ہماری زبانیں اور ہمارا تذبذب

گفتگو کیمیاء کے ایک مسئلے سے ہوتے ہوتے زبان تک آ پہنچی، میرا چینی دوست کہنے لگا، "تمہارے ملک میں لوگوں کا رویہ زبان کے معاملے میں کیسا ہے؟"۔ "تقریبا تذبذب کا شکار"، میں نے بے دلی سے جواب دیا۔ اس نے اپنی آنکھیں تقریبا پوری کھولتے ہوئے مجھے دیکھا اور بولا، "کیا مطلب؟"۔ میں نے کہا، "ہمارے ملک میں زبانیں بہت سی ہیں، لیکن وہ سب قدرتی ہیں اور ان کے تنوع سے کوئی خاص مسئلہ پیدا نہیں ہوتا، اصل گڑبڑ ایک مصنوعی اور احساس کم تری میں لتھڑے طرز معاشرت کی وجہ سے ہے کہ دوران گفتگو جہاں مادری زباں بولی جانی چاہیے وہاں ہم اپنی قومی زبان بولنا پسند کرتے ہیں، پھر جہاں اصولا قومی زبان بولنی چاہیے وہاں ہم ایک ایسی زبان فخر سے بولنا پسند کرتے ہیں جو سرے سے ہماری ہے ہی نہیں، بلکہ اس قوم کی ہے جس کے خلاف ہمارے بڑوں نے آزادی کی جنگ لڑی تھی، لیکن ہم نے آزادی کے بعد اس زبان کو سر پہ سوار کر لیا اور اب حالت یہ ہے کہ نہ وہ زبان ہمیں صحیح طرح آتی ھے، نہ ہی جاتی ہے۔ لکھنے میں بھی تذتذب، قومی سطح پر زبانی ہم ایک دوسرے سے اردو میں بات کرتے ہیں لیکن جب پیغام لکھ کر پہنچانا ہو تو انگریزی ہمارا انتخاب ہوتی ہے"۔

وہ انتہائی حیرت سے بولا، "شاہد! لیکن زبان تو بنیادی طور پر "کمیونیکیشن" کا ایک ذریعہ ہے، مگر آپ کے ہاں تو معاملہ ساری دنیا سے نرالا نظر آتا ھے، عجیب لوگ ہو، اپنی چھوڑ، غیروں کی زبان اختیار کرکے اپنے آپ کو بلاوجہ مصیبت میں ڈالنے والے"۔

میں نے کہا، "اس سب کے باوجود ہمارے لوگوں کو "آئیلٹس" اور "ٹوفل" جیسے ٹیسٹ دینے پڑتے ہیں،
جن میں بہت سے لوگ بینڈ اور نمبروں کی جگہ صرف بدنامی حاصل کرتے ہیں"۔
اس نے کانوں کو ہاتھ لگائے اور گفتگو دوبارہ کیمیاء کے مسئلے کی طرف لے آیا۔
 

Dr. Shahid Ameen Samra
About the Author: Dr. Shahid Ameen Samra Read More Articles by Dr. Shahid Ameen Samra: 2 Articles with 1281 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.