عثمان شام کو آفس سے گھر آیا تو ثوبیہ نے اس کے ہاتھ میں
گفٹ پیپر میں لپٹا ایک بڑا سا پیکٹ دیکھا- اس نے اس پیکٹ کو بڑی محبّت سے
اس کے حوالے کیا اور بولا- "ہیپی برتھ ڈے ٹو یو ہنی-"
ثوبیہ کو تو خود یاد نہیں تھا کہ آج اس کی سالگرہ ہے- اس نے مسکراتے ہوئے
عثمان کا شکریہ ادا کیا اور پیکٹ کو کمرے میں رکھ آئ- اس وقت وہ رات کے
کھانے کی تیاری میں لگی ہوئی تھی، اس نے سوچا کے سارے کاموں سے فارغ ہو کر
اطمینان سے اپنا تحفہ دیکھے گی- وہ عثمان کے اس محبّت بھرے رویے سے بہت ہی
خوش تھی- یہ بات اس کے علم میں تھی کہ بہت کم شوہر شادی اور بیوی کی
سالگراہوں کی تاریخیں یاد رکھتے ہیں-
عثمان مختلف موضوعات پر کتابیں اور مضامین لکھا کرتا تھا اور ادبی حلقوں
میں اس کا کافی نام تھا- کتابیں لکھ کر تو گھر چلتا نہیں ہے، اس لیے وہ ایک
پرائیویٹ ادارے میں ملازمت بھی کرتا تھا اور فارغ وقت میں لکھنا لکھانا محض
اس کا شوق تھا- اس کی نئی نئی شادی ہوئی تھی- عثمان کے ماں باپ اور ایک بڑی
بہن لاہور میں رہتے تھے- ثوبیہ عثمان کی بہن کی سہیلی کی چھوٹی بہن تھی اور
یہ شادی اسی نے کروائی تھی- عثمان اس شادی سے بہت خوش تھا- شادی کے بعد اس
کا تبادلہ اس کی کمپنی کے ہیڈ آفس میں ہوگیا تھا جو کراچی میں تھا- وہ
ثوبیہ کے ساتھ کراچی چلا آیا- اپنی مصروفیات کی وجہ سے وہ صبح سے شام تک
گھر سے باہر ہی رہتا تھا مگر دفتر سے آنے کے بعد اس کا پورا وقت گھر پر
ثوبیہ کے ساتھ ہی گزرتا تھا-
آج شائد عثمان زیادہ تھک گیا تھا- کھانا کھاتے ہی سو گیا- ثوبیہ کچن سے
فارغ ہو کر کمرے میں آئ تو ٹی وی تیز آواز میں چل رہا تھا، خواب گاہ کی
ساری لائٹیں جل رہی تھیں اور عثمان بے خبر سو رہا تھا- اس نے ریموٹ اٹھا کر
ٹی وی بند کیا، کھڑکیوں کے پردے برابر کیے- کمرے کی لائٹیں بجھا کر زیرو کا
سبز بلب جلایا اور عثمان کا دیا ہوا تحفہ کھولنے بیٹھ گئی- پھر وہ یہ دیکھ
کر حیران رہ گئی کہ ڈبے میں مردانہ برساتی جوتوں کی جوڑی رکھی ہوئی ہے- اس
نے خاموشی سے ڈبہ بند کر کے الماری میں رکھ دیا اور عثمان پر ایک نگاہ ڈال
کر بستر پر لیٹ گئی- وہ اس تحفے کو دیکھ کر الجھن میں پڑ گئی تھی- کیا
عثمان نے اس کے ساتھ مذاق کیا تھا؟- اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا-
اسے نیند بھی بہت دیر سے آئ تھی-
صبح وہ عثمان کے ساتھ ہی اٹھ گئی تھی- "آج رات کا کھانا ہم باہر کھائیں گے-
تمھاری سالگرہ کی خوشی میں- تمہیں تحفہ کیسا لگا تھا؟" عثمان نے پوچھا- وہ
چونک کر اسے دیکھنے لگی- عثمان بالکل سنجیدہ نظر آ رہا تھا- اگر یہ اس کا
