوا بھی اس میں داخل نہ ہو سکتی۔ جیتے اس صدی میں ہیں اور سوچتے قرنوں پہلے کی فضا میںہ یں۔ چنانچہ حال ہمارا بے حال اور مستقل اندیشہ ہائے فردا سے پامال ہے۔

اس صورتحال پر ایک طبقہ میں، جس کواللہ نے دین کا شعور بھی دیا ہے اور جدید تقاضوں سے آگاہی بھی بخشی ہے، اس فکر کی گونج سنائی دیتی ہے کہ ملت کو کس طرح اس پستی سے نکالا جائے اور عزت ووقار کے منصب پر پہنچایا جائے۔ مردم خیز خطہ اعظم گڈھ کے بعض دیدہ وروں نے، جو بیرون ہند مقیم ہیں، اس غور و فکر کی ضرورت کو سمجھا اور کانفرنس کے لئے دامے ، درمے ، سخنے وسائل فراہم کئے ، خود کو فارغ کیا اور ہزار ہا میل کا سفر کر کے اس میں تشریف لائے۔ عالی فکر جناب سید حامد کی سربراہی اور جناب امان اللہ خاں کی نظامت میں قائم تحریک ’آل انڈیا ایجوکیشنل موومنٹ ‘نے اس کا اہتمام کیا اور شبلی کالج اعظم گڈھ کے اساتذہ اور اسٹاف نے اس کی میزبانی کی۔راقم الحروف کو بھی اس میں خوشہ چینی کا شرف ملا۔

یہ سوال بڑا اہم ہے کہ ہم کیا پڑھیں اور کیسے پڑھیں؟اس سوال کا جواب عملاً فراہم کرنے کے لئے ۹۱ویں صدی کے اواخر میں دو بڑے اداروں دارلعلوم دیوبند (۶۶۸۱ئ)، ندوة العلما(۳۹۸۱ئ) اور بیسویں صدی کے اوائل میں عصری علوم کی تین بڑی جامعات، عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد(۸۱۹۱ئ) مسلم یونیورسٹی علی گڑھ اور جامعہ ملیہ اسلامیہ (۰۲۹۱ئ) کا قیام عمل میں آیا ۔ان کے بعد بیشمار مدارس، مکاتب ،کالج اور اسکول قائم ہوئے لیکن کام ابھی باقی ہے اور مسلمانوں میں تعلیم عام نہیں ہوسکی ہے۔چنانچہ ایک ایسا ماحول بنانے کی ضرورت ہے جس میں ہر فرد کو معاشرے کے ایک ایک بچے کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کی فکر اسی طرح دامن گیر ہو جس طرح دو وقت کی روٹی کی ہوتی ہے۔کوشش یہ ہونی چاہئے کہ ملت کا کوئی بچہ مکتب، مدرسہ یا پرائمری اسکول سے باہر نہ رہنے پائے۔ اس کے لئے علاقائی اور مقامی سطح پر جدوجہد اور بیداری کی ضرورت ہے ۔ جہاں تعلیمی ادارے نہیں ہیں وہاں ادارے قائم کئے جائیں، جہاں ہیں وہاں ان کے ساتھ تعاون کیا جائے ۔ ہر محلہ اور بستی میں چند لوگ ایسے ہونے چاہئیں جو اپنا وقت اس کام میں لگائیں۔ یہ کام تواتر چاہتا ہے۔ ابتدائی تعلیم کے اداروں میں ایسا ماحول بنایا جائے جس سے بچوں کو وہاں آنے کی ترغیب ملے اور ان کے ساتھ ہرگز کوئی ایسی حرکت نہیں کی جائے، جس سے ان کی طبیعت مکدر ہو اور وہ اسکول آنے سے گھبرانے لگیں۔ اس کے لئے سکھانے کے جدید اور دلچسپ طریقے بڑے معاون ہوتے ہیں۔

