اتحاد بین الناس و اتحاد بین المظلومین

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔

انسانی تہذیب، انسانی فطرت ، انسان سے اس بات کی متقاضی ہیں کہ کوئی بھی ہمارے ساتھ برائی کرے تو بدلے میں ہم اُس کے ساتھ برائی نہ کریں۔ کوئی ہماری چپل پہن گیا تو ہم کسی دوسرے کی چپل بدلے میں نہ پہن آئیں۔

ظلم و مہربانی، ذلت و عزت، محبت و نفرت، دوستی و دشمنی، انسانیت و حیوانیت وغیرہ وغیرہ کے احساسات ہر انسان میں ہوتے ہیں۔ ان احساساست کے دعوے دار وں میں کسی وقت ان میں سیاسی یا معاشی مفادات بھی آجاتےہیں۔ مگر وہ خالص احساس جس کوہم خود یا ہر انسان اپنے اندر بغیر کسی بددیانتی وملاوٹ کے موجود پاتا ہے، وہ احساس اگر نمو پاجائے اور بغیر کسی مفاد کے صرف سچائی اور حق کی فتح کیلئے اُس احساس کو بڑھاوا دیا جائے تو کسی بھی مذہب، مکتب وفلسفہ کی ضرورت نہیں رہتی۔

ظالم کا ظلم، کسی امین کی امانت داری، کسی نبی و فلسفی کے سکھانے، دکھانے ، سجھانے، پڑھانے سے ابلاغ نہیں کی جاسکتی۔ یہ تو احساس ہے جو ہر انسان میں موجود ہے اور یہی احساس اور اس کے تناظر میں انجام دیا جانے والا عمل دانشمندی ہے، عقلانیت ہے۔ ظالم کے خلاف حرکت کرنا ضروری نہیں کہ کوئی نبی ، پیغمبر، امام، ولی، لیڈر، فلسفی یا فوجی جنرل کہے تو ہم کریں گے بلکہ یہ تو انسانی ضمیرکی آواز ہے، انسانی احساس ہے۔ البتہ سادہ لوح افراد کو اس احساس کے ذریعے گمراہ کیا جاتا ہے یعنی جس کو ظالم کہا جارہا ہوتا ہے وہ در حقیقت ایسا نہیں ہوتا یا جس کو انسانی حقوق کا پاسدار کہا جارہا ہوتا ہے وہ ایسا نہیں ہوتا بلکہ الٹ ہوتا ہے، اس بات کو ان سادہ لوح یا کم علم افراد کو اِن کے اسی فطری احساس یعنی "ظلم سے نفرت" یا " مخلوق سے محبت" کے تحت بڑھاوا دیا جارہا ہوتا ہے اور ان کم علم افراد کو وہ خاص گمراہ کنندہ گروہ یا شخص اپنے سیاسی یا معاشی مفادات کی خاطر mobilize کرنا چاہ رہا ہوتا ہے۔

مذہب کی بنیادی ضرورت بھی انسانی نفسیات کیلئے انسانی سماجی نظام کے استحکام کیلئے ایسی ہی ہے جیسے مچھلی کیلئے پانی۔ البتہ اسلامی احکامات یا نصائح کو زبردستی خود پر یا دوسروں پر ٹھونسنا اور طاری نہیں چاہیے، یہ ایسے ہی جیسے کسی دو سال کے چھوٹے بچے کو مجبور کیا جائے کہ وہ بھاگنا شروع کردے۔ یہ ایک غیر فطری عمل ہے، کبھی داڑھی مونچھوں والے دو سال کے بچے کا ذہن رکھتے ہیں۔ لہذا محتاط رہنا چاہیے۔

اسلامی تعلیمات ہر سطح ذہنی کو فطری قوانین، ضمیر کی آواز اور عقل و منطق کی طرف ہی راہنمائی کرتی ہیں یا یوں کہا جائے کہ ہر ضمیر بیدار، منطقی ذہن، فطرت شناس و دانشمند، انسان دوست، فطرت دوست شخص اسلامی تعلیمات ہی کی طرف راغب ہوتا ہے۔ انسانی فطرت، عقل،ضمیر و منطق و دانشمندی جس تہذیب سے آشنا ہے وہ وہی انسانی اور اسلامِ ناب کی تہذیب ہے جس سے ہر فرد کا ضمیرو ذہن آشنا ہے اور جو اسوہ محمد رسول اللہ، قرآن و اہلِبیت علیہم السلام سے آشکار ہے۔

لہذا اسلام کے دعوے دار وں سے اسلام ناب کی تعلیمات کو نہ سمجھیں بلکہ اسلام ناب کی شناخت کیلئے فطری قوانین یعنی انسان کی کامیابی و تنزلی، سکون و راحت قلبی، سعادت کے حصول و بدبختی سے بچنے، ناکامی سے دور رہنے کیلئے قدرتی قوانین کو سمجھیں۔ جب یہ علم حاصل ہوجائے تو پھر قرآن بھی سمجھ میں آئے گا اور سیرت رسول اور اولیاء اللہ بھی۔سورہ بقرہ میں ہے :
"ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ"۔ یہ وہ کتاب ہے جس میں کسی طرح کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے. یہ صاحبانِ تقویٰ اور پرہیزگار لوگوں کے لئے مجسم ہدایت ہے۔

یہاں قرآن اُن لوگوں کیلئے ہدایت کا مرکز بتایا جارہا ہے جو ماقبل تلاوت قرآن زندگی کی حقیقتوں کو سمجھتے ہیں، فطری اور قدرتی قوانین کو سمجھتے ہیں اور کامیابی حاصل کرنے کیلئے نیز ناکامی سے بچنے کیلئے ایک حد تک قوانین قدرت کا علم رکھتے ہیں مگر یہ قرآن ان کو مکمل سعادت کیلئے long term کامیابی کے طریقے بتاتا ہے۔

حقیقتوں اور واقعیتوں ، سچائیوں، قوانین قدرت خواہ انفرادی کمال سے وابستہ ہوں یا سماجی، آگاہ ہوجانے والے پر پھر سچے مذاہب اور فلسفے بھی واضح ہوجاتے ہیں اور کھوکھلے دعوے دار بھی سامنے آجاتے ہیں اور اُن کے سیاسی و معاشی مفادات کی قلعی بھی کھل جاتی ہے، ایسے موقعوں پر تعصب اور "اپنے عقیدے" کے بھرم کو توڑ کر سچائی کی طرف رغبت کرنا چاہیے، ورنہ تاریخ ہم کو خود تباہ و برباد کردیتی ہے۔

کم علمی و بے خبری کی بنیاد پر یا ناقص و کوتاہ معلومات کی بنا پر کسی کے بھی خلاف پروپگنڈہ کا حصہ بننے کے بجائے دانشمندی اور عقل و فہم استعمال کریں کیونکہ کسی کو نقصان فائدہ ہو نہ ہو ہمارا اس سے براہ راست رابطہ ہوتا ہے۔ علم و معلومات و حقائق کے جاننے کیلئے کبھی بھی، کسی قیمت پر ڈر، خوف، کاہلی ، سستی ، آرام طلبی، عیش کوشی، عافیت پناہی، غیر سنجیدگی کو ترک کریں۔ سچائی اور حقیقت بہت نایاب ہے جیسے تیل ، گیس اور ہیرے جواہرات ہوتے ہیں اور جیسے یہ دولتیں آسانی سے ہاتھ نہیں آتیں، سخت جدوجہد و سالوں سال محنت و جانفشانی کرنی پڑتی ہے اسی طرح علم و معرفت کی دولت بھی آسانی سے ہاتھ نہیں آتی۔ دماغ اور اعضا ء و جوارح کا سخت محنت و جستجو سے تیل نکال دیں تب آپ کو تھوڑی بہت معرفت نصیب ہوتی مگر وہ تھوڑی بہت بھی بہت ہوتی ہے۔

لہذا خلاصتاً یہ کہ کسی بھی فلسفے، مذہب کو سمجھنے کیلئے یا موجودہ کسی پریشان کردہ مسئلے یا فکر کو حل کرنے کیلئے خود ہماری آپ کی ذات معیار ہے۔ فلسفے و مذہب کی تعلیمات کو خود اُس کی اصل کتب اور منابع سے حاصل کریں۔ حُب ذات یا ذات کے اظہار اور آباواجداد کی یا کسی خاص شخصیت کی اندھی تقلید کے بجائے اپنی زندگی کے تجربات و احساسات کو معیار قرار دیں اور ضرورت پڑنے پر علم و مطالعہ و مشاہدہ کو وسیع کریں۔حق و حقیقت کو جاننے کے اس تعلیمی پروسس سے گذرنے کے بعد شخصیتوں کے بھرم ٹوٹتے بھی ہیں اور بنتے بھی ہیں یا مزید نمو پاتے ہیں۔ واحد یہی ایک ذریعہ ہے جس کے ذریعے ہم کسی نفسانی فردی یا معاشرتی یا عالمی جنت کی توقع کرسکتے ہیں خواہ وہ اس دنیا میں ہو یا مرنے کے بعد۔
از: سید جہانزیب عابدی
 

سید جہانزیب عابدی
About the Author: سید جہانزیب عابدی Read More Articles by سید جہانزیب عابدی: 94 Articles with 70873 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.