وہ جب پیدا ہوا تھا تو چند دن بعد باپ کا سایہ سر سے اٹھ
گیا۔ابھی کھیل کود کے دن تھے کہ آنکھوں کی بینائی بھی جاتی رہی۔شفقت پدری
سے محرومی اور آنکھوں کی معذوری یہ دو وجوہات تھیں جن سے اندازہ ہو رہا تھا
کہ اب یہ بچہ پڑھنے سے رہا لیکن بچہ تھا بڑا ذہین اور فطین۔
ادھر ماں کو دن رات یہ غم کھائے جا رہا تھا کہ یہ بچہ کیسے پڑھ لکھ سکے گا۔
استاد کے پاس حاضر ہو سکتا ہے اور نہ ہی اسکے لیے سفر کرنا آسان ہے۔ پس ماں
کے لیے دعا و مناجات کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ اس نے اللہ کے حضور دن
رات دعائیں کیں، آنسو بہائے اور خوب گڑگڑائیں۔
آخرکار ایک رات خواب میں یہ نوید افزا پیغام سنائی دیا۔ اے بی بی! تیری
دعاؤں کی کثرت کے سبب رب العالمین نے تیرے بیٹے کی بینائی واپس کر دی
ہے۔جب وہ بیدار ہوئیں تو دیکھا واقعی بچے کی بینائی لوٹ آئی تھی۔
ماں نے بچے کو پڑھانے کا مصمم ارادہ کرلیا اور اسے وقت کے محدثین و علماء
کی صحبت اختیار کرنے کے لیے ایک قافلے کے ساتھ بھیج دیا۔
والد کا سایہ تو سر سے اٹھ چکا تھا اسلیے تعلیم حاصل کرنا اسکے لیے جوئے
شیر لانے سے کم نہ تھا۔والد ایک بڑی رقم ضرور چھوڑ کر گئے تھے لیکن انکی
شفقت اور مربیانہ صحبت میسر نہیں تھی اور اغلب امکان یہی تھا کہ مال و دولت
کی ریل پیل اسے کسی اور سمت لے جائے گی۔لیکن بچے نے دن رات محنت کی۔بچپن
گزر گیا، جوانی میں قدم رکھا اور محنت برابر جاری رکھی۔
یہ کوئی آسان کام نہیں تھا، زمانے کے دوسرے علماء کی طرح اسے بھی مشقت کا
سامنا کرنا پڑا۔شاہی عتاب کا شکار ہونا پڑا۔زمانے کے درباری علماء کا حسد
دل برداشتہ کرتا رہتا لیکن پائے استقامت میں لغزش نہیں آئی۔اس نے جوانی کی
عمر میں کٹھن سفر طے کیے۔متداول علوم حاصل کیے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
کی چھ لاکھ حدیثوں کو اپنے سینے میں محفوظ کیا اور ان میں سے سات ہزار دو
سو پچھتر احادیث کا انتخاب کر کے امت کو قرآن کے بعد سب سے افضل کتاب مرتب
کر کے دی۔اس بچے کو دنیا "امام بخاری" کے نام سے جانتی ہے اور اسکی کتاب کو
"صحیح بخاری" کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔
امام بخاری اور ان جیسے بے شمار علماء و محدثین کی زندگیاں ہمارے نوجوانوں
کے لیے عملی نمونہ ہیں۔ان لوگوں نے "محنت میں عظمت ہے" پر یقین کیا اور
اپنی جوانی کو حسین انداز میں گزارا اور اپنے دین، ملک و ملت اور معاشرے کے
لیے دن رات ایک کر دیا۔
جوانی ایک نعمت ہے۔یہ انسانی زندگی کا سب سے حسین، قیمتی اور نازک دور
ہے۔اگر عمدہ تربیت اور اچھی صحبت میسر ہو تو اس میں بڑے کارنامے سر انجام
پاتے ہیں۔معاشروں کی قسمت بدلتی ہے، اخلاقی، سماجی، سیاسی، معاشی ترقی نصیب
ہوتی ہے۔اور مستقبل سنورتا ہے۔
اسی طرح جوان کسی بھی قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں۔وہ قوم و ملت کے مستقبل کے
معمار ہوتے ہیں۔انکی تعلیم و تربیت براہ راست معاشرے کی ترقی پر اثر انداز
ہوتی ہے۔ نوجوان، جوانی میں خصوصی توجہ اور حوصلہ افزائی کا محتاج ہوتا
