عدلیہ کا مقام اور عزم بلند وبانگ ہی ہوتا ہے

نظرئیہ ضرورت جتنے اچھے طریقے سے عدلیہ نے عوام کو سکھایا ہے، اتنا تو اسٹیبلشمنٹ بھی نہ سکھا سکی۔اسی لئے ہمارے ملک میں بھی عدلیہ کی ضرورت مسلمہ ہے کیونکہ عدلیہ کا کام کوئی دوسرا نہیں کر سکتا ۔خصوصا جب کسی کاروائی کو آئین و قانون کے عین مطابق قرار دینے کا معاملہ ہو،جو کیا گیا ہو اسے انصاف اور صرف انصاف قرار دیا جانا مقصود ہو۔ظاہر ہے عدالت انصاف ہی کرتی ہے اور انصاف کے سوا کچھ نہیں کرتی۔عدالت جو کرتی ہے وہ انصاف ہی ہوتا ہے۔

ملک میں انصاف ہمہ وقت،وسیع پیمانے پر فراہم کرنے کا احساس اتنا گہر ا اور قوی ہے کہ انصاف کی فراہمی کو الگ الگ عنوانات میں بھی خصوصی طور پرقائم کیا گیا ہے۔ تاکہ ملک میں ہر طرف انصاف کا بول بالا رہے اور ہر طرف انصاف نظر آئے،انصاف کے سوا کچھ نظر نہ آئے۔ ایسا انصاف کہ عوام و خواص نظرئیہ ضرورت کے تقاضوں کے عین مطابق ، نئے پاکستان کی پرانی انتظامیہ کی بیعت کرنے پر مجبور ہو ہی جائیں۔ایسا کون بد بخت ہو گا کہ جو فرقہ وارانہ اور ادارہ جاتی تقدیس سے روگردانی کا تصور بھی کر سکے ؟

آزاد کشمیر کی عدلیہ کی تاریخ کے دومقدمات مشہور ہیں جس سے ناصرف آزاد کشمیر عدلیہ کے دائرہ کار کا احاطہ ہوتا ہے بلکہ آزاد کشمیر میںحکمرانی اور کمانڈ اور کنٹرول کی صورتحال بھی سامنے آتی ہے۔ ان میں سے ایک مقدمہ انوکھی نوعیت کا ہے کہ جس میں آزاد کشمیر کے اس وقت کے حاضر چیف جسٹس کو توہین عدالت کے الزام میں چھ ماہ قید کی سزا سنائی گئی اور چند دن جیل بھی رکھا گیا۔

جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء لگنے کے بعدپاکستان میںسیاسی انتقامی بنیادوں پر سرکاری کاروائیوں کا سلسلہ تیز ہوا تو آزاد کشمیر میں بھی پیپلز پارٹی کے رہنمائوں کے خلاف انتقامی بنیادوں پر مقدمے درج کئے گئے۔آزاد کشمیرہائیکورٹ کے چیف جسٹس ،جسٹس یوسف صراف نے ان سیاسی رہنمائوں کی طرف سے ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواستوں پرانہیں ایک ایک روپے کے ذاتی مچلکے پر رہا کر دیا۔جنرل ضیاء الحق اس جسارت پر غصے میں آگئے اور آزاد کشمیر میں متعین کئے گئے چیف ایگزیکٹیو حیات خان کو حکم دیا کہ '' فکس دیٹ چیف جسٹس''۔چیف جسٹس یوسف صراف کے خلاف ایک 'ٹی اے' بل میں ایک دن زائد لگائے جانے کی طرح کے الزامات میں مقدمہ چلایا گیا۔چیف جسٹس یوسف صراف نے مقدمے کی پیروی میں جارحانہ روئیہ اپنایاچناچہ انہیں توہین عدالت کے الزام میں چھ ماہ قید کی سزا کا حکم سنایا گیا اور فوری طور پر گرفتار کر کے میر پور جیل میں قید کر دیا گیا۔عالمی میڈیا میں یہ خبر مشتہر ہونے پر ضیا ء الحق نے چار پانچ دن بعد ہی اپنے ملٹری سیکرٹری کو بھیج کر جسٹس یوسف صراف کو جیل سے رہا کرادیا۔

