انڈونیشیا کے کوموڈو جزیرے پر حکمرانی کی جنگ

انڈونیشیا میں حکام کوموڈو جزیرہ ڈریگنز کو واپس کرنا چاہتے ہیں۔
 

image


وہ چاہتے ہیں کہ جزیرے کو سیاحوں کے لیے بند کر دیا جائے اور مقامی باشندوں کو وہاں سے نکال دیا جائے۔ یہ مقامی باشندے نسل در نسل اس جزیرے میں ان بڑی چھپکلیوں کے ساتھ رہتے آئے ہیں۔

گذشتہ کئی دہائیوں سے کوموڈو ڈریگنز دنیا کے لیے باعثِ دلچسپی رہے ہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی چھپکلیاں، جو اپنے نوکیلے دانتوں اور زہریلے ڈنگ کی وجہ سے مشہور ہیں، مشرقی انڈونیشیا کے اس چھوٹے سے خطے میں پائی جاتی ہیں۔ سیاح جوق در جوق ان کو دیکھنے آتے ہیں جبکہ کئی ڈراؤنی فلمیں ان چھپکلیوں سے متاثر ہو کر بنائی گئی ہیں۔

یہاں رہائش پذیر مقامی افراد کا ماننا ہے کہ ان کا ان چھپکلیوں سے جسمانی اور روحانی تعلق ہے تاہم انسانوں کا ان چھپکلیوں سے تعلق اب شاید بدلنے جا رہا ہے۔

انڈونیشیا میں اس علاقے کے گورنر وکٹر بنگٹیلو لیسکوڈاٹ کا کہنا ہے ’اس جزیرے کو کوموڈو جزیرہ کہا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس کو صرف کوموڈو ڈریگنز کے لیے وقف ہونا چاہیے نہ کہ انسانوں کے لیے۔ یہاں اب صرف جانوروں کے حقوق ہوں گے نہ کہ انسانوں کے۔‘
 

image


گورنر نے یونیسکو سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ سنہ 2020 میں وہاں موجود اپنی سائٹ ایک سال کے لیے بند کر دیں اور اس کے بعد جزیرے پر صرف چند دولت مند سیاحوں کے جانے کی جگہ بنائی جائے۔ گورنر یہ بھی چاہتے ہیں کہ جزیرے میں بسنے والے مقامی افراد ہمیشہ کے لیے وہاں سے چلے جائیں۔

گورنر کی جانب سے پیش کی گئی یہ تجویز فی الحال جکارتہ میں زیرِ غور ہے۔

ڈریگنز کو دیکھنے کے لیے آنے والے سیاحوں کی تعداد بہرحال اس وقت سے کافی زیادہ ہے جب گذشتہ صدی کے اوائل میں یورپ سے نئی جگہوں کو تلاش کرنے والے یہاں آئے تھے۔

جب ہم نے اس جگہ کا دورہ کیا تو ایک کثیر المنزلہ کشتی لو لیینگ نامی ساحل پر آ کر لنگر انداز ہوئی۔ اور جیسے ہی صبح سات بجے پارک کے دروازے کھولے گئے تو ہزاروں سیاح کوموڈو جزیرے میں داخل ہونا شروع ہو گئے۔

اور اس وقت جنگل میں سیاحوں کے ہجوم کو کنٹرول میں رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ سیاحوں کے ہر گروپ کو صرف پانچ منٹ دیے جاتے ہیں تاکہ وہ ندی کے قریب سستاتے کوموڈو ڈریگنز کا نظارہ کر سکیں۔ پانچ منٹ بعد انھیں آگے روانہ کر کے دوسرے گروپ کے لیے جگہ بنائی جاتی ہے۔

اس موقع پر ترکی سے آئی سیاح نیرِمن اتمان دم بخود ہو جاتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا ’یہ ناقابلِ یقین حد تک خوبصورت ہیں، مگر ڈرا دینے والے بھی۔ میں اس بات کا یقین نہیں کرتی تھی کہ ڈریگنز اپنا وجود رکھتے ہیں لیکن یہ سچ ہے!‘

جکارتہ اس مسحور کر دینے والے جزیرے کو بہت زیادہ فروغ دے رہا ہے اور یہاں سیاحوں کی بڑھتی تعداد کے مدِنظر عمارتیں اور دیگر سہولیات بھی تعمیر کی جا رہی ہیں۔