تعلیم کا عمل یوں تو ماں کی گود سے شروع ہوتا ہے ، مگر ان ابتدائی اداروں کو بھی ماں کی گو د کا بدل بنایا جائے۔ یہی وہ مرحلہ ہے جہاں ان کے دل کی کلی کھلنا شروع ہوتی۔یہ عمر ہر اعتبار سے توجہ چاہتی ہے۔ نوخیز بچوں کی ذہنی اور جسمانی صحت کا دارومدار اس بات پر ہے کہ اس نازک عمر میں ان کو کس طرح کا ماحول دیا گیا اور کھانے پینے کی کیسی صحت مند عادتیں ان میں ڈالی گئیں۔ اس عمر کے بچوں کے ساتھ کس طرح کا رویہ اختیار کرنا چاہئے، یہ معلوم کرنا کچھ زیادہ پیچیدہ عمل نہیں ۔ زرا آنکھیں بند کیجئے، اپنے ماضی میں لوٹ جائیے، اپنے بچپن کو یاد کیجئے۔ اس کے کچھ خوشگوار اور کچھ نا خوشگوار نقش آپ کے ذہن میں محفوظ ہونگے۔ ان کو اپنا رہنما بنالیجئے ، بہت کچھ راستہ صاف نظر آنے لگے گا۔اگر اس کچی عمر میں جاننے اور سیکھنے کی طلب ان میں بیدار کردی گئی ، تو آگے کی منزلیں بہت کچھ آسان ہوجائیں گی۔ کبھی کبھی تنبیہ کی ضرورت ہوسکتی ہے مگر ایسی تنبیہ جس سے بچے کا دل ہی اچاٹ ہوجائے اور استاد میں اس کو ایک شفیق اور مربی کی جگہ ایک جابر اور ظالم نظر آنے لگے، ناقابل تلافی غلط روی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ بچوں کی شخصیت سازی میں اور بگڑے ہوئے بچوں کو سدھارنے میں ترغیب سے جو کام لیا جاسکتا ہے وہ تنبیہ سے ممکن نہیں۔ کبھی کبھی بچے کے دماغ کے دروازے کچھ دیر میں کھلتے ہیں۔ ایسی صورت میں استاد کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے اسی لئے استاد کا تربیت یافتہ ہونا ضروری ہے۔

ذہانتوں کی نشاندہی کا اہم کام بھی اسی عمر میں شروع کیا جانا چاہئے۔ سبھی بچوں کی ذہنی ساخت، صلاحیت اور فطری ذوق ایک سطح پر نہیں ہوتا۔ ذہین بچوں میں علم کی بلندیوں تک پہنچنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ چنانچہ ان پر خصوصی توجہ دی جانی چاہئے۔ وہ بچے بھی خاص توجہ کے طالب ہیں جو اگرچہ ذہین ہیں، مگر ان کے والدین کسی مجبوری کی وجہ سے ان پر بھرپور اور پر از حکمت توجہ نہیں دے سکتے۔ ان کے لئے ڈے بورڈنگ کا بندوبست ہونا چاہئے۔ یعنی ہوم ورک ان کے گھر کے لئے نہیں چھوڑا جائے بلکہ تعلیم گاہوں کے اندر ہی اس کا نظم کیا جائے ۔ یہ وہ تدابیر ہیں جن کا ذکر جستہ جستہ کانفرنس کے دوران آیا۔ ان تدابیر کو اختیار کر کے بچوں کی ایک ایسی بھری پوری نرسری تیار کی جاسکتی ہے جن سے مستقبل کی چمن بندی کی جائے گئی۔

