مسلمانوں کی افرادی قوت پر آر ایس ایس کی بری نظریں

بریلی میں معتقدین تاج الشریعہ نشانے پر
مسلمانوں کی شوکت و شان سے بھگوا توا قوتیں خوف زدہ ہیں اسی لیے دینی مراکزپر مسلمانوں کا اژدھام کھٹک رہا ہے

ایک صدی قبل ہندوؤں نے انگریز ی قبضے کا فائدہ اُٹھایا۔ آزادی کی زمام اپنے ہاتھ لی۔ سیاست کی۔ مسلمانوں کے مقتدا بن بیٹھے۔آریہ سماج، ہندو مہاسبھااور اس کی ذیلی تنظیموں، سنگھٹناؤں نے پورے ملک میں شرکیہ مفاد اوراسلام دُشمنی میں سرگرمی دکھائی۔ مقصد ’’سوراج کا قیام‘‘ تھا۔ مسلمانوں کو پسپا رکھنا تھا۔ پس ماندہ بنانا تھا۔ اسی سازش کا نتیجہ تھا کہ ۱۹۱۹ء کے زمانے میں مشرکین نے مسلمانوں کی نکیل تھام لی۔ لیڈران نے گاندھی کو مقتدا بنا لیا۔ خود مقتدی بن گئے۔ یہ اُس زوال کا اشاریہ تھا جس کے نتائج ہم آج دیکھ رہے ہیں۔

تاریخی حقیقت:
مشرکین کی نظریں بڑی گہری ہیں۔ وہ مکر و فریب سے کام لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی نظریں ان تاریخی قرائین پر لگی ہوئی ہیں؛ جہاں سے ان پر ضرب کاری لگی تھی، جہاں ان کی سازشوں کی بخیہ اُدھیڑی گئی تھی۔
[۱] جس عہد میں انگریز کا تسلط تھا۔ مسلمانوں سے چھینی ہوئی سلطنت کو انگریزی استبداد سے آزاد کرانے کے جتن کیے جا رہے تھے؛ ہندو قائدین کی نظریں اقتدار پر تھیں، اسے انگریز کا خطرہ نہیں تھا؛ کہ انگریز کے دُشمن اور مشرکین کے دُشمن مشترک تھے، یعنی مسلمان تھے۔ اعلیٰ حضرت رحمۃ اﷲ علیہ جن کی شناخت عشقِ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم ہے، جن کی خانقاہ سے لاکھوں بلکہ کروڑوں مسلمان ہر عہد میں وابستہ رہے ہیں، انھوں نے مسلمانوں کو ہندوؤں کی سازشوں سے باخبر کیا تھا کہ نہ انگریز تمہارے دوست ہیں نہ مشرک، بلکہ مشرکین بھی کبھی تم سے بھلائی نہیں کر سکتے۔ اس ضمن میں اعلیٰ حضرت کے درجنوں فتاویٰ سو سال سے مطبوع ہیں۔ المحجۃ المؤتمنۃ، دوام العیش جیسی کتابیں لکھ کر آپ نے مشرکین کی نقاب کشائی کی تھی۔بلکہ عملاً شرکیہ قوتوں کے خلاف ’’جماعت رضاے مصطفی‘‘ کا کردار ملکی تاریخ کا حصہ ہے۔جس نے ان کے شدھی کرن کو بھسم کر کے رکھ دیا تھا۔
[۲] ایمرجنسی کا زمانہ بھی کوئی معمولی حادثہ نہ تھا۔ لیڈر قائدین تو فوراًبک جاتے ہیں لیکن بریلی کا دارالافتاء یا خانقاہ خریدے نہ جا سکے۔ اس عہد میں جانشین اعلیٰ حضرت مفتی اعظم رحمۃ اﷲ علیہ نے نس بندی کے خلاف فتویٰ دیا کہ ازروئے شرع نس بندی حرام ہے اس لیے مسلمان کوئی ایسا فیصلہ قبول نہیں کرے گا جو شریعت اسلامی سے متصادم ہو۔اور خلافِ شرع فیصلے کو جبراً بھی قوت سے تھوپا نہیں جا سکتا۔
[۳]۱۹۹۲ء میں بابری مسجد کی شہادت ہوئی۔ اس کے بعد کے زمانے میں جب وزیر اعظم نرسمہا راؤ بریلی گئے تو حضور تاج الشریعہ علامہ اختر رضا خان قائم مقام مفتی اعظم نے عقیدت مندوں کے ذریعے درگاہ اعلیٰ حضرت حاضری سے روک دیا۔ ملاقات گوارا نہ کی کہ وہ بابری مسجد کا قاتل ہے۔
[۴] جب بھی شریعت پر ضرب لگانے کی کوشش کی گئی بریلی کے دارالافتاء نے دین کے مزاج کے مطابق فتویٰ دیا، اقتدار، اکثریت کی پروا نہ کی۔ بلکہ اس ضمن میں دارالافتاء بریلی کا دو سو سالہ ریکارڈ موجود ہے، جن میں اکثر اہم فتاویٰ مطبوع ہیں۔

