پروفیسر بہت دنوں بعد مجھے ملا تھا- میں بیوی کی بتائی
ہوئی کچھ اشیا لینے سپر مارکیٹ گیا تھا- وہ
بھی وہیں آیا ہوا تھا اور ایک ٹرالی لیے اس میں مختلف پیکٹ ڈالتا ہوا گھوم
رہا تھا- میرا دھیان ریکس میں رکھی اشیاء کی طرف تھا اس لیے میں اس پر توجہ
نہ دے سکا اور اس کے قریب سے نکلتا چلا گیا مگر اس نے مجھے دیکھ لیا تھا-
اس نے اپنی ٹرالی چھوڑی اور میرے پیچھے آکر میرے شانے پر ہاتھ رکھا- میں نے
گھوم کر دیکھا تو وہ مجھے مسکراتی ہوئی نگاہوں سے دیکھ رہا تھا-
ہم دونوں گلے ملے- پروفیسر میرے کالج کے زمانے کا دوست تھا- نفسیات اس کا
پسندیدہ مضمون تھا- نام تو اس کا ریاض تھا مگر اس کی نہ سمجھ میں آنے والی
باتوں کی وجہ سے پہلے تو اسے چڑانے کے لیے پروفیسر کہا جانے لگا- جب اس نے
چڑنا بند کردیا تو یہ ہی لفظ اس کے نام کا لازمی جز بن گیا-
کالج کے وہ دوست جو اپنی تعلیم مکمل کر کے ادھر ادھر ہو جاتے ہیں، اکثر اسی
طرح اچانک مل جایا کرتے ہیں- اس زمانے میں موبائل بھی اتنے عام اور جدید
نہیں تھے اور ہر کسی کی پہنچ میں بھی نہیں ہوتے تھے، اس لیے کالج کی چند
سال کی دوستی کالج سے شروع ہوتی تھی اور کالج میں ہی ختم ہوجاتی تھی- ویسے
بھی تعلیم مکمل کرنے کے بعد تلاش معاش میں سرگرداں لوگوں کو دوستوں کا ہوش
رہتا بھی کہاں ہے- پھر کوئی روزگار مل جانے کے بعد ان کی ذمہ داریاں اتنی
بڑھ جاتی ہیں کہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ صبح کب ہوئی اور شام کب- بچھڑے ہوۓ
دوست اور ان کی باتیں بس کبھی کبھی یاد آجایا کرتی تھیں-
پروفیسر مجھے جلدی میں لگ رہا تھا- اس کی عجلت بھانپ کر میں نے جلدی سے اس
کا موبائل نمبر معلوم کر کے اسے بیل دی، اس نے میرا نمبر محفوظ کرلیا- پھر
وہ یہ کہہ کر رخصت ہوگیا کہ وہ مجھے کال کرے گا-
پروفیسر کے یوں اچانک ملنے سے مجھے بہت خوشی ہوئی تھی- میں گھر پہنچا تو
اتنا پرجوش تھا کہ
گاڑی سے سامان اتارتے اتارتے یہ خوشی میں نے بیوی سے بھی شئیر کی اور اس
مختصر سے عرصے میں ہی پروفیسر سے ملاقات کا حال کہہ سنایا- اس نے میری بات
بڑی توجہ اور غور سے سنی اور سبزی کا تھیلا میرے ہاتھوں سے لیتے ہوۓ بولی-
"وہاں سیب کیا کلو مل رہے تھے؟" بیویوں کے بہت سے سوالات ایسے ہوتے ہیں جن
کا اکثر جواب شوہر نہیں دیتے- میں نے بھی کوئی جواب نہیں دیا-
کالج میں ہمارا چھ لڑکوں کا ایک گروپ تھا اور اس گروپ میں پروفیسر، زاہد،
کلیم، راحت، اظہر اور میں خود شامل تھا- ہم لوگ ہر وقت اکھٹے رہتے تھے،
ساتھ کھاتے پیتے تھے اور کلاس میں ایک ساتھ ہی سب سے پچھلی ڈیسکوں پر
بیٹھتے تھے-
ہم لوگ میٹرک کرکے نئے نئے اسکولوں سے نکلے تھے، سمجھ تو اتنی نہ تھی کہ
تعلیم کو تعلیم سمجھ
کر حاصل کرتے- ہمارا بھی شمار ان لوگوں میں ہوتا تھا جو باپوں کے ڈر سے
پڑھتے تھے، خود کو کوئی خاص شوق نہیں تھا- یہ ہی وجہ تھی کہ ہم کلاسوں میں
تو باقاعدہ موجود ہوتے تھے مگر دھیان اس طرح پڑھائی کی طرف نہیں ہوتا تھا
جیسا کہ ہونا چاہیے- ہماری بیوقوفی اس وقت عروج پر تھی اور ہم میں سے ہر
کوئی یہ ہی سمجھتا تھا کہ یہاں سے نکلتے ہی ایک اچھا مستقبل اس کا انتظار
کر رہا ہوگا-
اظہر انتہائی خوش شکل اور گورا چٹا کشمیری لڑکا تھا- اس کو باڈی بلڈنگ سے
