دین ہمارا مددگار یا ہم دین کے مددگار

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔
محمد وآل محمد پر بےپناہ درود و سلام


يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تَنصُرُوا اللَّـهَ يَنصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ
اے ایمان والو! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا (اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا)
(سورہ محمد 47- آیت 7)
خدا اور آل محمد علیہم السلام کے اختیارات کے بارے میں جو غالی و اصولی کی بحث آجکل پورے زور شور سے بعض حلقوں میں جاری ہے اور ہر ایک خدا اور معصومین علیہم السلام کے اختیارات طے کرنے کا ٹھیکیدار بنا ہوا ہے بجائے اس کے کہ ہم اللہ تعالیٰ اور معصومین علیہم السلام کی ذمہ داریاں اور اختیارات پر بحث کریں ان ہستیوں نے جو تعلیمات ہمیں دی ہیں وہ ہمارے مسائل، مشکلات، پریشانیوں، مصائب، سختیوں وغیرہ کے حل کیلئے کافی و وافی ہیں، ہم کو اِن وسائل سے استفادہ کرتے ہوئے خود ائمہ معصومین علیہم السلام کی نصرت کیلئے تیار کرنا چاہیے۔

ہمیں اپنے مسائل و حاجات کیلئے ان ہستیوں سے رابطے کے بجائے ان ہستیوں کے مسائل اور احتیاجات کی طرف توجہ کی ضرورت ہے، یعنی ہمیں اُس سسٹم اور نظام کیلئے خود کو تیار کرنا ہے جو ان ہستیوں کی بدولت یا ان کی آسانی رفع کرنے کیلئے ہمیں عطا کیا گیا ہے تاکہ ہم اپنی ذمہ داری ادا کریں، الہامی کتب اور ان عظیم ہستیوں کے بنائے ہوئے قوانین کو اس کائنات کے نظام کو اپنے فطری تقاضوں کے مطابق چلنے کیلئے بنایا گیا ہے۔

ہمیں اپنی حاجات کے بجائے ان ہستیوں کے نام کی بلندی اور ان کے حمایت یافتہ، ان کے مطیع نظام کے قیام کیلئے کام کرنا ہے، ہمیں ان کا مطیع بن کر تقویٰ پرہیزگاری کے ساتھ دنیاوی علوم و فنون میں مہارت کے ذریعے ان کو غیبت اور مصائب سے باہر لانا ہے، اس زندگی میں یہ ہماری سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔ ان عظیم ہستیوں کی مشکلات و مصائب ہماری وجہ سے ہیں اسی وجہ سے ان کی آسانی ہماری آسانی ہے، ان کی مشکل ہماری مشکل ہے، یہ ہیں تو ہم ہیں لہذا ہمیں ان کے وجود کیلئے عملی جدوجہد کرنی ہے اور ایسے معاشرے کا قیام عمل میں لانا ہے جو ان کی زندگیوں، آسانیوں اور اطمینان کیلئے آمادہ بہ عمل ہو۔ ہمیں ان کی مدد کرنی ہے تب وہ ہماری مدد کریں گے جب ہم ان کی ولایت و امامت کے قیام کیلئے جدوجہد کرلیں گے اور ولایت و امامت کا اطاعت گذار معاشرہ تشکیل دے دیا جائے گا تو پھر ہماری معاشی، تہذیبی و ثقافتی، سیاسی، تعلیمی، تفریحی تمام مسائل کا حل ایک دم نہیں بھی تو ایک نہ ایک دن ہو ہی جائے گا، کیونکہ نظام اپنے فطری سانچے میں آجائے گا۔ یا علی ؑ مدد کہنا، یا اللہ مدد کہنا، معصومین علیہم السلام سے مانگنا یا خدا سے مانگنے کے نعرے اس بات کا اظہار ہیں کہ ہم ان کی مشکلات و ھل من ناصراً کے جواب میں اپنے مسائل لیے بیٹھے ہیں، ہمیں ہماری شادی، اولاد نرینہ، روزگار کیلئے تعلیمی اداروں میں داخلوں، نوکری کیلئے بلاد کفر کے ویزے وغیرہ درکار ہیں۔ ہمیں آل محمد کی مدد کرنی چاہیے بجائے اس کے ہم اپنے فنا پذیر دکھڑے روتے رہتے ہیں، ہم اگر سماجی اور معاشتی مسائل کے حل کیلئے معصومین علیہم السلام کو اُن کی اصل جگہ جو خداوند خدا نے انہیں عطا کی تھی اور ہمارے لئے امتحان قرار دیا تھا کہ تمھاری بصیرت اور ہمت سے یہ نظام قائم ہوگا ورنہ خدا خود چاہتا تو سب انسان سجدے میں گر جاتے، علیؑ اور معصومین ؑ چاہتے تو کوئی چوں بھی نہ کرپاتا مگر مولا نے ہمااری آزمائش کیلئے یہ فیصلہ ہمارے سپرد کیا کہ ہم اپنے اور دوسرے انسانوں کے استحصال سے پاک معاشرے کیلئے ان کا انتخاب کرتے ہیں یا اپنی نفسانی خواہشات، خوف و دہشت کے زیر اثر گوشہ نشین ہوجاتے ہیں۔ ہم کو اس سوچ کو ختم کرکے خود کو اس بات کا اہل ثابت کرنا ہے کہ ہم اپنی مشکلات و پریشانیوں سے زیادہ ان ہستیوں کی مشکلات و مصائب کو دور کرنا چاہتے ہیں اور ہم اپنے تھوڑے تھوڑے عمل سے زیادہ عمل کرنے تک کے ذریعے اس بات کو خدا فرشتوں اور ابلیس پر ثابت کریں کہ ہم وہ نہیں جس کے بارے میں ملائکہ نے خدا سے تعجب کیا تھا کہ اُس بشر کو پیدا کررہے ہیں جو زمین میں فساد برپا کرے گا !!!
خدا ہم سب کو ہماری ذمہ داریاں بحسن ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے جس سے حق خدا اور حقِ معصومین علیہم السلام ادا کرنے کی سعی کرسکیں۔
 

سید جہانزیب عابدی
About the Author: سید جہانزیب عابدی Read More Articles by سید جہانزیب عابدی: 94 Articles with 70883 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.