مذاق ہوتا تو اس کے چہرے پر ضرور مسکراہٹ ہوتی-
"اس میں سے تو رین بوٹ نکلے ہیں وہ بھی مردانہ-" ثوبیہ نے شکایتی انداز میں
بتایا- "بیوی کی سالگرہ پر بھلا کون ایسا تحفہ دیتا ہے؟"
اس کی بات سن کر عثمان کے چہرے پر شرمندگی کے آثار نظر آنے لگے- "تم ناراض
تو نہیں ہو؟ آج شام ہم کھانا بھی باہر کھائیں گے اور میں تمہیں تمھاری پسند
کی شاپنگ بھی کرواؤں گا-" عثمان نے کہا- ثوبیہ اسے الجھی الجھی نظروں سے
دیکھے جا رہی تھی- عثمان نے ابھی تک برساتی جوتوں پر کوئی تبصرہ نہیں کیا
تھا-
اس روز وہ جلدی گھر آگیا- ان دونوں نے سمندر کے نزدیک ایک اچھے سے
ریسٹورینٹ میں کھانا کھایا- پھر عثمان نے حسب وعدہ اسے ایک جدید اور بڑے
مال لے جا کر شاپنگ بھی کروائی اور رات گئے وہ سامان سے لدے پھندے گھر
پہنچے- ثوبیہ کو بہت ہی مزہ آیا تھا-
ثوبیہ کا میکہ لاہور میں تھا- اس کی شادی کو حالانکہ مہینوں ہو گئے تھے مگر
اس دوران وہ صرف دو تین مرتبہ ہی ماں کے گھر جا سکی تھی- عثمان کی جاب ایسی
تھی کہ اسے چھٹی نہیں ملتی تھی، اس کو اکیلے چھوڑ کر جانا ثوبیہ کو اچھا
نہیں لگتا تھا- وہ ایک لاپرواہ شخص تھا- بھوک پیاس کی اس کو فکر نہیں ہوتی
تھی اس لیے اس کو اس کے حال پر بھی نہیں چھوڑا جا سکتا تھا-
ایک روز اطلاع آئ کہ اس کی ماں اس سے ملنے آ رہی ہے- ثوبیہ بہت خوش ہوئی-
اس نے یہ خبر عثمان کو دی- عثمان اس سے زیادہ خوش ہوا- ثوبیہ کی ماں کو
ٹرین سے آنا تھا- طے ہوا کہ وہ دونوں اسٹیشن جا کر اسے لے آئیں گے-
جس روز اس کی ماں کو آنا تھا، ٹرین کی آمد سے ایک ڈیڑھ گھنٹہ بھر پہلے ایک
سجی سجائی بگھی ان کے دروازے پر آ کر رکی- گھوڑے کی ہنہنانے کی آواز سن کر
ثوبیہ نے کھڑکی سے باہر جھانکا- یہ دیکھ کر وہ ششدر رہ گئی کہ بگھی میں سے
عثمان اتر رہا ہے- اس نے اندر آ کر بتایا کہ اس کی گاڑی میں کچھ خرابی
ہوگئی تھی اس لیے وہ اس کی ماں کو لانے کے لیے یہ بگھی لے آیا ہے-
اس کی بات سن کر وہ گنگ ہو کر رہ گئی تھی- بڑا ضبط کر کے بولی "تو پھر آپ
کریم والوں کو فون کردیتے- اوبر منگوالیتے- ہم کسی ٹیکسی میں چلے جاتے- یہ
کیا اچھا معلوم ہوگا کہ امی کو ہم گھوڑا گاڑی میں بٹھا کر لائیں- وہ کیا
سوچیں گی- محلے والے دیکھیں گے تو کیسی کیسی باتیں بنائیں گے؟"
اس کی بات سن کر عثمان کے چہرے پر شرمندگی نظر آنے لگی- وہ دھیرے سے بولا-
"سوری ثوبی- یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں تھا-" یہ کہہ کر اس نے بگھی کے
کوچوان کو ادائیگی کی اور اسے واپس بھیج دیا- پھر اس نے کریم والوں کو فون
کر کے گاڑی منگوائی اور دونوں میاں بیوی اسٹیشن جا کر ثوبیہ کی ماں کو گھر
