بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔
مغرب میں نشاۃثانیہ(RENAISSANCE) دور میں جب اُن مذہبی بیانیوں (RELIGIOUS
DISCOURSE)کو رد کیا گیا جو پاپائیت کی علوم وحی کی بدترین تعبیر اور کلی
طور سےمذہب سے ہی بدظنی کے نتیجےمیں پیش آئے تھے تو پھر عقلیت، منطق و
فلسفہ کو رواج دیا گیا، روشن خیالی دور میں بھی عقلیت، انسان دوستی،
معروضیت، انفرادی موضوعیت، مرکزیت، آفاقیت، کلیت، حتمیت اور غیر مختتم ترقی
کو اس دور کی آفاقی سچائیاں قرار دیا گیا، مگر عملی میدانوں میں سامراجی
گروہوں نے ان فلسفوں اور افکارکو اپنے مفادات کی بھینٹ چڑھا دیا اور پھر
صنعتی انقلاب کے بعد اس میں اضافہ ہی کرتے چلے گئے اور یوں عقل وفلسفہ و
منطق وریاضیات اور سائنس و ٹیکنالوجی کو بھرپور طریقے سے سرمایہ دارانہ
گروہوں اور خاندانوں کی خدمت کیلئے معین کردیا گیا۔ پہلی اور دوسری جنگ
عظیم کی عظیم تباہ کاریوں، وحشت و بربریت کے بعد ترقی یافتہ دنیا میں روشن
خیالی دور کے تمام سائنسی اور عقلی مہابیانیوں(META NARRATIVE) سے بھی بدظن
ہوکر اس کا بھی انکار کیا گیا، جن کا تعلق ترقی، سچ اور انصاف کی ہمہ گیریت
وغیرہ سے تھا، اس کی رد تشکیل (DECONSTRUCTION) کی گئی،ہماری نظر میں ان کی
بنیادیں جس فلسفے، عقلیت اور سائنس کے قضایا پر تھیں وہ قضایا ہی باطل تھے
جبکہ تیسری دنیا میں ترقی، سچ اور انصاف کے تناظر میں عقلیت، انسان دوستی،
معروضیت، انفرادی موضوعیت، مرکزیت، آفاقیت، کلیت، حتمیت اور غیر مختتم ترقی
کے مہابیانیے مذہب اور سائنس کے انضمام کے ساتھ جب جب پیش کیے گئے نہ صرف
معتدل ترقی یافتہ دنیا میں قبول کیے گئے بلکہ مشرقی تیسری دنیا میں بھی
دانشمند اہل مذاہب، اہل مطالعہ، مشاہدہ اور اہل تجربہ و مشق نے خوش آمدید
کہا۔
جس طرح مشرق میں ناعاقب اندیشوں نے یک لخت سائنس و صنعت کے استعمال اور اس
کی تعلیم پر قدغن لگایا اسی طرح مغرب نے بھی تمام مذاہب کو تولے بغیر یک
لخت ہر مذہب کو ترک کردیا۔ جس طرح مشرق میں شاعرانہ مزاج اور مذہبی تقدس کے
تناظر میں ایسے مہابیانیے تشکیل دیئے گئے تھے جس نے مشرق میں مذاہب کے
پیروکاروں کو تجربہ، تحقیق کےفقدان کے نتیجے میں نظریاتی تشکیل اور رد
تشکیل کے عمل سے دور رکھا نیز صنعت اور ٹیکنالوجی کو مذہب مخالف گرداننے
میں مغربی استعمار کا مذہب مخالف رویہ نیز اہل مذاہب کے معاشی استحصال کا
بھی کردار بھی گنایا جاتا ہے، اس سازشی نظریہ سے ہٹ کر صنعت و ٹکنالوجی کی
مخالفت کی اصل وجوہات میں خود اہل مذاہب کی جہالت، مطالعہ و مشاہدہ اور
تجربہ یعنی فلسفی، منطقی اور ریاضیاتی ذہن کے فقدان کا ہونا ہے۔
