ہانیہ کا تعلق ایک متوسط گھرانے سے تھا جہاں زندگی ابھی
تک رسم و رواج کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی تھی۔ مذہب، تہذیب اور روایت کے نام
پر اگر کوئی نشانے کی زد پر تھا تو صرف عورتیں! ہانیہ زندگی سے بھرپور لڑکی
تھی۔ کھل کر ہنسنا، مسکرانا بلکہ جی بھر کر قہقہے لگانا چاہتی تھی۔ وہ
آسمان کی وسعتوں میں گم ہو جانا چاہتی تھی۔ اس کا دل چاہتا کہ اس کے پر نکل
آئیں تو وہ اڑتی اڑتی کوہ قاف میں جا نکلے۔ مگر۔۔۔۔۔ گھر کے گھٹن زدہ ماحول
میں اس کی بے سروپا باتوں پر ماں اکثر اسے برا بھلا کہتی, یہ مت کرو۔ وہ مت
کرو کی رٹ لگائے رکھتی۔ ہانیہ بے حد ذہین تھی۔ ہر امتحان امتیازی پوزیشن سے
پاس کیا۔ کبھی تو اس کا دل چاہتا کہ وہ پائلٹ بن جائے اور کبھی وہ جرنلزم
کی طرف متوجہ ہو جاتی مگر گھر میں اس کے احساسات کو کسی نے درخوراعتنا نہیں
سمجھا۔
وہ چار بہنوں میں تیسرے نمبر پر تھی۔ والد ایک سرکاری دفتر میں معقول
مشاہرے پر ملازم تھے مگر مہنگائی کے اس دور میں تنخواہ ملنے سے قبل ہی
اخراجات کی ایک طویل فہرست تیار ہوتی۔ زندگی کو زندگی کرتے کرتے صبح سے شام
ہو جاتی مگر کسی بات کا کوئی سرا ڈھنگ سے ہاتھ نہ آتا۔
ہانیہ کی والدہ کو اگر سب سے زیادہ کسی کی فکر تھی تو صرف ہانیہ کی، انہیں
کبھی کبھی تو اس کی باتوں سے سخت وحشت ہونے لگتی کہ خدا جانے یہ لڑکی کیا
گل کھلائے گی؟
یہ ہانیہ کی خوش قسمتی تھی کہ گریجویشن کرتے ہی ایک خوشحال گھرانے سے اس کے
لیے شادی کا پیغام آ گیا۔ عدنان اس کی سہیلی کا کزن تھا اور ہانیہ کو کسی
خاندانی تقریب میں دیکھ کر اس کی شوخ و شنگ شخصیت کا گرویدہ ہو گیا تھا۔ چٹ
منگنی اور پٹ بیاہ والی بات ہو گئی۔ ہانیہ تو بغیر پروں کے ہی اڑ رہی تھی۔
ہانیہ کا قدم عدنان کے لیے بہت سعد ثابت ہوا اور شادی کے چند ہی ماہ بعد
کمپنی نے اس کی پوسٹنگ لندن میں کر دی۔ ہانیہ کو تو یقین ہی نہیں آرہا تھا
کہ خوابوں کی تعبیر کبھی اتنی جلدی بھی مل جاتی ہے۔ ’’اے کاش کچھ اور خواب
دیکھ لیتی تو سب ایک ساتھ ہی پورے ہو جاتے ‘‘ وہ اکثر سوچتی!