کوموڈو نیشنل پارک انڈونیشیا میں پائے جانے والے جزائر میں سب سے غریب خطے میں واقع ہے اور سیاحوں سے آنے والی آمدن اس جگہ کی تقدیر بدل سکتی ہے۔

آنے والی اس تبدیلی کے پیشِ نظر کئی لوگ یہاں نوکری اور دوسرے مواقع کے لیے آ رہے ہیں۔ ٹور گائیڈ ٹیسا سیپتینی اندرا کہتی ہیں ’یہ جگہ ترقی کی جانب گامزن ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اب یہاں لامحدود مواقع موجود ہیں۔‘

تاہم یہاں جو کچھ ہونے جا رہا ہے گورنر اس سے متاثر نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے ’کوموڈو کو تحفظ نہیں دیا جا رہا۔‘

’بہت سے لوگ یہاں آ رہے ہیں۔ وہ یہاں آنے کے لیے کچھ زیادہ قیمت ادا نہیں کر رہے ہیں اور اس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں ہر کوئی داخل ہو سکتا ہے۔‘

اور ان کا اس جگہ کے حوالے سے جو نیا پلان ہے اس کے تحت زیادہ قیمت ملے گی۔

وہ کہتے ہیں ’لوگوں کو کوموڈو نیشنل پارک کا ممبر بننا ہو گا اور اس جگہ داخلے کے لیے انھیں سالانہ 1000 ڈالر ادا کرنا ہوں گے۔ میرے خیال میں یہ بھی سستا ہے۔ اس طرح اگر ہم 50 ہزار لوگوں کو یہاں داخل ہونے کی اجازت دیں گے تو سالانہ پانچ کروڑ ڈالر کما سکتے ہیں۔‘
 

image


آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر ٹم جیسوپ نے ان جزائر پر برسوں کوموڈوز پر تحقیق کی ہے۔ وہ اس بات سے متفق ہیں کہ سیاحت ایک ملی جلی نوعیت کی نعمت ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ سیاحوں کو یہاں لانے اور واپس لے جانے والی کشتیوں کی تعداد بڑھ رہی ہے اور اس پر سوار لوگوں کی جانب سے پھینکا جانے والا پلاسٹک پر مشتمل کچرا آبی حیات کو متاثر کر رہا ہے۔

ڈاکٹر ٹم عرصہ دراز سے اس علاقے میں سیاحت کی صنعت کو منظم کرنے کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں۔ وہ گیلاپیگاس جزائر کی مثال دیتے ہیں جہاں سیاحوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد کو محدود کر دیا گیا ہے اور ان کے مطابق یہ ایک اچھا ماڈل ہو سکتا ہے۔

ڈاکٹر ٹم کہتے ہیں کہ سیاحوں کا کوموڈوز کے زیر استعمال علاقے پر اثر بہت محدود ہوتا ہے۔

’وہاں جانے والے سیاح ڈھلوانی زمین پر چلتے ہیں اور یہ کوموڈو نیشنل پارک کا صرف تین سے چار فیصد بنتا ہے۔ 90 فیصد سیاح یہاں جاتے ہیں۔‘

زیادہ تر کوموڈو ڈریگنز ان کے نام پر رکھے گئے کوموڈو جزیرے پر رہتے ہیں۔ درحقیقت کوموڈو نیشنل پارک میں 20 سے زیادہ جزائر ہیں۔ ڈریگنز کی ایک بڑی تعداد رینسا جزیرے پر آباد ہے۔
 

image


ڈاکٹر ٹم سنہ 2002 سے نیشنل پارک انتظامیہ سے مل کر کوموڈو کی آبادی کا جائزہ لے رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ گورنر کا اس حوالے سے ایک اور خدشہ، کوموڈو کا سب سے بڑا شکار یعنی ہرن بھی اس وجہ سے خطرات سے دوچار ہے، بھی حقائق کے برعکس ہے۔

’رینجرز کا یہ کہنا درست ہے کہ یہ ایک وسیع رقبے پر پھیلا ہوا بڑا نیشنل پارک ہے، اس کے کچھ علاقے بالکل محفوظ جبکہ کچھ غیر محفوظ ہیں۔ اور یہاں جانوروں کا غیر قانونی شکار بھی نہیں ہو رہا جس کا اثر (ہرنوں) کی آبادی پر پڑے جو کوموڈو ڈریگنز کو متاثر کر سکے۔‘
 

image

 

image


پارک رینجر سٹیفینوس جالک بھی اس بات سے متفق ہیں کہ اب ہرن زیادہ محفوظ ہیں۔

’مقامی افراد کو بات سمجھ آ گئی ہے اور اب ہرن کا شکار بہت کم ہو چکا ہے۔ تاہم دوسرے مواقع پر ہمیں پولیس اور فوج کے ساتھ مل کر اسے روکنا پڑتا ہے۔‘

