پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کو امریکہ سے وطن واپس
لوٹے اب ایک ہفتے سے بھی زیادہ بیت گیا ہے لیکن واشنگٹن میں ان کے دورے کی
باز گشت اب بھی سنائی دے رہی ہے۔
|
|
جہاں پاکستان میں بیشتر سیاسی مبصرین ان کے دورے کو کئی حوالوں سے تاریخ
ساز اور کامیاب قرار دے رہے ہیں وہاں امریکہ میں رائے عامہ ہموار کرنے والے
کئی ماہرین یہ سوال اٹھار ہے ہیں کہ کیا صدر ٹرمپ نے جلد بازی میں آ کر
ضرورت سے زیادہ ہی پاکستان پر مہربانی اور نرمی تو نہیں دکھائی ہے۔
چونکہ ٹرمپ نے صدارت سنھبالنے کے فوری بعد کڑی نقطہ چینی کی تھی کہ پاکستان
نے امریکہ سے پیسے لینے کے باجود جھوٹ اور فریب کے سوا امریکہ کو کچھ نہیں
دیا، ان کی طرف سے عمران خان کے ساتھ ملاقات میں یہ کہنا کہ ایران تو دروغ
گوئی کرتا ہے لیکن پاکستان نہیں خود امریکی صدر کی طرف سے ان کی پاکستان
پالیسی میں یوٹرن کی صورت میں دیکھا جا رہا ہے۔
انڈیا، امریکہ تعلقات
پاکستان کے ساتھ نرمی برتنے پر ٹرمپ پر تنقید کرنے والوں میں سرفہرست وہ
طبقہ ہے جو سمجھتا ہے کہ دیرپا خارجہ پالیسی کے مقاصد کے حصول کے لیے
امریکہ کے لیے پاکستان کے مقابلے میں انڈیا سے دوستی زیادہ اہم ہے اور
پاکستان کو خوش رکھنے کے لیے انڈیا کو ترک یا ناراض نہیں کرنا چاہیے۔
|
|
نامور قدامت پسند محقق میکس بوٹ نے واشنگٹن پوسٹ میں لکھا کہ چین کی بڑھتی
ہوئی طاقت کے پیش نظر امریکہ کو انڈیا کی دوستی کی اشد ضرورت ہے۔ بش اور
اوباما نے انڈیا کے ساتھ تعلقات مضبوط کیے تھے لیکن ٹرمپ اپنی کم علمی اور
نادانی کی وجہ سے ان کامیابیوں پر اب پانی پھیر رہا ہے۔
’ٹرمپ کو پتا نہیں کہ اسے کیسے استعمال کیا جا رہا ہے لیکن وہ اس کے باوجود
خود کو بڑا چالاک سمجھتا ہے۔‘
ناخوش سفیر
افغانستان اور پاکستان میں سابق امریکی سفیر رائین سی کروکر واشنگٹن واپس
آنے کے بعد پاکستان کے بڑے ناقد بن گئے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ جب وہ افغانستان میں سفیر تھے تو انھوں نے خود اپنی آنکھوں
سے دیکھا کہ کیسے (بقول ان کے) پاکستان میں پناہ لینے والے دہشت گردوں نے
آکر کابل میں امریکی سفارتی خانے پر حملہ کیا۔
ان کے مطابق پاکستان امریکہ کے ساتھ دوغلی پالیسی پر عمل پیرا ہے جس کے تحت
وہ خفیہ طور پر طالبان کی مدد کرتا ہے۔
|
|
انھوں نے فارن پالیسی جریدے کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ اس بات سے قطع نظر
کہ عمران خان ٹرمپ سے کیا وعدے کرتے ہیں پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس
آئی طالبان کی حمایت اور پشت و پنائی جاری رکھے گی۔
وہ سمجھتے ہیں کہ افغان حکومت کو جاری مذاکرات سے باہر رکھنا امریکہ کے لیے
طالبان کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے مترادف ہے۔
’پاکستان دو دہائیوں سے کابل میں طالبان کی آمد کا انتظار کرتا رہا ہے۔ یہی
وجہ ہے کہ اسلام آباد اس تمام عرصے میں طالبان کی قیادت کے خلاف کارروائی
کرنے سے گریزاں رہا ہے۔‘
’ٹرمپ کی غلطیاں‘
امریکہ میں عموماً جامعات میں خارجہ پالیسی کی درس و تدریس سے وابستہ افراد
ماضی میں حکومت کے ساتھ بھی منسلک ہوتے ہیں۔
انہی میں سے ایک جانز ہاپکنز یونیورسٹی میں جنوبی ایشیا کے ماہر اور امریکی
محکمہ خارجہ کے سابق اہلکار ڈینیئل مارکی واشنگٹن میں پاکستان پالیسی کے
حوالے سے کافی اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔
ڈینیئل مارکی نے ’پاکستان پر صدر ٹرمپ کی تین غلطیاں‘ کے عنوان سے اپنے ایک
تفصیلی مضمون میں ٹرمپ پر تنقید کی ہے کہ اس وقت پاکستان کے ساتھ کوئی
رعایت برتنا غلطی ہوگی اور اس سے انڈیا اور افغانستان کی طرف منفی پیغام
جائے گا۔
|
|
اوکلاہوما یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر اور پاکستان میں ’فوج اور جمہوریت‘
نامی کتاب کے مصنف ڈاکٹر عقیل شاہ نے کہا کہ ایسا نہیں لگتا کہ صدر ٹرمپ
کشمیر کے مسئلے پر ثالثی کے حوالے سے اپنی بات پر قائم رہ سکیں گے۔
انھوں نے جو وعدے کیے ہیں وہ دراصل اپنی انا کو خوش رکھنے کے لیے کیے ہیں
لیکن پاکستان کی اصلی فتح اس وقت ہوتی اگر پاکستان سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے توسط
سے اپنے موقف کو منوا سکتا جبکہ امریکی دفتر خارجہ نے تو فوری طور پر یہ
کہہ دیا تھا کہ کشمیر پاکستان اور انڈیا کے درمیان ایک دو طرفہ تنازع ہے۔
ٹرمپ کا دورہ پاکستان؟
اگرچہ واشنگٹن ڈی سی میں قائم تھنک ٹھینک بروکنگز انسٹی ٹیوشن سے وابستہ
ڈاکٹر مدیحہ افضل کا کہنا ہے کہ یہ سمجھنا درست نہیں ہے کہ پاکستان نے اس
ملاقات کے بعد مکمل طور پر امریکہ کا اعتماد حاصل کیا ہے لیکن اس سے
پاکستان اور امریکہ کے اس رشتے کو دوبارہ جوڑنے میں مدد ملے گی جو کہ گذشتہ
ایک سال سے زوال پزیر تھی۔
ان کا کہنا ہے کہ اس ملاقات کے بعد امریکہ کی کوشش ہوگی کہ پاکستان ایف اے
ٹی ایف پر بلیک لسٹ نہ ہو آنے والے دنوں میں افغانستان کے حوالے سے مزید
پیش رفت کی خبر ملے گی۔
’اگر دونوں ممالک کے تعلقات میں یہ گرم جوشی برقرار رہتی ہے تو ہوسکتا ہے
کہ عمران خان ٹرمپ کو پاکستان کے دورے کی دعوت بھی دیں۔‘
|