تحریر۔۔۔ڈاکٹر فیاض احمد
زمانہ قدیم کی بات ہے کہ ایک آدمی جس کا نام قطب تھا جو اپنا سب کچھ چھوڑ
کر گھر سے دور جا چکا تھا جس نے دنیا میں بہت ترقی کی اور بہت ساری دولت
کما لی تھی یہاں تک کہ وہ بہت امیر بن چکا تھا اور اس کی شہرت دور دور تک
پھیل چکی تھی اس کے پاس اپنوں کے لئے تو کیا اس کے خود کے لئے وقت نا تھا
اس کو نا تو دن کو چین تھا اور نہ رات میں سکون میسر آتا تھابس یوں کہیے کہ
دولت کا پجاری بن گیا تھا سوتے جاگتے بس اس کی دولت کا خیال رہتا مسلسل تگ
ود کے بعد ایک دن اس کی اس کے آفس میں آنکھ لگ گئی اور وہ سو گیاچند لمحے
بعد آفس بوائے آیا اور وہ کیا دیکھتا ہے کہ قطب پر خوف طاری ہے اور وہ
پسینے سے شرابور کھڑا کانپ رہا ہے اور کسی سے التجاء کر رہا ہے آفس بوائے
یہ دیکھ کر حیران ہو گیا کہ قطب سے ملنے کے لئے پہلے اجازت لینی ہوتی ہے
لیکن آج یہ خلاف معمول ایسا کیا ہو گیا ہے کہ قطب کسی سے التجاء کررہا ہے
آج یہ کون ہے جس نے قطب میں خوف پیدا کر دیا ہے اس کی سمجھ سے یہ سب کچھ
بلاتر تھا کیونکہ وہ نہیں جانتا تھا کہ قطب کے سامنے کون ہے آفس بوائے کیا
سنتا ہے کہ قطب کسی سے مخاطب ہو کر بار بار کوئی درخواست کر رہا ہے اور
سامنے سے قطب کو نا میں جواب ملتا ہے حالانکہ قطب جس سے ہم کلام تھا وہ قطب
کے بغیر کسی کو نظر نہیں آ رہا تھا آفس بوائے کی زبانی قطب کی کہانی۔جب میں
کمرے میں داخل ہوا تو قطب صاحب کسی سے بڑے التجائی انداز میں کہہ رہے تھا
کہ مجھ سے دس کروڑ لے لو اور مجھے ایک دن کی مہلت دے دو ۔۔۔لیکن ۔۔۔ قطب
صاحب کے تاثرات بتا رہے تھا کہ جواب نا میں ملا ہے جس پر دوبارہ پھر قطب
صاحب کو التجاء کرتے سنا کہ مجھ سے ساری دولت لے لو اور مجھے آج کا دن مہلت
دے دو اس بار قطب صاحب کا چہرہ بہت زیادہ غم زدہ تھا جس سے اندازہ لگایا جا
سکتا ہے کہ جواب نا میں ہی ملا ہے۔اتنی دیر میں پھر قطب صاحب نے تیسری بار
پھر بڑے مساکینی انداز میں مدمقابل سے التجاء کی کہ مجھے اﷲ تعالیٰ کے
واسطے چند لمحے دے دیں میں کچھ لکھنا چاہتا ہوں اس بار تھوڑا ہٹ کے ہوا
ایسا لگتا تھا جیسے قطب صاحب کو چند لمحوں کی اجازت مل گئی ہو ۔۔۔۔
قطب صاحب دوڑا اور کا غذ قلم اٹھا کر لکھنا شروع کرتا ہے قطب صاحب کیا
لکھتے ہیں۔
میں بہت امیر ہوں اور میرے پاس دولت اور شہرت کی فروانی ہے اور میرا
اثرورسوخ بہت دور تک ہے اس دولت سے میں دنیا کی ہر چیز خرید سکتا ہوں لیکن
میں اس دولت کے نشے میں سب کچھ بھول گیا ہوں کہ کوئی میرا بھی وجود ہے اور
کوئی میرے اپنے بھی ہیں لیکن آج مجھے اس بات کا احساس ہوا جب میرے ہاتھ میں
کچھ نہیں یعنی دولت ہونے کے باوجود میں بے یارومددگار ہوں میرا پاس اب اتنا
بھی دقت نہیں کہ میں کچھ کرسکوں کیونکہ موت کا فرشتہ میرے سامنے ہے اور میں
بے بس ہوں اس کے سامنے آج میری دولت ہی نا مجھ کو بچا سکی اتنے میں قطب
صاحب گر جاتے ہیں اور ان کی روح پرواز کرجاتی ہے تب مجھے اس بات کا احساس
ہوا کہ وہ کیا چیز تھی جس کے سامنے قطب صاحب بے بس اور لاچار کھڑے تھے موت
ہی ایک ایسی چیز ہے جو صرف مرنے والے کو ہی نظر آتی ہے ہم سب اس دن کو بھول
گئے ہیں کہ ہم نے بھی ایک دن اس دنیا ء فانی سے چلے جانا ہے جیسا کہ قرآن
پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’ ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے‘‘۔ اس
ارشاد سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ہر جان کو مرنا ہے اپنے وقت مقرر پر ہم نے
اس دنیا کو سب کچھ سمجھ لیا ہے اور اپنی آخرت اور موت کے مراحل کو بھول گئے
ہیں دنیا کی عارضی خوشی کے لئے اپنی زندگی کے اندھیروں کو بجھنے سے بچائیں
زندگی موت کی امانت ہے لیکن انسان اس بات کو بالکل بھول گیا امانت میں
خیانت نہیں ہوتی ہے آجکل کا انسان گمراہی کی حدیں پار کر گیا ہے اس میں
نفسانی خواہشات نے گھر کر لیا ہے اگر ہم تھوڑا سا وقت نکال کر سوچیں تو
ہمیں اس زندگی کی رنگینیوں کا پتہ چل سکے اگر کسی بھی انسان کی زندگی کا
بغور مطائعہ کریں تو ہمیں اس بات پر یقین ہو جائے کہ چاہے کوئی بادشاہ ہے
یا غلام سب کو قبر اور کفن ایک جیسا ملتا ہے اور وہ دنیا میں خالی ہاتھ آتا
ہے اور خالی ہاتھ جاتا ہے تو پھر یہ بے چینی اور دھوکہ دہی کیوں ۔۔اپنے بھی
خفا مجھ سے ہیں ،بیگانے بھی ناخوش ۔۔میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند۔
بس تھوڑی سی کوشش ہماری زندگی بدل سکتی ہے اور ہم اس بے چینی سے نجات حاصل
کر سکتے ہیں اور اس دنیا ئے فانی سے اپنے آپ کو بچا سکتے ہیں اپنی زندگی کو
خوشگوار بنائیں اور اپنے اند ر احساس کی دولت پیدا کریں کیونکہ جس میں
احساس نہیں ہے وہ انسان نہیں ہے
احساس کے انداز بدل جاتے ہیں ورنہ ۔۔۔آنچل بھی اسی تار سے بنتا ہے اور کفن
بھی۔
|