لے آئے-
ٹرین میں جانے کیسا کھانا ملا تھا- ثوبیہ کی ماں جب گھر پہنچی تو اس کے پیٹ
میں ہلکا ہلکا درد تھا- شام تک یہ درد اتنا بڑھا کہ اسے ایک پل چین نہیں آ
رہا تھا- اس کو ڈاکٹر کے پاس لے جانا پڑ گیا- ان کے فیملی ڈاکٹر کا کلینک
قریب ہی تھا- ثوبیہ ماں کے ساتھ چلی گئی- اس کی حالت دیکھ کر ڈاکٹر سنجیدہ
نظر آنے لگا تھا- اس نے دوائی تجویز کی اور تاکید کی کہ اسے نرم غذا دی
جائے-
ڈاکٹر کی سنجیدگی دیکھ کر ثوبیہ کو فکر لگ گئی تھی- اسے ڈر تھا کہ ماں کو
کہیں ہیضہ نہ ہوگیا ہو- گھر واپس آ کر اس نے اسے دوا پلا کر لٹادیا اور
عثمان کو دیکھنے کے لیے کمرے سے نکلی- وہ کچن میں موجود تھا اور ایک بڑے سے
تربوز اور دو چھوٹے چھوٹے خربوزوں کی قاشیں بنانے میں مشغول تھا-
"عثمان یہاں آپ کیا کر رہے ہیں؟" اس نے حیرانی سے پوچھا-
"تم دوائی لینے گئیں تو میں نے سوچا کہ امی کی خاطر مدارات کے لیے کچھ کر
لوں- ان کے لیے میں نے تربوز اور خربوزہ کاٹ لیا ہے- رات کے کھانے کے بعد
انھیں دیں گے-" عثمان نے خوش ہو کر بتایا-
ثوبیہ دھک سے رہ گئی- "عثمان آپ کو پتہ ہے امی کے پیٹ میں کتنا شدید درد
ہے- مجھے تو خدشہ ہے انھیں ہیضہ نہ ہوجائے- ڈاکٹر نے انھیں نہایت نرم
غذائیں دینے کو کہا ہے- خربوزہ اور تربوز تو ان کے لیے زہر ہیں-"
"اچھا-" عثمان نے سر کھجاتے ہوۓ دھیرے سے کہا- "پھر تو انھیں یہ چیزیں دینا
مناسب نہیں -"- ثوبیہ اس کی بات سن کر کچھ نہ بولی-
اگلے روز چھٹی کا دن تھا- شدید گرمی پڑ رہی تھی- باہر سخت دھوپ تھی اور لو
بھی چل رہی تھی- ثوبیہ نے کہا- "میں کھانا پکانے سے فارغ ہوجاؤں- پھر نہانے
جاؤں گی- اس گرمی نے تو برا حال کر دیا ہے"-
وہ کھانا پکا کر فارغ ہوئی تو عثمان اس سے بولا- "شاباش- اب تم جا کر نہا
لو- میں نے ٹب میں پانی بھر کر دھلی ہوئی تولیہ بھی واش روم میں لٹکا دی
ہے- میں نے اپنی پسند کی خوشبو والا شیمپو بھی نکال کر رکھ دیا ہے- اس سے
بال سلکی بھی ہوجاتے ہیں اور بالوں سے بہترین خوشبو بھی آتی ہے- سونگھو تو
اچھا لگتا ہے-"
ثوبیہ اس کی بات سن کر شرما گئی- اسے تشکر آمیز نظروں سے دیکھ کر بولی- "آپ
نے یہ سب کچھ کیوں کیا- میں ہی کر لیتی-"
"یہ بیویاں جو دن بھر سراپا محبّت بن کر ہر وقت کاموں میں لگی رہتی ہیں-
کچھ اظہار محبّت کا حق شوہروں کو بھی تو ہونا چاہیے-" عثمان مسکرا کر بولا-
واش روم میں پہنچ کر ثوبیہ نے ٹب کے پانی کی ٹھنڈک کا اندازہ کرنے کے لیے
اس میں انگلیاں ڈبوئیں اور پھر جلدی سے باہر نکال لیں- پانی تو نیم گرم سے