اسی طرح مغرب یا صنعتی ترقی یافتہ ممالک میں بھی ادوار جہالت کے ایام کے
تلخ مذہبی تجربات کی روشنی میں تشکیل دیئے گئے اُن مذہبی مہابیانیوں کی رد
تشکیل کے نتیجے میں سائنسی و صنعت و فلسفہ و منطق و ٹیکنالوجی کے افراط نے
دیگر مذہبی بیانیوں کی تعبیر نو سے دور رکھا اور مغربیوں نے باقی مذاہب کے
ساتھ خصوصاً اسلام و تعلیماتِ اہلِبیت علیہم السلام کو بھی اپنے ادوار
جہالت کے مذہبی تجربے کے ہی تناظر میں باور کیا جب کہ یہ ایک ایسا مغالطہ
تھا جس نے اہل مغرب کو اسلام ناب محمدی کی تعلیمات سے دور رکھا یا پھر اگر
اُن تعلیمات پر عمل بھی کیا گیا تو وہ صرف جدید دور کی صنعتی ترقی کیلئے
فطری رموز کے حصول تک محدود رہانیز اکثر جگہ تعلیمات ناب محمدی سے تعصب بھی
نظر آتا ہے اور مذہبِ اہلِبیت کو خاص گروہ کی نسبت سے سمجھا گیا، جبکہ قرآن
اور معصومین علیہم السلام عالم انسانیت کے راہنما ہیں اس تصدیق کے ساتھ کہ
ان کی تعلیمات سے دنیوی ترقی بھی حاصل کی جائے گی اور اُخروی سعادت کیلئے
بھی ظلم و استکبار اور احسان فراموشی سے دور رہا جائے گا۔
اگر اہل مغرب اس طرح احسان فراموشی کا رویہ ترک نہیں کریں گے تو اس کے
نتیجے میں کسی بھی صورت ذہن و نفس کا اعتدال و اطمینان نصیب نہیں ہوگا،
نفسیاتی امراض بڑھتے جائیں گے اور ترقی یافتہ ممالک اپنے ہی بنائے ہوئے جال
میں پھنس کر رہ جائیں گے، بالکل ریشم کی کیڑے کی طرح اور ان کی علم و صنعت
سے تیسری دنیا مستفید ہوگی۔ ترقی یافتہ دنیا کیلئے بھی ضروری ہے کہ وہ اپنی
سائنس، ٹیکنالوجی اور فلسفے اور ریاضیات کے ساتھ مذہب کے مہابیانیے جیسا کہ
غیب، توحید، معاد و قیامت پر ایمانیات وغیرہ کو قبول کریں ورنہ یک بُعدی
سماج انسانی وجود کو اپاہج یا مالیخولیائی بنارکھے گا۔ مذہب کے پیروکاروں
کیلئے بھی ضروری ہے کہ وہ مذہبی تعلیمات کو عقل، منطق، فلسفے، سائنس ،
تجربات، تحقیق کو خصوصا سماجی مسائل کے حل کیلئے کوشش شروع کردیں ورنہ آج
کسی سامراج کے خلاف زبان چلاتے ہیں تو کل کسی اور سامراج کے خلاف بولتے
رہیں گے اور کشکول ایک در سے دوسرے در پر اور ایک بیساکھی سے دوسری بیساکھی
بدلتے رہیں گے۔
ترقی یافتہ ممالک نے جن مذہبی مہابیانیوں کو اپنے خاص ماحول میں تجربہ کیا
اور اب رد تشکیل کی طرف آئے ہیں ان کو اِن مہابیانیوں کواپنے نئے تجربات
اور نئے اسلوب اوراپنی نئی تعبیر کے ساتھ سمجھنے کی ضرورت ہے یعنی ان
مہابیانیوں کو سائنس ، منطق و ریاضیاتی معیار پر جانچنے کی ضرورت ہے نیز
کسی بھی بیانیے یا مہابیانیہ یا سائنس و ٹیکنالوجی کی نسبت سے عالمی پیش