ہے۔سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی
اللہ علیہ وسلم نوجوانوں کو خصوصی توجہ عطا کرتے اور انکی تربیت و راہنمائی
کے لیے خصوصی اقدامات فرماتے۔نوجوانوں کی حوصلہ افزائی فرماتے اور ان کو
اہم ذمہ داریاں سونپتے۔
السابقون الاولون میں بیشتر صحابہ کرام نوجوان تھے۔ حضرت مصعب بن عمیر کو
مدینہ والوں کا استاد بناکر بھیجا گیا۔معاذ بن جبل کو یمن والوں کی طرف دین
کی دعوت و تبلیغ کے لیے بھیجا گیا۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو
اہم ہدایات اور نصیحتیں ارشاد فرما کر بھیجا۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات میں بھی نوجوان کو بڑا مقام دیا
گیا ہے۔نوجوان کی عبادت کو بوڑھے کی عبادت سے بہتر قرار دیاگیا ہے۔اور
نوجوانی میں غلط راہ کو چھوڑ کر توبہ کرنے والے کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم
نے اللہ کا دوست قرار دیا ہے۔
چونکہ نوجوان کسی قوم کا اثاثہ و سرمایہ ہوتے ہیں اسلیے دین وملت اور قوم و
معاشرے کے لیے ان پربھاری ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں۔
وہی قومیں ترقی کرتی ہیں جس کے نوجوان تعلیم یافتہ، تربیت یافتہ اور مہذب
ہوں۔زمانہ تیزی سے بدل رہا ہے اور پوری دنیا گلوبل ویلج کی شکل اختیار کر
چکی ہے۔لہذا زمانے کے نشیب و فراز میں اپنے آپ کو بچائے رکھنے کے لیے زمانے
کا جواں مردی سے مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔اور یہ کام جوان ہی سر انجام دے
سکتے ہیں۔نت نئے علوم و فنون ایجاد ہو رہے ہیں، سائنس ترقی کرتی جا رہی ہے،
ہر میدان میں جدت اور تنوع آتا جا رہا ہے۔ایسے عالم میں جوانوں کو چاہیے
نئے نئے علوم و فنون حاصل کریں۔جہد مسلسل، پختہ عزم اور توکل علی اللہ کے
ذریعے اپنے آپ کو ہر قسم کے چیلنجز سے نبٹنے کے لیے تیار رکھنا ضروری ہے۔
نیشنل ہیومین ڈویلپمنٹ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی کل آبادی کا 64 فی صد اس
وقت 30 سال سے کم عمر افراد پر مشتمل ہے۔ ان نوجوانوں کو تعلیم و تربیت
دینا ریاست کی ذمہ داری ہے۔نیز انکو مفید شہری بنانے کے لیے علوم و فنون سے
آراستہ کرنا بھی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ہم اپنی نوجوان نسل کو مختلف فنون
سکھا کر ایک عمدہ کھیپ تیار کر سکتے ہیں۔پھر انہیں دنیا کے دوسرے ممالک میں
بھیج کر وسیع زرمبادلہ کما سکتے ہیں۔
آج کے دور میں بد تہذیبی، سوشل میڈیا اور سائنسی ایجادات کی چکا چوند نے
نوجوان نسل کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔آج کا نوجوان نت نئے فیشن کا رسیا اور
محنت و مشقت کرنے سے عاری ہوچکا ہے۔معاشرے کے لیے سہارا بننے کی بجائے ایک
خطرناک بوجھ کی صورت اختیار کیے جا رہا ہے۔ اسلیے ضرورت ہے کہ نوجوانوں پر
خصوصی توجہ دی جائے اور ان سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کر کے دین و ملت
اورملک و قوم کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جا سکے
|