حکومت خود ساختہ مہنگائی کا نوٹس لے

ہر چیز کا کوئی نہ کوئی نظم و ضبط ہوتا ہے کوئی حد مقرر ہوتی ہے خاص طور پر مہنگائی کے حوالے سے تو یہ بات طے ہے کہ حکومت نے تمام اشیاء کے سرکاری نرخ مقرر کر رکھے ہیں جب تک گورنمنٹ کی طرف سے قیمتوں کے بڑھنے یا کم کرنے کا کوئی باقاعدہ نوٹیفیکیشن جاری نہیں کیا جاتا ہے اس وقت تک کوئی بھی دکاندار کسی بھی چیز کی قیمت میں اضافہ نہیں کر سکتا ہے اور نہ ہی کسی کو یہ اختیار ہے کہ متعلقہ اداروں کی اجازت کے بغیر قیمتوں میں خود سے اضافہ کر دے یا اپنی مرضی کی قیمت مقرر کر لے لیکن ہمارے ملک بدقسمتی سے سب کچھ الٹا چل رہا ہے جس کا جب جی چاہے قیمتیں بڑھا لے کوئی بھی پوچھنے والا نہیں ہے خود ساختہ مہنگائی عروج پر پہنچ چکی ہے دکانداروں نے اشیاء خورد و نوش کی قیمتوں میں 50سے 100 فیصد تک خود بخود اضافہ کر ڈالا ہے ضروریات زندگی کے سامان کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں ٹرانسپورٹرز نے کرائے بڑھا دیئے ہیں آئے روز سواروں اور کنڈیکٹرز حضرات میں لڑائی جھگڑے معمول بن چکے ہیں سیکریٹری ٹرانسپورٹ اتھارٹی خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں ان کے خلاف کوئی بھی ایکشن نہیں لے رہے ہیں دکاندار اپنی مرضی کا منافع کما رہے ہیں نان روٹی والوں نے قیمتیں بڑھا دی ہیں ہوٹلز پر کھانوں اور چاہے کے کپ کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا گیا ہے ریفریشمنٹ سنٹرز مالکان نے اشیائے خوردنوش کی قیمتوں میں اپنی مرضی کا اضافہ کر دیا ہے اور خوب کمائی حاصل کر رہے ہیں حجام مالکان نے بال کٹنگ اور شیو نگ کے نرخ بڑھا دیئے ہیں ٹیلرز حضرات نے کپڑوں کی سلائی کے نرخوں میں اضافہ کر دیا ہے ا روز مرہ استمعال کی ہر شے مہنگی کر دی گئی ہے اور یہ سب کچھ اس طرح دھڑلے سے کیا جا رہا ہے کہ جیسے یہ خود ہی ہر طریقے سے با اختیار ہیں کوئی ان کو پوچھنے والا نہیں ہے عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں عام آدمی کی زندگی عذاب بن چکی ہے دیہاڑی دار غریب مزدور جیتے جاگتے ہوے بھی مرا ہوا ہے متعلقہ تحصیلوں کے اسسٹنٹ کمشنرز صاحبان اور پرائس کنٹرول اتھارٹیز بلکل اس طرح خاموشی اختیار کیئے ہوئے ہیں جیسے ان کا کوئی وجود ہی موجود نہیں ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر غریب عوام اپنے دکھڑے کس کو سنائیں کس کے پاس فریاد لے کر جائیں حکومت بھی اس حوالے سے بلکل بھولی بنی ہوئی ہے جیسے اس کو کسی بات کا علم ہی نہیں ہے اور نہ ہی عوام کے ساتھ مہنگائی کے حوالے سے کی جانے والی زیادتی کے بارے میں معلوم ہے عوام کے ساتھ ہونے والی اس زیادتی کا تدارک کون کرے گا کیا عوام دکانداروں کے مرہون منت ہی رہیں گئے وہ جب چائیں ان پر زندگی کا گھیرا تنگ کر دیں حیرت کی بات یہ ہے کہ حکومتی وزیروں مشیروں کی طرف سے یہ بیانات بھی سامنے آ رہے ہیں کہ حکومت نے چینی کے علاوہ کسی چیز پر بھی ٹیکس نہیں لگایا ہے ا س کے باوجود بھی عوام پر مہنگائی کا یہ بم کیوں گر پڑا ہے ضروریات زندگی کی تمام چیزیں مہنگی کر دی گئی ہیں اور مہنگی بھی اس طرح کی گئی ہیں کہ حساب سے باہر حکومت ایسے افراد کے خلاف ایکشن کیوں نہیں لے رہی ہے جو اس خود ساختہ مہنگائی کے حوالے سے پیش پیش ہیں یا اس کا موجب بن رہے ہیں سرکاری نرخ مقرر ہیں ان سے تجاوز کی کسی میں بھی ہمت نہیں ہونی چاہیئے سرکاری نرخوں کی موجودگی میں بھی اگر کوئی ان میں اپنی مرضی کی ردو بدل کرلے تو یہ حکومت کیلیئے لمحہ فکریہ ہے حکومت کو چاہیئے کہ وہ فوری طور پر ایسے زمہ داروں کو ان کے کیفرکردارتک پہنچائے جو خود ساختہ مہنگائی کر کے حکومت کیلیئے بدنامی کا باعث بنے ہوئے ہیں اور عوام کیلیئے زہر قاتل بنے ہوئے ہیں عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے والوں کے خلاف فوری ایکشن ہونا چاہیئے عوام نے پاکستان تحریک انصاف پر اندھا اعتماد صرف اس بنیاد پر کیا تھا کہ پی ٹی آئی حکومت میں آنے کے بعد ان کے دکھوں کا مداوا بنے گی مگر حالات و واقعات سے یہ اندازہ ہو رہا ہے کہ عوام کی حکومت ان کیلیئے پریشانیوں میں اضافہ کا باعث بن رہی ہے اور حکومت شاید یہ بات بھول گئی ہے کہ اس کو کس نے اس مقام پر پہنچایا ہے سوچنے کی بات یہ ہے کہ حکومت اس وقت تک اس حوالے سے خاموش کیوں ہے کیا عوام یہ یقین کر لیں کہ انہوں نے پی ٹی آئی کو منتخب کر کے بہت بڑی غلطی کی ہے حکومت کو فوری طور پر اس حوالے سے ایکشن لینا ہو گا اور اپنے عوام کو یہ باور کرانا ہو گا کہ ان کی حکومت اپنے عوام کیلیئے بہتر پالیسیاں اپنائے گی اور عوام کیلیئے اذیت کا باعث بننے والے گرانفروشوں کو ان کے انجام تک پہنچائے گی کیوں کہ مہنگائی سے ہمیشہ غریب اور عام عوام ہی متاثر ہوا کرتی ہے بڑے اور امیر افراد اس کی زد میں نہیں آتے ہیں حکومت بڑھتی ہوئی مہنگائی کا فوری نوٹس لے اور انتظامیہ کو الرٹ کرے کہ وہ خود ساختہ مہنگائی کو کنٹرول کرنے میں اپنا کردار ادا کرے تا کہ عوام اپنے انتخاب پر پچھتانے سے باز رہیں

 

Muhammad Ashfaq
About the Author: Muhammad Ashfaq Read More Articles by Muhammad Ashfaq: 244 Articles with 144819 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.