کوموڈو نامی گاؤں جو ساحل کے ساتھ واقع جھونپڑوں پر مشتمل ایک چھوٹی سی آبادی ہوتی تھی اب دو ہزار افراد پر مشتمل ہے۔

یہاں سیاحوں کے لیے گیسٹ ہاؤس تعمیر ہو چکے ہیں۔ جنریٹرز کی بدولت اب رات کو یہاں بجلی مہیا کی جاتی ہے اور چھوٹی دکانوں سے آنے والا پلاسٹک کا کچرا ساحل پر پھیلا دیکھا جا سکتا ہے۔

کوموڈو جزیرے پر آباد 70 فیصد لوگوں کا ذریعہ معاش سیاحت سے جڑا ہے اور یہ خیال کے یہاں آنے والوں کی تعداد کو محدود کر دینا ان کے لیے تباہ کن ہے۔
 

image


مقامی مارکیٹ میں سٹال چلانے والی خاتون نور بھی اس خیال سے پریشان ہیں کہ مستقبل میں کیا ہو گا۔

وہ کہتی ہیں کہ مقامی دیہاتی اب اپنے پرانے طرز زندگی کے تحت زندگی نہیں بسر کر سکتے۔

’اب ہمارے پاس مچھلی کے شکار کے لیے استعمال ہونے والی کشتیاں نہیں ہیں۔ ہم زمینی شکار بھی نہیں کر سکتے اور ہمارے پاس زمین بھی نہیں ہے۔‘

مقامی گائیڈ عبدالغفور قاسم کا کہنا تھا کہ اگر اب لوگوں کو واپس اس طرز زندگی کی جانب دھکیلا گیا تو ماحول پر اس کا بہت برا اثر ہو گا۔

’یہ سب دیہاتیوں کو مجبور کرے گا کہ وہ پھر سے سمندر کا رخ کریں اور مچھلی کے شکار کے لیے بم کا طریقہ استعمال کریں جو کہ نیشنل پارک کی آبی حیات کو تباہ کر دے گا۔ دوسری صورت یہ ہے کہ دیہاتی واپس جنگل کا رخ کریں گے اور غیر قانونی طور پر درختوں کی کٹائی کریں گے۔‘

image


گورنر کے منصوبے کی وجہ سے جزیرے پر بسنے والے افراد خوف زدہ ہیں۔

17 سالہ روسا سپہیرا کا کہنا ہے ’ہم اس علاقے سے نہیں جانا چاہتے۔ ہم کوموڈو کی قدرتی زندگی میں خلل نہیں ڈال رہے۔‘

’یہاں کوموڈوز اور انسان مل جل کر رہتے ہیں۔ ہم گورنر کے ساتھ مل کر کوموڈوز کی بہتر حفاظت کے حوالے سے کام کر سکتے ہیں۔ ہمیں یہاں سے جانے کی ضرورت نہیں ہے۔‘

تحقیق کرنے والے ڈاکٹر ٹم بھی متفق ہیں کہ جزیرے پر بسنے والے مقامی افراد کسی طرح کا خطرہ نہیں ہیں۔

’میں گذشتہ برسوں میں کوموڈو نیشنل پارک میں ہزاروں کلومیٹر کا سفر کر چکا ہوں۔ میں نے فیلڈ میں برسوں گزارے ہیں، اور مجھے لوگ درخت کاٹتے، شکار کرتے یا جنگل میں آگ لگاتے نظر نہیں آئے۔ میرے خیال میں مقامی افراد اپنے ماحول کی مناسب حد تک عزت کرتے ہیں۔‘

کوموڈو جزیرے پر بسنے والے افراد کا کہنا ہے کہ ان کی ڈریگنز کو عزت دینے کی ایک وجہ ڈریگن ملکہ کی کہانی بھی ہے۔

بہت سے انڈونیشین باشندوں کی طرح حاجی امین ایک اچھے مسلمان ہیں جو حج بھی کر چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کوموڈوز کے ساتھ مقامی افراد کے تعلق کی وجہ مذہب نہیں بلکہ تاریخ ہے۔