گوئی کرنے کیلئے عالمی اقتصادی اور معاشی نظامِ فطرت ومعاشی نفسیات کو
جاننا بھی ضروری ہے۔ معاشی و اقتصادی زیر و زبر کے فطری قوانین جانے بغیر
کسی بھی قوم یا عالمی علم و فلسفہ یا کسی قوم کے عروج و زوال کےمتعلق کچھ
بیان کرنا ناممکن ہے۔
معاشی نظام اور علمی ، فلسفی و فکری نظام کے ساتھ ہی "نظامِ حکومت "مذہبِ
اہلِبیت علیہم السلام کا خاص نظریاتی و سماجی حدودکے نظام کابہت حساس مسئلہ
ہے۔ دنیا کے مسائل جن کو ظاہر بظاہر دانشمندافراد معاشی و اقتصادی قرار
دیتے ہیں اور مستقیماًمعاشی و اقتصادی مسائل کو اقتصادی ذرائع و اداروں سے
حل کرنا چاہتے ہیں جبکہ اقتصادی نظام سیاسی نظام کے بغیر ناممکن ہے، اسی
طرح مضبوط تعلیمی نظام بھی محکم سیاسی نظام کے بغیر ناممکن ہے، مضبوط سیاسی
نظام مضبوط فوجی طاقت کے بغیر ناممکن ہے۔ لہذا اس الہٰی حکومتی نظام کے
قیام کیلئے جو جدوجہد کی جانی ہے وہ ابتدائی مرحلہ میں رائے عامّہ کی
ہمواری سے مربوط ہے عوامی طاقت ہی کسی نظام کی پشت پناہی کرکے اُسے عقلی
اور سائنٹفک بنیادوں پر ہر جہت سے محکم بناسکتی ہے۔ شرط یہی ہے کہ قوم اپنی
فکری بصیرت سے خود ایسے الہٰی نظام کو قبول کرے اور نافذ کرے۔ فوجی قوت اور
دیگر سماجی قوتیں اس امامت کے قیام کے بعد کی شکلیں ہیں نہ کہ رائے عامہ کی
ہمواری کے وقت کی نیز اس جدوجہد کے عرصے میں سختیوں اور مصائب کی جزا
مستقبل میں نہ صرف نظام ِ ولایت و امامت کے قیام کی شکل میں ہے بلکہ اس
زندگی کے بعد بھی ہے۔ لہذا تعلیم و معرفت و فکر و شعور جو کہ ہر مرحلے میں
اپنی خاص قوت رکھتے ہیں اُسے بڑھاتے رہنا چاہیے۔ المیہ یہ ہے کہ ائمہ
معصومین علیہم السلام کو خداوند تبارک و تعالیٰ نے نبوت و رسالت کے اختتام
کے بعد عالمی سماج کیلئے بطور حاکم انتخاب کیا اور اسی حُکمیت کے ذیل میں
تمام ذمہ داریاں عطا فرمائی تھیں جیسے کہ علمی و روحانی و نفسیاتی ترقی،
تہذیب و تمدن کا قیام، عادلانہ معاشی نظام، مہذب سماجی و ثقافتی رویوں ،
رسوم اور عائلی زندگی کی تنظیم وغیرہ۔
امامت ہی ہے جو معاشرے کے انجن کو اسٹارٹ کرتی ہے اور درست راستے پر لے کر
چلتی ہے اور منزل مقصود تک پہنچانے کا حوصلہ اور ایندھن رکھتی ہے۔ ہم غیر
معصوم افراد کو اختیار تو دیا گیا لیکن ہم اپنی سعادتوں اور مسرتوں کیلئے
مجبور ہیں کہ خداوند قدوس کی رحمت اور نعمت کو اپنے اختیار و ارادے سے
منتخب کریں، ہمیں اختیار ہے کہ ہم علم و دانش کے تحت تجربات کریں، مشقیں
کریں تاکہ ہم پر واضح ہوسکے کہ اس امر امامت و ولایت کےبغیر ہمارے پاس نہ
تو دنیوی مسائل کا حل ہے نہ ہی اُخروی اور اگر نظریاتی بنیادوں پر ہم حل