ہانیہ کو لندن آئے تقریباً سات برس ہونے کو آئے تھے۔ پہلا سال تو دونوں نے
سیر سپاٹے کرنے میں ہی گزار دیا۔ جی بھر کر لندن دیکھا۔ برٹش میوزیم، میڈم
تساؤ، ٹرائفل گراسکوائر، پکاڈلی، کاونٹ گارڈنز، دریائے ٹیمز، بگ بین۔ بکنگم
پیلس، ہائیڈ پارک، ہاؤسز آف پارلیمنٹ، آکسفورڈسٹریٹ، ہیرڈز، ہر وہ جگہ جس
کے بارے میں کہیں بھی سن اور پڑھ رکھا تھا۔ ہانیہ نے دریافت کر ڈالی۔
طویل ہنی مون کا اختتام ہوا توا اگلے چند سالوں میں دو گول مٹول بچوں نے اس
کا سارا وقت اپنے نام لکھوا لیا۔ عدنان اکثر بزنس ٹورز پر رہتے کبھی یورپ
کبھی مڈل ایسٹ تو کبھی فارایسٹ، ایسے میں ہانیہ دو شرارتی سے بچوں کی دیکھ
ریکھ کرتے ادھ موئی سی ہو جاتی۔ نہ کوئی عزیز نہ رشتہ دار۔۔۔ کسی سے ڈھنگ
سے میل جول بھی نہ بڑھا کیونکہ صرف چند ہی ایشیائی گھرانے ان کے علاقے میں
تھے۔ زیادہ تر تو انگریز لوگ تھے۔ کتنا ارمان تھا کہ لندن جا کر کچھ مزید
پڑھے گی اور جب وہاں سے ڈھیر ساری ڈگریاں سمیٹ کر واپس پاکستان آئے گی تو
سب بہنوں اور سہیلیوں کو کیسی جلن ہو گی۔ مگر سب خواب آہستہ آہستہ ہوا میں
تحلیل ہوتے جا رہے تھے۔ عدنان سے شکایت بے کار تھی کیونکہ وہ تو دن رات
کولہو کے بیل کی طرح اپنے کام میں ہی مصروف رہتا۔ یہ سب سوچ سوچ کر ہانیہ
پر ایک پژمردگی سی طاری ہوتی جا رہی تھی!
کتابوں سے اسے شروع ہی سے عشق تھا۔ یہاں بھی ہر ہفتے مقامی لائبریری میں جا
کر کم از کم ایک درجن کتابیں ایشو کروا کر گھر لے آتی جنہیں پڑھنے کا وقت
اسے کم ہی ملتا۔ اکثر و بیشتر کتابیں اسے پڑھے بغیر ہی جرمانے کی رقم دے کر
لوٹانی پڑتیں۔ ایسے میں اسے اپنے آپ پر بہت غصہ آتا کہ کہاں تو وہ کتابی
کیڑا تھی مجال ہے کہ کوئی اخبار کا تراشہ بھی اس کی نظر بچا کر نکل جائے
مگر اب!
جب وہ کتابیں واپس کرنے لائبریری جاتی تو شرمندہ شرمندہ سی کاؤنٹر پر کھڑی
رہتی۔ جیسے ریسپشن پر کھڑی انگریز لڑکی کو پتہ چل گیا ہو کہ اس نے ان میں
سے کوئی کتاب بھی نہیں پڑھی تھی۔
آج انہی سوچوں میں گم جیسے ہی وہ لائبریری کے ریسپشن ہال میں داخل ہوئی تو
ایک بڑے سے رنگین پوسٹر کو دیکھ کر چونک سی گئی۔
"Speaking Poetry Session" کیا مطلب ہے اس کا؟‘‘ تو کیا کوئی گونگی پوئٹری
بھی ہوتی ہے۔ ’’مارے تجسس کے اس نے اندر آتے ہی کاؤنٹر پر کھڑی انگریز لڑکی
سے ایک ساتھ ہی کئی سوال کر ڈالے تو وہ اطمینان سے بولی کہ ’’دراصل ان کی