بھی زیادہ گرم تھا- اس نے تھوڑا سا دروازہ کھول کر عثمان سے کہا- "عثمان
پانی تو بہت گرم ہے-"
"میں نے ہی یہ سوچ کر مکس کیا تھا کہ ٹھنڈے پانی سے نہا کر تمھاری طبیعت نہ
خراب ہو جائے- شدید گرمی سے آکر فوراً ہی ٹھنڈے پانی سے نہانا مناسب نہیں-
یہ بات میں نے کسی جگہ پڑھی تھی-" عثمان نے جواب دیا- ثوبیہ ہونٹ بھینچ کر
ٹب خالی کرنے لگی-
رات کے دس بجے تھے- عثمان تکیے سے ٹیک لگائے ایک نوٹ بک میں کچھ لکھ رہا
تھا- ثوبیہ خواتین کا ایک رسالہ کھولے دوسری طرف منہ کر کے اس کی برابر میں
لیٹی ہوئی تھی- اس کا دھیان رسالے میں نہیں تھا- وہ گزشتہ کئی روز سے جاری
عثمان کی عجیب و غریب حرکتوں پر غور کر رہی تھی – وہ سوچ رہی تھی کہ عثمان
کی ان حرکتوں کا سبب حد سے زیادہ ذھنی دباؤ ہو سکتا ہے- اس نے فیصلہ کر لیا
کہ وہ اس کے بارے میں کسی نفسیاتی ماہر سے بات کرے گی- اسے یاد آیا کہ جب
ایک روز عثمان کی بہن ان کے گھر آئ تھی تو اپنی ماں سے موبائل پر کہہ رہی
تھی کہ اب عثمان بالکل ٹھیک ہوگیا ہے اور ثوبیہ کے ساتھ اس کا رویہ بہت
اچھا ہے- اس کے ذہن میں یہ خیال پیدا ہوا کہ کیا شادی سے پہلے عثمان کسی
ذھنی بیماری میں مبتلا تھا؟
وہ ہر معاملے میں ایک نہایت اچھا انسان ثابت ہوا تھا مگر اس کی گزشتہ چند
ہفتوں سے جاری عجیب و غریب حرکتوں نے ثوبیہ کے ذہن میں خطرے کی گھنٹیاں بجا
دی تھیں- اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ عثمان کی ذہنی حالت میں یہ
تغیر کیوں آ گیا تھا، وہ یہ سب کیوں کرنے لگا تھا- تھوڑی دیر میں اس کے
کانوں میں عثمان کی آواز آئ- "ثوبیہ-"
"جی-" ثوبیہ نے اس کی طرف کروٹ لیتے ہوۓ پوچھا-
"میں آج کل ایک کتاب لکھ رہا ہوں- یہ کتاب میاں بیویوں کے بارے میں ہے-
تمھاری تھوڑی مدد چاہیے-" عثمان نے کہا-
"ہاں ہاں- کیوں نہیں-" ثوبیہ رسالہ ایک طرف رکھ کر اٹھتے ہوۓ بولی-
"تم نے غور کیا ہوگا- پچھلے دو ایک ماہ سے میں عجیب و غریب حرکتیں کر رہا
ہوں- تمہاری امی آئیں تو انھیں تانگے میں لینے چل پڑا- ان کے پیٹ میں درد
ہوا تو انھیں تربوز اور خربوزہ کھلانے پر تل گیا- تمھاری سالگرہ پر مردانہ
بوٹوں کا تحفہ دے دیا- سخت گرمی میں میں تمہارے نہانے کے لیے ٹب میں گرم
پانی بھردیا- اس کے علاوہ بھی بیسیوں عجیب و غریب باتیں میں نے کی تھیں جو
میں نے اس نوٹ بک میں درج کردی ہیں- تمہیں یہ کرنا ہے کہ جب وہ باتیں
تمہارے علم آتی تھیں تو تم اس وقت میری ان بیوقوفانہ حرکتوں پر کیا سوچتی
تھیں- ان سوچی ہوئی باتوں کو ہر واقعہ کے آگے لکھ دینا- میری کتاب کا موضوع
ہی یہ ہے کہ جب ایک شوہر کوئی بیوقوفی کی حرکت کرتا ہے تو اس کی بیوی اس