جان بھی لیں تو اُ ن SOLUTIONS کو ہم اپنی کوتاہ صلاحیتوں کے ساتھ EXECUTE
نہیں کرسکتے۔
ہم نے ائمہ معصومین علیہم السلام کو بطور مشاور، حکیم، قبر اور آخرت میں
شفاعت کروانے والا یاپھر بہت زیادہ اپنی مادّی زرق برق زندگی کی رنگینیاں
بڑھانے کیلئے توسل یاانسانی نفسیات دان و روحانی پیشوا کی حیثیت تو قبول
کیا مگر اُن کو بطور حاکم ہم نے تسلیم نہیں کیا۔ مغرب کے غیر دینی دانشوروں
نے بھی آپ حضرات کو بطور فلسفی، ماہر نفسیات، عظیم معلم ،عظیم سیاستدان،
عظیم ماہر سماجیات، عظیم سائنسدان وغیرہ تو قبول کیا مگر بطور حاکم انہوں
نے بھی قبول نہیں کیا۔
بطور مجموعی انسان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی فلاحِ دنیوی اور اُخروی کیلئے
امامت کے ادارے کے بارے میں بصیرت اور معرفت میں اضافہ کرے اور اس ادارے کی
قوت اور قیام کیلئے جو فردی اور معاشرتی مقدمات چاہیے ہیں اُن کیلئے جدوجہد
کریں۔ آج جس تاریخ کے اختتام کی باتیں کی جارہی ہیں یا عظیم عالمی استکباری
نظام کے احیاء کیلئے پیش گوئیاں کی جارہی ہیں ان سب کی وجہ یہ بے اعتدالیاں
ہیں جن کے باعث نہ تو غیر مسلم بلکہ مسلم بھی اور خود بظاہر مذہب اہلِبیت
کے چاہنے والے بھی قصور وار ہیں۔ ہم لاکھ اپنی مصیبتوں کا رونا روتے رہیں
مگر حقیقت یہ ہے کہ جب تک ہم درجہ بدرجہ، قدم بقدم ، مرحلہ وار نظام امامت
کے مقدمات فراہم نہ کریں گے کہ مستقبل میں یہ ادارہ قائم ہو تو ہم لاکھ
معاشی و علمی تحقیقات، کانفریسز، سیمنارز، فورمز، سمٹس وغیرہ قائم کرلیں
ہمارے مقصر وجود ان عالمی مسائل کے حل کرنے میں ناکافی ہیں۔ اگر ہم خود
اعتمادی، مضبوط ارادے، مستقل مزاجی یا دیگر مثبت اور تعمیری و تخلیقی
صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں بھی تو ہم کو اپنا انتہائی ہدف اسی امر کو
قرار دینا چاہیے کہ ہماری تمام زحمتیں اور کوششیں مستقبل میں نظام امامت کے
قیام کا وسیلہ بن سکیں۔
انسان کو پے درپے زرق وبرق نعمتیں اورسختیوں، مصائب و آلام میں مبتلا کرکے
انسان سے خداوند قدوس نے یہی چاہا ہے کہ اُس آدم کی اطاعت کریں جس کو اُس
نے لاریب خلق کیا ہے، جس کی معرفت کیلئے ہمیں ہر طرح کی آزمائشیں درکار ہیں
اور خود اس لاریب آدم کی آزمائش "ہمارے وجود" ہیں کہ ہماری ذرا سی کوتاہی
اِن شخصیات کو ہم سے دور لیجاتی ہیں۔ غیبت میں چلے جانا اِن ہستیوں کی
آزمائش نہیں ہماری آزمائش ہے، ہمارا امتحان ہے کہ ہم کس طرح سے اس معرفت کو
حاصل کرکے اس شخصِ لاریب کو اُس کی اصل جگہ پر بٹھاتے ہیں جس سے خود ہماری
بھی سعادتیں اور مسرتیں منسوب ہیں۔
-سید جہانزیب عابدی-
|