یہ پکڑ کیا یاد کرے گا۔۔۔۔۔۔استاد نے اس کے ہاتھ میں چند
نوٹ تھما کر احسان جتایا۔۔وہ بے صبری سے پیسے پکڑکر گننے لگا۔۔۔۔استاد جی!
اس میں تو سو روپے کم ہیں؟؟۔۔ اس نے استسفہامی نگاہوں سے استاد کی طرف
دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔چل چل بحث نہ کر۔۔۔۔۔۔۔تجھے کھانا بھی تو کھلایا
ہے۔۔۔۔۔۔۔۔استاد مکاری سے بولا۔۔۔۔۔پر استاد کھانے کی بات تو نہیں ہوئی
تھی۔۔۔۔۔۔۔تُو یہ بتا کھانا ملا کہ نہیں؟؟؟۔۔ملا ہے استاد۔۔۔۔۔۔تو بس ٹھیک
ہے۔۔تیری محنت سے زیادہ دے رہا ہوں۔۔چپ کر کے رکھ لے اور ہاں!!! کل مت
آنا۔۔۔۔۔۔۔۔کیوں استاد جی؟؟؟؟ وہ پیسے بھول کر اس نئی افتاد پر فکر مند نظر
آنے لگا۔۔۔۔۔۔۔کیونکہ کل نیا مزدور آرہا ہے۔۔۔۔۔۔۔استاد یار مجھے پیسوں کی
ضرورت ہے۔۔ مزدوری پر رکھ لے۔۔پہلے ہی دو ہفتوں بعد کام ملا ہے۔۔ابھی تو
چار دن بھی نہیں گزرے اور ادھر سے بھی انکار ہو رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فکر نا کر
جب بھی ضرورت پڑی۔۔۔ تجھے بلا لوں گا یہ کہہ کر استاد بٹوہ نکا لنے لگا تو
یونس کی آنکھوں میں چمک پیدہ ہوئی۔۔یار اسلم یہ جاتے جاتے مسجد کو دے
جائیں۔۔پانچ سو کا سبز نوٹ جب اس کے سامنے سے لہراتا ہوا اسلم کے ہاتھ میں
گیا تو اس کے ارمانوں پر اوس پڑ گئی۔۔ اس نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا ہی
تھا کہ استاد کا فون بجنے لگا اور وہ فون سننے کے لیے زرہ دور ہٹ گیا۔۔
یونس کافی دیر وہاں کھڑا فون بند ہونے کا انتظار کرتا رہا مگر فون بند ہونے
کے آثار نظر نہیں آرہے تھے کیونکہ استاد اسے مکمل طور پر نظر انداز کرتے
ہوئے خوش گپیوں میں مصروف تھا۔۔۔ پانچ سو روپے دہاڑی کے معاہدے پر چار دن
پہلے اسے بڑی مشکل سے مزدوری ملی تھی کیونکہ اس پسماندہ سے علاقے میں
روزگار کے مواقع کم تھے۔ ایک تو مواقع کم تھے اوپر سے اسکو کام بھی کم
ملتا۔ ۔۔لوگ اس پر دوسرے مزدورں کو ترجیح دیتے۔۔۔۔اپنے حالات بدلنے کے لیے
اس نے کیا کیا نہیں کیا تھا۔۔۔۔ٹھیلے لگائے ۔۔ اپنے مرحوم باپ کی طرح گٹر
صاف کیے۔۔۔۔۔۔۔۔ اینٹ پتھر ڈھوئے۔۔۔۔فروٹ بییچا۔۔مگر کمائی وہی چند سرخ
نوٹ۔۔جب کے ذمہ داریاں بڑھتی جا رہی تھیں اور ہاتھ تنگ ہوتا جا رہا
تھا۔۔ایک دفعہ اس نےاشیاء خورد ونوش کا ٹھیلہ لگایا تو دو ہفتوں میں ہی
اسکا کاروبار ٹھپ ہوگیا کیونکہ سیل نہ ہونے کے برابر تھی۔۔الٹا وہ پانچ
ہزار کا مقروض ہوگیا تھا۔۔اور دوبارہ سے دہاڑیاں لگانے پر مجبور ہوگیا۔۔اس
نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے ایک دفعہ پھر پیسے گِنے۔۔مگر اس دفعہ بھی کاغذوں کی
