ہمارے ملک میں بچوں سے جبری مشقت کا مسلئہ شدت اختیار
کرتا جا رہا ہے۔حکومت کی جانب سے بچوں سے مشقت پر پابندی کے باوجود ننے
معصوم بچوں سے مشقت لی جا رہی ہےاور انہیں تعلیم سے دور رکھا جا رہا ہےاس
کا ذمہ دار کون ہے۔ننے معصوم بچے آپ کو گھروں,ورکشاپوں,مارکیٹوں, فیکٹریوں,
ہوٹلوں, چاۓخانوں,پٹرول پیمیوں,بوٹ پالش کرتے ہوۓ کچرا اٹھاتے ہوۓ نظر آۓ
گے۔جبکہ بچوں سے جبری مشقت کو ہمارے موشرے میں کوئی معیوب نہیں سمجھا
جاتا۔کھیلنےاور پڑھے لکنھے کی عمر میں آپ کو یہ بچے کام کرتے ہوۓ نظرآۓ گۓ
جوکہ ہمارے معاشرے کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
ریاست کے ساتھ ساتھ ہمارے معاشرے کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان بچوں سے
مشقت کروانے کی بجاۓ ان کے ہاتھوں میں کتابیں دے۔کیونکہ پاکستان جیسے ملک
میں جہاں غربت مہنگائی اور بے روزگاری نے جہاں پران بچوں کو اسکولوں سے دور
کیاہے وہاں پر پراوئٹ سیکٹر کے تعلیمی اداروں نے تعلیم کو اس قدر مہنگا
کردیا ہے کہ ان بچوں کے والدین بچوں کو سکولوں میں بجھوانے کی بجاۓ انہیں
کام پر بجھوا دیتے ہیں کیونکہ ان کے پاس اتنے وسائل نہیں ہوتے کہ وہ بچوں
کو تعلیم دلواۓ۔
اس صورتحال میں ریاست اور معاشرہ کو اپنا کردار ادا کرناچاہے حکومت کو چاہے
کہ وہ سرکاری سکولوں کا معیار اچھا کرے اور معیاری تعلیم دے۔کیونکہ سرکاری
سکولوں میں معیاری تعلیم نے ہونے کی وجہ سے لوگوں کا رجحان پراوئٹ سکولوں
کی طرف زیادہ ہے جس کا فائدہ معاشرے کا امیر طبقہ ہی اٹھا رہاہے۔
پاکستان کے اند چائلڈ لیبر قانون تو موجود ہے جس کے تحت بچوں کو کارخانوں
اور دیگر جگہوں پر ملازمت پر نہیں رکھا جاۓ گااور خلاف ورزی کرنے والے کو
سخت سزا ہوگی مگر المیہ یہ ہے کہ اس قانون پر عملدرآمد نہیں ہو رہا اور جگہ
جگہ آپ کو معصوم بچے کام کرتے ہوۓ نظر آ رہے ہیں۔گھروں میں کام کرنے والے
بچوں پر تشدد کے واقعات آۓ روز سامنے آرہے ہیں لیکن ریاست بے بس نظر آرہی
ہے۔
بچے کسی بھی قوم کا روشن مستقبل ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں ان
بچوں کا مستقبل تاریک نظر آرہا ہے۔کیونکہ غربت اور بے روزگاری کی وجہ سے
بہت سارے خاندانوں کا اپنے بچوں کوکام پر بجھناان کی مجبوری بن چکا ہے۔
اس ساری صورتحال میں معاشرے کو بے بسی کا مظاہرہ کرنے کی بجاۓ اس میں اپنا
رول ادا کرنا چاہے۔کیونکہ ہمارا مذہب ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دیتا ہمارے
مذہب میں تو حکم ہے کہ صاحب حثیت لوگوں کو ایسے بچوں کی کفالت کرنی چاہے۔
ایسے لوگ جوصاحب حثیت ہے ان کو چاہے کہ وہ مزدوری کرنے والے بچوں کو مفت
تعلیم اور علاج کی کفالت فراہم کرے تاکہ یہ بچے ایک اچھے شہری بن کر ہمارے
آنے والے کل کے لیے مثبت کردار ادا کر سکیں۔
ریاست کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنا رول ادا کرے اور ان بچوں کے والدین
کو ترغیب دے کہ وہ بچوں سے مشقت نہ لیں۔
بچوں سے جبری مشقت کے خاتمے کے لیے ریاست اور معاشرہ کو مل کرکردار ادا
کرنا چاہے۔ |