ہماری روز مرہ زندگی میں جہاں الیکٹرونکس کی مصنوعات نے
آسودگی اور دلچسپی کے سامان پیدا کئے ہیں وہیں انکے نقصانات اورمضر اثرات
بھی بری طرح سے ہماری زندگیوں کو گھن کی طرح کھا رہے ہیں۔ ویسے تو
الیکٹرانکس کی بہت سی ایسی اشیاء ہیں جنکا عمل دخل ہماری روزمر ہ زندگی میں
اکثر و بیشتر رہتا ہے مگر خاص طور پر کمپیوٹر، ٹیلی ویژن، ویڈیو گیمز،
مائیکرو ویوو اوون ،موبائل فونز الیکٹرانکس کی ایسی مصنوعات ہیں جنکا عمل
دخل ہماری روزمرہ زندگی میں ایک معمول بن چکا ہے اور یہ ہماری زندگی کا ایک
مستقل حصہ بن چکی ہیں اور ایک چھوٹے بچے سے لیکر بوڑھا تک انکے بغیر اپنی
زندگی کو ادھورا سمجھتا ہے ۔کوئی بھی الیکٹرانک کی چیز ہو اسمیں سے
الیکٹرومیگنیٹک شعائیں نکلتی رہتی ہیں جنہیں حرف عام میں ریڈیائی شعائیں
کہا جاتا ہے۔ریڈیائی شعاؤوں کا اخراج تین قسم کا ہوتا ہے۔ جنہیں ایلفا،بیٹا
اور گاما شعاؤں کا نام دیا گیا ہے۔ یہ تینوں ریڈیائی شعائیں حیران کن حد تک
ایک دوسرے سے مختلف خصوصیات کی حامل ہیں۔ ایلفا شعائیں مثبت انداز میں چارج
ہوتی ہیں جنہیں مقناطیسی فیلڈ کے ذریعے موڑا جا سکتا ہے اور انہیں کاغذ کی
شیٹ کے ذریعے بھی روکا جا سکتا ہے۔ بیٹا شعائیں منفی انداز میں اثر انداز
ہوتی ہیں اور انہیں مخالف سمت میں مقناطیسی فیلڈ کے ذریعے موڑا جا سکتا ہے
۔ یہ کاغذ کی شیٹ میں سے آسانی سے گزر جاتی ہیں مگر ایلومینیم کی شیٹ سے یہ
شعائیں نہیں گزر سکتیں ۔گاما شعائیں غیر جانبدار ہوتی ہیں جو ایک کاغذ کے
ٹکڑے اور ایلومینیم کی دھات کی تختی سے بھی پار ہو جاتی ہیں ۔ لیکن انہیں
کنکریٹ کی موٹی تہہ یا پھر سکے کی موٹی تہہ سے روکا جا سکتا ہے۔فزکس کی
زبان میں ریڈیائی لہروں یا شعاؤں کو فضا میں قوت کے ایک جگہ سے دوسری جگہ
پر منتقلی کے عمل کو کہا جاتا ہے۔ ریڈیائی لہریں جتنی لمبی ہوتی ہیں
فریکیونسی اتنی ہی چھوٹی ہوگی اور انکی لمبائی جتنی کم ہوگی فریکیونسی اتنی
ہی طاقتور ہوگی۔خلا میں الیکٹرو میگنیٹک لہریں یکساں رفتار سے تقریباً تین
لاکھ کلو میٹر فی سیکنڈ کے حساب سے سفر کرتی ہیں۔ ریڈیائی لہروں کی تشریح
انکی لمبائی کے مطابق کی جاتی ہے۔ ایک کلو ہرٹز (KHz) کا مطلب ایک ہزار چکر
فی سیکنڈ ہوتاہے۔ ایک میگا ہرٹزMHz) (مطلب دس لاکھ چکر فی سیکنڈ ہوتا ہے۔
ایک گیگا ہرٹز (GHz) کا مطلب دس کھرب چکر فی سیکنڈ ہوتا ہے۔
یہ ریڈیائی لہریں حیاتیاتی نظام پر انتہائی برے طریقے سے اثر انداز ہوتی
ہیں جو حیاتیاتی نظام میں پائے جانے والے بافتوں اور سالموں پر اثر انداز
ہوکر انہیں یا تو مکمل طور پر تباہ کر دیتی ہیں یا پھر انہیں برے طریقے سے
متاثر کردیتی ہیں۔ اصل میں یہ ریڈیائی لہروں کی مقدار پر منحصر ہوتا ہے کہ
وہ انسانی جسم میں کتنی مقدار میں سرایت کر چکی ہیں۔ یہ برقی مقناطیسی
ریڈیائی لہریں حیاتیاتی جسم میں سرائیت کر جاتی ہیں جسکے نتیجے میں انسانی
جسم میں موجودسیال مادہ یا مائع کی مقدار غیر متوازن ہو جاتی ہے اور انسانی
جسم کے مختلف حصے مثلاً دماغ،دل ،پھیپھڑے، گردے،آنکھیں، ہڈیوں کا گودا،نظام
انہضام ، نظام تنفس، جگر ،جلد وغیرہ متاثر ہوتے ہیں اور انسانی موت ایک
ہفتے سے دس روز میں واقع ہو جاتی ہے۔ ریڈیائی لہریں بالواسطہ یا پھر بلا
واسطہ ہر دو صورتوں میں حیاتیاتی جسم میں سرایت کرکے نظام میں شکست و ریخت
کے عمل کو شروع کردیتی ہیں یہ اثرات اگر تو بہت ذیادہ ہوں تو ایک دم
حیاتیاتی جسم پر اثر انداز ہو جاتی ہیں اگر انکی مقدار کم ہو تو اسکے اثرات
کے ظاہر ہونے میں گھنٹے ، دن، ہفتے اور مہینے بھی لگ جاتے ہیں ۔ بعض اوقات
اسکے اثرات سالوں پر بھی محیط ہوتے ہیں۔
ہماری زندگیوں میں آجکل سب سے زیادہ انتہائی تیز رفتار برقی مقناطیسی
ریڈیائی لہریں پیدا کرنے والا آلہ جسے ہم سیلولر فون کے نام سے موسوم کرتے
ہیں عام ہو چکا ہے اور تیزی سے پوری دنیا میں پھیل رہا ہے ۔سیلولر فون
ماہرین اور ان پر تحقیق کرنے والے یہ بخوبی جانتے ہیں کہ موبائل فون
انتہائی تیز رفتار مقناطیسی ریڈیائی لہروں کے ذریعے کام کرتے ہیں اور ان
میں موجود آلات جو پیغام رسانی کا کام کرتے ہیں وہ یہ مقناطیسی ریڈیائی
لہریں پیدا کرتے ہیں جنکے ذریعے پیغام رسانی کا عمل معرض وجود میں آتا ہے۔
طبیعاطی سائینس کے ماہرین زور دیکر یہ بات کہتے ہیں کہ یہ تیز رفتار برقی
مقناطیسی ریڈیائی لہریں انسانی دماغ کے خلیوں کو بری طرح متاثر کرکے انمیں
شکست و ریخت کے عمل کو پیدا کرتی ہیں۔طبیعاطی ماہرین اس پر تحقیق کرکے
معلومات اکٹھی کر رہے ہیں کہ سیلولر فون سے نکلے والی یہ تیز رفتار برقی
مقناطیسی ریڈیائی لہریں کس حد تک انسانی دماغ کو متاثر کرتی ہیں اور یہ
کتنی خطرنات ہوتی ہیں۔ کیلیفورنیا یونیورسٹی کے انتہائی ماہر ڈاکٹر جوزف فر
ا ئیڈمین کی یہ رائے کہ یہ غیر حرارتی انتہائی تیز رفتار برقی مقناطیسی
ریڈیائی لہریں خاموشی سے اور انتہائی سست روی سے انسانی دماغ میں حدت پیدا
کرتی رہتی ہیں جس سے انسانی دماغ کے خلئے اس حدت سے متاثر ہوتے رہتے ہیں
انتہائی اہمیت کی حامل ہے ۔ ان طبیعاتی ماہرین کا یہ خیال ہے کہ یہ غیر
حرارتی تیز رفتار برقی مقناطیسی ریڈیائی لہریں سیلولر فون استعمال کرنے
والوں کیلئے انکی روزمرہ زندگی میں کسی نہ کسی طرح سے انکی صحت پر گہرے اور
مضر ثرات چھوڑتی رہتی ہیں۔کچھ اسرائیلی طبعیاتی ماہرین نے ایسی تیکنیکی
کھوج نکال لی ہیں کہ وہ انسانی دماغ میں پائے جانے والے خلیوں کے ذریعے غیر
حرارتی برقی مقناطیسی ریڈیائی لہروں کے فرق کو پہچان سکیں۔
اس موضوع کو بار بار اسلئے زیر بحث لایا جا رہا ہے کہ پوری دنیا کے طبعی
ماہرین کے دماغ پر سیلولر فون کے بارے میں ایک خوفناک بھوت سوار ہے وہ ابھی
تک اس مو ضوع کوخارج از بحث کرنے کے حق میں نہیں ہیں کہ یہ موضوع انتہائی
نازک اور انسانی صحت سے متعلق ہے اور اسکے بارے میں تحقیق کرکے کسی منطقی
نتیجے پر پہنچنا بہت ضروری ہے کہ آیا سیلولر فون سے خارج ہونے والے انتہائی
تیز برقی مقناطیسی ریڈیائی لہریں واقعی دماغ میں رسولی کا باعث بنتی ہیں
اور دماغ میں پائے جانے والے کیمیائی مادوں اور خلیوں کو نقصان پہنچاتی
ہیں۔
اسکے باوجود کہ پوری دنیا میں سیلولر فون کے تیار کنندگان اس بات پر مضر
ہیں اور دلائل سے اس بات پر وزن دیتے ہوئے سیلولر فون کے استعمال کرنے
والوں کو قائل کرنے پر تلے ہوئے ہیں کہ سیلولر فون انسانی صحت کیلئے قطعی
خطرناک نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ سیلولر فون تیار کرتے وقت اس بات کا
خاص خیال کرتے ہیں کہ یہ انسانی صحت پر مضر اثرات کا باعث نہ بنے اسکے لئے
وہ (R & D ) بین الاقوامی تحقیقاتی اور ترقیاتی ادارے کے قوانین کو مد نظر
رکھتے ہوئے ان سیلولر فون کی تیاری میں ان قوانین کی مکمل پابندی کرتے ہیں۔
اس بحث کا نتیجہ خواہ کچھ بھی ہو مگر انسانی صحت ایک ایسا معاملہ ہے جسکے
بارے میں پوری دنیا کے طبی ماہرین سخت پریشان ہیں ۔انہیں اس بات کی کھوج
لگانی ہے کہ انسانی ذندگی کو خطرات سے بچانے کیلئے اور انسانیت کی خدمت
کرنے کیلئے سیلولر فون کے انسانی زندگی پر مضر اثرات اور اس سے پیدا ہونے
والی بیماریوں پر بحث اور تحقیق کسی منطقی نتیجے پر پہنچنے تک جاری رہنی
چاہئے تاکہ یہ بھوت ہمارے اذہان سے اتر سکے۔ کچھ تحقیقی کام سے یہ بات
سامنے آئی ہے کہ انسانی ڈی این اے پرخفیف قسم کی سطحی برقی مقناطیسی
ریڈیائی لہریں اثر انداز نہیں ہوتیں اور یہ کہ وہ انسانی مدافعتی نظام جو
متعدی بیماریوں سے لڑنے میں ہمارا معاون ثابت ہوتا ہے یہ برقی مقناطیسی
ریڈیائی لہریں اسے تباہ کرنے کیلئے انتہائی خفیف ہوتی ہیں اسلئے یہ سوال ہی
پیدا نہیں ہوتا کہ یہ انسانی صحت کیلئے خطرناک ہوں۔مگر سوال یہ پیدا ہوتا
ہے کہ یہ انتہائی خفیف برقی مقناطیسی ریڈیائی لہرں خواہ خفیف ہی ہیں مگر
پیدا تو ہوتی ہیں اور یہ خاموشی اور سست روی سے انسانی صحت پرمکمل طور پر
نہ صحیح جزوی طور پر خفیف اثرات تو ڈال سکتی ہیں ۔
آئیں دیکھیں کہ ہماری زندگی میں روز مرہ استعمال کی چیزیں جن میں آجکل سب
سے ذیادہ موبائل فون کا استعمال عروج پر ہے ہماری زندگی پر کیسے اثر انداز
ہوکر ہمارے بافتوں، ریشوں اور خلیوں کو شکست و ریخت سے دوچار کرتا ہے۔ 23
فروری 2008 کی شائع ہونے والی ایک سائینسی رپورٹ کے مطابق سائنس دانوں نے
ایسی دس خواتین کا انتخاب کیا جنہوں نے اپنے آپکو ریڈیائی لہروں کے اثرات
کی تحقیق کیلئے رضاکارانہ طور پر پیش کیا اور ان پر متواتر 900 میگا ہرٹز
کی ریڈیائی لہروں والے (G.S.M)Global system mobile communication پر ایک
گھنٹے کی کال کے تجربے کے بعد جب انکی جلد کے 580 مختلف پروٹین کی سکرینننگ
کی گئی تو انکے جسم کی جلد کے بہت سے خلیات کے لحمیات متاثر ہو چکے تھے جن
میں سے بہت سے لحمیاتی خلئے اپنی ہیت تبدیل کر چکے تھے اور 89 فیصد
اپنی ہیت کے لحاظ سے بڑھ چکے تھے جبکہ دوسرے 32 فیصد کم ہو چکے تھے اور
اپنی ہیت تبدیل کر چکے تھے۔ اس تجربے سے یہ بات ظاہر ہوئی کہ اگرچہ ان
ریڈیائی لہروں میں حرارت کی حدت انتہائی کم تھی مگر زیادہ دیر تک انکی
مقدار لینے سے حیاتیاتی جسم میں پروٹین جسے لحمیات کے نام سے موسوم کیا
جاتا ہے اسکی ہیت میں خاصی تبدیلی پائی گئی جو انسانی جسم میں کینسر کا
باعث بھی بن سکتی ہے۔ ڈاکٹر مرکولا کہتے ہیں کہ تحقیقاتی اداروں نے اپنی
تحقیق سے یہ بات ثابت کی ہے کہ ریڈیائی لہریں حیاتیاتی اجسام کی شکست و
ریخت اور انسانی جسم پر کتنی اثر انداز ہوتی ہے۔ ایک تحقیق کے بعد اب
سائینس دان اس قابل ہوچکے ہیں کہ وہ ریڈیائی لہروں کے انسانی جسم میں موجود
لحمیات پر اثر اور ان اثرات سے پیدا ہونے والی تبدیلیوں کے بارے میں بتا
سکیں۔ موبائل فون اور وائر لیس فون مائکرو ویوو اوون جو ہم اپنی روز مرہ
زندگیوں میں گھنٹوں استعمال کرتے ہیں گو کہ انکی ریڈیائی لہریں اپنی کم حدت
اور حرارت میں کم خفیف ہیں مگر اسکے باو جود یہ انسانی جسم پر انتہائی تیزی
سے اثر انداز ہوتی ہیں جس سے انسان کینسر جیسے موزی مرض میں مبتلا ہو کر
اپنی زندگی کی بازی ہار جاتا ہے۔ اب یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ
حیاتیاتی اجسام میں موجود خلیوں ، پروٹین جسے لحمیات کے نام سے موسوم کیا
جاتا ہے پیغام رسانی والے آلات اور وہ سگنل جو مائیکرو ویوو کے ذریعے پیغام
رسانی میں مدد گار ہوتے ہیں اور ان ریڈیائی لہروں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ
منتقل کرتے ہیں یہ حیاتیاتی اجسام کیلئے تباہی کا باعث ہیں ۔ تاہم یہ دونوں
طریقے مکمل طور پر اپنی میکانیکی انداز میں مختلف طریقے سے تباہی پھیلاتے
ہیں ۔جب ہم فون پر اونچی اور گونجدار آواز میں بات کر رہے ہوتے ہیں اور سن
رہے ہوتے ہیں تو بیک وقت یہ عمل ہر دو اشخاص کیلئے اضطرابی کیفیت کا باعث
بنتا ہے جو انسانی دماغ پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اب جبکہ دنیا موبائل فون
،وائرلیس فون،اور انٹر نیٹ کی بدولت سمٹ کر ایک گلوبل ویلیج کی حیثیت
اختیار کر چکی ہے اور آن واحد میں ان ریڈیائی لہروں کے ذریعے دنیا میں کسی
بھی جگہ پر ہونے والے واقعے کو آن واحد میں دیکھا اور سنا جا سکتا ہے تو ہم
حیاتیاتی اور طبعی طور پر تیزی سے زوال پزیری کی طرف جا رہے ہیں جو ہمارے
لئے لمحہ فکریہ ہے۔ یہ ریڈیائی لہریں ہر وقت ہمارے ماحول اور فضا میں گردش
کرتی رہتی ہیں جو آنے والے وقت میں مذید تیزی سے بڑھتی ہوئی دکھائی دے رہی
ہیں اور ہماری زندگی ان ریڈیائی لہروں سے متاثر ہو ئے بغیر نہیں رہ سکتی۔
اس سے پہلے کہ یہ ہمارے خاندانوں کو متاثر کرے انہیں جسمانی اور زہنی طور
پر اپاہج بنا دے ہمارے لئے احتیاطی تدابیر کا اختیار کرنا بہت ضروری ہے ۔
یہ جاننے کیلئے کہ سیلولر فون سے خارج ہونے والی الیکٹرومیگنیٹک ریڈیائی
لہریں انسانی دماغ پر کیسے اثر انداز ہوتی ہیں سائنس دانوں نے اس ماحولیاتی
مسلئے کے پیش نظر جون 2003 میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کیمطابق ڈیونڈی
یونیورسٹی آف ریڈی ایشن اینڈ نیوکلیر اتھارٹی کے ڈاکٹر سائمن آرتھرنے
تجرباتی طور پر 12 تا 26 ہفتوں کے صحت مند چوہے جو مقابلتاً انسانی بچوں کی
مطابقت سے 12 تا 19 سال کے برابر ہوتے ہیں اور یہ بچے موبائل فون کا
استعمال بے دریغ کرتے ہیں ۔سائینس دانوں نے ان چوہوں کو موبائل فون سے خارج
ہونے والی الیکٹرومیگنیٹک ریڈیائی لہروں والے ماحول میں دو گھنٹے تک کھلا
رکھا اور جب انکے دماغ کا معائنہ کیا گیا تو انکے دماغ میں پائی جانے والی
پروٹین پر گہرے اثرات پائے گئے یہ پروٹین خون کے ذریعے دماغ کی دیوار سے
باہر خارج ہو نا شروع ہو گئی تھی اور ان چوہوں کے دماغ میں اعصابی نظام
انتہائی سرعت سے متاثر ہوچکا تھا۔ دماغ میں پائی جانے والی پروٹین پر ورم
آچکا تھا اور اسکی بنیادی اساس متاثر ہو چکی تھی ۔ لہٰذا سائنس دان اس
نتیجے پر پہنچے کہ شباب عنفوان میں اور اسوقت جبکہ بچوں کا دماغ تیزی سے
پھل پھول رہا ہوتا ہے یہ بات خارج از امکان نہیں کہ سیلولر فون استعمال
کرنے والے یہ بچے بھی ان سے خارج ہونے والی الیکٹرومیگنیٹک لہروں سے متاثر
نہ ہوتے ہوں۔کیا ہم سیلولر فون سے خارج ہونے والی برقی مقناطیسی ریڈیائی
لہروں سے پیدا ہونے والے خطرات سے صرف نظر کر سکتے ہیں ؟؟ اس پر برقی
مقناطیسی ریڈیائی لہروں اور نیوکلیر کے تحقیقی ادارے کے ڈاکٹر ہیل سینکی
ڈریوز کہتے ہیں کہ سیلولر فون میں استعمال ہونے والے آلات سے پیدا ہونے
والی تیز رفتار برقی مقناطیسی ریڈیائی لہروں سے جنم لینے والے خدشات کو نظر
انداز نہیں کیا جا سکتا۔ وہ اس بات پر زور دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر یہ
تیز رفتار برقی مقناطیسی ریڈیائی لہریں حیاتیاتی جسم
(درخت،چرند،پرند،چوپائے،پانی میں پائے جانے والے جانور وغیرہ) پر اثر انداز
نہیں ہوتیں تو انسانی صحت پر کبھی بھی اثر انداز نہیں ہو سکتیں۔ جبکہ دوسری
طرف اگر ہم یہ ثابت کردیں کہ برقی مقناطیسی ریڈیائی لہریں حیاتیاتی جسم پر
اثر پذیری کے قابل ہوتی ہیں تو پھر یہ کہانی بالکل ہی الٹ اور مختلف ہو
جاتی ہے۔ اسکا از خود یہ جواز بنا لینا کہ یہ خطرناک ہوگی یا نہیں ہوگی
ہمیں اس بارے میں مذید تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔
بعض اوقات یا اکثر اوقات ہم دوران سفر کار یا موٹر سائیکل پر اپنی آسانی یا
پھر ان ریڈیائی لہروں سے بچنے کیلئے ہیڈ فون،ائر فون،اور بلو ٹوتھ کا
استعمال کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم ان ریڈیائی لہروں کے اثرات بچ
جائینگے مگر ایسا نہیں ہے۔یک تحقیق کے مطابق یہ بات سامنے آئی ہے کہ کان
میں لگائے جانے والے وہ آلات مثلاً ائر فون، ہیڈ فون یا بلو ٹوتھ وغیرہ
کیونکہ اسوقت اینٹینا کا کام کر رہے ہوتے ہیں جو ریڈیائی لہروں کو مذید
طاقتور کرکے ہمارے کانوں تک پہنچا رہے ہوتے ہیں اور یہ الیکٹرومیگنیٹک
لہریں نہ صرف ہماری سماعت سے ٹکراتی ہیں بلکہ یہ ہمارے کانوں سے سفر کرتی
ہوئی ہمارے دماغ میں بھی سرایت کر رہی ہوتی ہیں۔ لہٰذا ان کی شدت ہمارے
دماغ کیلئے انتہائی خطرنات ثابت ہو سکتی ہے۔ایک تحقیق کے بعد یہ بات سامنے
آئی ہے کہ بلوٹوتھ ائر فون وغیرہ عام خارج ہونے والی ریڈیائی لہروں کی نسبت
انہیں 300 فیصد بڑھا کر ہم تک پہنچا تی ہیں۔اب یہ بات ہمارے لئے ناگزیر ہو
چکی ہے کہ ہم ائر فون، ہیڈ سیٹ اور بلو ٹوتھ کے مضر نقصانات اور فوائد کے
بارے میں معلومات رکھیں۔ جبکہ ہم دوران سفر بھی سیلولر فون کا استعمال بڑی
تیزی سے کر رہے ہیں جو خطرناک ہے۔
برٹش ریڈی اینٹ گروپ آن موبائل فون نے سیلولر فون استعمال کرنے والوں کو یہ
مشورہ دیا ہے کہ ہیڈ سیٹ ، ائر فون اور بلو ٹوتھ ہمارے لئے اسوقت فائدہ مند
ثابت ہو سکتے ہیں جب انمیں ایسے فلٹر استعمال کئے جائیں جو اسمیں استعمال
ہونے والی تاروں سے گزر کر کانوں کے ذریعے ہمارے دماغ میں سرائیت کرنے والی
الیکٹرومیگنیٹک ریڈیائی لہروں کی اثر پذیری کوکم سے کم کردیں تاکہ اسمیں
استعمال ہونے والی تاریں اینٹینے کا کام نہ کریں۔اسکا ایک حل ائر ٹیوب ہیڈ
سیٹ ہو سکتا ہے یہ آواز تو پیدا کرتے ہیں مگر ریڈیائی لہروں کو ہمارے کانوں
سے دماغ تک سفر کرنے سے روک سکتے ہیں جو ہمارے دماغ میں سرائت کرکے ہمارے
اعصابی نظام کو تباہ کرتی ہیں۔ اگر کوئی بچہ یا شخص شب بیداری کا شکار ہو،
چڑچڑے پن کا شکار ہو، تھکاوٹ کا شکار ہو، بھوک کی کمی کا شکار ہو، اکثر سر
میں درد کی شکایت ہو تو اسے فوری طور پر اپنے معالج سے مشورہ کرکے طبی
معائنہ کروانا چاہئے تاکہ وہ اپنی کیفیت کی اصل حقیقت سے روشناس ہو سکے۔
کیونکہ سیلولر فون انسانی جسم میں موجود پروٹین،حیاتیاتی خلیوں اور خون کے
خلیوں میں شکست و ریخت کا باعث بنتا ہے جس سے کینسر جیسا موزی مرض لاحق
ہونے کا خطرہ ہوتا ہے یا پھر دماغ کا ٹیومر بھی ہو سکتا ہے۔ ہمیں مذید
حفاظت کیلئے ان تدابیر پر عمل کرنا چاہئے تاکہ ہم کم سے کم متاثر ہو سکیں۔
سیلولر فون کا استعمال کم سے کم کریں۔ اپنے آپکو ریڈیائی لہروں اور ان
ذرائع سے دور رکھا جائے جو ان ریڈیائی لہروں کے پھیلانے کا سبب بنتے ہیں۔
اگر آپکے پاس نان سیلولر فون ہے یا ایسا فون ہے جو با سانی ایک سے دوسری
منتقل ہو سکے تووہ 900MHz میگا ہرٹز سے کم فریکوینسی کا ہونا چاہئے ۔ہمیشہ
سپیکر فون کا استعمال کریں اور ائر فون یا پھر ہیڈ فون اور بلو ٹوتھ کا
استعمال کم سے کم کریں۔ ہیڈ سیٹ یا پھر ائر فون میں استعمال ہونے والی
تاریں کھلی نہ ہوں ورنہ وہ اینٹینا کا کام کرینگی اور اسطرح یہ ریڈیائی
لہریں آپکے کان کے ذریعے سفر کرکے آپکے دماغ تک سرایت کر سکتی ہیں جو برین
ٹیومر کا باعث بن سکتا ہے۔ ہمیشہ کھلی جگہ پر سیلولر فون کا استعمال کریں
اور ہوا بند کمروں میں ایسے فون استعمال کرنے سے احتراز کیا جائے۔ اکثر
دیکھنے میں یہ بات آئی ہے کہ لوگ اپنے بچوں کو کھیلنے کیلئے اور پھر انہیں
مختلف آوازیں اور ٹونز سنانے کیلئے بچوں کو دے دیتے ہیں اور وہ کان سے لگا
کر ان آوازوں کو سنتے ہیں یا پھرانمیں سے نکلنے والی مختلف روشنیوں کو دیکھ
کر خوش ہوتے ہیں جو انتہائی خطرناک ہے۔ چھوٹے بچوں اور نابالغ بچوں کی پہنچ
سے سیلولر فون کو ہمیشہ دور رکھیں انہیں سیلولر فون سے مت کھیلنے دیں اور
اسکا استعمال کم سے کم کروائیں کیونکہ یہ بچوں پر جلد اثر پذیر ہو سکتا ہے۔
سیلولر فون کا استعمال انتہائی ایمرجنسی کی صورت میں کریں اور اسکے ازادانہ
استعمال سے گریز کریں۔
|