مقامی دیہاتی یہ کہانی سناتے ہیں کہ کوموڈو میں ایک ملکہ رہتی تھیں جن کو لوگ پتری ناگا یا ڈریگن ملکہ کہتے تھے۔ انھوں نے ناجو نامی ایک شخص سے شادی کی اور ان کے جڑواں بچے ہوئے، ایک لڑکا اور دوسرا بےبی ڈریگن۔
 

image


حاجی امین کا کہنا ہے ’جب وہ بڑے ہوئے تو لڑکے کا دل صرف کچا گوشت کھانے کو کرتا۔‘

’وہ پڑوسیوں کی مرغیاں پکڑتا اور انھیں کھا جاتا۔ وہاں بسنے والے اس بات سے ناراض ہو گئے۔ کہانی کے اختتام پر وہ لڑکا جنگل میں جا کر رہنے لگتا ہے۔ مگر وہ اپنی والدہ اور بھائی کو دیکھنے واپس گاؤں آتا ہے۔‘

اور یہی تعلق ہے جس کی وجہ سے مقامی افراد بڑی چھپکلیوں سے خوف نہیں کھاتے۔ اس کے باوجود کہ ان کے تیز دانت ہوتے ہیں اور ان کا زہریلا ڈنگ کسی کو بھی چند گھنٹوں کے اندر موت کی نیند سلا سکتا ہے۔ ان چھپکلیوں کا سائز 10 فٹ تک ہو سکتا ہے۔

حاجی امین کی بیوی اندروتی کو کبھی اس بات پر پریشانی لاحق نہیں ہوئی کہ ان کے بچے یا پوتا پوتی گھر سے باہر جنگل میں کھیل رہے ہیں۔

وہ کہتی ہیں ’میں ڈریگنز کی وجہ سے پریشان نہیں ہوتی۔ میں صرف بچوں کے سمندر میں نہانے سے پریشان ہوتی ہوں، وہ ڈوب سکتے ہیں۔‘

’اگر آپ جدی پشتی کوموڈو ہیں تو آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ (ڈریگنز) آپ کی زندگی میں خلل نہیں ڈالیں گے۔‘

اس حوالے سے کوئی سرکاری ریکارڈ موجود نہیں ہے کہ آج تک کوموڈو نیشنل پارک میں کوموڈو ڈریگن کے حملوں کی وجہ سے کتنی ہلاکتیں ہوئی ہیں یا کوئی زخمی ہوا ہے۔ تاہم حکام کا کہنا ہے کہ گذشتہ 10 برسوں میں ان کے علم میں صرف 15 حملے آئے ہیں جن میں ایک شدید نوعیت کا تھا۔

گورنر کا کہنا ہے کہ وہ بہت سدھائے جا چکے ہیں۔ ان کے ذہن میں مکمل پلان ہے کہ کوموڈو جزیرے کو کس طرح بدلا جا سکتا ہے۔

گورنر کہتے ہیں کہ جب لوگ یہاں آتے ہیں تو وہ سوچتے ہیں کہ یہ جنگل ہے۔
 

image


’ہم کوموڈوز کو حقیقت میں جنگلی بنانا چاہتے ہیں نا کہ سدھائے ہوئے جانور۔ لوگ یہاں آئیں گے اور کوموڈوز کو قدرتی ماحول میں دیکھیں گے اور اس وقت وہ بہت جنگلی اور خطرناک ہوں گے۔‘

یقیناً کوموڈوز سدھائے ہوئے نہیں ہیں مگر بعض اوقات وہ رینجرز کے باورچی خانے کے قریب مٹر گشت کرتے ہیں۔

گورنر کے دلائل کو حال ہی میں کوموڈوز کی سمگلنگ میں ملوث گروہ کے سامنے آنے کے بعد کافی سہارا ملا ہے۔

انڈونیشین پولیس کا کہنا ہے کہ مقامی افراد کے ایک گروہ نے، جس کے بین الاقوامی تعلقات تھے، کامیابی کے ساتھ کوموڈوز کے 45 بچوں کو ملک سے باہر سمگل کیا۔ انھیں مارچ میں پکڑا گیا تھا۔

درحقیقت بعد میں ہونے والے ڈی این اے ٹیسٹ سے پتا چلا کہ کوموڈوز کے یہ بچے فلورس کے جزیرے سے پکڑے گئے تھے نہ کہ کوموڈو جزیرے سے۔