بھی دلچسپی تھی ، وہ
باقائدگی سے ورزش کرتا تھا اور لباس ایسا پہنتا تھا جس سے اس کا ورزشی جسم
نمایاں ہوجاتا تھا اس لیے وہ اور بھی خوبصورت نظر آتا تھا- کالج کی یوں تو
اکثر لڑکیاں اس کے لیے دل میں نرم گوشہ رکھتی تھیں، مگر خود اس کا جھکاؤ
تابندہ نامی لڑکی کی طرف تھا- وہ کسی امیر باپ کی بیٹی تھی اور ہماری ہی
کلاس میں تھی اور اس کا شمار بلا شبہ کالج کی حسین ترین لڑکیوں میں ہوتا
تھا-
دو ماہ بھی نہیں گزرے تھے کہ اظہر اور تابندہ میں جان پہچان ہوگئی- اس جان
پہچان کو پیدا کرنے کے لیے اظہر کو بہت پاپڑ بیلنا پڑے تھے- یہ اس کی
کوششوں کا ہی نتیجہ تھا کہ وہ تابندہ کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب ہو
گیا تھا- اس میں اس کی شرافت اور اچھے کردار کا بھی حصہ تھا-
دوستوں سے کوئی بات چھپانا تو گناہ میں شمار ہوتا ہے، خود کو اس گناہ سے
بچانے کے لیے اظہر نے
ہمیں بتا دیا کہ اسے تابندہ سے محبّت ہوگئی ہے اور وہ اس کے بغیر زندہ نہیں
رہ سکے گا-
ہمارے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ وہ تابندہ کو رام کر چکا
ہوگا- وہ پورے کالج میں
اس حوالے سے مشہور تھی کہ ناک پر مکّھی تک نہیں بیٹھنے دیتی ہے- اس کی بات
سن کر پروفیسر نے کہا- "یہ بات ہمیں کیوں بتا رہے ہو، اس کو بتاؤ جس کو
بتانا چاہیے-"
"اس کو میں بتا چکا ہوں-" اظہر نے کہا-
"پھر اس نے کیا کہا؟" میں نے پوچھا-
"کہہ رہی تھی کہ اگر تم ہی زندہ نہیں رہے تو میرے جینے کا کیا فائدہ-" اظہر
نے بتایا-
ہم بقیہ پانچوں استہفامیہ نظروں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے- بات کچھ
سمجھ میں
نہیں آئ تھی- پروفیسر نے سر کھجا کر قدرے حیرت سے کہا- "اس نے سیدھا سیدھا
یوں کیوں نہیں کہا کہ وہ بھی تمھارے بغیر زندہ نہیں رہے گی"-
"اس کی بات کا مطلب ہی یہ نکل رہا تھا اس لیے میں نے بحث کرنا مناسب نہیں
سمجھا- شادی سے پہلے یوں بھی لڑکیوں سے بحث وغیرہ کرنا اچھا کام نہیں، یہ
نیک شگون نہیں ہوتا اور سنا ہے محبّت میں دراڑیں بھی پڑ جاتی ہیں- بحث اور
تکرار وغیرہ تو شادی کے بعد کی چیزیں ہوتی ہیں-" اظہر بولا-
زاہد نے کہا- "قد تو خیر تمہارا بالشت بھر سے نکل گیا ہے اس لیے میں تمہیں
بالشت بھر کے چھوکرے کہہ کر مخاطب نہیں کروں گا- مگر فرسٹ ایئر میں آئے ہوۓ
تمہیں جمعہ جمعہ آٹھ دن بھی نہیں ہوۓ ہیں اور تم نے آتے کے ساتھ ہی پیار
محبّت کی باتیں شروع کردیں- پڑھنے لکھنے کی طرف دھیان دو- ان لڑکیوں کو تم
نہیں جانتے- خود تو پڑھائی لکھائی میں لگی رہتی ہیں، مگر ان کی وجہ سے
لڑکوں کو ایک ایک کلاس میں دو دو سال لگانا پڑ جاتے ہیں-"
"تابندہ ان لڑکیوں میں سے نہیں ہے-" اظہر نے بڑی سادگی سے کہا- "وہ نہ خود
پڑھتی ہے اور نہ مجھے پڑھنے دیتی ہے-" بات ہنسی میں آئ گئی ہوگئی- ہم سب
بہرحال خوش تھے- اظہر اور تابندہ کی جوڑی واقعی بہت خوب تھی-
کالج سے نکل کر میں نے تو امی کے کہنے پر یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا- زاہد
اور کلیم نے اپنے
باپوں کے کاروبار میں ہاتھ بٹانا شروع کردیا- راحت کسی جان پہچان والے کی
مدد سے دبئی چلا گیا اور وہاں جا کر سیٹ ہوگیا- اظہر کے بارے میں مجھے کچھ
پتہ نہ چل سکا کہ وہ کہاں ہے اور کیا کر رہا ہے- پتہ تو مجھے پروفیسر کے