وقعت چار سو سے زیادہ نہ تھی۔۔شکر ہے یہ تو ملے اگر یہ بھی نہ ملتے تو میں
کیا کرتا ۔۔اس نے دل ہی دل میں خود کو تسلی دی اور وہاں سے رخصت ہو گیا ۔۔
جب وہ گھر پنہچا تو ایک کمرے،چار گز کے صحن اور تنگ سے غسل خانے پر مشتمل
اسکا گھر مچھلی منڈی بنا ہوا تھا۔۔۔ بچوں نے اودھم مچا رکھا تھا۔باپ کو
دیکھتے ہی بچے ادھر ادھر ہو گئے۔۔آج دیر کیوں کر دی؟؟؟؟؟ لاؤ پیسے دو گھی
منگوانا ہے۔۔ بیوی نے کسی قسم کے تکلف میں پڑنے کی بجائے کام کی بات کرنے
کو فوقیت دی۔۔ اس نے سارے پیسے نکال کر اس کی ہتھیلی پر رکھ دیے اور
چارپائی پر ڈھیر ہوتے ہی سو گیا۔۔۔۔۔۔جب اسکی آنکھ کھلی تو اسکی بیوی اسے
کھانے کے لیے اٹھا رہی تھی۔۔سارے دن کی مزدوری کے بعد اسکا بدن تھکاوٹ سے
چور تھا۔۔۔۔وہ بڑی مشکل سے اٹھا اور کھانا کھانے لگا۔۔میری کے ابا۔۔ماریہ
اور نیشا کی فیس دینے والی ہے۔۔اور تم نے مجھے دیے ہیں تین سوجو کہ ختم بھی
ہو گئے۔۔سَرف منگوانا تھا ابھی۔۔شہزاد چپل کے لیے رو رہا ہے اور کاکے کی
دوائی۔۔۔۔۔۔۔صابن سے دھو لیا کر کپڑے ۔۔۔۔گزارہ کر!!!!! وہ لقمہ منہ میں
ڈالتے ہوئے بے پروائی سے بولا۔۔ اور ۔۔اور۔۔۔ان کو اٹھا لے سکول سے ۔۔پیٹ
بھرتا نہیں اور چلی ہیں پڑھنے۔۔نہیں ابا!!! میں نے پڑھنا ہے۔۔ماریا جھٹ سے
بولی۔۔۔ کونسی زیادہ فیس ہے۔۔پچاس روپے ہی تو ہے۔۔اتنے پیسے بھی نہیں تیرے
پاس؟۔۔۔۔۔۔ ننھی سی ماریہ نے زبان درازی کی۔۔۔۔۔۔ مگر وہ کھانے میں مگن تھا
اس لیے سنی ان سنی کر گیا۔۔۔۔اور چپ رہا۔۔۔۔ کچھ توقف کے بعد اس بیوی
دوبارہ بات چھیڑنے کی غرض سے کہنے لگی۔۔۔ میں بھی آج گئی تھی کام پہ!!! پر
کیا کام کروں ۔۔۔سوائے کپڑے دھونے اور پوچا لگانے کے علاوہ کوئی کام نہیں
ملتا۔۔ ۔۔۔ ویسے بھی اتنے چھوٹے بچے کو چھوڑ کرنہ تو میں زیادہ دیر باہر
نہیں رہ سکتی ہوں اور نا ہی زیادہ دور جا سکتی ہوں۔۔اسکا اشارہ اپنے پانچ
ماہ کے بیٹے کی طرف تھا۔۔یہ ٹھیک بھی نہیں رہتا ۔۔آئے دن پیچس لگے رہتے
ہیں۔۔۔ اسکی بیوی کہے جا رہی تھی اور وہ بظاہر بے حس بنا کھانا کھاتا
رہا۔۔چاروں طرف ضرورتیں ناگ بن کر منہ کھولے کھڑے تھیں اور وہ تھا کہ بے
بس۔۔۔۔۔۔اچھا کچھ نہ کچھ ہو جائے گا ۔۔۔۔۔۔اب سر نہ کھا میرا۔۔۔۔۔۔۔اس
نےراہِ فرار حاصل کرنے کے لیے ایک طرح سے سعی کی اور اسے برتن اٹھانے کا
اشارہ کرتے ہوئے باہر نکل گیا۔۔
گلی کی نکڑ پر بنے تھڑے پہ بیٹھ کر وہ اپنے گنے چنے دو چار دوستوں کے ساتھ
دل بہلاتا رہا۔یار دوست حسبِ معمول ایک دوسرے کودن بھر کی رودار سناتے ہوئے
اپنی اپنی ذہنی بساط کے مطابق ایک دوسرے کو مشورے دینے لگے۔ اسی دوران دبئی