انڈونیشیا کی سمگلنگ کے خلاف بنائی جانے والی فورس اس کوشش میں ہے کہ جنگلی حیات کی اس ناجائز تجارت کو روکا جا سکے۔ انڈونیشیا میں جانوروں کے بازاروں میں اب بھی خرید و فروخت کے لیے ممنوعہ قرار دیے گئے جنگلی جانوروں کو دیکھا جا سکتا ہے۔

اس فورس کی جانب سے بازیاب کروائے گئے کوموڈوز کے چار بچوں کو اب جوا جزیرے کے محفوظ علاقے میں رکھا گیا ہے۔ ان کے علاوہ یہاں دیگر بازیاب کروائے گئے نایاب جانوروں کو بھی چھوٹے پنجروں میں رکھا گیا ہے۔
 

image


گورنر کہتے ہیں ’جب تک میں کوموڈو کا محافظ ہوں کوئی بھی ڈریگنز کو سمگل کرنے کی کوشش بھی نہیں کر سکتا۔‘

تاہم ابھی یہ معلوم نہیں ہے کہ گورنر اپنے پلان میں کامیاب ہو سکیں گے یا نہیں۔

انڈونیشیا کی وزارتِ ماحولیات اور جنگلات یہاں سے 1416 کلومیٹر دور جکارتہ میں بیٹھ کر کوموڈو نیشنل پارک کا انتظام و انصرام دیکھتی ہے۔

لیکن انڈونیشیا میں رائج مقامی خود مختاری کے قوانین کے تحت مقامی رہنما کافی خود مختار ہوتے ہیں۔

گورنر کا کہنا ہے کہ انڈونیشیا کے صدر جوکو وی ڈو ڈو بھی ان کے پلان سے متفق ہیں اور صدر کا حالیہ بیان اس بات کی تائید کرتا ہے۔

صدر وی ڈو ڈو نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا تھا ’ہم چاہتے ہیں کہ کوموڈو ایک حقیقی محفوظ علاقہ ہو جس میں سیاح قلیل تعداد میں آئیں اور وہاں داخلے کی فیس کافی زیادہ ہو۔‘
 

image


لیکن انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ اس حوالے سے کوئی بھی منصوبہ ’مربوط ہو اور اس پر عمل حصوں میں نہ ہو۔ ہم معاملات ٹھیک کرنے کے لیے کافی پیسے بھی خرچ کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘

وزارتِ ماحولیات کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے نظرِ ثانی کی جا رہی ہے اور آخری فیصلہ آئندہ چند ہفتوں میں نہیں کیا جائے گا۔

وزارت کے ایک سینییر افسر کا کہنا ہے ’آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ اسے (کوموڈو) سنہ 2020 میں بند کر دیا جائے گا۔‘

ان کا کہنا تھا ’یہی بات ہے کہ کافی سارے لوگ بہت سے سوالات پوچھ رہے ہیں! اگر اسے قانون کے مطابق بند کرنا ہوا تو اس کا فیصلہ وزیر ماحولیات کریں گے۔ گورنر کے اس حوالے سے خیالات بہت جدت پسند ہیں لیکن ہمیں جکارتہ میں رہنماؤں کے ساتھ مل بیٹھنے اور بات کرنے کی ضرورت ہے۔‘

گورنر کا کہنا ہے کہ اگر ان کے منصوبے کو آگے بڑھایا جاتا ہے تو اس کے تحت مقامی افراد کو دوسرے جزائر پر گھر تعمیر کر کے دیے جائیں گے۔
 

image


مگر کوموڈو میں رہنے والے دیہاتی ایسی کسی صورتحال کے پیش نظر لڑنے مرنے کے وعدے کر رہے ہیں۔

اندر نامی دیہاتی کا کہنا ہے ’اگر ہم یہاں سے جائیں گے تو کوموڈوز بھی ہمارے ساتھ جائیں گے۔‘

ان کے خاوند حاجی کا کہنا ہے ’اس جگہ کو چھوڑنے سے بہتر ہم مر جانا پسند کریں گے۔ یہ ہمارے آباؤ اجداد کی زمین ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ حکومت نے انھیں ستر کی دہائی کے آخر میں بے دخل کرنا شروع کیا تھا اور پھر یوں ہوا کہ کوموڈوز ڈریگنز نے ہمارے ساتھ جانے کے لیے سمندر میں چھلانگیں لگا دیں۔

’ہمارا اور کوموڈو ڈریگنز کا تعلق اتنا مضبوط ہے۔ ہم یہاں رہنے کے لیے لڑائی کریں گے۔‘


Partner Content: BBC

YOU MAY ALSO LIKE: