لیاری ندی پر تین ہٹی پل کے مقام پر سینکڑوں گھرانے اس
وقت لیاری ایکسپریس وے کی نیچے چارپایاں، چادریں اور ریڑھے لگا کر بیٹھے
ہوئے ہیں جبکہ گزشتہ 48 گھنٹوں سے مسلسل بارش جاری ہے۔
ان لوگوں کے گھر ندی کے کنارے کے ساتھ واقع بستی میں تھے جو اب مکمل طور پر
زیر آب ہے۔
نندا کماری کا کہنا تھا کہ جب بھی ندی میں بہاؤ آتا ہے ان کا سارا سامان
ڈوب جاتا ہے، جھگیاں تک چلی جاتی ہیں اور انھیں کسی قسم کا کوئی معاوضہ
نہیں ملتا۔ ’بارش ہمیں بے گھر کردیتی ہے۔ جوان بیٹیاں سڑک پر بیٹھی ہیں
کوئی بھی داد فریاد نہیں سنتا۔‘
سکڑتی ہوئی لیاری ندی
|
|
کراچی کے وسط میں موجود لیاری ندی پہلے صرف برساتی پانی کی نکاسی کا ذریعہ
تھی لیکن اب کئی کچی بستیاں اس کی گود میں پل رہی ہیں۔ یہ غریب لوگ ہیں جو
محنت مزدوری سے اپنا پیٹ پالتے ہیں۔
لیاری ندی کھیر تھر کے پہاڑی سلسلے سے نکلتی ہے اور اس کا اختتام سمندر میں
ہوتا ہے۔ تیہاتی کے مقامی رہائشی عبدالرشید بلوچ نے بی بی سی کو بتایا کہ
لیاری ندی کا پانی صاف تھا جس پر کاشت ہوتی تھی اور اس میں کئی ماہ تک پانی
بھی موجود رہتا لیکن بعد میں اس میں سیوریج کا پانی شامل کر دیا گیا اور
لوگوں نے گھر بنانا شروع کر دیے جس سے ندی کے بہاؤ میں رکاوٹ آتی گئی۔
کراچی شہر میں اورنگی نالے، شیر شاہ نالے، گجر نالے اور نہر خیام سمیت 41
بڑے نالے ہیں جن کی نکاسی لیاری ندی اور ملیر ندی سمیت سمندر میں ہوتی ہے۔
ایک طرف پہاڑوں سے آنے والا بارش کا پانی دوسری طرف آبادی اور شہری برساتی
پانی دونوں ندیوں میں طغیانی کا سبب بنتا ہے۔
برساتی نالوں پر قبضے
|
|
عدالتی کمیشن کے حکم پر شہر میں سیوریج اور برساتی نالوں سے غیر قانونی
تجاویزات ہٹائی گئی ہیں اور صرف گجر نالے سے ہی 14000 غیر قانونی تجاوزات
منہدم کی گئی ہیں۔
بارش کے دوران بھی موسیٰ کالونی میں دو مشینوں کی مدد سے گجر نالے سے کچرا
نکالا جا رہا ہے۔ یہ کچرا کئی میلوں تک پھیلا ہوا ہے جس نے پانی کے بہاؤ کو
روک رکھا ہے۔
عبد الجلیل کا گھر گجر نالے کے ساتھ ہے اور گذشتہ بارش میں ان کے گھر میں
پانی داخل ہو گیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر بلدیہ صفائی نہیں کرے گی تو پانی گھروں میں ہی داخل
ہو گا جس سے ہمیشہ کافی نقصان ہوتا ہے۔ ان کے گھر میں دو مرتبہ پانی داخل
ہو چکا ہے جس سے انھیں تقریباً ایک لاکھ روپے کا نقصان ہوا۔
’بلدیہ والے گزشتہ روز سے صفائی کر رہے ہیں، بارش آتی ہے تو یہ کچرا بہہ
جاتا ہے ورنہ یہ سوکھ کر اس قدر سخت ہو جاتا ہے کہ کوئی بندہ اس پر چل بھی
سکتا ہے۔‘
شہری منصوبہ بندی کے ماہر
شہری منصوبہ بندی کی ماہر یاسمین لاری کا کہنا ہے کہ شہر بہت پھیل گیا ہے،
اس کے لیے جو انفراسٹرکچر چاہیے تھا اس کو توسیع نہیں دی گئی، برساتی نالے
بند کر دیے گئے اور ان پر تجاویزات آگئیں، اب وہ صاف نہیں ہو رہے جس سے
پانی کا بہاؤ متاثر ہوتا ہے۔
|
|
کراچی کے شہری امور پر دسترس رکھنے والے ماہر عارف حسن اپنے تحقیقی مقالے
میں کہتے ہیں کہ کراچی میں نکاسی کا ایک فطری راستہ ہونا چاہیے جس کے لیے
منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔
’یہ تبھی ممکن ہے جب ہزاروں کلومیٹر کی ڈریینج لائن بچھائیں اور پمپنگ
سٹیشنوں سے سمندر تک لے جائیں، لیکن یہ مالی اور فزیکل طور پر ممکن نہیں،
لہذا نالوں سے ریت ، مٹی اور گندگی نکالی جائے اور ان کی چوڑائی کو بحال
کیا جائے اور سمندر میں پھینکنے سے پہلے اسے ٹریٹمنٹ پلانٹ سے گزارہ جائے۔‘
سڑکوں سے پانی کی نکاسی
کراچی میں گزشتہ دو روز میں محکمہ موسمیات کے مطابق 100 ملی میٹرسے زیادہ
بارش ریکارڈ کی گئی ہے جبکہ پہلے روز ہی شاہراہ فیصل، ایم اے جناح روڈ،
ناظم آباد، کورنگی روڈ سمیت سڑکوں پر پانی جمع ہو گیا اور ٹریفک کی روانی
متاثر ہوئی ہے۔
کراچی کے میئر وسیم اختر کا کہنا ہے کہ کراچی کے انفراسٹرکچر میں گنجائش ہی
نہیں ہے۔
’یہ سڑکوں پر جو پانی نظر آرہا ہے اس کی نکاسی ہو ہی نہیں رہی۔ ساری سیوریج
لائن بند ہو چکی ہے، جو چھوٹے نالے ہیں وہ کچرے سے بلاک ہیں اور یہ ہی وجہ
ہے کہ سڑکوں پر پانی نظر آرہا ہے۔‘
|
|
عارف حسن کہتے ہیں شہر کی مرکزی شاہراؤں پر بھی پانی کی نکاسی کا کوئی
معقول بندوست نہیں اور جب وہاں پانی جمع ہو جاتا ہے تو یہ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ
کا شکار ہو جاتی ہیں۔
’سڑکوں کا ڈیزائن اس طرح ہونا چاہیئے کہ پانی کا نکاس ٹریفک کی روانی کو
متاثر کیے بغیر ہو جائے۔ کچھ ایسی جگہیں مختص ہوں جہاں برساتی پانی کی
نکاسی ہو۔‘
یاسمین لاری کا کہنا ہے کہ اربن ڈیزائن کی ضرورت ہے، جو پانی سڑک میں جذب
ہونا چاہیے وہ بہہ رہا ہے، اگر فٹ پاتھ نیچے ہوں اور ان پر سبزہ ہو تو پانی
اس میں چلا جائیگا۔
کنٹونمنٹ بورڈز کی کارکردگی
کراچی میں بلدیاتی نظام کے علاوہ کلفٹن، کراچی، فیصل، کورنگی، ملیر اور
منوڑہ کے نام سے کنٹونمنٹ بورڈز، ڈیفینس ہاؤسنگ اتھارٹی اور کراچی پورٹ
ٹرسٹ جیسے ادارے بھی موجود ہیں جو اپنے نظام خود چلاتے ہیں اور ان کا اپنے
سینیٹری سٹاف ہے۔ برسات کے دنوں میں ان اداروں کی جانب سے اخبارات میں صرف
اشتہارات آتے ہیں کہ شکایتی مراکز قائم کیے گئے ہیں۔
کراچی کے میئر وسیم اختر کا کہنا ہے کہ کنٹونمنٹ بورڈز کوئی کام نہیں کر
رہے، ان کا بہت برا حال ہے۔ ’ان کے پاس پانی کی نکاسی کی چالیس مشینیں ہی
جو انھیں کہیں نظر نہیں آئیں۔ اس طرح ڈیفینس ہاؤسنگ اتھارٹی کا بھی برا حال
ہے۔‘
بلدیاتی اختیارات کا تنازع
|
|
سندھ حکومت پاکستان پیپلز پارٹی کی ہے جبکہ میئر وسیم اختر کا تعلق متحدہ
قومی موومنٹ سے ہے۔ وہ اختیارات اور وسائل نہ ہونے کی شکایت کرتے ہیں۔ ان
کا مطالبہ ہے کہ کراچی واٹر بورڈ اور بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو ان کے حوالے
کیا جائے۔
سپریم کورٹ کے حکم پر بنائے گئے واٹر کمیشن کی ہدایت پر بلدیہ نے شہر کے 38
بڑے نالوں کی صفائی کا کام کیا اور ہزاروں ٹن کچرا نکال کر ان نالوں کو صاف
کیا تاہم بعد ازاں برساتی نالے دوبارہ کچرے سے بھر گئے۔
کراچی کے میئر وسیم اختر کا کہنا ہے کہ میں گذشتہ تین سالوں سے کہہ رہا ہوں
کچرے کے ڈسپوزل کو بہتر بنایا جائے۔ ’سالڈ ویسٹ ان نالوں میں آجاتا ہے جس
کو اٹھانے کی ذمہ داری سندھ سالڈ ویسٹ بورڈ کی ہے۔‘
یاد رہے کہ حکومت سندھ نے سالڈ ویسٹ اٹھانے کے لیے ایک آزاد ادارہ تشکیل
دیا تھا جس نے ایک چینی کمپنی اور چند نجی کمپنیوں کے مدد سے کچرا اٹھانا
تھا لیکن یہ ادارہ کامیاب نہیں ہو سکا جس کا اعتراف وزیر بلدیات سعید غنی
بھی کرچکے ہیں۔
صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ برساتی نالوں کی صفائی بلدیاتی اداروں کی ذمہ
داری ہے جس کے لیے انھیں فنڈز بھی جاری کیے گئے تھے۔
|
|
ناقص منصوبہ بندی
کراچی میں حالیہ بارشوں سے جہاں وسطی شہر متاثر ہوا وہاں سپر ہائی وے پر
واقع آبادیاں بھی زیر آب آ گئیں۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کو بتایا
گیا ہے کہ نادرن بائی پاس بناتے وقت اس کو مطلوبہ ’کل ورٹس‘ یعنی زیرِ سڑک
نالیاں نہیں دی گئیں جس سے پانی کا قدرتی بہاؤ متاثر ہوا اور بیشتر علاقے
زیر آب آگئے۔
وزیراعلیٰ نے کراچی پیکج کے سربراہ نیاز سومرو کو ہدایت کی ہے کہ نئے واٹر
ویوز یا کل ورٹس بنانے کے لیے سٹڈی کر کے رپورٹ پیش کی جائے۔
کراچی میں کلفٹن، میٹرو ویل، بسم اللہ کالونی سمیت مختلف جگہوں پر سیوریج
پمپنگ سسٹیشنز موجود ہیں جن کی مدد سے معمول کے سیویراج اور برساتی پانی کی
نکاسی کی جاتی ہے۔ وزیر اعلیٰ کا کہنا ہے کہ بجلی کے تعطل کی وجہ سے پانی
کی پمپنگ میں مسئلہ ہو رہا ہے۔
|