متعلق بھی کچھ نہیں تھا مگر اب جب وہ مجھے سپر مارکیٹ میں اچانک ملا تو میں
نے سوچا کہ اگلی ملاقات پر تفصیل سے پوچھوں گا کہ وہ کیا کر رہا ہے-
بعد میں مجھے پتہ چلا کہ پروفیسر نے سائیکولوجی میں ماسٹر کر لیا تھا اور
اپنا ایک نفسیاتی کلینک کھول لیا تھا- اس کا رحجان شروع ہی سے نفسیات کی
طرف تھا- وہ کہتا تھا کہ انسان کی تمام منفی سرگرمیوں کا محرک ایک بیمار
ذہن ہوتا ہے- انسان میں موجود اشتعال، لالچ، غیر اخلاقی اور غیر قانونی کام
کرنے کی خواہش اور دوسری بے شمار برائیاں ذہن کو درست سمت میں لا کر ختم کی
جاسکتی ہیں- اس بارے میں اس کا مطالعہ بھی بہت وسیع تھا- اس کا خیال تھا کہ
مختلف محرکات اور خاص طور سے الیکٹرانک میڈیا کی بے تحاشہ اور نا قابل یقین
ترقی اور غیر یقینی معاشی حالات کی وجہ سے حالیہ سالوں میں ذہنی امراض میں
تیزی سے اضافہ ہوا تھا- نوجوانوں کی اکثریت رات بھر جاگو اور دن بھر سوو
والی پالیسی پر گامزن رہنے لگی تھی- رات بھر جاگنا کسی مقصد کے لیے ہو تو
اچھی بات ہوتی ہے، لیکن رات رات بھر جاگ کر بے معنی فلمیں دیکھنا اور مختلف
موبائل کمپنیوں کے کال پیکجز کا فائدہ اٹھاتے ہوۓ صنف مخالف سے رات رات بھر
گفتگو کرنا کسی طرح بھی صحت مند ذہن کی عکاسی نہیں کرتا- اس غیر فطری عمل
نے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کو ذہنی انتشار میں مبتلا کر دیا ہے جس کی
وجہ سے یہ لوگ یاسیت اور غیر یقینی کا شکار ہونے لگے ہیں- اس کے علاوہ
معاشرے میں موجود افراد کا غیرت کے نام پر قتل، چھوٹے چھوٹے بچوں اور بچیوں
سے زیادتی اور پھر ان کا بے دردی سے قتل، چھوٹی بڑی معاشرتی برائیوں میں حد
درجہ مبتلا ہونا، اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی میں سستی اور کاہلی، آس پاس
کے لوگوں سے بد اخلاقی سے پیش آنا اور ذرا ذرا سی بات پر طیش میں آجانا،
اپنے موجودہ حالات پر کڑھتے رہنا اور شکر نہ کرنا، یہ تمام چیزیں ذہنی
امراض کے زمرے میں ہی آتی ہیں-
یہ بھی بدقسمتی کی بات ہے کہ ان برائیوں میں مبتلا لوگ خود کو بیمار ہی
نہیں سمجھتے- جو ذرا بھی شعور والے ہیں وہ ابتدا ہی میں اس کے علاج کی طرف
توجہ دیتے ہیں اور کسی نفسیات داں سے رابطہ کرتے ہیں- ان ہی ابتدا میں توجہ
دینے والے لوگوں کی وجہ سے پروفیسر کا نفسیاتی کلینک خوب چل رہا تھا اور
صبح سے شام تک وہ مصروف ہی رہتا تھا-
ایک روز پروفیسر کا فون آگیا- اس نے مجھے اپنے آفس میں بلایا تھا اور کہا
تھا کہ میں جلدی
پہنچوں وہ انتظار کر رہا ہے- اس نے یہ اطلاع بھی دی کہ اظہر بھی اس کے پاس
بیٹھا ہے- یہ سن کر مجھے بہت خوشی ہوئی کہ اظہر بھی اس کے ساتھ ہے- شام
ہونے کو تھی اور آفس سے چھٹی ہونے والی تھی- اس کا آفس دس بارہ کلو میٹر
دوری پر تھا- میں تقریباً آدھے گھنٹے بعد اس کے پاس تھا-
اس کا آفس دو بڑے اور ایک چھوٹے کمرے پر مشتمل تھا- چھٹی کا وقت ہوگیا تھا
اس لیے مجھے آفس کے عملے کا کوئی شخص وہاں نظر نہیں آیا- اظہر اس کے کمرے
میں موجود تھا- وہ ذرا بھی نہیں بدلا تھا، ویسے کا ویسے ہی تھا- مجھے دیکھ
کر وہ بھی بہت خوش ہوا-
"اظہر تم یہاں کیسے؟" میں نے تھوڑی حیرت ظاہر کرتے ہوۓ پوچھا-
"بس اتفاق ہی تھا- فیس بک والوں کا بھلا ہو- ایک پوسٹ میں پروفیسر کا تذکرہ
پڑھ کر آگیا- کسی نے ان کی شان میں بہت قلابے ملا دیے تھے کہ نفسیاتی
بیماریوں کو دور کرنے میں ان کا جواب نہیں ہے- اگر مجھے پتہ ہوتا کہ یہ
اپنا پروفیسر ہے تو میں یہاں کبھی بھی نہ آتا"- اظہر نے مسکرا کر کہا-
"دھوکے تو تم زندگی بھر کھاتے آئے ہو- اگر اب بھی کھا لیا ہے تو کوئی بات
نہیں-" پروفیسر نے ہنس کر کہا- "شادی وادی کرلی- اس تابندہ کا کیا کیا حال
ہے؟"
"شادی بھی کرلی اور وہ بھی تابندہ ہی سے-" اظہر نے سنجیدہ ہو کر کہا-
"چلو کوئی ایک اچھی بات تو تم میں ہے کہ مستقل مزاج ہو"- میں نے گفتگو میں
دخل اندازی کرتے ہوۓ کہا- "ایسا کیا مسئلہ در پیش آگیا کہ تمہیں ماہر
نفسیات کے پاس آنا پڑ گیا ہے- برا مت ماننا یہ میری اپنی ذاتی رائے ہے کہ
خوبصورت بیویاں بھی بذات خود ایک بڑا مسئلہ ہوتی ہیں- آدمی کا دھیان ہر وقت
ان میں ہی پڑا رہتا ہے اور اس طرح بے چارہ خود کو بیماری لگا لیتا ہے- تم
نے کونسی بیماری لگا لی ہے؟"
"اپنی بیماری کو میں ہر ایک سے شئیر نہیں کر سکتا- سوری-" اس نے دوسری طرف
دیکھتے ہوۓ کہا-
"ٹھیک ہے میں باہر چلا جاتا ہوں- تم پروفیسر سے بات کرلو-" میں نے ہنس کر
کہا اور اٹھنے لگا-
یہ سن کر اظہر نے کہا- "نہیں – نہیں تم بیٹھو- میں جس بات سے پریشان ہوں،
ہر ایک سے اس کا تذکرہ کرتے ہوۓ مجھے شرم آتی ہے- کوئی سنے تو نہ جانے کیا
سوچے-"
اس کی بات سن کر میرا تجسس بڑھ گیا تھا- وہ کونسی بات ہے جس کی وجہ سے اظہر
جیسا خوش باش
اور ہر وقت ہنستا کھیلتا شخص بھی پریشان ہوگیا ہے-
پروفیسر میری حیرانی بھانپ گیا تھا- وہ اظہر سے بولا- "دوستوں سے کیا شرم-
تم اپنا مسلہ بیان کرو- تم بھی جانتے ہو جسم کی ہر بیماری کا تعلق ذہن سے
ہوتا ہے- بعض الجھنیں اور پریشانیاں جنہیں ہم بہت سیریس لیتے ہیں محض
مشوروں پر عمل کرنے سے ہی ٹھیک ہوجاتی ہیں، بس ذہن کو ٹھیک طرح ترغیب دینے
کی ضرورت ہوتی ہے اور نفسیات کے علم میں اس کے بہت سے طریقے موجود ہیں- تم
بے دھڑک ہو کر اظہار کر دو-"
"تابندہ ایک مثالی بیوی ہے-" اظہر نے کہنا شروع کیا- "مگر جانے مجھے کیا
ہوگیا ہے کہ میں اس سے سے دور ہوتا جا رہا ہوں- مجھے احساس ہونے لگا ہے کہ
اب وہ مجھے اتنی اچھی نہیں لگتی جیسے پہلے لگتی تھی- اس بات کی وجہ سے میں
بہت پریشان ہوں- یہ ہے میری وہ نفسیاتی بیماری جس کی وجہ سے مجھے تمہارے
پاس آنا پڑا ہے-" اس نے دل کی بات کہہ ہی دی-
اس کی بات سن کر میں کھڑا ہوا اور پروفیسر کی طرف ہاتھ بڑھا کر بولا- "مجھے
تو اجازت دو-
اظہر نے سارے سسپنس کی ایسی کی تیسی کردی ہے- دنیا کے بیشتر شادی شدہ مردوں
کو شادی کے کچھ عرصے بعد ہی اپنی بیویاں اچھی نہیں لگتیں- اس کا یہ مطلب تو
نہیں کہ انھیں کوئی نفسیاتی بیماری ہوگئی ہے-"
"میں تو اسے بیماری ہی کہوں گا- دیکھو نہ ایک ایسی عورت جس سے نہ تمہیں
کوئی شکوہ ہے نہ
شکایت ہے- وہ تمہارا پورا گھر سنبھال کر بیٹھی ہے ، تمہارے حد سے زیادہ
شیطان بچوں کی پرورش کر رہی ہے، پھر بھی تمہیں اچھی نہیں لگ رہی- یہ ذہنی
بیماری ہوئی کہ نہیں؟" اظہر نے پروفیسر کو پر امید نظروں سے دیکھتے ہوۓ کہا
جیسے وہ اس کی بات کی تائید کرے گا-
"بیٹھو- بیٹھو- کیس دلچسپ ہے- میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ شادی کے
بعد بیوی اچھی نہ لگنا واقعی اگر کوئی بیماری ہے تو یہ بہت سے مردوں کو
ہوجاتی ہے- اس کی کئی نفسیاتی وجوہات ہوسکتی ہیں- لیکن یہ بات طے ہے کہ
بیوی اچھی نہ لگنے کا یہ مطلب نہیں کہ آپ کو اس سے نفرت ہے-" پروفیسر نے
کہا-
"ڈاکٹر میں ٹھیک تو ہوجاؤں گا نا؟" اظہر نے گھبرا کر پوچھا-
"کیوں نہیں- اس کا انحصار تمہارے اپنے ذہن پر ہے کہ وہ چیزوں کو کس حد تک
مثبت انداز میں لیتا ہے- مجھے یاد ہے کہ کالج کے زمانے میں تم تابندہ بھابی
کے لیے کیسے بے تاب پھرتے تھے- مجھے نہیں پتہ لیکن اندازہ ہے کہ اس سے شادی
کے لیے تمہیں بہت پاپڑ بیلنا پڑے ہونگے- وہ کسی اور کمیونٹی کی تھی شائد
میمن تھی، تم کشمیری تھے- آسانی سے تو شادی ہو نہیں گئی ہوگی-" پروفیسر نے
سنجیدگی سے کہا-
"رشتہ طے کرتے ہوۓ مشکلات تو بہت پیش آئ تھیں- اس کے گھر والے بہت اڑیل پن
دکھا رہے تھے-" اظہر نے اعتراف کیا-
"ان تمام باتوں کے باوجود تمھاری بیوی نے تمہارا ساتھ دیا- اگر وہ گھر
والوں کے دباؤ میں آجاتی تو یہ شادی تو ہو ہی نہیں سکتی تھی- اس نے بہت ہمت
دکھائی-" پروفیسر نے کہا-
"مجھے اس کا اعتراف ہے- اس نے میرا بہت ساتھ دیا تھا-" اظہر نے سر ہلا کر
کہا- لیکن اس کی تمام اچھی باتوں کے باوجود ایک روز اچانک مجھے یہ احساس
ہوا کہ اب تابندہ مجھے اتنی اچھی نہیں لگتی جیسے شادی سے پہلے لگتی تھی-
برسوں ہوگئے ہیں میں اس سے یہ کہنے کو ترس گیا ہوں کہ میں تم سے بے پناہ
محبّت کرتا ہوں- اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر بیٹھنے میں جو لطف مجھے
شادی سے پہلے آتا تھا وہ بیان سے باہر ہے- اب تو کبھی سڑک پار کرواتے ہوۓ
میں اس کا ہاتھ پکڑ لیتا ہوں، ویسےتو کبھی پکڑنے کا دل ہی نہیں چاہتا- اب
وہ کچھ بھی کرلے میرے منہ سے اس کے لیے تعریف کے دو لفظ بھی نہیں نکلتے- وہ
ایک بہت اچھی بہو، بہت اچھی بیوی اور بہت اچھی ماں ہے- ایک روز میں نے بقول
پروفیسر اپنی تحلیل نفسی کی تو میرے ذہن میں یہ بات آئ کہ بیوی کی حیثیت سے
یہ تمام چیزیں اس کے فرائض میں شامل ہیں تو پھر تعریف و توصیف کی کیا ضرورت
ہے- وہ اگر کبھی بن سنور کر میرے سامنے آ بھی جاتی ہے تو تب بھی میں منہ
میں انگوٹھا ڈال کر خاموش بیٹھا رہتا ہوں- ویسے تو تابندہ نے شادی سے پہلے
بھی اور شادی کے بعد بھی میرا بہت ساتھ دیا ہے- وہ میرا بہت خیال رکھتی ہے-
مجھے یاد نہیں کہ رات کا کھانا کبھی اس نے میرے بغیر کھایا ہو- مجھے آفس
میں دیر بھی ہوجائے اور میں دس بارہ بجے بھی گھر پہنچوں تو وہ بھوکی بیٹھی
رہتی ہے- اس کا دل رکھنے کے لیے میں دوبارہ تھوڑا بہت اس کے ساتھ کھا لیتا
ہوں- میں اگر سو رہا ہوں تو وہ بچوں کو میرے پاس بھی پھٹکنے نہیں دیتی، کہ
کہیں وہ شور مچا کر میری نیند نہ خراب کریں- گھر کے اخراجات بھی وہ بڑی
کفایت شعاری سے کرتی ہے-اس کی کیا کیا باتیں بتاؤں، سن سن کر تم دونوں مجھ
پر لعنتیں بھیجو گے-"
"ہم لعنتیں بھیجیں گے نہیں بلکہ بھیج رہے ہیں-" میں نے بڑی سچائی سے کہا-
"ویسے تو میں بھی بیوی پر جان چھڑکنے والا نہیں ہوں مگر اتنا کٹّر اور سخت
دل نہیں ہوں جتنا کہ تم ہو- کبھی کبھی تو اس کے لیے تعریف کے دو بول میرے
منہ سے نکل ہی جاتے ہیں-"