حرکت پر کیا سوچتی ہے- جھجکنا بالکل مت نہ میرے برا ماننے کا خیال کرنا- جو
خیال اس حرکت کو دیکھ کر اس وقت تمھارے دل میں آیا کرتا تھا حرف بہ حرف وہ
ہی لکھ دینا- میں چاہتا ہوں کہ میری کتاب میں حقیقت کا رنگ نمایاں ہو- اس
سلسلے میں میں نے اپنے چند دوسرے دوستوں کو بھی بیویوں کے سامنے عجیب و
غریب حرکتیں کرنے کا کہہ رکھا ہے- وہ بھی گھروں پر بیویوں کے سامنے بے
وقوفی کی حرکتیں کر کے ان کے تاثرات مجھے بھیج رہے ہیں- میرے ایک دوست کی
بیوی تو اس کی حرکتوں سے اتنی پریشان اور خوفزدہ ہوئی کہ اپنے میکے میں جا
کر بیٹھ گئی ہے- مجھے تمہارے ساتھ وہاں بھی جانا پڑے گا تاکہ حقیقت حال بتا
کر اسے واپس لائیں - میں نے سوشل میڈیا پر بھی لوگوں سے درخواست کی ہے کہ
اگر ان سے زندگی میں کبھی کوئی بیوقوفی کی کوئی حرکت سرزد ہوئی ہو تو
بیویوں کا رد عمل مجھ سے شئیر کریں- یہ ایک دلچسپ کتاب ہوگی-"
عثمان کی کی بات سن کر ثوبیہ ہنسنے لگی- اس نے نوٹ بک اور قلم ایک طرف
رکھتے ہوۓ کہا- "میں کوئی لمبی چوڑی بات نہیں سوچتی تھی- آپ جب بھی ایسا
کچھ کرتے تھے تو میرے ذہن میں بس یہ ہی خیال آتا تھا کہ آپ کام کی زیادتی
کی وجہ سے ذہنی دباؤ کا شکار ہو گئے ہیں اور میں آپ کو کسی ماہر نفسیات دان
کو دکھاؤں گی- مجھے تمثیلا باجی کی بات بھی یاد آتی تھی جب ایک دفعہ وہ
یہاں آئ تھیں اور موبائل پر امی کو اطلاع دے رہی تھیں کہ آپ شادی کے بعد
ٹھیک ہوگئے ہیں- اسی وجہ سے میرے ذہن میں یہ خیال آیا تھا کہ شادی سے پہلے
آپ کسی ذہنی الجھن کا شکار تھے-"
عثمان ہنس کر بولا- "شادی سے پہلے میری طبعیت میں لاپرواہی کا عنصر بہت
زیادہ تھا- گھر والوں کا خیال تھا کہ شادی کے بعد ٹھیک ہوجاؤں گا- تمثیلا
باجی نے جب یہ دیکھا کہ میں تمہارے آگے پیچھے پھر رہا ہوں اور گھر کے کاموں
میں پوری دلچسپی دکھا رہا ہوں تو انہوں نے اندازہ لگایا کہ اب میں ٹھیک
ہوگیا ہوں- گھر والے تو شادی سے پہلے ہر لڑکے کے لیے ایسے ہی خیالات کا
اظہار کرتے ہیں- اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ بیویوں کو شوہروں کو ٹھیک کرنے
کا ادارہ سمجھتے ہیں-"
ثوبیہ اس کی بات سن کر مسکراتے ہوۓ بولی- "آپ کی ان حرکتوں پر دنیا کی ہر
بیوی کی طرح میرے ذہن میں بھی یہ خیال آتا تھا کہ اچھا ہوا ان کی شادی مجھ
سے ہوگئی- کوئی دوسری ہوتی تو جانے کیا کرتی- یہ ہی تو وہ پیار بھرا احسان
ہے جس کو دل میں رکھ کر اور اکثر و بیشتر شوہروں کے سامنے اس کا اظہار کر
کے بیویاں اپنی پوری زندگی ہنسی خوشی انہی شوہروں کے ساتھ بسر کر لیتی
ہیں-"
(ختم شد)
|