ایک اہم سوال یہ اٹھتا ہے ہم بچوں کو کیا پڑھائیں۔بقول پروفیسر مجیب ہمیں ایک ایسا تعلیمی نظام مطلوب ہے ”جو عقیدے اور علم دونوں کا پھلتا پھولتا مرکب ہو“۔ علامہ شبلی نعمانی ؒ نے بھی تقریباً یہی بات کہی تھی۔ نہ قدیم طرز کی مدرسہ تعلیم ہمارے لئے کافی ہے اور نہ جدید طرز کی۔ بلکہ ایک ایسا نظام مطلو ب ہے جو تدریس کے جدید طریقے اخیتار کرے اور دینی و عصری دونوں طرح کے علوم سے سیراب کرے۔ ظاہر ہے ہم ان انجنئرس، ڈاکٹرس اور ایڈمنسٹریٹرس کو اپنی قوم اور ملت کے لئے باعث افتخار نہیں جان سکتے جو ایمان کے تقاضوں سے غافل اور اخلاق و اطور میں غیروں کے مماثل ہوں۔ لیکن یہ بھی عملاً ممکن نہیں کہ ایک فرد عصری اور شرعی دونوں طرح کے علوم میں بھی یکساں دستگاہ حاصل کر لے ۔ چنانچہ بچوں کے ذاتی رجحان اور دلچسپی(Aptitude) کو پیش نظر رکھ کر یہ طے کرنا ہوگا کہ کون سے بچہ کیا پڑھے گا۔ اس کی پیش رفت یہ طے کریگی کہ وہ کہاں تک جاسکتا ہے۔ یہ فیصلے ورثا کی خواہش پر نہیں چھوڑے جاسکتے۔ لیکن جدید علوم کے حصول میں انہماک کا یہ مطلب نہیں ہونا چاہئے کہ بچے اپنے عقائد اور اقدار سے بے بہرہ رہ جائیں، جیسا کہ آجکل ہورہا ہے۔اپنی مساجد میں ایسے مراکز قائم کرنے ہونگے ،جہاں بچے دین سے آگاہی حاصل کریں۔ ان مراکز میں بھی روشن ضمیر، روشن خیال مدارس کی خدمات لی جانی چاہئے مبادا بچوں کو توہمات میں ڈال دیں۔

سرسید نے ۷۷۸۱ءمیں جب ایم او کالج قائم کیا تھا، اس وقت کی تعلیمی ترجیحات اور آج کی ترجیحات اور امکانات میں بڑا جوہری فرق واقع ہوگیا ہے۔ ایک زمانہ وہ تھا جب حصول روزگار کے لئے بی اے کی ڈگری بیش قیمت سمجھی جاتی تھی۔ لیکن ۰۲ویں صدی کے جاتے جاتے اس ڈگری کی چمک دمک ماند پڑگئی۔ یہ صحیح ہے عمرانیات کی اپنی اہمیت ہے ،مگر زبان یا عمرانیات کی ڈگری اس دور کا معاشی مسئلہ حل کرنے کے لئے کافی نہیں ہے۔ ۱۹۹۱ءمیں نجکاری کے آغاز کے بعد سے ایک نیا ماحول بنا ہے۔سرکاری ملازمتیں کم ہورہی ہیں جبکہ پرائیوٹ سیکٹر میں روزگار کے مواقع بڑھ رہے ہیں۔ اس ماحول میں منجمنٹ اور انفارمیشن ٹکنالوجی کی اسناد نے اہمیت حاصل کرلی تھی۔انفارمیشن ٹکنالوجی کا یہ انقلاب بڑی تیزی کے ساتھ آیا اور پوری دنیا میں چھا گیا ہے۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہمارے ملک کی ان اداروں میں شامل ہے، جہاں اس انقلاب نے ابتدا میں دستک دی۔ غالباً ۳۹۹۱ء کی بات ہے جب یونیورسٹی کے اس وقت کے پی وی سی پروفیسر ابوالحسن صدیقی مرحوم کی زبانی میں ای میل سے متعارف ہوا۔ اس وقت کے وی سی نسیم فاروقی، جو خود ایک سائنسداں تھے، یونیورسٹی میں ای میل کی سہولت لائے ۔ اس دور میں ترقی یافتہ ممالک میں بھی بس چند ہی لوگ ای میل اور انٹر نیٹ سے ناواقف تھے۔ یہ انقلاب اس قدر تیزی سے آیا ہے کہ آج اس وقت تک کوئی شخص کامیاب افسر یا منتظم نہیں ہوسکتا، جب تک وہ خود کمپیوٹر میں دستگاہ نہ رکھتا ہو۔ بہت سے دفاتر نے کاغذی فائلوں کو خیر باد کہہ دیا ہے اور سارا کاروبار لیپ ٹاپ اور کمپیوٹر میں سمٹ آیا ہے۔ چنانچہ اس جدید ٹکنالوجی سے ناواقف افراد کے لئے روزگار کے مواقع سمٹ گئے ہیں۔ ۱۲ویں صدی کی اس پہلی دہائی میں عمرانیات کی ڈگری نہیں بلکہ کمپیوٹر سرٹیفکیٹ روزگار کی کنجی ہے۔میرا ذاتی تجربہ ہے کہ اس کا سیکھنا کچھ مشکل نہیں۔ میں عمر کے ۵۵ سال پورے ہونے کے بعد کمپیوٹر سے متعارف ہوا اور اب ہندی، انگریزی اور اردو میں اپنے تحریری کاموں کے لئے، حساب کتاب کے لئے ، یہاں تک کہ اپنی ویب سائٹ کے لئے کسی کا محتاج نہیں ہوں۔ میں نے بس یہ کیا کہ گھر پر اپنے بچوں کو اور دفتر میں اپنے تحت کام کرنے والوں کو اپنا استاد بنا لیا۔ انفارمیشن ٹکنالوجی کا میدان بڑا وسیع ہے۔ہر شخص اپنی توجہ اور دلچسپی کے مطابق اس میں اکتساب کر سکتا ہے۔ لیکن ظاہر ہے خالی ڈی ٹی پی کافی نہیں ہے۔

علم کا دوسرا شعبہ جس کی آج سب سے زیادہ مانگ ہے، وہ کامرس اور منجمنٹ کے کورسز ہیں۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے بچے ان شعبوں کی طرف جاتے ہوئے ہچکچاتے ہیں۔ یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ لیاقت اور صلاحیت کا کوئی تعلق مذہب ، ذات اور خطے سے نہیں ہے۔ جو محنت کرتا ہے وہ پاتا ہے۔ اسی طرح آج کے دور میں خصوصاً پرائیوٹ سیکٹر میں انتخاب کا پیمانہ آپ کی لیاقت ، مہارت اور معیار ہے۔ آج کے بازار میں سکہ رائج الوقت کمپیوٹر، کامرس اور کمپنی منجمنٹ ہیں۔ایک نوجوان اگر منجمنٹ کا ہنر جانتا ہے، اپنی بات کو صارف کے دل میں اتارنے کے فن جانتا ہے اور پروڈکٹ کو مارکیٹ میں کھپا سکتا ہے، وہی اس دور کا سکندر ہے۔ جو مسلم بچے اس طرف بڑھ رہے ہیں کامیابیاں ان کے قدم چوم رہی ہیں۔ ان کے لئے مواقع ہی مواقع ہیں ۔

ابھی چند سال پہلے تک ہم تعلیم نسواں میں پچھڑے ہوئے تھے۔ آج بھی بچیوں کی تعلیم میں رکاوٹیں کم نہیں ہیں ۔ لیکن میرا مشاہدہ اور ذاتی تجربہ ہے کہ گھر کی چکی میں پستے رہنے کے باوجود ہماری بیٹیاں عموماً لڑکوں کے مقابلے زیادہ انہماک دکھا رہی ہیں۔ لڑکیوں کی مزید حوصلہ افزائی کی یقیناً ضرورت ہے۔ مگر ایسا نہ ہو کہ لڑکیاں تو زیور علم سے آراستہ ہوجائیں اور لڑکے پھسڈی رہ جائیں۔ گھر کی اقتصادی ذمہ داری کا اضافی بوجھ خواتین پر ڈالنا قرین انصاف نہیں ہے۔ یہ بوجھ مردوں کو ہی اٹھانا چاہئے ۔البتہ ہر خاندان علم کا گہوارہ اسی وقت بن سکے گا اور خوشحالی اسی صورت میں اس کے قدم چومے گی، جب ہر ماں علم و عمل میں اپنے بچے کی کامیاب استاد ، مربی اورامور خانہ داری کی اچھی منتظم ہوگی۔ مغربی معاشرے کا یہ چلن ہماری معاشرت، ہمارے باہمی رشتوں اور خاندانوں کے مستقبل کے لئے سم قاتل ہے کہ ماں اپنے شیر خوار بچے کو آیا کے حوالے کر کے دفتر چلی جائے، اس کے علم کا فیض کوئی اور اٹھائے اور اس کا بچہ ان پڑھ، ان گڑھ اور جاہل خادماﺅں کی گود میں پرورش پائے۔
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 163021 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.