دوسرا مقدمہ گلگت بلتستان پر آزاد کشمیر حکومت کے دائرہ اختیار سے متعلق تھا۔آزاد کشمیر حکومت کے ساتھ حکومت پاکستان کے '' معاہدہ کراچی'' کے تحت گلگت بلتستان کا انتظام حکومت پاکستان کو دیا گیا تھا۔ آزاد کشمیر ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عبدالمجید ملک نے مقدمے میں یہ قرار دیا کہ گلگت بلتستان متنازعہ ریاست جموں و کشمیر،آزاد کشمیر کا حصہ ہے اور آزاد کشمیر حکومت سے کہا گیا کہ گلگت بلتستان کا انتظام حاصل کرنے کے لئے حکومت پاکستان سے رجوع کیا جائے۔ اس فیصلے کے خلاف آزاد کشمیر حکومت کی اپیل پر آزاد کشمیر سپریم کورٹ نے حکومتی اپیل کے حق میں فیصلے دے دیا۔

مظفر آباد میں آزاد کشمیر سپریم کورٹ کے زیر اہتمام پہلی جوڈیشل کانفرنس منعقد ہوئی جس میں گلگت بلتستان کی سپریم ایپلٹ کورٹ کے چیف جج جسٹس ارشد حسین شاہ نے بھی شرکت کی۔ چیف جسٹس آزاد کشمیر سپریم کور ٹ(ایپلٹ کورٹ) جسٹس چودھری ابراہیم ضیاء نے عدلیہ ،انتظامیہ، بار ایسوسی ایشنز،قانون ساز اسمبلی، سیاسی رہنمائوں اور میڈیا کے لئے خود احتسابی کے عمل پر زور دیا اور کہا کہ معاشرے میں انصاف کا بول بالا کرنے کے لئے معاشرے،قوم اور ریاست کی بنیاد امانت،دیانت اور صداقت پر ہونا ضروری ہے۔ اانہوں نے کہا کہ ریاست کے لوگوں کا ہم پر قرض ہے ہم سب کو اپنا احتساب کرنا ہو گا کہ ہم نے غریب ،یتیم اور نادار لوگوں کے لیے کیا کچھ کیا ہے۔ انتظامیہ ، پولیس ، عدلیہ سمیت ریاست کے تمام اداروں کی ایک مشترکہ ورکشاپ کا انعقاد انتہائی ضروری ہے تاکہ ایک دوسرے کے مسائل سے آگاہی کے علاوہ آپس میں روابط بڑھ سکیں اور تمام ادارے ملکر باہمی ہم آہنگی سے ریاست اور عوام کی بہترانداز میں خدمت کر سکیں۔ عدلیہ کا اصل چہرہ ماتحت عدلیہ ہے ۔ماتحت عدلیہ سے لوگ براہ راست منسلک ہو تے ہیں۔ آزاد کشمیر کی ماتحت عدلیہ کی کارکردگی بہت بہتر ہے ۔ ضلعی عدلیہ کے مسائل حل کرنے کی بھرپور کوشش کرینگے ۔ عدلیہ میں مقدمات کو بروقت نمٹانے کیلئے انقلابی اقدامات کررہے ہیں تاکہ عام آدمی کو بروقت انصاف مل سکے ۔انہوں نے کہا کہ چیف جج گلگت بلتستان کی شرکت سے جوڈیشل کانفرنس کا تاریخی حیثیت ملی ہے،گلگت بلتستان اور کشمیر ایک ہیں اور ہمارے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں ۔

چیف جج گلگت بلتستان جسٹس ارشد حسین شاہ نے کہاکہ ہندوستان کی مقبوضہ کشمیر میں جاری جارحیت اور ظلم و ستم کو اجاگر کرنا وکلا کی بھی اہم ذمہ داری ہے ۔ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور کشمیریوں پر جاری ظلم و بربریت پر عالمی دنیا کی خاموشی لمحہ فکریہ ہے ۔ وکلا ، سول سوسائٹی اور حکومت ہندوستان کی مقبوضہ کشمیر میں جارحیت اور ظلم و ستم کو دنیا میں اجاگر کریں اور اقوام متحدہ اپنی قراردادوں پر عملدرآمد کو یقینی بنائے۔انہوںنے کہاکہ ایسا دن بھی آئے گا جب مقبوضہ کشمیر کے بھائیوں کے ساتھ ایک جگہ پر اکھٹے ہونگے ۔

