'یہ چھوٹا سا انسانی قدم انسانیت کے لیے ایک بہت بڑی
چھلانگ ہے۔'
نیل آرمسٹرونگ کا یہ مشہور قول سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں ہونے والی
ان کامیابیوں کی جانب اشارہ تھا جو 50 برس قبل جولائی 1969 میں پہلی مرتبہ
انسان کے چاند پر اترنے کی شکل میں حاصل کی گئی تھیں۔
چاند پر انسان کا پہنچنا ایک ایسا سنگِ میل تھا جس نے ہماری روزمرہ زندگی
پر بھی دیرپا اثرات چھوڑے۔
آج کی رقم کے لحاظ سے دو سو ارب ڈالر مالیت کے اپالو پروگرام نے بہت سے
ایسے شعبوں میں بھی ترقی کی راہیں کھول دیں جن کے بارے میں ہمیں کچھ بھی
پتہ نہیں تھا۔
اُن میں سے چند یہ ہیں۔
1. صفائی ستھرائی آسان بن گئی
|
|
بغیر تار والے آلات اپالو پروگرام سے پہلے بن گئے تھے لیکن اِس پروگرام کے
ذریعے اِن آلات کی وہ شکل سامنے آئی جو آج ہم دیکھتے ہیں۔
مثلاً آلات بنانے والی کمپنی بلیک اینڈ ڈیکر نے سنہ 1961 میں اپنی پہلی
ایسی ڈرل مشین بنائی جس میں تار نہیں تھے۔ اسی کمپنی نے خلا میں سیاروں سے
مٹی کے نمونے جمع کرنے کے لیے ایک خاص ڈرل مشین امریکی خلائی ادارے ناسا کو
بنا کر دی تھی۔
اِس ڈرل مشین کی تیاری سے حاصل ہونے والی مہارت اور علم کو استعمال کرتے
ہوئے بلیک اینڈ ڈیکر نے بہت سے نئے گھریلو آلات متعارف کرائے جن میں دنیا
کا پہلا دستی ویکیوم کلینر، ڈسٹ بسٹر سنہ 1979 میں سامنے آیا۔ 30 سال میں
ڈسٹ بسٹر کے پندرہ کروڑ سے زیادہ یونٹ فروخت ہوئے تھے۔
2. وقت کا بہتر استعمال
|
|
انتہائی درست وقت چاند پر لینڈ کرنے کے لیے لازمی تھا کیونکہ ایک سیکنڈ سے
بھی کم وقت کا فرق خلا میں زندگی اور موت کا مسئلہ بن سکتا تھا۔
اِس لیے یہ بات کوئی بہت حیران کن نھیں تھی کہ ناسا والے اِس مشن کےلیے غیر
معمولی درست وقت بتانے والی گھڑیاں چاہتے تھے۔
نتیجتاً ایسی جدید کوارٹز گھڑیاں بنائی گئیں جن میں ایک برس میں ایک منٹ سے
بھی کم فرق پیدا ہوتا تھا۔
لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ وقت کے بہتر استعمال کے لیے شہرت اُن روایتی
میکینیکل کلائی کی گھڑیوں کو ملی جو نیل آرمسٹرانگ اور اُن کی ساتھی بز
آلڈرن اپالو مشن پر پہنے ہوئے تھے۔
3. صاف پانی کی فراہمی
|
|
اپالو مشن پر پانی صاف کرنے کی ٹیکنالوجی آج کئی طریقوں سے پانی کے ذخائر
میں بیکٹیریا، وائرس اور کائی وغیرہ کے خاتمے میں استعمال ہوتی ہے۔
اِس مقصد کے لیے اپالو مشن نے کلورین کے بغیر، چاندی کے آئن استعمال کرنے
کے پانی صاف کرنے کا طریقہ استعمال کیا تھا۔
اب یہ طریقہ دنیا بھر میں سوئمنگ پولز اور فواروں کی پانی کی صفائی کے لیے
استعمال ہورہا ہے۔
4. خلائی لباس اور دیرپا جوتے
|
|
خلاباز آج بھی 1965 کے اپالو مشن کے خلائی لباس کے ڈیزائن پر بنے سوٹ
استعمال کر رہے ہیں جن کا بنیادی مقصد چاند پر چہل قدمی کے دوران خلابازوں