میں مقیم ان کے مشترکہ دوست پرویز کا فون آگیا تو اس کے چہرے پر ناگواری کے
اثرات نظر آنے لگے۔۔جب تک دوسرے دوست فون پہ بات کرتے رہے وہ لاتعلق بنا
سائیڈ پہ کھڑا سگریٹ پھونکتا رہا۔۔ لیکن یہ لاتعلقی محض دکھاوہ تھی ورنہ تو
اسکی ذہنی پرواز دو سال قبل کے مکان و زمان کی سیر کر رہی تھی جب وہ اور
پرویز جگری دوست ہوا کرتے تھے۔۔۔ایک جیسے حالات و واقعات کی پیداوار ہونے
کے ناتے ان دونوں کی خوب بنتی۔۔لیکن پھر پرویز نے ایک ایسا قدم اٹھایا جس
کی وجہ سے دونوں ایک دوسرے کا منہ دیکھنے سے بھی رہ گئے۔۔اگرچہ پرویز نے
پیش قدمی کرتے ہوئے ایک دو دفعہ اسے منانے کی کوشش کی تھی مگر معاملہ ایسا
تھا کہ نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تھا۔۔۔لے بات کر!!! دوست نے اسکی طرف
موبائل بڑھا کر اسکی سوچوں کا تسلسل توڑ دیا۔۔۔۔نہیں۔۔۔دور کر اسکو۔۔اس نے
قدرے خفگی سے کہہ کر موبائل کو ہاتھ مار کر پرے کر دیا ۔۔دوست نے اصرار کئے
بغیر فون کان کو لگایا اور بات جاری رکھی۔۔اپنا پرویز وہاں درہم و درہم ہوا
پڑا ہے۔۔پورے پندرہ سو درہم تنخواہ لگ گئی ہے اسکی۔۔۔اور تیرا دماغ آسمانوں
پر چڑھا ہوا ہے۔۔۔۔۔ فون بند کرنے کے بعد دوست اسے مطعون کرتے ہوئے بتانے
لگا۔۔لعنت بھیجو ایسی کمائی پہ جو ایمان بیچ کرحاصل ہو۔۔اس نے نفرت سے جواب
دیا۔۔لیکن سابقہ دوست کی ترقی کا سن کر اس کے زہن میں ہیجان برپا ہوگیا تھا
۔لا دکھا جو دکھا رہا تھا ۔۔اس نے موضوع بدلنے کی نیت سے موبائل کھینچا اور
مطلوبہ فولڈر کھول کر دیکھنے لگا۔۔ دوست کے موبائل کی دھندلی سی سکرین
پرنیم عریاں اداکاروں کی تصویریں دیکھ کے دل تو بہل سکتا تھا مگر نا تو پیٹ
کا دوزخ ٹھنڈا ہو سکتا تھا اور نا ہی ناگزیر ضروریاتِ زندگی سے چھٹکارہ
ممکن تھا۔۔ ۔۔جلد ہی وہ اکتا گیا اور وہاں سے اُٹھ گیا-
رات گئے بچے کی طبیعت مزید بگڑ گئی۔۔۔۔۔۔وہ ریں ریں کرنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔ بیوی
جھنجھلا اُٹھی۔۔۔۔۔۔ کبھی شوہر کو کوستی کبھی بچے کو تھپڑمارنے لگتی۔۔ جب
وہ چیخنے لگتا تو چھاتی سے لگا لیتی۔۔۔۔۔۔چلو!! ڈاکٹر کے پاس لے چلتے
ہیں۔۔۔۔۔۔ یونس کو سخت بے چینی ہورہی تھی ۔۔ ۔۔۔۔پیسے ہیں؟؟ بیوی نے تلخی
سے پوچھا تو وہ ٹھنڈہ ہو کے ایک طرف بیٹھ گیا اور سگریٹ سلگانے لگا۔۔تیری
انہی عیاشیوں نے یہ دن دکھائے ہیں۔۔۔۔۔یہ۔۔۔۔۔ یہ عیاشی ہے؟؟؟؟؟ ۔۔اس نے
غصے سے سگریٹ ایک طرف پھینک دیا۔۔سگریٹ نہیں پیوں گا تو کیا جج لگ جاؤں
گا؟؟؟؟؟ یا چار سو کی بجائے ہزار روپے کی دہاڑی ملنے لگے گی؟؟؟؟؟۔۔۔۔۔ کم