لائبریری پوئٹری کی پروموشن کے لیے نامزد ہوئی ہے۔ اب یہاں اکثر و بیشتر
نامور شعرا اپنا کلام پیش کیا کریں گے۔ ‘‘
اس نے اگلا سوال داغ دیا، کیا صرف انگلش پوئٹری ہی ہو گی یا ملٹی لینگول
شاعری بھی سننے کو ملے گی‘‘۔ ابھی تو میرے خیال میں انگلش پوئٹری سیشن ہی
ہوں گے۔ بعد میں کچھ سلسلہ بن جائے تو الگ بات ہے مگر فی الحال کچھ کہنا
مشکل ہے۔ ‘‘ لڑکی نے شائستگی سے جواب دیا ہانیہ کا تجسس ابھی تک برقرار
تھا۔ ’’یہ سپیکنگ پوئٹری کیا ہوتی ہے؟‘‘ اس نے بے تابی سے سوال کیا۔ ’’ایک
بہت مشہور سیاہ فام شاعرہ ہے جو یہاں اپنی پوئٹری پریزنٹ کرنے آ رہی ہے۔ وہ
اتنے زبردست ڈرامائی انداز میں اپنا کلام پیش کرتی ہے۔ لگتا ہے کہ ہال کے
در و دیوار تک اس کے ساتھ ہر مصرعہ دہرا رہے ہوں۔ ‘‘ لڑکی نے جواب دیا۔
شاعرہ کی اتنی زبردست قسم کی تعریف سن کر ہانیہ نے پکا ارادہ کر لیا کہ وہ
ضرور سپیکنگ پوئٹری سیشن اٹینڈ کرے گی۔ انگریز لڑکی نے اسے مشورہ دیا کہ وہ
اپنی سیٹ پیشگی ریزرو کروا لے کیونکہ ممکن ہے کہ اس دن ہال میں کھڑے ہونے
کو بھی جگہ نہ ملے۔ ہانیہ اپنی سیٹ ریزرو کروا کر بڑے فاتحانہ انداز میں
لائبریری سے باہر نکلی جیسے لائبریری کی کتابیں ڈھنگ سے نہ پڑھنے کی اس نے
آج تلافی کر دی ہو۔۔۔ اسے لگ رہا تھا جیسے وہ تاریک سے روشنی میں آ گئی ہو۔
پوئٹری سیشن پر جانے کی تیاری اس نے ہفتہ بھر پہلے ہی شروع کر دی۔ بچوں کے
لیے بے بی سسٹر کا انتظام کیا۔ اس روز صبح ہی صبح اٹھ کر تمام کام نپٹائے
اپنے لیے سینڈوچ بنائے۔ فلاسک میں کافی ڈالی۔ ساتھ میں کولڈڈرنکس بھی رکھ
لیے۔ گویا آج اس کا پوئٹری انجوائے کرنے کا زبردست پروگرام تھا۔
دو بجنے میں ابھی کافی وقت تھا کہ وہ لائبریری چلی گئی تاکہ فرنٹ سیٹ پر
بیٹھ کر تقریب سے اچھی طرح لطف اندوز ہو سکے۔ ابھی صرف چند ہی لوگ ہال میں
آئے تھے۔ آہستہ آہستہ ہال بھرنا شروع ہو گیا۔ ہانیہ سوچ رہی تھی کہ ہال کی
آرائش کتنی سادہ سی ہے۔ بس دیوار پر شاعرہ کے نام کا ایک بینر۔ نہ اسٹیج پر
میز نہ کرسیاں۔ بس ایک چھوٹی سی تپائی اور مائیک۔ پانی کا جگ اور گلاس، یہی
کل کائنات تھی۔ اور اردو شاعری میں کیا طمطراق۔ رونمائیاں ، صدارتیں ،
مہمانان خصوصی، تقدیم و تاخیر اور نظامت کے جھگڑے، داد دینے اور نہ دینے کی
پالیٹکس، کھانوں کی زبردست مہک۔ جیسے کسی شادی کی تقریب میں آئے ہوں۔۔۔۔
اور یہاں۔۔ کیسی بے رونقی ہے جیسے شاعرہ کے سو ئم پر آئے ہوں۔۔۔۔ !