کا تحفظ تھا۔
لیکن یہ ٹیکنالوجی جوتا سازی کی جدید صنعت کے لیے ایک بڑی پیشرفت بھی بنی۔
اسی کے نتیجے میں پچھلے چند عشروں میں زیادہ لچکدار اور جھٹکا برداشت کرنے
والے ایتھلیٹک جوتوں کی بہت سی اقسام مارکیٹ میں آئیں۔
5. آگ نہ پکڑنے والے کپڑے
|
|
سن 1967 میں اپالو اول کے ایک تربیتی مشن کے دوران لگنے والی آگ سے تین
خلاباز ہلاک ہوگئے تھے جس کے بعد پورا پروگرام بحران کی زد میں آگیا تھا۔
لیکن اسی کے نتیجے میں ناسا نے آگ نہ پکڑنے والا ایسا کپڑا تیار کیا جو اب
زمین پر بہت زیادہ استعمال کیا جاتا ہے۔
اسی طرح اپالو مشن کے دوران خلابازوں کے لیے ٹھنڈک کی فراہمی کا نظام اب
ملٹی پل سلروسس (ایم ایس) کا شکار افراد سمیت بہت سے مریضوں حتٰی کہ گھوڑوں
کو بھی پرسکون رکھنے میں استعمال ہو رہا ہے۔
6. دل کے علاج کی نئی ٹیکنالوجی
|
|
پیس میکر وہ آلہ ہے جو دل کے ایسے مریضوں کو لگایا جاتا ہے جن کے دل کی
دھڑکن خطرناک حد تک بےقاعدہ ہوتی ہے۔
یہ آلہ بھی ناسا کی ننھے سرکٹ کی ٹیکنالوجی کی بدولت بنا تھا۔
ہسپتالوں میں استعمال ہونے والے بڑے ڈیفیبلریٹر کے برعکس پیس میکر ایسے
ننھے منے ڈیفیبلریٹر ہوتے ہیں جنھیں انسانی جسم کے اندر نصب کردیا جاتا ہے
اور وہ دل کی دھڑکن پر نظر رکھتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر ایک برقی جھٹکے سے
دھڑکن درست کر دیتے ہیں۔
پہلا پیس میکر سن 1980 میں استعمال کیا گیا تھا۔
7. کھانوں کی نئی اقسام
|
|
سن 1961 سے 1966 کے دوران مختصر خلائی مشنز کے برعکس اپالو مشن کو تیرہ روز
تک خلا میں رہنا تھا۔
چاند تک پہنچنے کے لیے ناسا کو خلائی جہاز کو ہلکا رکھنا تھا اور کم سے کم
جگہ استعمال کرنی تھی۔ بچت کی اِس ضرورت کے پیش نظر اپالو مشن کے دوران
خوراک پر بھی تحقیق کی گئی۔
حل اس صورت میں نکلا کہ تازہ پکی ہوئی خوراک کو بہت کم درجۂ حرارت پر پانی
نکال کر خشک کر کے پیک کر لیا گیا۔ کھانے کے لیے اِس میں صرف گرم پانی
ملانا تھا۔
یہ خوراک نیل آرمسٹرونگ کے لیے بھی درست ثابت ہوئی اور آگے چل کر کوہ
پیماؤں اور کیمپنگ کرنے والوں کے لیے بھی نہ صرف آسان بلکہ بہت سستی بھی۔
8. جان بچانے والے مخصوص کمبل
|
|
اپالو کی چاند گاڑی کو سورج کی گرمی سے بچانے کے لیے جو چمکدار چادر
استعمال ہوئی تھی اُسے خلائی کمبل کا نام دیا گیا تھا۔ اسی کمبل کی بدولت
چاند گاڑی کچن فوائل میں لپٹی ہوئی لگتی تھی۔
اسی سے جان بچانے والے اُن کمبلوں کی ابتدا ہوئی جو ہمیں آج عام دکھائی
دیتے ہیں۔
ناسا کی ٹیکنالوجی کی بنیاد پر پلاسٹک، فلم اور ایلومینیم سے بنے جان بچانے
والے یہ خصوصی کمبل کسی بھی ہنگامی صورتحال میں عام استعمال ہوتے ہیں اور
جسمانی حرارت کو محفوظ رکھنے کا کام کرتے ہیں۔
یہی کمبل مختلف میراتھن مقابلوں اور ہسپتالوں میں بھی استعمال ہوتے ہیں. |