از کم کاکے کی دوائی تو آجاتی ۔۔وہ رو رہی تھی۔۔۔۔ ہائے خداوند تو ہی کچھ
کردے میرےبچے کو آرام دے ۔۔۔۔ وہ التجائیں کرنے لگی۔۔۔۔۔ یونس میرے بچے کو
بچا لے۔۔۔۔ دیکھ اس کا رنگ زرد ہو رہا ہے ۔۔ بیوی نے بے بسی سے بچے کو
دیکھا اورا سے ہوئے سینے سے لگا کر تھپتھپانے لگی۔۔ ۔۔۔ جو بھی ہونا ہے صبح
ہونا ہے اس وقت کوئی ڈاکٹر نہیں بیٹھتا ۔۔۔وہ نرم پڑ گیا اور دونوں بچے کو
بہلانے لگے ۔۔۔ پچھلا پہرہونے تک بچہ نڈھال ہو کرسوگیا تو کچھ سکون ہوا۔۔۔
۔کچھ ہی دیر میں اسکی بیوی بھی اونگھنے لگی۔۔۔۔۔۔۔دور جامع مسجد سے فجر کی
اذان کی آواز بلند ہو رہی تھی۔۔۔۔۔ اس نے اطراف میں دیکھا۔ ایک چارپائی پہ
اسکی تینوں بیٹیاں بے سدھ پڑیں تھیں۔۔۔ صحن کے ایک کونے میں پڑے استعمال
شدہ برتنوں میں بلی اپنے حصے کا رزق تلاش کر رہی تھی۔ ۔۔ اسے یقین تھا کہ
برتن خالی ہیں تب ہی اس نے بلی کو بھگانے کی زحمت نہیں کی اورجھک کر زمیں
پر پڑا سگریٹ کا ٹوٹا اٹھا کر دوبارہ سلگایا اور ٹہلتے ہوئے کش لگانے
لگا۔۔۔۔۔ صبح تک بچے کی طبیعت کافی حد تک سنبھل چکی تھی۔ جب تک اسکی بیوی
ناشتا بناتی وہ اسے گود میں لے کر کھیلتا رہا۔۔اس نے بٹوے کے کونے کھدرے
میں برے وقت کے لیے بچا کے رکھا ہوا آخری نوٹ نکال کربیوی کوپکڑایا اور اسے
دوائی دارو کی تاکید کرتے ہوئے گھر سے نکل آیا۔۔۔اسکا رخ جامع مسجد کی جانب
تھا۔۔۔
چند سعاعتوں کے بعد جامع مسجد کے لاؤڈ سپیکر سے ایک آواز گونج رہی
تھی۔۔۔۔۔۔۔ حضرات !!!!!!!!!! ایک اعلان سماعت فرمائیں۔۔تمام مسلمان بھائیوں
کو مبارک با د قبول ہو۔۔آج اللہ کی خاص رحمت کا نزول ہوا ہے۔ خدائے بزرگ و
برتر نے ایک بھٹکے ہوئے آدم زاد کو صراطِ مستقیم پر گامزن ہونے کی توفیق
عطا کی ہے۔۔ہمارے ایک عیسائی بھائی یونس مسیح پر اللہ نے اپنا خاص فضل کرکے
اسے ہدایت بخشی ہے اور اس نے اسلامی تعلیمات سے متاثر ہو کر دائرہ اسلام
میں داخل ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔۔تمام لوگوں سے التماس ہے کہ مسجد میں
تشریف لا کر اس پر مسرت موقع پر اپنے بھائی جس کا نام اب محمد یونس تجویز
کیا گیا ہے کی حوصلہ افزائی کریں۔۔۔
شام تک سرخ بوسیدہ گلابوں کے لاتعداد ہاروں کے حلقے میں یونس مسیح عرف محمد
یونس کا سانولا چہرہ تمتما رہا تھا۔۔ ۔۔ لوگ آ کر اسے گلے مل کر سلامی بھری
مبارکیں دے رہے تھے کیونکہ امام صاحب نے اسکے جزبہِ ایمانی سے خوش ہو کراسے
اپنا مشیرِ خاص مقرر کرلیا تھا۔۔ وہ چٹائی پر بڑی تمکنت سے براجمان تھا۔۔اس
کے آگے مختلف رنگوں کے نوٹوں کا چھوٹا سا ڈھیر لگ ہوا تھا جبکہ دور ایک
خستہ مکان میں بیٹھے خاندان کے نصیب جاگ اٹھے تھے۔
|