"تمہیں کب احساس ہوا تھا کہ وہ تمہیں اچھی نہیں نہیں لگ رہی ہے-" پروفیسر
نے سنجیدگی سے پوچھا-
" شادی کے بعد میرا ایک سال بہت اچھا گزرا تھا- میں آفس میں ہوتا تھا تو جی
چاہتا تھا کہ چھٹی کے بعد اڑ کر سیدھا گھر پہنچ جاؤں اور تابندہ کے ساتھ
وقت گزاروں- ہم دونوں جب بھی اکھٹے بیٹھتے تھے، کبھی خاموش نہیں رہتے تھے
ہر وقت ایک دوسرے سے باتیں کرتے رہتے تھے، فلموں کی باتیں، کتابوں کی
باتیں، گھومنے پھرنے کی باتیں- بس ایک موضوع ایسا ہوتا تھا جس پر ہم کبھی
گفتگو نہیں کرتے تھے- وہ تھی سیاست- محبّت کرنے والے لوگوں کا سیاست سے کیا
کام- پھر پہلے بچے کی پیدائش ہوجانے کے بعد مجھ میں تھوڑی سنجیدگی آگئی اس
کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ بچے کی آنے والی ذمے داریوں کا مجھے ادراک
ہوگیا تھا- پھر میرا دھیان بچے کی طرف بھی کچھ زیادہ ہوگیا- اس کے بعد
ہمارے دو بچے اور ہوگئے- میں ان میں ہی مگن رہنے لگا- تابندہ کی طرف سے
رفتہ رفتہ میرے رویے میں تبدیلی آتی جا رہی تھی- میری نظروں میں اب اس کی
وہ اہمیت اور محبّت جو پہلے تھی پتہ نہیں کیوں باقی نہیں رہ گئی تھی – اس
چیز کا مجھے احساس ہوا تو فکر بھی لگ گئی کیونکہ میں ایسا بنتا جا رہا تھا
جو میں بننا نہیں چاہتا تھا- میری محبّت میں وہ پہلے جیسی گرمجوشی بھی نہیں
رہی تھی- اس بات کا اس الله کی بندی نے کبھی شکوہ بھی نہیں کیا- وہ میری
سرد مہری کو دفتر کے زیادہ کام کے دباؤ کا نتیجہ سمجھتی تھی- وہ گھر کے
بکھیڑوں اور بچوں میں ہی مصروف رہتی-اس بات کا مجھے اعتراف ہے کہ تابندہ کے
رویے میں میں نے اب تک کوئی تبدیلی محسوس نہیں کی ہے-یہ جمود مجھ اکیلے پر
ہی طاری ہوگیا ہے- میری خواہش تو ہے کہ تابندہ کے لیے وہ ہی کالج والا اظہر
بن جاؤں مگر جانے کیوں اب میں وہ سب باتیں نہیں کر سکتا- حالانکہ میں کرنا
چاہتا ہوں-" یہ کہہ کر اظہر سر جھکا کر بیٹھ گیا-
پروفیسر اس کی باتیں بہت غور اور سنجیدگی سے سن رہا تھا- وہ خاموش ہوا تو
اس نے پوچھا- "غیر عورتوں کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے- انھیں تم کس نظر
سے دیکھتے ہو؟"
"دوسری تمام عورتیں مجھے ماں بہنوں جیسی لگتی ہیں-" اظہر نے فوراً ہی بڑی
صاف گوئی سے
جواب دیا-
پروفیسر بولا- "اظہر خوشی کی بات یہ ہے کہ تمہارا کیس سیدھا سادھا ہے-
تمہارے جیسے مردوں میں یہ بات ہوتی ہے کہ بہت تگ و دو کے بعد جب کوئی چیز
حاصل ہوجاتی ہے تو اس کے مل جانے کے بعد وہ اس چیز سے لاپرواہی اور بے
اعتنائی پرتنے لگتے ہیں، اس چیز کو تم ان کی فطرت بھی کہہ سکتے ہو- یہاں
میں ان نوجوانوں کی مثال دوں گا جب وہ بیسیوں جگہ انٹرویو دے کر اور جوتیاں
چٹخا چٹخا کر کسی جگہ نوکری حاصل کر لیتے ہیں تو تھوڑے ہی عرصے بعد ان کی
زبان پر شکوے اور شکایتیں آنے لگتی ہیں، آفس اچھا نہیں، ہے کام بہت زیادہ
ہے اور تنخواہ بہت کم ہے- وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ ان کو یہ جاب کتنی
جدوجہد کے بعد ملی تھی- شادی بیاہ گڈے گڑیا کا کھیل نہیں، پورے پورے خاندان
عرصے تک ایک شادی کے انتظامات میں لگے رہتے ہیں- کچھ مثالوں کو الگ کر کے
دیکھا جائے تو تمام شادیاں لڑکے اور لڑکیوں کی باہمی رضا مندی سے ہوتی ہیں