یہی وہ تاریخی حقائق ہیں جن کی بنیاد پر حکومت کی نظریں بریلی پر لگی رہتی ہیں کہ کہیں ان کی طرف سے کوئی ایسا قدم نہ اُٹھ جائے جس سے حکومت کی چولیں ہل جائیں!!
مسلمانوں کی بڑی طاقت’’بریلی‘‘

سالِ گزشتہ عالم اسلام کے عہدِ رواں کے سب سے بڑے مسلم قائد و روحانی پیشوا حضور تاج الشریعہ رحمۃ اﷲ علیہ کا وصال ہوا۔ آناً فاناً لاکھوں بلکہ بعض میڈیا ذرائع کے مطابق ایک ڈیڑھ کروڑ کا مجمع بریلی میں جمع ہوگیا۔ فرقہ پرست حکومت کے کان کھڑے ہو گئے۔ یوگی حکومت ہِل گئی۔ آر ایس ایس گھبرا گئی کہ مسلمانوں کے ایک عظیم عالم سے عقیدتوں کا یہ عالم ہے اگر یہ اژدھام متوجہ ہو گیا تو آر ایس ایس کے ایجنڈے تباہ ہو جائیں گے۔ ان کی لابی بے بس ہو جائے گی۔پھر ماضی کا ریکارڈ بھی بریلی کا ایسا رہا ہے کہ جہاں سے مشرکین کے لیے کوئی وفا کی بو نہیں آئی۔ بلکہ ایک صدی قبل بھی بریلی مشرکین کے مقابل تھا، نس بندی کے عہد میں بھی مقابل اور آر ایس ایس کے نزدیک اس وقت ان کے مخالفین کا سب سے زیادہ افرادی قوت رکھنے والا روحانی حلقہ وابستگانِ بریلی کا ہے۔ یہی سبب ہے کہ تاج الشریعہ رحمۃ اﷲ علیہ کے پہلے عرس پر رخنہ اندازی کی کوشش کی گئی۔مرکزی و ریاستی عملہ دن رات ایک کر دیا۔لیکن اس کے باوجودحضور تاج الشریعہ کا یہ پہلا عرس ہوا۔ لاکھوں مسلمان جمع ہوئے۔ جنھیں دین کی باتیں بتائی گئیں۔اس موقع پر ہندوستان کے قاضی جانشین تاج الشریعہ مفتی عسجد رضا خان نے دو ٹوک طریقے سے آر ایس ایس کو للکارا ۔ آر ایس ایس کے خلاف بیان جاری کیا۔ دینی معاملات میں ان کی مداخلت پر سخت تنقید کی اور ان کے اسلام مخالف اقدامات کو سختی ٹھکرا دیا۔

بہر کیف! فرقہ پرستوں کی نظریں ملک میں مسلمانوں کی بڑی تقاریب پر لگی ہوئی ہیں۔ اجمیر شریف کے عرس پر بھی ان کی غلیظ نگاہیں ہیں۔ یوں ہی مسلمانوں کے علمی، روحانی مراکز بھی ان کے نشانے پر ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ اپنے تشخص کے لیے اور اپنے اسلامی وقار کی بحالی کے لیے دین کے احکام پر عمل کریں اور مشرکین سے ہمیشہ باخبر رہیں۔ ان کی مشرکانہ تہذیب سے مسلم بستیوں کو بچائیں اور اسلامی تمدن پر نازاں رہیں۔ملک میں رواداری کے نام پر کسی بھی ایسے کام سے بچیں جن سے مشرکین کو تقویت ملے۔
٭٭٭

 

Ghulam Mustafa Rizvi
About the Author: Ghulam Mustafa Rizvi Read More Articles by Ghulam Mustafa Rizvi: 277 Articles with 255370 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.