ٹھیک دو بجے منتظمین نے مائیک پر آ کر حاضرین کو ویلکم کہا اور شاعرہ کا
مختصر سا تعارف کروایا۔ اس کے ساتھ ہی ہال کی روشنیاں قدرے مدھم ہو گئیں۔
ماحول کچھ خوابناک سا ہو گیا تھا۔ اچانک اسے اسٹیج کی ایک جانب سے آہستہ
آہستہ آگے بڑھتی ہوئی ایک شبیہ سی نظر آئی ابھی وہ اندھیرے میں اسٹیج پر
نظر آنے والے ہیولے کو سمجھنے کی کوشش ہی کر رہی تھی کہ اچانک سٹیج سے ایک
زور دار نعرہ بلند ہوا۔ ہانیہ اس اچانک حملے کے لیے بالکل تیار نہ تھی اور
کرسی سے تقریباً گرتے گرتے بچی۔ ہال میں باقی حاضرین کی بھی کم و بیش یہی
کیفیت تھی اتنے میں اسٹیج کی روشنیاں ذرا تیز ہو گئیں اور بیک گراؤنڈ میں
ہلکا ہلکا سا میوزک شروع ہو گیا۔
شاعرہ کی شبیہ اب واضح ہو چکی تھی یہ ادھیڑ عمر کی دبلی پتلی سیاہ فام عورت
تھی۔ بغیر کسی تمہید کے اس نے آتے ہی نہایت ڈرامائی انداز میں پوئٹری پیش
کرنی شروع کر دی۔ اس کا جوش و جذبہ دیدنی تھی۔ جیسے اس پر شاعری نازل ہو
رہی ہو۔ ایک کے بعد ایک نظم۔ ہاتھ ہلاتی۔ سٹیج پر گھوم گھوم کر بل کھاتی
شاعرہ کی سیاہ رنگت جوش خطابت سے اور چمک رہی تھی اوپر سے میوزک کا زیر و
بم، پوئٹری واقعی بول رہی تھی۔ ہر نظم کے اختتام پر حاضرین بھرپور تالیاں
بجا کر اسے داد دے رہے تھے۔ ہال میں ایک مسحور کن ماحول تھا جیسے وہ کوئی
خواب دیکھ رہی ہو۔
اب شاعرہ نے اپنی آخری نظم ’’تھرڈ ورلڈ گرل‘‘ یعنی تیسری دنیا کی لڑکی
سنانی شروع کی۔ بہت پاورفل نظم تھی۔ ہال میں مکمل سناٹا چھا گیا ایک کے بعد
ایک مصرعہ۔ سوچ پر تازیانے کا کام کر رہا تھا۔
’’میں تیسری دنیا کی لڑکی
اک نا تراشیدہ ہیرا
اک نا دریافت موتی
میرے عہد سے بہت پہلے
مجھے میرے خواب سے جگا دیا گیا
میرے اندر۔۔۔۔ کئی ان کہی کہانیاں مچل رہی ہیں
میں جوان۔ نا جہاندیدہ۔۔۔۔
مگر پیدائش سے پہلے ہی عمر رسیدہ!‘‘
’’میں تیسری دنیا کی لڑکی۔۔۔ ‘‘ یہ مصرعہ وہ بار بار دہرا رہی تھی۔
شاعرہ پورے اسٹیج پر لٹو کی طرح مقناطیسی انداز میں چکر لگا رہی تھی۔
لامتناہی دکھ۔ تکلیف اور درد اس کے انگ انگ سے چھلک رہا تھا۔ تیسری دنیا کی
لڑکی کی سسکیاں صاف سنائی دے رہی تھی۔ زبردست ہیجانی کیفیت میں مبتلا۔ بے
کل، مضطرب۔ بے چین جیسے بھٹکی ہوئی روح۔۔۔۔ جیسے بارش کا قطرہ سیپ میں بند
ہو کر موتی میں تبدیل ہو رہا ہو۔۔۔ کوئلہ ہیرا بننے کے عمل سے گزر رہا
ہو۔۔۔ جیسے تخلیق کے کرب سے دوچار۔۔۔۔ درد زہ میں مبتلا۔۔۔ وہ بچہ جننے کے
آخری مرحلے تک آ پہنچی ہو۔
اسی جوش و جذبے اور ہیجان میں سیاہ فام شاعرہ اسٹیج کے کنارے کے بے حد قریب
آچکی تھی۔ چشم زدن میں وہ دھڑام سے اسٹیج سے نیچے تاریکی میں جا گری۔
سپیکنگ پوئٹری یک لخت خاموش ہو گئی۔ سب ہیرے موتی بکھر گئے۔ کہانی ادھوری
رہ گئی۔ تیسری دنیا کی لڑکی پھر تاریکی میں جا گری تھی۔
’’کیا تھرڈ ورلڈ گرل کبھی اندھیروں سے باہر نکل سکے گی؟ ہانیہ یہ سوچتی
ہوئی۔ آنسو پونچھ کر ہال سے باہر نکل آئی۔٭٭
|