اور نکاح کے وقت تک دونوں بہت خوش ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے خیالات میں ہی
گم رہتے ہیں- ہونا تو یہ چاہیے کہ لڑکوں میں شادی سے پہلے کے جذبات او
خوشیاں پوری زندگی ایسی ہی ترو تازہ رہیں مگر نا شکرا پن انھیں ایسا کرنے
سے روکتا ہے- یہ ناشکرے پن کی ہی مثالیں ہیں، چاہے بیوی کے معاملے میں ہوں،
نوکری کے معاملے میں ہوں یا پھر کسی اور معاملے میں- ناشکرا پن بھی مینٹل
ڈس آرڈر کے زمرے میں آتا ہے اور کینسر سے زیادہ خطرناک ہے- اس کے اثرات سے
دوسرے بہت سارے لوگ بھی متاثر ہوتے ہیں- ایک گھر کا پورا ماحول متاثر ہوتا
ہے- گھر کے ایسے ماحول معاشروں میں بھی بڑی خرابیاں پیدا کرتے ہیں- اس بات
کا شکر کرو کہ بیویوں کی اکثریت اس نفسیاتی بیماری سے دور ہے اور صبر شکر
کر کے زندگی بھر ایک ہی مرد کے ساتھ ہنسی خوشی نباہ کر لیتی ہے- اگر ایسا
نہ ہوتا تو ہر گھر میں آئے روز جھگڑے ہوتے نظر آتے- برا لگے تو برا مان
لینا، میرا مشوره ہے کہ ناشکرا پن چھوڑ دو-"
پروفیسر کی باتیں سن کر اظہر کی آنکھیں سوچ میں ڈوب گئیں- میں نے گفتگو میں
حصہ لیتے ہوۓ کہا- "پروفیسر تمھاری بات درست ہوسکتی ہے- مگر بیویوں کی طرف
داری میں تم ان کی بہت سی وہ بری حرکتیں بھول رہے ہو جن کی وجہ سے شوہر ان
سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں- ان کی بد زبانی، سہل پسندی، گھر کے کاموں سے
لاپرواہی، شوہر کے رشتے داروں سے برا سلوک، میکے میں شوہر کی ایک ایک کی دو
دو لگانا، ان چیزوں کو کن خانوں میں فٹ کرو گے-"
"تمھاری بات درست ہے- کچھ کیسوں میں ایسا بھی ہوتا ہے- اکثر بیویاں تربیت
کی کمی اور اپنی ناسمجھی کی وجہ سے وہ حرکتیں کرتی ہیں جو شوہر کو پسند
نہیں آتیں- کچھ شوہروں کی بیویوں سے بدکنے کی دوسری وجوہات بھی ہوتی ہیں-
بدقسمتی سے ہم اس معاشرے میں رہتے ہیں جہاں بیوی کے علاوہ دوسرے رشتوں سے
محبّت کا اظہار اور اچھے سلوک کو تو بہت اچھا سمجھا جاتا ہے اور فخر کی بات
تصور کی جاتی ہے، مگر یہ ہی محبّت اور اچھا سلوک اگر بیوی کے ساتھ کیا جائے
تو شوہر کو طرح طرح کے نام دے دیے جاتے ہیں- بعض قریبی رشتے دار تو ایسے
شوہروں کو سخت تنقید کا نشانہ بھی بنانے لگتے ہیں- شادی سے پہلے اگر لڑکا
گھر کی صفائی ستھرائی سے لے کر دوسرے تمام کاموں میں اپنے گھر والوں کا
ہاتھ بٹائے تو سعادتمند کہلاتا ہے، اور اس کی تربیت پر سب عش عش کرتے ہیں-
شادی کے بعد اگر وہ یہ ہی کام بیوی کے لیے کرے تو اسے عجیب عجیب غیر شائشتہ
ناموں سے پکارا جاتا ہے- یہ تمام باتیں اکثر لڑکوں کے لا شعور میں بیٹھتی
جاتی ہیں- وہ سمجھنے لگتے ہیں کہ اگر ان کا رویہ دوسرے رشتے داروں سے اچھا
ہوگا تو ان کی ہر طرف واہ واہ ہو جائے گی اور لوگ تعریفوں کے ڈونگرے
برسائیں گے- لیکن اگر ان کا رویہ بیوی کے ساتھ اچھا ہوا تو سب لوگ ان پر
انگلیاں اٹھائیں گے اور ان کے غیر مناسب نام رکھیں گے- یہ ایک بہت بڑی
حقیقت ہے کہ ہر شریف اور سیدھا سادہ آدمی اپنی بیوی کے ساتھ ہنسی خوشی اور
پیار محبّت سے رہنا چاہتا ہے مگر انگلیاں اٹھنے کی وجہ سے اور اپنی کم ہمتی
کی وجہ سے دبک جاتا ہے- میری نظر میں تو یہ دنیا کا واحد جائز اور نیک کام
ہے جسے اکثر لوگ بہ بانگ دہل کرتے ہوۓ جھجکتے ہیں- اس جھجھک کی وجہ سے ان