آزاد کشمیر سپریم کورٹ کے جج جسٹس غلام مصطفی مغل نے نظام انصاف کی بہتری کیلئے جوڈیشل اکیڈمی کے قیام ، عدلیہ کے رہائشی اور مکانیت کیلئے فنڈز کا حصول، جوڈیشل پالیسی ساز کمیٹی ، فرانزک لیب ، کریمنل سول کورٹ، ماتحت عدلیہ کے سٹاف میں اضافے ، ججز چیمبر کیلئے زمین کے حصول کی سفارشات بھی پیش کیں اور کہا کہ ا ن میںمختلف مقررین کی تجاویز شامل کر کے حتمی شکل دی جائے گی۔جوڈیشل کانفرنس کے اختتام پر پاکستان کی سلامتی ، پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں شہید ہونے والے اور مقبوضہ کشمیر کے شہدا کے لیے دعا بھی کروائی گئی۔

آزاد کشمیر کے مختصر رقبے اور آبادی والے خطے میں ایک مکمل ریاست کا علامتی نظام کشمیر کاز کے حوالے سے ہی قائم ہے کہ جہاں اپنے پرچم،ترانے کے ساتھ صدر،وزیر اعظم،قانون ساز اسمبلی،ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ(ایپلٹ) کی صورت قائم ہے۔تاہم اس کے اختیارات کا دائرہ کار مقامی امور میں ہی محدود رکھا گیا ہے۔عبوری آئین 1974کے تحت ایسا کوئی تاثر بھی باقی نہیں رکھا گیا کہ آزاد کشمیر حکومت کسی بھی طور تحریک آزادی کشمیر ،تمام ریاست کی نمائندہ آزاد حکومت کے طور پر دیکھی جا سکے یا اس حوالے سے اپنا کردار ادا کر سکے۔

جوڈیشل کانفرنس میں عدلیہ کے رہائشی اور مکانیت کیلئے فنڈز کا حصول، جوڈیشل پالیسی ساز کمیٹی ، فرانزک لیب ، کریمنل سول کورٹ، ماتحت عدلیہ کے سٹاف میں اضافے ، ججز چیمبر کیلئے زمین کے حصول کی سفارشات سے واضح ہوا کہ آزاد کشمیر اسمبلی کی طرح آزاد کشمیر میں عدلیہ کوبھی مضبوط سے مضبوط ترا و رمستحکم کرنے کا عزم پایا جا تا ہے۔بلاشبہ آزاد کشمیر کے ہر سرکاری ادارے، محکمے کے لئے سب سے پہلے اپنے مفادات کو یقینی بنانا مقدم ہے اور یہ ناگزیر بھی ہے کہ تیزی سے بدلتے حالات و واقعات کے تناظر میں ا ن مراعات کے دائرہ کار اور مقدار میں مسلسل اور مناسب اضافے پر توجہ دی جائے۔

آزاد کشمیر کے قبیلائی اور علاقائی ازم کا میرٹ رکھنے والے خطے میں سرکاری محکموں،اداروں کا یہ ماٹو برحق ہے کہ ' 'اول خویش ،بعد درویش''۔اب یہ لازمی بات ہے کہ'' خویش'' کی خواہشات پر مبنی ضروریات پوری ہوں گی تو ہی'' درویش'' کی باری آ سکتی ہے۔ آزاد کشمیر کی پہلی جوڈیشل کانفرنس میں مقبوضہ کشمیر کے لئے نیک خواہشات پر مبنی دعائیں خوش آئند اور اہم ہیں کہ انصاف فراہم کرنے والوں کے فیصلوں ہی نہیں بلکہ ان کی دعائوں میں بھی خصوصی اثر ہوتا ہے۔
 

Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 777 Articles with 698684 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More