میں بد دلی پیدا ہوجاتی ہے- وہ حالانکہ اپنی بیوی کے ساتھ بہت گھل مل کر
رہنا چاہتے ہیں مگر دوسروں کے ڈر سے نہیں رہ سکتے- ان کے لاشعور میں یہ بات
بھی بیٹھ جاتی ہے کہ اگر وہ اپنی بیوی کے آگے پیچھے پھریں گے تو انھیں گھر
والوں اور اور دوسرے لوگوں کی تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا- ایسے لوگ گو مگو
کی حالت میں رہتے ہیں اور اس کشمکش کے نتیجے میں انھیں بیوی اچھی نہیں لگتی
کیونکہ اس طرح کے حالات کا ذمہ دار وہ اس بے چاری ہی کو سمجھتے ہیں- ایسے
لوگ اگر اسٹینڈ لے لیں، لوگوں کی پرواہ نہ کریں، بیویوں کے ساتھ ایک فطری
زندگی گزاریں تو اس مسلے پر قابو پایا جاسکتا ہے- حقیقت یہ ہے کہ ہر طرح کے
اچھے برے وقت میں، مشکل مالی حالات میں، بڑی سے بڑی جسمانی بیماری میں عملی
طور پر صرف بیوی ہی کام آتی ہے باقی لوگ تو محض دم دلاسے دے کر ادھر ادھر
ہو جاتے ہیں- لیکن چونکہ ہم اظہر کے حوالے سے بات کر رہے ہیں اور اس کی
بیوی اس قسم کی نہیں ہے اس لیے دوسرے کیس خارج از بحث ہیں- اظہر کا تو
معاملہ ہی دوسرا ہے-" پروفیسر نے کہا-
"اس کا کوئی حل؟" اظہر نے پوچھا-
پروفیسر بولا- "میاں بیویوں کو حقیقی دوستوں کی طرح رہنا چاہیے- دوست جب
بھی ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو ان میں پہلے جیسی محبّت ، بے تکلفی اور خلوص
ہوتا ہے- میاں بیوی ایک دوسرے کا لباس ہیں- ان کو ایک دوسرے سے پیار محبّت
اور اچھا سلوک کرتے ہوۓ کسی دوسرے کی پرواہ نہیں کرنا چاہیے- اس کے ساتھ
ساتھ انھیں اپنے ساتھ رہنے والے تمام لوگوں سے بھی بہت اچھا سلوک کرنا
چاہیے- تمہاری جیسی طبیعت والے شوہروں کو چاہیے کہ وہ کوشش کر کے اپنے رویے
میں مثبت تبدیلی لائیں- پیار محبّت کا اظہار، کسی کے معمولی اچھے کام کی
بھی تعریف کرنا یہ خوبیاں انسانی فطرت میں شامل ہیں، خود پر مصنوعی پن طاری
کر کےان فطری نعمتوں سے بغاوت نہ کریں- اپنی کردار سازی پر توجہ دیں اور
ہمت سے کام لیتے ہوۓ دنیا کی باتوں کی فکر چھوڑیں کہ دنیا کیا کہے گی اور
بیویوں کے ساتھ اسی طریقے سے رہیں جیسا ان کے ساتھ رہنے کا حق ہے- بیوی میں
اگر تھوڑی بہت خامیاں ہوں بھی تو انھیں نظر انداز کرنے میں کوئی حرج نہیں-
خاوند کا محبّت بھرا رویہ بہت جلد ان میں مثبت تبدیلیاں بھی لے آتا ہے- اگر
ایسے لوگ یہ نہ کر سکیں تو پھر انھیں چاہیے کہ بیوی اگر اچھی نہ بھی لگتی
ہو تو خاموشی سے اپنے کام سے کام رکھیں- دنیا میں موجود شوہروں کی ایک بڑی
تعداد اسی بات پر عمل پیرا ہے اور بورنگ لائف گزارے جا رہی ہے- چلو اب
اٹھو- کہیں کھانا کھانے چلتے ہیں-"
"سوری پروفیسر- میں کھانے پر تمہارے ساتھ نہیں جا سکوں گا- میں تو اب سیدھا
گھر جانا چاہتا ہوں- گھر جاتے کے ساتھ ہی میں بیوی کو ہگ کروں گا اور اس کی
گردن کا بوسہ لے کر ایک تیس بتیس سال کی خاتون کو شرماتا دیکھ کر ازدواجی
زندگی کا حقیقی لطف اٹھاؤں گا- تمہارے مشورے کا شکریہ-"
اس کی بات سن کر پروفیسر نے ہنستے ہوۓ کہا- "میرا تو ایک اور بھی مشوره ہے
کہ نکاح نامے پر دستخط کرتے ہوۓ بیوی کے بارے میں جو محبّت اس وقت دل میں
موجزن ہوتی ہے، کوشش کر کے اسے زندگی بھر ویسا ہی رکھنا چاہیے- اس فارمولے
پر عمل کرلیا تو بیوی کبھی بھی بری نہیں لگے گی-"
(ختم شد)
|